میری تمنا

0
315

[email protected] 

9807694588  موسی رضا۔۔  

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


رمّانہ تبسم

نشرح چوتھی جماعت کی طلبا تھی اوربہت ہی ذہین تھی اس عمر میں بچے ہم عمر دوستوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں لیکن اسے کھیلنے سے ذیادہ فلکیاتی علوم میں دلچسپی تھی ۔وہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر چاند اور ستاروں کو غور سے دیکھتی اور ان سے باتیں کرتی چاند اور ستاروں کو دیکھ کر اس کے ذہن میںکئی طرح کے سوالات امنڈتے رہتے ۔جب اس کے ابو دفتر سے سے گھر واپس آتے وہ ان کے سامنے ڈھیر سارے سوالات لے کر بیٹھ جاتی۔
’’ابو ہم لوگ جہاں جاتے ہیں چاند بھی ہمارے ساتھ کیوں چلتا ہے۔۔۔۔۔؟کیا چاند کو ہم لوگوں کی طرح پیر ہوتے ہیں ۔‘‘
نشرح کی بات سن کر اس کے ابو زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔
’’نہیں نشرح بیٹی! یہ تمہیں کس نے بتایاکہ چاند کو پیر ہوتے ہیں۔‘‘
’’مجھے یہ بات کسی نے نہیں بتایا میں نے خود غور کیا ہے کہ میں جہاں جاتی ہوں چاند بھی ہمارے ساتھ چلتا ہے۔‘‘
’’اچھا میری بیٹی کو لگتا ہے کہ چاند کو بھی ہم لوگوں کی طرح پیر ہوتے ہیں۔‘‘
’’جی ابو جان !اس لئے وہ ہم لوگوں کے ساتھ چلتا ہے۔‘‘نشرح نے اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری جانکاری کے لئے بتا دوں کہ چاند کو پیر نہیں ہوتے ہیں بلکہ زمین اس کی گردش کرتی رہتی ہے اور تمام نظام شمسی کے چکر لگاتی ہے۔‘‘
’’ابو جان !نظام شمسی کسے کہتے ہیں۔
نظام شمسی سورج اورتمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں۔جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی نقلی گرفت میں ہیں۔اور اس میں ۸ سیارے ہیں۔ان کے نام ہیں۔عطارد،زہرہ، زمین مریخ،مشتری،زحل یورینس، اورنیمچیون۔ نظم شمسی ان تمام سیاروں کی گردش کرتی رہتی ہے۔نیپچیون نظام شمسی کا سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔
ابوجان! چاند کتنا بڑا ہے اور ہم لوگوں سے کتنی دور ہے اور یہ دن میں کیوں نظر نہیں آتا یہ ہمیشہ ایک سا کیوں دیکھائی نہیں دیتا ،کبھی full moonاور کبھی half moonکیوں نظر آتا ہے۔‘‘نشرح ایک ساتھ کئی سوالات پوچھ بیٹھی۔اس کے تمام سوالوں کو غور سے سننے کے بعد اس کے ابو کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔
’’نشرح کے ابو! انشاء اللہ ہماری بیٹی ایک روزچاند پر جائے گی اور بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملے گی ۔‘‘اس کی امی نے اس کے بالوں میں شانہ کرتے ہوئے کہا۔
’’انشاء اللہ آمین! میں بھی چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کی ہر تمنا پوری ہو۔‘‘نشرح کے ابونے خوش ہوتے ہوئے کہااوردفتر کے کاموں سے تھکے ہونے کے باوجود اسے کبھی جھڑکتے نہیں بلکہ اسے کھلے آسمان کے نیچے لے کر بیٹھ جاتے اور سیاروں کی گردش کے بارے میں بتاتے اور اس کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہتے۔
’’نشرح بیٹی !زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000کلو میٹر ہے ۔چاند زمین کے ارد گرد 27.3دن میں چکر لگاتا ہے۔چاند اور ستارے دن میں بھی نکلتے ہیں مگر ۔‘‘
’’مگر کیا ابو جان!‘‘نشرح نے اپنے ابو کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’بتاتا ہوں بھئی سب بتاتا ہوں صبر کرو۔‘‘اس کے ابو نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’سورج کی تیز روشنی کی وجہ کر یہ چاند اور ستارے ہم لوگوں کو دیکھائی نہیں دیتے ۔چاندسورج کی روشنی کے انعکاس سے چمکتا ہے اور اب تمہارا آخری سوال اس کے بعد تم سونے جائوگی کیوں کہ صبح جلدی اٹھنا ہے اسکول جانے کے لئے ۔
’’جی ابو!‘‘نشرح نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔
’’جہاں تک full moonاور half moon کا سوال ہے ۔چاند ہمیشہ پورا ہی رہتا ہے چاند half and fullاس لئے معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ہم اس وقت چاند کے روشن کا صرف ایک حصہ ہی دیکھ پاتے ہیں ۔اب تمہارے تمام سوالوں کے جوابات مل گئے۔
’’ابو جان !‘‘کچھ اور بتائیں۔
’’اب کیا بتائیںتمام سوالوں کے جوابات میں نے دے دیا ۔‘‘
’’ابو جان!وہ تمام سوالات میں نے کیا ۔‘‘نشرح شرارت سے اپنی دونوں بانہیں اپنے ابو کے گلے میں ڈالتے ہوئے بولی۔
’’ہماری بیٹی بہت ہوشیار ہو گئی ہے ۔‘‘اس کے ابو نے اس کی بانہیں تھام کر جھلاتے ہوئے بولے۔
’’جانتی ہو نشرح چاند پر فضا ہوا کا دبائو بالکل نہیں ہے اس لئے چاند پر آکسیجن لے کر جاتے ہیں ۔چاند پر دن کے وقت بھی آسمان تم کو سیاہ دیکھائی دے گا۔یہی نہیں سورج کے ساتھ ستارے بھی دیکھائی دیں گے اگر تم چاند پر پہنچ جائو تو تمہیں کئی تعجب خیز باتیں معلوم ہوں گی۔‘‘
’’تعجب خیز باتیں معلوم ہوں گی وہ کیا ابو جان۔‘‘
’’مثلا ہمارا وزن نوے پونڈ ہے تو چاند پر ہم صرف پندرہ پونڈ کے رہ جائیںگے۔نشرح غور سے اپنے ابو کی باتیں سن رہی تھی۔اس کے ابو اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
’’نشرح بیٹی تم جو بھی خواب دیکھو اسے پائے تکمیل تک پہنچاو اگر انسان کا جذبہ سچا ہوگا تو ایک دن اس کو منزل ضرور ملتی ہے ۔ تم جب بھی چاند اور ستاروں کی طرف دیکھو تو اپنے قدموں کی طرف دھیان نہیں دینا بلکہ اسے چھونے کی کوشش کرنا۔‘‘نشرح اپنے ابو کی باتیں سن کر دور خلائوں میں کھو گئی۔جب وہ اسکول جاتی اپنے دوستوں سے کہتی ۔
’’نیہا،کوثر ،امان میں بڑی ہوکر امریکہ جائوں گی اور وہاں بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملوں گی اور ان سے چاند پر جانے کا راستہ پوچھوں گی کیوں کہ انہیں چاند پر جانے کا راستہ معلوم ہے ۔‘‘اس کی باتیں سن کر کلاس کے سبھی بچے ہنسنے لگتے۔ وہ خاموش نظروں سے اپنے دوستوں کو دیکھنے لگتی اور اس کے دوست اسے دیکھتے ہی دور سے چلاتے ہوئے کہتے۔
’’دیکھو! آگئی بڑے بڑے خواب دیکھنے والی۔‘‘
اس طرح وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا ۔ نشرح نو یں جماعت میں پہنچ گئی۔فلکیاتی علوم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بے چین رہتی۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کی بجائے اسکول کے کمپیوٹر لیب میں ناسا اور فلکیاتی علوم کے بارے میں اپنی کلاس ٹیچر سے جانکاری حاصل کرتی کیوں کہ اس کا خواب ماہر فلکیات بننا تھا۔
ایک روز اسے اپنے خوابوں کی منزل مل گئی۔جب اسمبلی حال میں اسکول کے پرنسپل نے سبھی طلبا و طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’پیارے بچو!آشٹرنومی اولمپیاڈ مقابلہ قومی سطح پر منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اس اولمپیاڈمیں ملک بھر کے ہزاروں طلبا و طالبات شریک ہو ر ہے ہیں۔اول اور دوم رینک حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو ناسا لے جایا جائے گا اور بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات بھی کرایا جائے گا۔ اس ادارہ کی طر ف سے صدر امیریکہ سے ملاقات اور ان کے ساتھ طعام(food) کا موقع بھی دیا جائے گا۔
پیارے بچو!یہ ادارہ صرف امریکہ روانگی نہیں بلکہ واپسی کے انتظامات بھی کرے گا اور فلکیات کی تعلیم میں تعاون بھی کرے گا۔لہذا اس اولمپیاڈ میں جن طلباو طالبات کو دلچسپی ہے،آپ لوگ اپنا نام اپنی کلاس ٹیچر کے پاس درج کرالیں۔‘‘
اس اولمپیاڈ کے بارے میں سن کر نشرح کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں کیوں کہ اس اولمپیاڈ کو جیت کر وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔یہ سوچ کر اس نے سب سے پہلے اپنا نام رجسٹر میں درج کرایا۔اور اول رینک حاصل کرنے کے لئے محنت کرنے لگی۔جب خدا کی مخلوق آرام کر رہی ہوتی وہ پڑھائی کرتی رہتی کیوں کہ اپنے خوابوں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہ اولمپیاڈ کسی بھی طرح اسے جیتنا تھا۔جب اسٹرنومی اولمپیاڈ مقابلے کا نتینجہ نکلا تو اس نے دوسرا رینک حاصل کیا۔وہ خوشی سے سرشار ہو گئی اس نے اپنی محنت ولگن سے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ اس کی کامیابی پر اسکول کے پرنسپل،اساتذہ اسے پھولوں کا ہار پہنا کر اور گلدستہ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے بہتر مستقبل کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ۔نشرح پھولوں کے ہار سے لدی ہوئی تھی اس کے سبھی دوست اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
نشرح کی کامیابی پراس کے والدین کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو چھلک آئے۔ نشرح ان کے آنسو پوچھتے ہوئے بولی۔
’’ابو،امی !آج میری تمنا پوری ہوئی میری اس کامیابی میں میرے ابو جان اور میری کلاس ٹیچر کا سب سے اہم رول رہا ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔‘‘اور اسمبلی حال تالیوں کی آواز سے گونجے لگا۔
پیارے بچو !اگر تمہارے دل میں کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے جذبہ سچا ہوگا تو انشاء اللہ ایک روز منزل تمہارے قدم ضرور چومیں گی۔
رابطہ۔9973889970پٹنہ سٹی
ؤؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here