9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹرصالحہ صدیقی
نسیم فائق کی شعری دنیا کا جائزہ لینے سے قبل ان کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔کیونکہ کسی بھی مصنف یا تخلیق کا ر کو عام انسان سے تخلیق کار بننے میں اس کی ذاتی زندگی،عہد و ماحول ،اس کے معاشرے کے حالات و واقعات کے اثرات اہم رول ادا کرتے ہیں۔یہ جاننا دلچسپ بھی ہوتا ہے کہ وہ کون سے وجوہات رہے ہونگے جس کے باعث ایک عام انسان سے تخلیق کار بننے تک کے مراحل کوئی مصنف طے کرتا ہے۔نسیم فائق کا خاندانی نام نسیم احمد ہے، فائق ؔ ان کا تخلص ہے۔ان کی پیدائش25 جولائی 1970 میں کلکتہ میں ہوئی ۔ان کا خاندان کلکتہ کے ایک علاقہ راجا بازار میں آباد ہے ۔ان کے والد کا نام غلام نبی اور والدہ کا نام عاصمہ خاتون ہے۔نسیم فائق نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے مدرسے میں حاصل کی ۔انھوں نے مدرسہ بیت العلوم (راجا بازار ) اور جامعہ اسلامیہ مدنیہ (مدنی نگر کلکتہ ) سے عربی وفارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہائی مدرسہ اگزامنیشن پاس کیا اور1990میں محمد جان ہائر سکنڈری اسکول سے ہائر سکنڈری مکمل کر مولانا آزاد کالج کلکتہ میں داخلہ لیا ۔جہاں سے انھوں نے 1993ء میں اردو آنرز کے ساتھ بی اے کی تکمیل کی اور دوسال تک کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اوردو میں ایم اے کی تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن افسوس کہ بعض ذاتی پریشانیوں کے سبب ان کی ایم اے کے آخری امتحان میں شامل نہ ہوسکے جس کے سبب تعلیم مکمل نہ ہو سکی ۔
اسکول کے زمانے سے ہی نسیم فائق کو اردو سے خاص دلچسپی رہی ہے۔وہ مختلف صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے رہے،وہ اسکول ٹائم میںمضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے علاوہ ادبی و ثقافتی مقابلوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ۔بحث و مباحثہ ،مضمون نویسی ،نظم خوانی ،اور فی البدیہہ تقریر جیسے مقابلوں میں انعامات بھی حاصل کرتے رہے ۔ان کے افسانے ’’آوازوں کے سائے ‘‘ پر ادبی منچ اردو لٹریری سوسائٹی کلکتہ اور مٹیا برج اوردو سوسائٹی ایسوسی ایشن کلکتہ نے انھیں اوّل انعام سے بھی نوازا ۔وہ خود بھی بعد میں اسٹوڈنس آرگنائزیشن تنظیم ادب ،بزم ادب اور اتحاد اسپورٹس کلب کی جانب سے ادبی و ثقافتی مقابلوں کا اہتمام کرنے لگے ۔
نسیم فائق کے ادبی و شعری خزینے میں غزلیں،نعت ،نظمیں ،قطعات ،رباعیات ،افسانے ،مضامین سبھی کچھ شامل ہیں ۔اس وقت وہ مغربی بنگال اردو اکادمی میں ملازمت کر رہے ہیں ۔انھوں نے اپنے اسکول کے زمانے 1990ء سے ہی شاعری کا آغاز کر لیا تھا ۔ان کی تصانیف میں ’’پھوہار ‘‘ ماہیوں کا مجموعہ جو1999 میں شائع ہوا،ان کے نظموں کا مجموعہ ’’بے خواب آنکھوں کی کہانی ‘‘2000ء اور ’’میرا لہجہ ‘‘2015ء میں شائع ہوا ۔اس کے علاوہ ایک مونوگراف بھی حاذق انصاری پر لکھا جو2018ء میں شائع ہوا۔
شاعری ایک خدادا صلاحیت ہے ،شاعر ہر لفظ کو اپنے خون جگر سے سینچتا ہے ،اپنی زندگی کے تجربات کو اس میں سموتا ہے ،شاعری کی دُنیا لامحدود ہے؛ حیات و کائنات کے سارے خارجی و باطنی، محسوس و غیر محسوس، اجتماعی و انفرادی مسائل کو شاعری کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ شاعری میں افراد کی نفسیات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور اجتماعیت کے تمام مسائل کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مذہب، تمدن، تہذیب و ثقافت، اخلاق، معاشرت اور سیاست موضوع ِ فن بنتے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ادب کی شریعت میں کوئی ایک موضوع خاص اہمیت نہیں رکھتا بلکہ ہر موضوع اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے، شاعر سماج کا ایک حساس فرد ہوتا ہے جسے اپنے گردو نواح میں معمولی سی معمولی تبدیلی کا بھی پتا چلتا ہے جو اُس کے احساسات، جذبات اور خیالات کو متحرک کرتی ہیں،جس کا اظہار وہ پھر اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو برائے کار لاکر اپنی تحریر سے کرتا ہے تب کہیں شاعری وجود میںآتی ہیں۔نسیم فائق نے بھی ان سب کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں میں بیان کیا ۔
نسیم فائق نے اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات کے مدوجزر کو شاعری کے پیرائے میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیاہیں۔اُن کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اُن کی نظمیں، غزلیں ،گیت،سلام ،قطعات اُن کے جذبات، احساسات اور مشاہدات کے تخلیقی اظہار پر قادر ہیں۔اُن کی شاعری کے مطالعے سے عصری مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ رومانی جذبات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنھوں نے جدیدیت کے بعد اردو شعر وادب کے اظہار ، اسلوب اور فکریاتی سطح پر ہونے والے تجربات کو نہایت ہی ہنر مندی اور خوش سلیقگی کے ساتھ قبول کر کے اپنے شعری وجدان کو لا محدود کر دیا۔جس سے اُنھیں یہ فائدہ ہوا کہ اُنھوں نے جدید شاعری میں نئے اور عصری تلازموں اور تقاضوںکا چیلنج قبول کر کے دُنیائے شعر و ادب میں اپنے لیے ایک اہم مقام بنا لیا ۔ان کی شاعری کے سلسلے میں فاطمہ رئیس لکھتی ہیں کہ ؛
’’ ان کی نظموں کے لہجے کی گرمی شاعر کے دل میں گندھک کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے ،ظلم ہوتا دیکھ کر اس کے سینے میں آگ جلنے لگتی ہے ۔سماجی ناانصافی ،فرقہ پرستی اور انسانیت کی پامالی پر اس کی آنکھوں سے آنسو ؤں کی جگہ خون ٹپکنے لگتا ہے ،جذبے کی شدت میں ڈوبی ہوئی ان کی نظمیں فکر کی آنچ پر تپ کر ایک مجاہد کے درد کی آواز بن جاتی ہیں اور جنگل کے قانون کو ختم کر کے دھرتی کو سورگ بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں ۔‘‘
شاعری ایک ایسا سحر ہے جو ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ شاعری کے سلسلے میں ہمارے مفکرین ادب کے منفرد خیالات رہے جن میں افلاطون کا کہنا ہے کہ’’ شاعری نقل کی نقل ہے۔ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہے اور یہ غیر اخلاقی چیز ہے‘‘ تو کلیم الدین احمد نے شاعری کی ہردل عزیز صنف غزل کو نیم وحشی صنف شاعری قرار دیا ہے جبکہ نواب امداد امام اثرؔ فرماتے ہیں کہ:
’’۔۔۔۔۔۔شاعری حسب خیال راقم رضائے الٰہی کی ایسی نقل صحیح ہے جو الفاظ بامعنی کے ذریعہ سے ظہور میں آتی ہے۔ رضائے الٰہی سے مراد فطرت اللہ کے اور فطرت اللہ سے مراد وہ قوانین قدرت ہیں جنھوں نے حسبِ مرضی الٰہی نفاذ پایا ہے اور جن کے مطابق عالم درونی و بیرونی نشوونما پائے گیے ہیں۔ پس جاننا چاہیے کہ اسی عالم دردونی و بیرونی کی نقل صحیح جو الفاظ بامعنی کے ذریعہ عمل میں آتی ہے شاعری ہے۔۔۔۔۔۔‘‘(کاشف الحقائق۔صفحہ ۵۱)
صنف شاعری کے بارے میں ہوشؔ جونپوری فرماتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔ہیوگو جیسا ماہرِ نفسیات بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ کوئی شخص ایسا جملہ، لفظ یا آواز منھ سے نکال ہی نہیں سکتا جس کا کوئی معنی نہ ہو۔ میں کہتا ہوں انسان کا کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کا کوئی معنی نہ ہو اور جس کا اس کی اپنی ذات سے کوئی تعلق نہ ہو اور جس فعل و عمل سے کسی بات کی اطلاع ہو رہی ہو اور جو کسی ذات کا اظہار کر رہا ہو وہ بے معنی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کوئی بھی شاعری بے معنی نہیں ہو سکتی۔ ہاں کسی شاعری کے ذریعہ دی ہوئی اطلاع یا پیغام غلط ہو سکتا ہے یا غیر ضروری ہو سکتا ہے یا ناقص ہو سکتا ہے۔ انھیں بنیادوں پر شاعری اچھی یا خراب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔‘‘( ’ناگزیر‘۔۱۹۹۴ء صفحہ ۹)
شاعری کی تعریف کے سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی کا نظریہ دوسروں مفکرین کے مقابلے واضح،بامعنی اور بہتر معلوم ہوتی ہے ۔ موازنہ انیس و دبیر میں شاعری کے تعلق سے علامہ فرماتے ہیں:
’’شاعری کس چیز کا نام ہے؟ کسی چیز، کسی واقعہ، کسی حالت، کسی کیفیت کو اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصوریر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، باغ کی شادابی، نسیم کے جھونکے، دھوپ کی سختی، گرمی کی تپش، جاڑوں کی ٹھنڈک، صبح کی شگفتگی، شام کی دلآویزی یا رنج و غم، غیظ و غضب، خوشی و محبت، افسوس و حسرت، عیش و طرب، استعجاب و حیرت، ان سب چیزورں کا اس طرح بیان کرنا کہ وہی کیفیت دلوں پر چھا جائے، اسی کا نام شاعری ہے۔‘‘(موازنہ انیس و دبیر۔ علامہ شبلی نعمانی۔صفحہ ۱۹۱۔)
شاعری کے سلسلے میں علامہ کی درج بالا تعریف کافی حد تک کامل ہے۔ گویا علامہ نے شاعری کے ہر پہلو کو نظر میں رکھ کر ہی شاعری کی یہ تعریف پیش کی ہے۔نسیم فائق صاحب ایک ایسے شاعر ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اپنی علمیت اور اپنی ادبی خدمات ،اپنی کاوشوں سے اردو ادب کی دنیا میں اپنا منفرد مقام پیدا کیا۔وہ ایک بیدار مغز فنکار ہیں ۔وہ بات نہایت سلیقے سے کرتے ہیں ۔اور ہر محاذ پر کامیاب نظر آتے ہیں ۔اپنی شاعری میں لطافت و دلکشی کے ساتھ ساتھ پیغام بھی دیتے ہے ۔دل کو چھو لینے والے اشعار کی ان کے یہاں بھر مار ہیں ۔با مقصد اور بے ساختہ مصرعے ان کے اشعار میں جان ڈال دیتے ہیںاس بات کا اعتراف اہل علم بھی کرتے ہیں ،نسیم فائق صاحب کی شاعری کے سلسلے میں مظفر حنفی ایک مقام پررقم طراز ہیں کہ :
نسیم فائق کے ماہیو کا مجموعہ منظر عام پر آیا تو میں نے ان سے کہا تھا کہ تم جیسے با صلاحیت شاگرد سے سے میں زیادہ محنت اور بہتر نگارشات کی توقع رکھتا ہوں ……مجھے یہ دیکھ کر خوشی اور اطمینان ہوا کہ نسیم فائق نے نہ صرف اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا بلکہ اپنی آزاد نظموں کا مجموعہ بھی زیر آراستہ کیا۔ان کا یہ مجموعہ ٔ کلام ایک نیک سیرت ،خوش صفات اور پاکیزہ مزاج رکھنے والے نوجوان کی آرزوؤں کا آئینہ خانہ ہے ۔‘‘
نسیم فائق کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری دکھی دلوں کا ساتھی ،مجروح جذبات کا مونس و غمخوار ہی نہیں بلکہ قوم کے درد دسے آشنا بھی اور مداوا بھی ہے ۔ ان کے کلام میں سچائی اور صداقت سے نظر آتی ہے۔ان کی شاعری نیم رومانی، نیم اشتراکی ہیں۔ سماجی شعور اور رومانی احساس، دو الگ الگ حقیقتیں ہیں مگر ان کی فطری ہم آہنگی شاعر اور شاعری کو زندگی کی صداقتوں سے روشناس ہی نہیں بلکہ ہم آغوش بھی کرتی ہیں ، نسیم فائق کے یہاں یہ امتزاج جگہ جگہ محسوس ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کی شاعری میں وہ صلابت، وہ گداز اور وہ سپردگی جگہ جگہ موجود ہیںجو اچھی شاعری کی جان کہی جاتی ہیں۔ان کی نظم کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
ہم نے ہمیشہ
اپنے ہاتھ
اوروں کے ہاتھوں میں دے کر
ہاتھوں کو دی ہے طاقت
اور خود ہی
بے ہاتھ ہوئے ہیں
اسی لیے تو
اپنے ہاتھوں کی طاقت کا
آج ہمیں احساس نہیں ہے
آس لگا کر دست طلب پھیلا دیتے ہیں
اور ان سے جو کچھ
مل جاتا ہے
اس سے ہی خوش ہو جاتے ہیں !
نسیم فائق کی شاعری میں ان کا اندازعموما قدر انفرادی ہوتا ہے اوران کے تخلیقی وجدان میں جمالیات اور حقیقت پسندی کی جو فکری سر شاری ہوتی ہے وہ ان کی شاعری میں بالکل نئی اور عجیب و غریب اہمیت کی حامل بنتی محسوس ہوتی ہے ۔اور اسی سے ان کی شاعری میں زندگی کی حرارت اور حرکی توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔ان کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی ان کے یہاں صرف الفاظ کی اداکارانہ ترتیب اور قافیہ پیمائی کا نام شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و تخیل ،تجربات و مشاہدات اور احساسات جذبات کے تخلیقی حسن کے ساتھ فنی اظہار کا نام شاعری ہے اور ہر اچھی اور قابل قدر شاعری میں ان خصوصیات کا ہونا ناگریز بھی ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ فکری ریاضت اور فنی مزاولت بھی شاعر کے لیے درکار ہوتی ہے ،کیونکہ شاعری لفظوں میں زندگی کی حرارت اور اندرونی سوز کی آنچ لفظی پیکروں میں ڈھال دینے سے وجود میں آتی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو فکری اور فنی زرخیز ی کے ساتھ تہذیب اور تمدنی روایات و اقدار اور کلاسیکیت کے رشتے اور عرفان کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ہے ۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی کے عرفان ،حال کے گیان اور مستقبل کے امکان سے شاعری میں حیرت انگیزی ،کشش ،جاذبیت ،اور تاثیر در آتی ہے اور شاعری کے ان تمام اسرار و رموز سے نسیم فائق پورے طور پر واقف نظر آتے ہیں ۔ان کے لفظوں میں خیالوں کے ارتقا میں جو ربط و تسلسل ہوتا وہ دراصل زندگی کے اسی ماضی حال اور مستقبل کے ربط و تسلسل سے عبارت ہوتا ہے ۔اس لئے ان کی غزلوںکی معنویت میں بھی ایک مخصوص قسم ضابطہ پسندی پائی جاتی ہے ۔ایک سنجیدہ شاعر ہونے کی حیثیت سے انھوں نے دور حاضر کے مسائل و میلانات اور تغیر زمانی کو بھی اپنی شاعری کا جزو بنایا ان کی شاعری دور حاضر کا ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں بدلتے زمانے کے بدلتے تقاضوں کی تصویر بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
شہروں کے چوراہوں پر
گاؤں کے چوپالوں میں
کالج اور اسکولوں میں
تھانوں ،سنسد ،راج بھون میں
حتیٰ کہ انصاف گھروں میں
جس کی مورت کھڑی ہوئی ہے
نام کی تختی ٹنگی ہوئی ہے
فریم میں فوٹو سجی ہوئی ہے
سنتے ہیں وہ
آدرشوں پہ جان گنوا کر
ایک اچھا شاعر اور ادیب وہی ہو سکتا ہے جس میں حق گوئی اور بے باکی کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا جذبہ بھی ہو اور معاشرے کی نا ہمواریوں کو نشان زد کر کے لوگوں کی سوچ کو تعمیری جہت عطا کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہو۔ اس نقطۂ نظر سے جب ہم نسیم فائق صاحب کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ انھوںنے اپنے منصب کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے اور اظہار حقیقت میں صداقت پسندی سے کام لیا ہے۔ نسیم فائق صاحب کی شاعری فطری ہے اور اسے کسی ازم کے خانے میں رکھنا مناسب نہیں ،سیدھے سچے جذبوں کی شاعری ، نہ کوئی پیچیدہ علامت نگاری اور نہ ہی لفظوں کا الجھاؤ۔ ان کی غزلوں میں زندگی کے مسائل کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے جس سے ان کے حساس اور انسانی ہمدرد ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کی غزلوں میں موضوعات کی سطح پر ایک طرح کا تنوع ہے ،جس سے ان کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ محبتوں کے شاعر ہیں،انسانی ہمدردیوں کے شاعر ہیں،زندگی کے مثبت رویوں کے شاعر ہیں ،اپنے اسلاف کی تہذیبی قدروں کی شناخت اور اس کی حفاظت کرنے والے شاعر ہیں اور اس سے بڑھ کر امن و امان اور مساوات کو معاشرے کے لئے ناگزیرسمجھنے والے شاعر ہیں،وہ اپنی شاعری میں زندگی کی امید پیدا کرتے ہے ،مشکلات کا ہنر سکھاتے ہے،اسی طرح وہ لڑکیوں کو بھی پیغام دیتے ہیں انھوں نے ایک نظم اپنی بیٹی کے لیے لکھا ہے لیکن ان کی یہ نصیحتیں ہر لڑکی کے لیے ہیںاس نظم کے یہ ، اشعارملاحظہ فرمائیں:۔
میری بیٹی !
تمہیں قرآن پڑھنا ہے
عمل بھی اس پہ کرنا ہے
رسول پاک کی سنت پہ چلنا ہے
انھیں کا رنگ اپنا کر
تمھیں انسان بننا ہے
مہ تاباں کی صورت آسماں پر جگمگانا ہے
اندھیروں کو مٹانا ہے
ضرورت جب پڑے
شاہیں صفت بن کر
تمھیں پرواز کی حد سے
بہت آگے نکلنا ہے
نسیم فائق ایک حساس اور دردمند دل شاعر ہیں ،ایک بڑے کینوس کے شاعر۔ان کے یہاں جہاں ایک طرف گھر آنگن اور رومانی جذبوں کی فراوانی ہے وہیں دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے تغیرات کا منظر نامہ بھی ان کی شاعری کا اہم حصہ ہے۔ انھوںنے عہد حاضرکے تغیرات کو اپنی شاعری میں سمیٹا۔ انکی شاعری فطری ہے اور اسے کسی ازم کے خانے میں رکھنا مناسب نہیں ،سیدھے سچے جذبوں کی شاعری ، نہ کوئی پیچیدہ علامت نگاری اور نہ ہی لفظوں کی شعبدہ بازی نسیم فائق کے اشعار انکے جذبات ،احساسات اور مشاہدات کے تخلیقی اظہار پر قادر ہیں،عصری مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ رومانی جذبات بھی انکی تخلیقات میں جا بہ جا محسوس کئے جا سکتے ہیں ،اور شاید اسی لئے وہ اپنے عہد کے بعض تخلیق کاروں کے مقابلے نمایاںنظر آتے ہیں اور ایوان ادب میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔شاعری کا فن بڑی نزاکت و لطافت کا فن ہے اور شاعری کابنیادی تعلق شاعر کی شخصیت اس کے فکر و خیال اور طبیعت و مزاج کی افتاد سے ہوتا ہے ۔جیسا کہ خلیل الرحمن اعظمی نے ایک مقام پر لکھا ہے ۔
’’ شعر و ادب کا تعلق بنیادی طور پر شاعر و ادیب کی شخصیت ،اس کے مزاج ،اس کی افتاد طبع اور اس کے تجربات و محسوسات کی نوعیت سے ہے ۔یہ تجر بات و محسوسات جس قدر حقیقی ہوں گے ـ،ان کی جڑیں زندگی میں جتنی گہری ہوں گی اور اس کا رشتہ شاعر و ادیب کی اصل شخصیت اور اس کی افتاد طبع سے جتنا فطری اور حقیقی ہوگا۔اسی اعتبار سے وہ فن پارے کی تخلیقی صلاحیت کو پورا کرنے کے قابل ہوگا اور اس کی تحریر وں میں وہ آب و رنگ پیدا ہوسکے گا جن کی بدولت ان کی تاثیر دیر پا اور مستقل حیثیت کی حامل ہوگی ۔‘‘
مذکورہ اقتباس کے تناظر میںنسیم فائق کے کلام کے مطالعہ کی روشنی میں بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت میں بڑی ہم آہنگی ہے ۔ان کے محسوسات و تجر بات میں بھی حقیقت پسندی اور ان کی شاعری کا رشتہ زندگی کی افتاد طبع سے بھی مستحکم اور مضبوط ہے ۔ہمارے ادب میں چند ایسے شعرأکرام گزرے ہیں جن کی شاعری صرف ان کے عہد ہی میں نہیں بلکہ ہر دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ اسی وقت کے لیے ہی لکھی گئی ہو اور وہ اسی زمانے کی داستان بن جاتی ہے۔ہمارے ادب میں آزاد،سرسید،اور حالی نے جس مقصدی ادب کی تحریک کا آغاز کیا تھا،ان میں بظاہر اقبال اس کے زائیدہ اور مبلغ نظر آتے ہیں۔علامہ اقبال سے بہت پہلے سرسید احمد خاں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ شاعری صرف لطف اندوزی کے لیے نہیں بلکہ شاعری سے قوم کو بیدار کرنے کا کام لیا جانا چاہیے،انہوں نے اپنی نثر کے ذریعے یاس و گمراہی اور غفلت کی زندگی گزار رہے لوگوں کو جھنجوڑنے کا کام کیااور انقلاب برپا کر دیا۔وہی کام شاعری میں حالی نے مسدس مدوجزر اسلام لکھ کر انجام دیا۔جب کہ علامہ اقبال کا بیشتر کلام بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ساری شاعری گویا اسی آرزو کی تکمیل ہے ۔شعرأ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ بامقصد زندگی ہی ملک و قوم کی ترقی میں معاون ہو سکتی ہے ،اسی لیے انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ قوم میں بیداری کا پیغام دیا،نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کی سعی کیں ،ان میں تعلیم کی اہمیت کو فروغ دیا ۔ انھیں اپنی خوبیوں کو پہچاننے کی تلقین کیں،اقبال کا خودی کا فلسفہ اس کی عمدہ مثال ہیں ،اشعار ملاحظہ فرمائیں :
یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے؟ راز درون حیات
خودی کیا ہے؟ بیداریٔ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
نسیم فائق کی شاعری میں بھی سماجی اصلاح اور معاشرتی بیداری کا پیغام قدم قدم پر سنائی دیتا ہے ۔وہ قومی یکجہتی کا پیغام دیتے نظر آتے ہے ،ہندستان امن و شانتی،قومی یکجہتی ،مذہبی رواداری ،گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کا مرکز رہا ہے ،کثرت میں وحدت اس کی پہچان ہے ،مختلف ،مذاہب ،رسوم و عقائد کو ماننے والے اور مختلف علاقائی بولیاں اور زبانیں بولنے والے افراد صدیوں سے یہاں مل جل کر رہتے آرہے ہیں ۔ہندستان ایک کثیر اللسان ملک ہے جس میں کئی علاقائی بولیاں اور زبانیں رائج ہیں اس میںاردو بھی شامل ہے ،اردو خالص ہندستانی زبان ہے لیکن اس کا اپنا کوئی مخصوص صوبہ یا علاقہ نہیں ہے ۔یہ کشمیر سے کنیا کماری اور آسام سے گجرات تک بہ آسانی بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔یہی نہیں اس زبان کی مقبولیت نے تو سرحدوں کو بھی پار کردیا ہے ،مختلف ملکوں میں اس زبان نے اپنا پرچم بلند کیا ہے ۔قوم یکجہتی اور بیداری اردو شاعری کا اہم جز رہا ہیں ۔قومی یکجہتی پر مبنی چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو (جعفر ملیحؔ آبادی )
٭
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے (امیر مینائیؔ )
٭
حفیظ اپنی بولی محبت کی بولی
نہ اردو، نہ ہندی ، نہ ہندوستانی ( حفیظ ؔجالندھری )
٭
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں (حالیؔ )
نسیم فائق بھی اپنی شاعری میں نوجوانوں کو جگہ جگہ بیداری کا پیغام دیتے نظر آتے ہے،وہ ہمیشہ اپنے اقدار کو صف اول پر رکھتے ہے،وہ اقبال کی طرح ہمیشہ خودی کو پہچاننے اور اپنے کلچر کے ساتھ رہنے ،اپنی تاریخ پر نظر رکھنے اور اپنی صلاحیتیوں کو پہچاننے کی تلقین کرتے ہے ،ساتھ ہی انسانیت کا پیغام دیتے نظر آتے ہے، ساتھ ہی ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور اس کا سامنا کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
دیکھنا ہے نئے فرعون کا انجام مجھے
میری خواہش پہ عمل نیل سے ہوگا کہ نہیں
٭٭
اہل دل اک انقلاب نو کی تیاری کریں
اس چمن کی خاک کے ذروں کو چنگاری کریں
٭٭
دولت سے خریدا نہیں جاتا ہے قلندر
فائق نئے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
٭٭
کمبخت دل کو بھا ہی گیا اک نیا صنم
ہاتھوں میں لے کر چل پڑا اک گیروا علم
لالچ میں عمر بھر کی کمائی چلی گئی
مصنف سیاسی مہرہ بنا بیچ کر قلم
جہاں تک بات نسیم فائق کی شاعری کے فنی اوصاف کی ہے توکے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کلام میں تراکیب، مغلق الفاظ اور اضافت کی کثر ت سے بڑی حد تک عاری ہے۔ استعارہ وتشبیہہ بھی بڑی فطری انداز میں دیکھنے کو ملتاہیں۔ الفاظ نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ الفاظ کی نشست میں فنکاری ملتی ہے۔ کلام میں روانی اور سوز وگداز بہت ہے۔یہاں تک کہ اکثر اشعار بے ساختہ پن اور روانی کی وجہ سے ضرب المثل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سہل ممتنع کی بیشتر مثالیں ان کے کلام میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حالانکہ سادگی کے باوجود معنی کی بلندی اور تاثیر کلام ہاتھ سے نہیںجاتی، اور نہ صرف یہ کہ سادہ آسان اور عام بول چال کا لہجہ ہے۔ بلکہ وہ لمبی لمبی غزلیں، نئی زمین نکالنے او رمشکل طرحوں میں غزل کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ انہیں ان کی بندش کی خوبی، نئی زمینوں کا اختراع، زبان سلاست ، کلام کی پختگی اور مضامین کی بہتات نے بجا طو رپر استاد کا مرتبہ عطا کیا۔ان کی شاعری میں مختلف شعری فنون کا خوبصورت استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس جیسی مہاماری سے جوجھ رہی ہے ایسے حالات میں بھی ہندستان میں سیاست کی کالابازاری کا کھیل زور شور سے چل رہا ہے ،نسیم فائق نے ان تمام مسائل و میلانات کو اپنے اشعار میں بیان کیا ملاحظہ فرمائیں :
نادان نہیں ہے بڑا ہشیار ہے ظالم
وعدے سے مکر جاتا ہے غداد ہے ظالم
بہتر تو یہی ہے کہ ہم اس بار جھڑک دیں
پھر ہم سے معافی کا طلب گار ہے ظالم
٭٭
جلاد بن گئی تری بھیجی ہوئی بلا
ہر رہ گزر پہ موت کا سامان کر دیا
اس وائرس کے کفر کو غارت کرے خدا
پاکیزہ سجدہ گاہوں کو ویران کر دیا
٭٭
ہر موڑ پہ ہے درد حکومت کے تماشے
ہر درد پہ بلاؤں کی اذیت کے تماشے
منظر یہ نظر آیا تھا تقسیم وطن پر
اب دیکھ رہا ہوں نئی ہجرت کے تماشے
٭٭
اس قدر روندا گیا ہے دم ہستی فائق
صورت خاک ہواؤں میں بکھر جائیں گے
زندگی غیر کا احساں بھی نہیں لے سکتی
ہم کرونا سے نہیں بھوک سے مرجائیں گے
نسیم فائق کی شاعری کا مطالعہ یقینا ایک وسیع موضوع ہے جسے چند صفحات میں سمیٹنا ممکن نہیں ۔لیکن یہاں کوشش کی گئی ہے کہ اس موضوع کے ساتھ انصاف کیا جا سکے ۔میں اپنی باتوں کا اختتام اقبال کے ان اشعار کے ساتھ کرنا چاہونگی کہ :
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ،نئے صبح و شام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیدا کر !
Email: [email protected]