نائب صدر بھی تشدد اور دھمکیوں کے مخالف

0
121
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حفیظ نعمانی

شری ونکیّا نائیڈو اب ملک کے نائب صدر ہیں۔ وہ بی جے پی کے اُن لیڈروں میں ہیں جو ہمیشہ نمایاں رہے۔ وہ جنوبی ہند بی جے پی کے سب سے اہم لیڈر ہی نہیں پارٹی کے صدر بھی شاید ایک سے زیادہ بار رہے اور ترجمان تو ہر دن رہے۔ اب دستور کی حیثیت سے وہ پارٹی کے نہیں ملک کے نائب صدر ہیں اور اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کی سابق پارٹی جمہوریت اور سیکولرازم کو نہیں مانتی۔ اس کے باوجود آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’جمہوریت میں پرُ تشدد دھمکیاں ناقابل قبول ہیں‘‘ انہوں نے فلم پدماوتی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ امن اور قانون کے تحت مخالفت کریں۔
ملک میں صدر اور نائب صدر دو چار ہی ایسے ہوئے ہیں جو اُن عہدوں پر آکر یہ بھول گئے ہوں کہ ان کا تعلق کس پارٹی سے ہے؟ بنانے والے اور بننے والے اعلان تو کرتے ہیں کہ وہ اب ملک کے صدر یا نائب صدر ہیں اور کسی پارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں لیکن اندرونی طور پر وہ پوری طرح پارٹی کے رہتے ہیں۔ نائیڈو صاحب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی پارٹی نے کھل کر پدماوتی کے بارے میں راجپوتوں کی قیادت میں وہ سب کیا ہے جو انہوں نے کرانا چاہا اور جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت تھی ان صوبوں میں مخالفت نے تشدد کو اپنایا اور حکومت تماشہ دیکھتی رہی۔ ونکیّا نائیڈو صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پھانس کا بانس بنایا گیا ہے۔ فلم بنانے والے بس ایک بات دیکھتے ہیں کہ ان کی فلم دیکھنے والے ان کی تعریف کریں اور فلم کی تیاری میں دو سو کروڑ لگے ہیں تو پانچ سو کروڑ پہلے ہفتے میں ہی وصول ہوجائیں۔ فلم سازوں کا دین دھرم اور سیاسی نظریہ کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے وہ تاجر ہیں اور فلم کے ذریعہ تجارت کررہے ہیں اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں ہیں۔
نائب صدر ونکیّا نائیڈو کو حیرت ہے کہ مخالفت کرنے والے جسمانی طور پر نقصان پہونچانے والوں کو انعام دینے کی بات کرتے ہیں اور کروڑوں کی بات کرتے ہیں۔ انہیں اس پر بھی حیرت ہے کہ کیا ایک کروڑ اتنا آسان ہے؟ اس بھولے انداز سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جیسے ملک میں نئے نئے آئے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے پرانے ساتھی اور وزیر ارون جیٹلی اپنی توہین کے لئے کروڑوں کا دعویٰ عدالت میں کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے کو سیکڑوں کروڑ کی شخصیت سمجھتے ہیں اور جب ذراسی ہیرا پھیری میں بی جے پی کے صدر امت شاہ کا بیٹا جے شاہ 80 کروڑ کما لیتا ہے۔ یا ایک جج کو 100 کروڑ نقد اور ممبئی میں ایک مکان کی پیشکش صرف اتنی سی بات کے لئے کی جاتی ہے کہ وہ مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں کردے تو ایک کروڑ کی کیا حیثیت ہے؟
کون یقین کرے گا کہ ونکیّا نائیڈو جیسے پرانے لیڈر کو یہ نہیں معلوم کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے الیکشن میں بعض بدنام مسلمان لیڈر کہے جانے والے مسلمانوں کو پیشکش کی جاتی ہے کہ اپنی پارٹی کے دو سو ممبر کھڑے کردو اور ان کا خرچ 200 کروڑ لے لو اور مسلمان ووٹ اپنے اُمیدواروں کو دلوا دو۔ یہ آوازیں ہمارے جیسا باہر کا آدمی تو سن لے اور نائیڈو جو پارٹی کے صدر اور بڑے عہدوں پر ہمیشہ رہے وہ نہ سنیں؟ پرتشدد احتجاج کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آپ کو جمہوری طریقہ سے احتجاج کرنے کا حق ہے آپ کسی کو پرتشدد دھمکیاں نہیں دے سکتے قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت میں فلم سازوں کو دھمکیاں دینا ان کے کام میں رُکاوٹ پیدا کرنا ناقابل قبول ہے۔
نائب صدر کو یہ بات نام لے کر اُن صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے کہنا چاہئے جنہوں نے ایک کے بعد ایک یہ اعلان کردیا کہ پدماوتی ان کی ریاست میں نہیں دکھائی جائے گی۔ جبکہ یہ بات ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ صرف راجپوتوں کی حمایت الیکشن میں حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے اعلان کئے جاتے ہیں۔ فلم بنانے والے بناتے ہیں اسے شہروں شہروں دکھانے والے ان شہروں کے سنیما گھروں سے سودا کرتے ہیں مہینہ اور تاریخ طے ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد معینہ وقت پر فلم آجاتی ہے اور اس کی نمائش شروع ہوجاتی ہے دیکھنے والوں کو ہم نے لائن میں گھنٹوں کھڑے بھی دیکھا ہے اور پولیس کی لاٹھی کھاتے بھی دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ ہال میں فلم چل رہی ہے اور سڑک پر کوئی نہیں ہے۔ اگر راجپوتوں کی اس فلم میں ناک نیچی کی گئی ہے تو آپ کو کون زبردستی دکھا رہا ہے آپ اعلان کردیجئے کہ کوئی راجپوت اور کوئی غیرتمند ہندو فلم کو نہ دیکھے۔ جسے اپنا دھرم پیارا ہوگا وہ نہیں دیکھے گا حکومت کیوں فلم دیکھنے نہ دیکھنے میں پارٹی بنے؟ یہ پابندی کی بات اس وقت ہونا چاہئے تھی کہ جب فلم آجائے تو ہر شہری کو دیکھنا قانون کی وجہ سے ضروری ہوتا۔
یہ سب جانتے ہیں کہ نائب صدر کی عوامی حیثیت نہیں ہوتی وہ ادبی اور سماجی تقریبات میں حصہ ضرور لیتے ہیں لیکن ان کے تام جھام میں اس کا شائبہ بھی نہیں ہوتا جو صدر کا ہوتا ہے لیکن پارٹی میں ان کی وہی اہمیت ہوتی ہے وہ اگر سنجیدگی سے اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو ایک فتنہ کا سدباب ہوجائے گا۔ ملک میں یہ ماحول بنانا کہ پدماوتی کی شوٹنگ راجستھان میں ہورہی تھی اس زمانہ میں ہر تھوڑے دن کے بعد خبر آتی تھی کہ راجپوتوں نے ان لوگوں پر حملہ کردیا، خیمے جلا دیئے، گاڑیاں پھونک دیں صرف اس لئے کہ پدماوتی اور علاء الدین خلجی پر فلم بن رہی ہے۔ اس وقت اگر پولیس اُن غنڈوں کو پہلے توڑتی اور اس کے بعد بند کردیتی تو آج یہ نوبت نہ آتی اس سے زیادہ قانون کی ذلت اور کیا ہوگی کہ یہ نہیں معلوم کہ فلم میں کیا ہے صرف نام سن کر لاکھوں روپئے پھونک دیئے جائیں بہت اچھا ہوگا کہ نائب صدر اب اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here