نادان

0
135

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

اسلم جمشید پوری

’’سلام علیکم امی جان!‘‘
’’ سلام علیکم ابو جان!‘‘
’’چاند دکھائی دے گیا ابو جان۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ثنا نے تیز قدموں سے چھت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا۔اتنے میں با ہر سے ساجد دوڑتا ہوا آیا۔ اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے بولا۔
’’رمضان کا چاند دکھ گیا ہے۔ سب کو سلام علیکم۔ابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج سے تراویح شروع ہو جائیں گی نا؟‘‘
’’ ہاں بیٹا ساجد۔۔۔۔۔۔آپ اچھے بچے ہیں۔ آپ تراویح کی نماز کے لیے میرے ساتھ چلئے گا۔‘‘مرزا حشمت علی نے بیٹے کو سمجھایا۔
پورے محلے میں شور شرابہ شروع ہو گیا تھا۔ مسجدوں سے اعلان ہو رہا تھا۔ رمضان کی اہمیت بتائی جا رہی تھی۔ سحر اور افطار کا وقت بھی بتایا جارہا تھا۔ بچے شور مچاتے ٹولیوں کی شکل میں ٹوپیاں لگائے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔ خرید و فروخت کا سلسلہ بڑھ گیا تھا۔ دودھ، ڈبل روٹی۔ شیر مال۔لچھے،کھجور،فینی وغیرہ کی فروخت ہونے لگی۔
رمضان بھی کس قدر رحمت کا مہینہ ہے۔ گیارہ مہینے الگ۔ رمضان کا مہینہ الگ۔ خدا کی رحمتیں اور برکتیں ایسی عام ہوتی ہیں کہ کوئی بد نصیب ہی ان سے محروم رہتا ہوگا۔نماز کا اہتمام بڑھ جاتا ہے۔ مساجد اتنی بھر جاتی ہیںگویا محلے کے محلے مسلمان ہو گئے ہوں۔ ہر طرف سروں پر ٹوپیاں نظر آتی ہیں۔بچے اور بوڑھے خاص کر زیادہ تعداد میں نظر آنے لگتے ہیں۔ بچوں کے تو جیسے مزے ہی آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔سحری میں آنکھ کھل گئی تو سحری کھائی۔ شام کو افطار میں بھی انواع و اقسام کی چیزیں۔ روح افزا کا شربت۔ رمضان میں اس کا مزا دو گنا ہو جاتا ہے۔ طرح طرح کی پکو ڑ یاں۔ آلو، بیگن،پالک، گوبھی کی پکوڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔چھولوں کی چاٹ، فروٹ چاٹ، انڈے کے پکوڑے، بریڈ پکوڑا،لسّی،غرض اتنی نعمتیں کہ عام دنوں میں رئیسوں کے یہاں بھی اہتمام نہ ہو پائے۔یہی نہیں اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہو تا ہے کہ ہر ایک عمل کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ گویا ایک وقت کی نماز کے ساتھ69نمازوں کا ثواب فری۔۔۔۔۔۔۔نفل پڑھو، فرض کا ثواب پائو۔شیطان کو بھی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
’’ ابو رمضان کے مہینے میں کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہیے نا۔‘‘ساجد نے مرزا شجاعت علی سے دریافت کیا۔
’’ہاں بیٹا ساجد۔اس ماہ غلط کام نہیں کرنا چاہیے، لیکن بہت سے لوگ روزے نہیں رکھتے، جب کہ وہ رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔کچھ لوگ صرف دکھا وے کے روزے رکھتے ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ غلط کام بھی کرتے ہیں۔اسی لیے ساجد اللہ نے بُرے کاموں کی سزا کو بھی اس مہینے میں بڑھا دیا ہے۔
’’ابو جان میں بھی روزہ رکھوں گا۔ اب میری عمر دس سال ہو گئی ہے۔ میں اپّی سے چھ سال ہی تو چھوٹا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے سحری میں اُٹھا دینا۔‘‘
مرزا شجاعت علی بہت ہی نیک اور ایماندار مسلمان تھے۔ وہ روزے نماز کے سخت پابند تھے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے گھر میں بھی اسلامی ماحول بنانے کی کوشش کی۔بیگم زمانی بھی اپنے شوہر سے کسی طرح کم دیندار نہیں تھیں۔ ہر وقت تسبیح کا ورد رکھتیں۔ نمازیں پڑھتیں۔ قرآن کی تلاوت کرتیں۔ ان کے دونوں بچے، بیٹی ثنا اور بیٹاساجد بھی والدین کی طرح دین دار تھے۔ ثنا پڑھنے میں بھی بہت تیز تھی۔ گھر کے کام کاج میں بھی ثنا ہمیشہ دلچسپی لیتی۔ گھر پر خادمائیں تھیں۔ پھر بھی ثنااپنے والدین کی خد مت کرتی۔ دادا،دادی کی ہر بات کا خیال رکھتی۔ ساجد بھی نیک بچہ تھا۔ وہ بڑوں کا کہنا مانتا تھا۔ اس نے قرآن مکمل کرلیا تھا۔ نمازیں پڑھنے لگا تھا۔ اپنے ابو کے ساتھ جمعہ اور اکثر مغرب کی نماز پڑھنے مسجد جاتا تھا۔
مرزا شجاعت علی کے گھر میں رمضان کا انتظار تقریباً ایک ماہ قبل سے ہو تا تھا۔ مکان کی سفیدی ہو رہی ہے۔ سارا گھر الٹ پلٹ، نوکر چاکر لگے ہیں۔ ایسا ما حول بن جاتا گو یا شادی کا گھر ہو۔ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام ہو تا۔ دعائیں مانگی جاتیں۔ اس بار بھی سب کچھ مکمل تھا، صرف چاند کی خوشخبری با قی تھی۔ چاند کی خبر آتے ہی سا را نظا رہ بدل گیا۔ بیگم زمانی سحری کے کھانوں کے انتظام میں لگ گئیں۔ ثنا ان کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ مرزا شجاعت علی عشاء کی اذان ہوتے ہی، ساجد کے ہمراہ مسجد چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔بیگم زمانی ،ثنا، ثناکی دادی اور پڑوس کی آمنہ، ان کی بیٹی حاجرہ۔۔۔۔۔سب نے مل کر عشاء اور ترا ویح کا اہتمام کیا۔۔۔۔۔۔۔تراویح کے بعد ضروریات سے فارغ ہو کر سب بستروں میں جا گھسے۔
صُبح تین بجے بیگم زمانی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ بیدار ہوئیں،پہلے وضو کر کے تہجد ادا کی۔ ثناکو جگایا۔ سحری کا انتظام کیا۔ چار بجے مرزا شجاعت علی کو اُٹھایا۔ ساجد کی آنکھ خود بخود کھل گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہ بہت خوش تھا۔ سب نے ایک ساتھ سحری کھائی۔ثنانے بہت آہستگی سے اپنی امی کے کان میں کچھ کہا۔۔۔۔۔۔۔امی نے بھی آہستگی سے ثنا کو سمجھا دیا۔
’’اللہ اکبر۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مؤذن کی آواز گونجی۔
’’ روزہ بند کرلو۔۔۔۔۔۔۔۔ابو سحری کا وقت ختم ہو گیا۔ سب لوگ کلی کرلیں اور روزہ کی نیت بھی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ساجد نے سارے گھر میں شور مچا دیا۔
عورتوں اور لڑکیوں نے گھر پر نماز کا اہتمام کیا۔ مرزا حشمت علی مسجد میں نماز پڑھ کر آئے اور بو لے:
’’ بھئی میں ذرا سا سو لوں۔ میری نیند پو ری نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔‘‘ مرزا حشمت بستر پر دراز ہو گئے۔
’’ رمضان میں بس نیند پو ری نہیں ہوتی۔ بیٹا ساجد آپ بھی سو لیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ بیگم زمانی کی بات پر ساجد بو لا،
’’ نہیں امی مجھے تو نیند نہیں آ رہی۔‘‘
’’ امی آج میرا پہلا روزہ ہے۔ آپ افطار کی دعوت کرو نا۔ میرے دوستوں کو بھی بلائو نا۔۔۔۔۔۔۔ میں سب سے کہہ دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ ہاں بیٹا۔ آج آپ کا پہلا رو زہ ہے۔ آپ دھیان رکھیے کچھ بھی کھانا پینا نہیں اور ہاں آج شام کو آپ کے ساتھ افطار پر بہت سے مہمان ہوں گے۔ آپ اپنے دوستوںسے بھی کہہ دیجئے۔‘‘
یہ سنتے ہی ساجد نے چھلانگ لگائی اور سیدھا فرش پر۔۔اُلٹے سیدھے چپل پہن کر اپنے دوستوں کے پاس رفو چکر ہو گیا۔
مرزا حشمت علی صُبح نو بجے اُٹھے۔ بیگم زمانی نے اُنہیں شام کو افطار کی دعوت کے اہتمام کے بارے میں بتایا۔ اچھا بیگم میں تو آفس جا رہا ہوں۔وہاں سے گاڑی اور ڈرائیور بھجوا دوں گا جو سامان منگوانا ہو کہہ دینا اور اپنے میکے فون کرکے خبر کر دیجئے۔ تقریباًسو لوگوں کے کھا نے کا اہتمام کرا دیتا ہوں۔ میں میزبان ہو ٹل فون کردوں گا۔ بریانی، قورمہ، روٹی وغیرہ سب وقت پر آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
گھر کا ماحول تبدیل ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔شام کی دعوت کے اہتمام میں سا رے لوگ مصروف ہو گئے۔ ثناانٹر کالج میں پڑھتی تھی۔ ساجد پانچویں کلاس میں تھا۔ وہ تیار ہو کر اسکول جانے لگا۔
’’ثنا باجی۔۔۔۔۔۔۔آج آپ اسکول نہیں جارہیں۔‘‘
’’ہاں۔ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’آپ نے روزہ تو رکھا ہے نا۔۔۔۔۔؟‘‘ ساجدنے شرارتاً آنکھیں مٹکا تے ہوئے پو چھا۔
ثناایک لمحے کو تو گھبرا گئی۔ اُس نے بیگم زمانی کی طرف دیکھا۔ بیگم زمانی نے ساجد کو دس روپے دیتے ہوئے کہا:
’’ ساجد لو یہ رو پے۔ انہیں راستے میں کسی فقیر کو دے دینا۔ بیٹے صدقہ کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
دوبجے کا وقت تھا سارے گھر میں افرا تفری کا ماحول تھا۔ ساجد کا رکشہ رکا۔ وہ طوفان کی طرح گھر میں داخل ہوا۔ بیگ ایک طرف پھینکا اور سیدھا سامنے والے کمرے میں جا گھسا۔ اچانک ساجد کو کمرے میں دیکھ کر ثناگھبرا گئی۔
’’باجی آپ کیا کھا رہی تھیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔؟‘‘ساجدنے ثنا کا منھ چلتے ہو ئے دیکھ لیاتھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔۔۔ ساجد۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھلا کیوں کھانے لگی۔‘‘
’’نہیں مجھے لگا، جیسے آپ کچھ کھا رہی ہیں۔‘‘
’’چلو کپڑے تبدیل کرو۔‘‘یہ کہتے ہوئے ثناگھبرا ئی گھبرائی سی با ہر آ گئی۔ ساجدکے ذہن میں کھچڑی پک رہی تھی۔ میں نے باجی کو منھ چلاتے ہو ئے دیکھا۔ باجی منع کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی سوچتے سوچتے اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ ظہر کی اذان ہو گئی تھی۔ اس نے وضو کر کے نماز پڑھی اور امی کے سمجھا نے پر سو نے کی کوشش کرنے لگا۔ اُسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ پیاس لگ رہی تھی۔ تھو ڑی تھوڑی بھوک بھی ستا رہی تھی۔ بہت دیر بعد اُسے نیند آگئی۔
دو رویہ قطا روں میں لوگ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ سروں پر ٹوپیاں، سامنے انواع و اقسام کی اشیاء۔ سب کی نظریں گھڑی پر۔ساجد شیروانی میں خوب جم رہے تھے۔ سائرن کی آواز پر سب نے افطار شروع کیا۔ بہت گہما گہمی تھی۔ کافی مہمان تھے۔ افطار کے فوراً بعد کھانا اتار دیا گیا۔
’’اطمینان سے کھائیں۔۔۔۔۔۔۔نماز کا اہتمام یہیں ہو جائے گا۔ قاری شفیق صاحب نماز پڑھائیں گے۔‘‘مرزا شجاعت علی سبھی مہمانوں سے کہہ رہے تھے۔
ساجد نے مردانہ محفل میں افطار کیا۔ افطار کے فوراً بعد وہ گھر کے اندر گیا۔ اندر بہت سی مہمان عورتیں تھیں۔ممانی، خالہ، پھوپھی، پڑوس کی آ منہ چاچی،بلقیس خالہ فرزانہ باجی،شبانہ باجی،۔۔۔۔۔۔۔سب افطار میں مصروف تھیں ۔اچانک اس کی نظر ثناپر پڑی۔ ثنا سر جھکا ئے افطار کرنے میں مصروف تھی۔ ساجد کو دوپہر کی بات یاد آ گئی۔
’’ ثنا باجی۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ افطار کررہی ہیں۔ آپ نے تو روزہ رکھا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔؟‘‘ ساری عورتیں کبھی ساجد کو، کبھی ثناکو اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔ پھر سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ بیگم زمانی ہکا بکا بیٹے کو تک رہی تھیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا اشارہ کررہی تھیں۔ مگر ساجد کہاں ماننے والا تھا۔ وہ اور زور سے بولنے لگا۔
’’ آپ دو پہر میں کھا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا تھا۔ آپ سمجھیں میں نے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔‘‘
ساجد آناً فاناً پیچھے مڑا اور پل جھپکتے ہی غائب ہو گیا۔
ثناسر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی۔ روہانسی ثنا نے بیگم زمانی کی طرف دیکھا۔ اُ سے یہ بھی علم تھا کہ آج ان کا بھی روزہ نہیں ہے۔
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here