نبیوں نے بھی اپنا رزق محنت مزدوری سے حاصل کیا پھر ہمارے مولوی…

0
588

نبیوں نے بھی اپنا رزق محنت مزدوری سے حاصل کیا پھر ہمارے مولوی…

وقار رضوی

قرآن میں لفظ عمل 365 بار آیا ہے آسان الفاظ میں اگر اسے کہیں تو قرآن میں کوئی بھی دن چھٹی کا نہیںہے، ہر ایک دن کام کرنا ہے، ہر دن اپنی کوششیں جاری رکھنی ہیں، ہر دن اپنے کو اللہ کے نزدیک کرنا ہے اپنے اچھے مقصد کے نزدیک کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس محنت سے آزاد معجزہ کرنے والے اپنے خاص بندوں کو بھی نہیں رکھا۔ حضرت آدم معجزہ رکھتے تھے، حضرت نوح، حضرت عیسیٰ تمام نبیوں کے ہاتھ میں معجزہ تھا، وہ چاہتے تو معجزے سے رزق کماتے لیکن اللہ نے ان سے بھی کہا محنت کرو، کوشش کرو، جو کوشش کرے گا اس کو ملے گا۔ حتیٰ کہ وہ انبیاء جو زمین سے خاک اُٹھاکر اُسے گوہر بنا سکتے تھے اس کو خزانہ بنا سکتے تھے۔ اللہ نے ان سے بھی کہا اسے رزق کا ذریعہ نہیں بنانا۔ محنت کرکے کمائو، محنت کرکے کھائو، محنت کرکے لوگوں کو اپنی طرف لے کر آئو یہ نہیں کہا کہ معجزہ دکھائو سب کا دل بدل دو سب کی نیت بدل دو نہ ہی کوشش کرو یہ جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے آپ کو انہیں کنوینس کرکے لانا ہے۔
حضرت نوح کارپینٹر تھے وہ کارپینٹر تھے تو اپنے لئے رزق کا بندوبست کارپینٹری کرکے کرتے تھے، حضرت دائود لوہار تھے، لوہار تھے تو اپنے لئے رزق کا بندوبست لوہاری کرکے کرتے تھے، حضرت ادریس ٹیلر تھے، کپڑے سلتے تھے، تو وہ دوسروں کے کپڑے سل کر اپنے اور اپنے گھر والوں کیلئے رزق کا بندوبست کرتے تھے، حضرت ہود اور صالح بزنس کرتے تھے، تجارت میں دن رات محنت و مشقت کرتے تھے تو اپنے گھر والوں کیلئے رزق مہیا کرتے تھے۔ حضرت یعقوب اور یوسف کسان تھے کھیتی کرتے تھے دن رات کھیتوں میں کام کرتے تھے تو اپنے گھر والوں کیلئے رزق کا انتظام کرتے تھے، ہمارے اپنے نبی رسول اللہ ؐ چرواہے تھے وہ جاتے تھے دوسروں کے جانوروں کو لے کر پھر ہمارے ہی نبی تھے جو جناب خدیجہ کا مال لے کر جاتے تھے اسے بازاروں میں بیچتے تھے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ مزدور تھے مزدوری کرتے تھے دوسروں کے باغ میں کام کرتے تھے تو روزی کماتے تھے اور اپنے گھر والوں کیلئے رزق کا انتظام کرتے تھے۔ اللہ نے ہر ایک کے لئے سعی ہر ایک کے لئے کوشش ہر ایک کے لئے جدوجہد رکھی کوئی ایسا نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے معجزہ ہوتا رہے اور رزق آسمان سے اترے۔
یہ تقریر محترمہ ذکیہ بتول نجفی کی آج کل سوشل میڈیا پر بہت گشت کررہی ہے اور اسے جو سن رہا ہے وہ اپنے طریقے سے سمجھ کر اس کی تشریح کررہا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ اُن ذاکروں کے لئے ہے جو کوئی کام نہیں کرتے بس ذکر حسین ؑ کو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے رزق کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ اُن مولویوں کے لئے ہے جو کوئی کام نہیںکرتے بس خمس اور زکوٰۃ پر قناعت کرتے ہیں اور اسی پر صبر شکر کرکے اس سے ہی اپنے گھر والوں کے لئے رزق مہیا کرلیتے ہیں۔ جتنے منھ اُتنی باتیں۔ کوئی کہہ رہاہے کہ جب اولوالعزم پیغمبر اپنے رزق کے لئے محنت اور مزدوری کرتے تھے تو ہمارے مولوی محنت اور مزدوری کیوں نہیںکرتے؟ ایسے تمام افراد کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں کوئی محنت اور مزدوری یا کاروبار نہیںکرتا۔ تمام بڑے مدرسے جہاں سے پڑھ کر بڑے بڑے عالم دین دین کی خدمت کررہے ہیں وہ ان ہی مدرسوں کی دین ہیں۔ ہمارے ہی علماء دنیاوی تعلیم کے لئے بڑے کانوینٹ کالج چلا رہے ہیں، ہمارے ہی مولوی اسی شہر میںکئی ’’سیوا چکن‘‘ کے بڑے بڑے شوروم کھول کر بزنس کررہے ہیں، ہمارے ہی ذاکر حسین ؑ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھاکر اپنے گھروالوں کے لئے رزق مہیا کررہے ہیں۔
اب کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ آپ کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا مطالعہ بس خیبر اور خندق تک ہی محدود ہے لیکن اختلافی معلومات لامحدود وہ بھی کم محنت نہیںکرتے، قوم میں اختلاف پھیلانے سے لے کر شہر میں فساد کرانے تک وہ بھی اس کیلئے جی توڑ محنت کرتے ہیں؟
مجھے نہیں معلوم محترمہ ذکیہ بتول نجفی کی تقریر کتنی حقیقت پر مبنی ہے اگر یہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے تو ہم سب کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here