9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شاذلی خان
دنیا میں ایسے کم ہی لوگ پیدا ہوتے ہیں ،جو اپنی زندگی کے ہر دور میںعظیم رہے ہوں اور دنیا نے جن کا عمر کے حصے میں احترام کیا ہو۔یہ خصوصیت مولانا آزاد کے حصے میں آئی تھی ۔وہ ایسی شخصیت تھے جن سے ،مولانا حالی ؔاور مولانا شبلیؔجیسے ممتاز علماء بھی متاثر تھے ۔ان کا پورا نام محی الدین احمد تھا اور ابولکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔یہ بر صغیر کی تاریخ کا وہ نفیس کردار ہے جو کسی تعرف کا محتاج نہیں ۔آپ غیرمنقسم ہندوستان کی عظیم اور مقتدر شخصیتوں میں سے ایک تھے اور یقیناعلم و فراست کے امام تھے ۔آپ کو سماج ،معاشرہ ،زبان ،کلام بیان ،مذہب ،بین المذاہبی تقابلات اور سیاست کے پیچ و خم پر عبور حاصل تھا ۔آپ نے قرآن کی تفسیر لکھی ،مذہب کو جانچا ،آباء کی دیرینہ رسومات کو ترک کیا ،سیاست کے دشت میں آبلہ پائی کی ،اصول و نظریات کو نیا اور معتبر لب و لہجہ دیا۔سیاسی بصیرت کے مفاہیم کو نئی روشنی عطا کی۔
مولانا ابولکالام آزاد کئی لحاظ سے منفرد شخصیت کے مالک تھے ۔قدرت نے اپنی عطا اور بخشش میں ان کے ساتھ بڑی فیاضی سے کام لیا تھا اور اس طرح سے ان کی ذات مجموعہ کمالات بن گئی تھی ۔وہ ۱۹۱۲ء میں الہالکے ساتھ ہلال بن کر افق ِسیاست پر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے بدر کامل بن گئے ۔انہیں بے پناہ مقبولیت بھی حاصل ہوئی ۔سیاسی رہنما،مذہبی عالم ،ادیب و انشاپرداز ،صحافی اور دانش ور سبھی اس نئی آواز ،نئے انداز تخاطب اور نئے استدلال سے متاثر ہوئے اور مولانا جلد ہی ایک ممتاز قومی رہنما بن گئے۔وہ علم ہو یا ادب ،مذہب ہو یاسیاست مولانا نے سارے موضوعات پر کبھی اپنا نقطۂ نظر نہیں بدلا ۔حالات کی تبدیلی سے ان کے نظریات نہیں بدلتے تھے ۔ان کا راستہ اور منزل دونوں ایک ہی تھی۔وطن کی آزادی اور قومی اتحاد ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔اس راستے میں کون سی ایسی قیامت تھی جو ان پر نہ ٹوٹی ہو اور کون سا ایسا طوفان تھا جس نے ان کا راستہ نہ روکا ہو ،مگر مالانا ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ انھوں نے آخری مرتبہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کی ذمہ داریاں بڑے نازک وقت میں سنبھالیں ۔
آزادی کے سیاق و سباق میں ہندوستان فیصلہ کن منزل پر پہنچ چکا تھا ۔ان کے اسی آخری دورِ صدارت میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘کی قرارداد منظور کی گئیاور دوسری طرف تقسیمِ ہند کے مطالبے میں شدت آئی ۔اس دورِ کشاکش میں اچھے اچھوں کے پاؤں اکھڑ گئے مگر مولانا ایک متحدہ ہندوستان پر عقیدہ رکھتے تھے ۔انہیں ہندو مسلم اتحاد پیارا تھا۔ہندوستان میں متحدہ و متفقر قومیت کی ضرورت کے تحت انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دئیاور اس کے لیے مضمون نویسی اور تقریر و خیالات سے بھرپور کوشش کی اور اس مقصد میں اہم رول ادا کیا ۔مولانا آزاد نے ہندوستان کی متفقر قومیت کے متعلق یوں تحریر کیا ہے۔۔
’’سرزمین ہند بھی قدرت کی نادرہ کاریوں کا ایک بوقلمی گلدستہ ہے ‘‘۔۴اپنی مختلف طبیعی کیفیات و مناظر ،تنوع آب و ہوا ،کثرتِقومیت و مذہبیت کی وضہ سے اس جہان ارضی کا ایک محیرالعقول عجائب خانہ ہے۔مزید یہ کہ اگر قومیت کا احساس پیدا ہو جائے تو ہماری تدابیر کارگر ہوسکتی ہیں ،ہم دنیا میں آدمی بن کر رہنے کے مستحق ہو جائیں گے اور اقوام عالم ہم کو ذندہ جماعت سمجھنے لگیں گی۔ہندو ایک قدم اپنی روایت قدیمہ سے نہ ہٹے ،مسلمان ایک انچ اپنی آیات ربانی اور احکامات قرآنی سے نہ سر کے ،پارسی اپنی مذہبی کتاب کی تلاوت کرتے رہے ،سکھ اپنے گرنتھ صاحب کا احترام مد نظر رکھے ،ہندو کا ایقان وید ،گیتا ،ہر غیر متنزلزل رہے ،مسلمان کا ایمان قرآن و حدیث پر غیر فانی رہے،سکھوں اور پارسیوں کے عقائد مذہبی و دینی میں ایک چاول برابر لغزش نہ ہو،پھر بھی وہ صدقِ دل ،خلوص نیت ،مستقل ارادے اور سچے خمیر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے۔
ہندوستان میں وہ پیدا ہوا ،ہندوستان میں ہی مرے گا۔متحدا قومیت ایک عام نقطۂ نظر سے بنتی ہے۔
متحدہو تو بدل سکتے ہو زمانے کا نظام
منتشر ہو تو مرو شعور بچاتے کیوں ہو
مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحد ،متحدہ قومیت اور مشترکہ تہذیب کے تصورات کو کامیاب بنانے کی جو زبردست کوششیں کیں وہ کامیاب بھی ہوئیں ،تحریک خلافت کے دوران جس قومی اتحاد کا مظاہرہ ہوا ،وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔مگر یہ اتحاد دیریا ثابت نہ ہوا ۔اس کے بہت سے اسباب ہیں ، مگر سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے اقلیتی حقیقت سے بے حد خائف تھے۔انہیں نظر آرہا تھا کہ انگریز اگرچلے گئے تو ایک جمہوری حکومت بنے گی ۔اس میں ظاہر ہے کی غالباََاکثریت ہندوؤں کی ہوگی۔پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کی اکثریت اتنی زیادہ نہ تھی ،جتنی بہار اور یوپی میں ہندوؤں کی نہیں تھی۔مولانا آزا دنے متحدہ قومیت کا تصور پیش کرکے اس خوف کو دور کرنا چاہا۔ابتداََسرسید بھی متحدہ قومیت کے حامی تھے اور قوم سے ہندواور مسلمان دونوں مراد لیتے تھے ،مگر بعد میں وہ کچھ تذبذب میں پڑ گئے اور انہیں انگریز دوستی میں ہی فلاح کی صورت نظر آنے لگی ۔مگر مولانا آزاد کے منطقی استدلال ،قرآن و سنت کے حوالے کے باوجود مسلمانوں کے دلوں کا خدشہ دور نہ ہو سکا ۔مولانا آزاد نے جب اپنی الگ آواز بلند کی تو مسلمان کا ایک بڑا طبقہ سرسید کے افکار سے متاثر تھا ۔ایسا ہونا قدرتی بھی تھا۔سن ستاروں کے قدر نے نہ صرف مسلمانوں کی سیاسی طاقت کا خاتمہ کردیا تھا،بلکہ ان کی معاشی اور سماجی حالت کو بھی کمتر کردیا تھا ۔سرسید نے حاکم اور محکوم کی غلط فہمیوں کو دور کیا تھا ۔بغاوت کے اسباب بیان کئے تھے اور مسلمانوں کو انگریز وں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا مشورہ دیاتھا۔خود مولانا آزاد سرسید کے خوشۂ چیں اور ان کی عظمت کے معترف تھے ۔۱۹نومبر ۱۹۴۹ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کنویکیشن ایڈریس میں برملا اعتراف کیا ہے کہ سرسید انیسویں صدی کے سب سے بڑے سماجی مصلح تھے ۔ انھوں نے بڑی وضاحت سے ان کی خدمات کو بیان کیا ہے۔چننچہ فرماتے ہیں۔
’’سرسید نے ہی نے عدلی گڑھ کالج میں ایک کالج ہی نہیں ،بلکہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ایک فکری اور تہذیبی مرکز کی بنا ڈالی ۔اس مرکز کی کلیدی حیثیت خود سرسید تھے انہوں نے اپنے گرد وحید العصر دانشوروں کو جمع کر لیا تھا ۔شاید ہی ہندوستان کے کسی رسالے نے اپنی نسل کے ذہن کو اتنا متاثر کیا ہو جتنا تہذیب الاخلاق نے کیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس رسالے نے جدید اردو ادب کی بنیاد ڈالی ۔غالباََہندوستانی مسلمانوںمیں اس وقت کوئی ایسی ادبی شخصیت نہیں تھی ،جو اس ادبی حلقے سے متاثر نہ ہوئی ہو۔یہاں اپنے عہد کے بہترین مسلم نصنفین کی تربیت ہوئی۔محمدی ایجوکیشنل کانفرینس کے جلسوں میں جدید طرز کی نظمیں پڑھی گئیں ۔اور خطابت کا بھی یہی فورم تھا ۔ اسی پلیٹ فارم سے اپنے عہد کے بہترین مقررین کی تربیت ہوئی۔‘‘
مولانا آزاد کی شخصیت بہت ہی ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھی ان کی تحریروںکی طرح تقریروں میں بھی بدلا کا اثرتھا اور جوش خطابت نے قوم کو بیدار کیا ۔مولانا آزاد قومی نظریے کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہے مگر تقسیم ہو گیا۔اس تقسیم سے مولانا پر جو گزری اس کا اندازہ اس تقریر پر سے ہو سکتا ہے،جو جامع مسجد دہلی میںمولانانے مسلمانوںکے سامنے کی تھی۔۔۔انھوں نے فرمایا تھا۔۔۔
’’متحد ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا،مذہبی اختلافات کوجس ڈھب سے ہوا دی گئی اس کے لازمی نتیجہ میںجو اسرار و مظاہر تھے ہم نے وہی آنکھوںسے دیکھے۔‘‘
مولانا آزاد نے سیاسی بصیرت کے مفاہیم کو ایک نئی روشنی دی اور خود ساخت قائدین ملت کے اجتماعی سیاسی شعور کو بونا کردیا ۔یقینایہ متحدہ بھارت کا عظیم سرمایہ تھا جسے نفس پرست سیاست داں سمجھ نہ سکے اور آج نصف صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود بھی ان کے ویژن ،حالات کی نبض شناسی اور ان کی عظیم سیاسی بصیرت پر ہم سب انھیں خراج ِعقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔مولانا بیک وقت عمدہ انشاپرداز ،جادفوبیان خطیب ،بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔وہ ہر لحاظ سے جامع شخصیت کے مالک تھے۔ان پر انگریزی لفظ پورا اترتا تھا ،انھونے جس میدان میں قدم رکھا اپنی علمی شخصیت اور ثابت قدمی کی وجہ سے کامیابی کی منزلیں چھولیں ۔انھوں نے ہمیشہ مہذب لہجے میں سب سے کلام کیا اور ادب و لحاظ کے حدود کی پاسداری کی ۔ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر پورا اترتا ہے۔۔
’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہور پیدا‘‘
مولانا آزاد ملت اسلامیہ ہند کا ایک روشن چراغ تھے ،جس کی روشنی بصیرت و بصارت کو جلا دیتی ہے ۔وہ علم دوست ،حریت پسند اور قوم پرست مسلمان رہنماتھے زندگی کا سفر ۱۸۸۸ء میں شروع ہوا ،عملی زندگی کا ا ٓغاز ۱۹۰۴ء سے شروع ہوا ۔وہ ۱۹۲۳ء،۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۹ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے قائم مقام صدر مقرر کئے گئے۔۱۹۴۰ء میں کانگریس کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔اور مسلسل ۱۹۴۶تک ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ رہے ۔صحافت میں ہفتہ وارالہال(۱۹۱۲)اور ہفتہوار البلاغ(۱۹۱۵)جاری کیا جو اردو صحافت کی تاریخ میں نئے سنگ میل کی ھیثیت رکھتا ہے ۔وہ خطیب بے مثال تھے۔رولیٹ ایکٹ کے خلاف کراچی کی ایک عدالت میں انھوں نے جو بیان دیا ،وہ ’’قول ِفیصل ‘‘کے نام سے لوحِ تاریخ پہ مثبت ہے ۔قلم اٹھا یا تو اردو نثر کے شاہکار غبار خاطر اور تذکرہ ان کی تراوشِفکر کی بلندیوں کی ممثال بنے ۔صحافت کی دنیا کی سیر کرنے پہ آئے تو بڑے بڑے صحافی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے نظر آئے۔علم قاموسی اور بیان کی فصاحت ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئیں ۔دینی علوم کی غواصی کی تو تفسیر قرآن میں موتی دریافت کردیا۔سیرت النبی پر بولنے اور لکھنے پر آئے تو بڑے بڑے سیرت نگار غیرت میں پڑ گئے ۔مولانا آزاد بیس برس کی عمر میں آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے۔قیدو بند کا سلسلہ رانچی بہار سے شروع ہوا اور قلعہ احمد نگر میں ۱۹۴۵ء میں ختم ہوا۔اس میں کل ۶۸ برس اور سات ماہ کا وقت لگا۔’’انڈیاونس فریڈم ‘‘پر ایک نظر ڈالیے تو تعجب ہوتا ہے اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کے تذکرہ کے بغیر ملک کی جنگ آزادی کی تاریخ کا تذکرہ بے معنی ہو جائے گا ۔نہرو ہوں یا پٹیل،گاندھی ہوں یا جناح مولانا کی رائے کا اعتبار تسلیم شدہ امر تھا۔نپی تلی باتیں تھیں لیکن کوئی ایک بھی لفظ شرافت اور شائستگی سے گرا ہوا نہیں تھا۔کوئی بھی ایک ایسا جملہ نہیں جو سچائی ،توازن اور حقیقت سے خالی ہے۔
مولانہ کے نقطۂ نظر سے سیاسی مکالمے کی معروف روایت میں اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔تاہم مولانہ کی سیاسی بصیرت ،شرافت ،بلند نگاہی،علمی حیثیت ،وضح داری اور خود داری پر کوئی سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا ۔مسلم لیگ کی قیادت نے متحدہ بھھارت میں جس خود غرض سیاسی ثقافت کو آگے بڑھایا اور فکری تنگ نظری کے حصار میں بند ہوکر یہ لوگ جس طرح ملک کی تقسیم میں برطانیہ اور ان کے رفقاء کے نظریاتی المیہ اور مفادات کی جنگ کا ہر اول دستہ بنے اس المیہ پر مولانا آزاد کی دور رس نگاہوں نے حالات کی سنگینی کو قوت سے پہلے محسوس کر لیا تھا ۔سچ یہ ہے کہ مولانہ کی سیاسی بصیرت ان بد ترین مضمرات کو دیکھ رہی تھی ،جو قامیت کی بنیاد پر الگ ملک کے قیام سے پیدا ہونے والے تھے۔اور یہ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ دو قہمی نظریہ اور قیام پاکستان کو انھوں نے قطعیت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا ۔بدقسمتی سے ملک تقسیم ہو گیا ۔مسلم لیگ اور مسلم سیاست کا کمزور ویژن تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہوگیا ۔
قیام پاکستان سے تقریباََ سوا سال قبل اپریل ۱۹۴۶ء جریدہ چٹان میں قیام پاکستان کو لے کر مولانہ نے کچھ پیشین گوئی کی تھی جو درج ذیل ہیں :۔
( ۱ )کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔
(۲) بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہوگا۔
(۳) پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان ہوگا اور جنگ کے امکانات ہوں گے۔
(۴) داخلی شورش اور علاقائی تنازعات ہوں گے۔
(۵) پاکستان کے صنعتکاروں اور نودلتیوںکے ہاتھوں میں قومی دولت کی لوٹ مار ہوگی۔
(۶) نودلتیوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور پیدا ہوگا ۔
(۷) نوجوانوں کی مذہب سے دوری ،عدم اطمینان اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کا ہی کمال تھا جو نہ صرف نظریہ پاکستان کے خالقین کے تصوراتی ممالک کے خدوخال پر ان کی گہری نگاہ تھی ،بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس وقت بھی سارا منظر اور پس منظر ماضی ،حال اور مستقبل کی جزئیات اور تفصیل کے ساتھ مولانا کی دوررس نگاہوں کے سامنے موجود تھا۔یہ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت ہی تھی جو قومیت کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے بھیانک مضمرات محسوس کر رہی تھی۔۱۹۴۷ء میں جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے،مولانہ نے خبر دار کیا تھا کہ میں ’’تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کا سر لیتی کے مدرسے سے وفاداری کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرو اور وہی زندگی اختیار کرو جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا ہے ۔میں کہتا ہوں کہ جو اجلے نقش و نگار تمھیں اس ہندوستان میں ماضی کی یادگار کے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمہارا ہی قافلہ تھا ،انھیں بھلاؤ نہیں ،انھیں چھوڑو نہیں ،ان کے وارث بن کر رہواور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت بھگا نہیں سککتی ۔آو عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے ،ہم اس کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے ۔‘‘
اسی طرح مولانہ نے رام گڑھ کے کانگریس کے ایک اہم اجلاس میں جو وقیع خطبہ دیا تھا وہ کچھ اس طرح سے تھا ۔
’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں ۔اسلام کے تیرہ سو برس کی شان دار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں ،میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ،اسلام کی تعلیم ،اسلام کی تاریخ ،اسلام کے علوم و فنون ،اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے ،اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ،بہ حیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچر ل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے ،لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں ،جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ،اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں ۔‘‘
مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کو سلام کیا جانا چاہیے ،کہ سانحہ تقسیم کے باوجود بھی بڑی حد تک ملک سیکولرزم کی راہ پر گامزن رہا اور اس کا سہرا بڑی حد تک مولانہ کے سر جاتا ہے ۔مولانہ کی قیادت ،ان کے تدبر ،ان کی شخصیت میں مرکوز ہندوستانی امتزاج ،سیکولرزم کے لیے ان کی جہد مسلسل اور ان کی مشترکہ تہذیب کی زندہ جاوید علامت ہونے کی بدولت ہی ہندوستانسیکولر بنا رہا اور ملک کے مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ مولانا آزاد جس شخصیت نے ان کی رہنمائی کی ۔مولانا آزاد پوری زندگی سیکولرزم کی نمائندگی کرتے رہے ۔سیاسی بصیرت کے نقطۂ کمال پر فائز آزاد کے خوابوں کا بھارت ایک مضبوط خود اعتمادی سے معمور سیکولر بھارت تھا۔
’’دنیا کو ہمارے ارادوں کے بارے میں شک رہا ہو،مگر ہمیں اپنے فیصلوں کے بارے میں شک نہیں گزرا۔وقت کا کوئی بھی الجھاؤ،حالات کا کوئی اتار چڑھاؤ ،اور معاملوں کی کوئی چبھن ہمارے قدموں کا رخ نہیں بدل سکتی‘‘۔۔۔۔۔امام الہند مولانا ابولکلام آزاد علامہ شورش کاشمیری کے ان اشعار کے ساتھ جو انھوں نے ۱۰مارچ ۱۸۵۸ء کو مولانا آزاد کے مزار پر لکھا تھا۔
کئی دماغوں کا ایک انساں میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہے
اترگئے منزلوں کے چہرے ،امیر کیا؟کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگ ِناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں
یہ کون اٹھا کہ دیرو کعبہ شکستہ دل ،خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے ،عوام پہنچے
تیری لحد پہ ہو رب کی رحمت ،تیری لحد کو سلام پہنچے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
الغرض مولانا ابولکالام آزاد کے سیاسی شعور اور مذہبی تقدس اور ان کی تمام فضیلتیں صرف ان کا رتبہ ہی نہیں تھیں بلکہ ان کی عظمت کا یہ راز ہے کہ انہوں نے شدت کے ساتھ عملی طور پر اپنے ہم وطنوں کی دماغی تربیت کی کوشش کی۔سیاست ،صحافت اور خطابت ان کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے کا وسیلہ تھے۔
اس انداز ،اس مزاج ،فہم و فراست ، علم و فضل ،تدبر و دانش کے کسی رہنما کو پیدا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔اس لیے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ آنے والے مورخین جب ہندوستان کی تاریخ لکھیں گے تو اس عالم دین ،اس مجاہد آزادی اور اس سیکولرانسان کو نمایاں مقام عطا کریں گے ،جس کا اصل نام محی الدین احمد تھا اور جسے ابولکلام آزاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ریسرچ اسکالرشعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی