9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر صبیحہ انور
موت زندگی کی ایک خاموش اور سفاک حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں ۔ ہر ذی روح کو ایک دن اس سچائی کا سامنا کرنا ہے مگر تفافل کے اس انداز کو کیا کہا جائے کہ ہم سب ہر پل اپنے آپ کو دنیا کی رنگا رنگی میں بہلائے رہتے ہیں اور اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے جھٹلائے رہتے ہیں۔ مگر جب اپنے ارد گرد سے کوئی جانا پہچانا مہر بان اور مشفق چہرہ ایک خبر بن کر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو دل ودماغ کو ایک جھٹکا سا لگتا ہے اور رونقوں کے بعد کی زندگی کی عیاری سامنے آجاتی ہے۔
اردو الے کئی مہینوں سے زندگی کے اس روپ کی سچائی کا سامنا کررہے ہیں۔ ایک شکل نظروں سے اوجھل ہوتی نہیں کہ دوسرے کی سناونی آ جاتی ہے۔
ملک زادہ منظور احمد صاحب کے نہ رہنے کا غم فطری ہے۔ یہ غم کسی ایک کا نہیں صرف لکھنؤ کا نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا کا ہے ۔ ایک شخص کی جدائی کا غم ہے جس نے اردو اوراردو کی لطافت کا پر چم پوری دنیا میں لہرایا ہے۔ اپنے دانشور نہ لہجے اور علمی متانت سے انہوں نے شعر فہمی کا ایک معیا ر مرتب کیا تھا۔
گزشتہ نصف صدی سے ملک زادہ صاحب اردو تدریس ،شعر وادب، تنقید وتحقیق اور مشاعروں کے ذریعے اردو شاعری اور زبان کی تہذیبی اقدار کے حوالے سے اردو والوں کے لئے فعال اور پسندیدہ شخصیت رہے۔ ان کے شاگر اور ان سے کسب نور کرنے والے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود ہیں ۔ ملک زادہ صاحب گو ر کھپور یونیورسٹی سے لکھنؤ یونیورسٹی آئے اوپھرلکھنؤ کے ہور ہے ۔ لکھنؤان کی اور وہ لکھنؤ کی شناخت بن گئے ۔ یہ ملک زادہ صاحب کی نیک نفسی اور علم دوستی ہے کہ ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے انہوں نے نظامت کو ایک فن بنادیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ فن ان سے شروع ہوکرانہیں پر ختم ہو گیا تو غلط نہ ہوگا۔۔۔نظامت صرف ایک مجمع کثیر کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہی نہیں ہوتا بلکہ ملک زادہ صاحب کی نظامت میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ناظم مشاعرہ کا بھاری بھر کم لب ولہجہ، اپنی کہی ہوئی بات پر یقین اور مجمع کی ذہنی تربیت بھی نظامت کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ مشاعروں میں جو کچھ پڑھا جائے وہ سامع کو صرف محظوظ ہی نہ کر ے بلکہ اس کے ذہن و دل میں اس شاعری کا احترام اور اس زبان سے محبت کر نے کا شوق بھی پیدا کرے۔ کچھ سمجھے اور مزید سیکھنے کا ذوق و شوق بیدار ہو۔۔۔۔اور یہ سب اس قدر لطیف اور باوقار انداز میں ہو کہ ناظم مشاعرہ مشاعرہ کی روح بن جائے ۔۔۔۔اپنے اندازتکلم سے ملک زادہ صاحب نے اپنی نظامت سے اردو کی یہ بہت بڑی خدمات انجام دی۔ ان کا منفردانداز تخاطب، اشعار کا برمحل استعمال اور عالمانہ سنجیدگی سے مشاعروں کو ادبی وقار تو ملا ساتھ ہی اردو کی خدمت بھی ہوئی ۔ اردو کی یہ خدمت انہوںنے بڑی سلیقگی اور شائستگی سے کی ۔ملک زادہ صاحب کی تصانیف اور ادبی کا رناموں کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے مگر ایک بات قابل غور ہے کہ جس سے میںبہت متاثر ہوں اور جس کا ذکر یہاںضرورکروں گی ۔ ملک زادہ صاحب کا تحقیقی مقالہ مولانا ابو الکلام آزاد کے فکروفن سے متعلق تھا، اس کے بعد ’’غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ‘‘ اور ’’مولانا ابوالکلام آزاد الہلال کے آئینہ میں‘‘، یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک زادہ صاحب ابو الکلام کے طرز تحریر اور لہجے کی گھن گرج سے خصوسی دلچسپی رکھتے تھے اورمولانا کے طرزِ تحریر اور تقریر کاخوب اثر ملک زادہ صاحب نے قبول بھی کیا تھا۔
اردو شعر و ادب اور اردو زبان کے لئے ملک زادہ صاحب کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔ ان سب کے علاوہ اردو کے حقوق کی باریابی کے لئے آل انڈیا اردو رابطہ کمیٹی کے حوالے سے ملک زادہ صاحب نے عملی جدوجہد کی اور جس طرح اردو کی بقاکے لئے کو شاں رہے ،ہم اردو والے ہمیشہ ان کے احسان مند رہیں تو بھی کم ہے۔
ملک زادہ صاحب کی خود نوشت’’رقص شرر‘‘ اور ان کی پر متانت شاعری وہ موضوعات ہیں جن پر گفتگو کے لئے طویل وقت درکار ہے۔ اپنی بات ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی نظم کے ان اشعار پر تمام کرتی ہوں۔
ہمارے شعروں میں مقتل کے استعار ے ہیں
ہماری غزلوں نے دیکھا ہے کوچہ قاتل
صلیب و دار پے نظمیں ہماری لٹکی ہیں
ہر ایک لفظ پر یشاں ہر ایک مصرعہ اداس
ہم اپنے شعروں کے مفہوم پر پشیماں ہیں
خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعد وہ لوگ
ضضض