9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عادل نصیر
چند روز قبل بس میں سفر کر رہا تھا اور دوران سفر بغل والی سیٹ پر سواریوں کی تبدیلی آخری اسٹاپ تک جاری رہی۔ پہلے ایک نوجوان کم عمر لڑکا براجمان ہوا اور بڑے ٹھاٹھ سے اس طرح بیٹھ گیا گویا یہ بس کی میلی سیٹ نہیں بلکہ اسکے والد کا شاہی تخت ہو اور آج اسکی تاج پوشی ہو۔ بہرحال میں سمیٹتا ہوا اپنے حصے میں آئی سیٹ پر سہم گیا کہ کہیں شہزادہ مجھ گستاخ کو پھانسی کی سزا نہ سنا دے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور وقت گزاری میں مشغول ہوا کہ دور جدید کے راج کمار نے بھی اپنی شاہی شناخت بچانے کیلئے مجھ سے مہنگا موبائل جیب سے نکالا۔ مجھ سے مہنگے کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ میں اسکے موبائل سے سستا گیا ہوں بلکہ یہ ہے کہ میرے موبائل سے مہنگا اسکا موبائل تھا۔ شہزادے موصوف نے اپنے موبائل کے کئی عملی اوصاف کئی منٹوں میں ہی پیش کئے اور مجھے مجبوراً اپنے دل سے زیادہ خستہ موبائل جیب میں رکھنا پڑا ۔ کافی دیر اِسی احساسِ کمتری میں گزری اور آخر کار شہزادے کا اسٹاپ آہی گیا ۔ جھٹ پٹ اس نے اتنی زور سے سیٹی بجائ کہ ایک ہی جھٹکے میں گاڑی سانس کی طرح رک گئی اور وہ ایک طنزیہ مسکراہٹ مجھ پر پھینک کر اتر گیا ۔ اسکے اترتے ہی جان میں جان آگئی اور یوں میں اس کے تختئہ شاہی پر قابض ہوا۔
ابھی احساس شاہی بالکل تازہ تازہ تھا کہ ایک خاتون اپنے دو سپہ سالار(بچوں) کے ساتھ نمودار ہوئی اور سر ہلا کر مجھے تخت چھوڑنے کا حکم دیا ، یا یہ کہیئے کہ دھمکی دی۔ جب محترمہ اپنے دو بچوں سمیت ایک سواری کی گنجائش والی سیٹ پر تشریف آور ہوئی یقین جانیے اگر بس کی مضبوط دیوار میری پلکوں کے جتنی کمزور ہوتی تو میں آنسو کے ایک قطرے کی طرح ٹپک جاتا ۔ مگر محترمہ میری حالت سے بے نیاز کبھی ایک بیٹے کو میری گود میں رکھ کر کیلا کھلاتی اور کبھی دوسرے کو تھپڑ سے چپ کرانے کی ناکام کوشش کرتی۔ ان کے شور سے ساری سواریوں کی توجہ ہم پر ہی تھی ۔ جب وہ ایک بیٹے کی طرف متوجہ ہوتی تو دوسرا میری طرف گھور کے دیکھتا اور مسکرا دیتا اور میں غصّے اور زہر میں ڈوبی ہوئی مسکراہٹ سے ان کی طرف گھورتا۔دو تین اسٹاپ پیچھے چھوڈے تو محترمہ کی منزل آ پہنچی اور چند سیکنڈ کیلئے راحت کا سانس نصیب ہوا ۔ ابھی کچھ سانسوں کا ہی تسلسل ہوا تھا کہ ایک پرجوش ،سفید ریش بزرگ ہماری تنہائی میں خلل ڈالنے آگیے ۔ ابھی موصوف نے سکون سے تشریف بھی نہیں رکھا تھا کہ میرا تعارف پوچھ بیٹھے۔ میں سمجھ گیا کہ منزل پر پہنچنے تک ضرور کوئی پیچیدہ سماجی مسئلہ حل ہوتے ہوتے رہ جائے گا۔ میں ابھی یہی سوچ رہا تھا تقدیس مشرق کے ثناخوان اور مرد مجاہد نے تیر کی طرح ایک جملہ میری سماعت پر دے مارا۔ “سنو! یہ آجکل کے لونڈے اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں میں کب سے منتظر تھا کہ کوئی مجھ بوڑھے کو سیٹ پیش کرے مگر مجال ہے کہ کوئی موبائل سے آنکھ اٹھا کر دائیں بائیں دیکھےاور اب تو کوئی سنتا بھی نہیں ،کان میں روئیاں ٹھونس کر گانے سنتے رہتے ہیں اور آس پاس کی خبر ہی نہیں رہتی ۔ بے وقوف”
وہ روانی اور غصّے سے اس طرح بول رہے تھے جیسے کوئی بندوق سے گولیاں برسا رہا ہو۔ اور میں منہ ان کی طرف کئے خوف و حسرت کی ملے جلے سنگم کے ساتھ سنتا رہا اور زبان سے صرف ایک لفظ خارج ہوتا رہا *”جی”* اور وہ ظالم بندوق بردار میرے “جی” پر اسطرح مسکراہٹ بکھیر دیتا جیسے دھاندلی سے الیکشن جتینے والا سیاست دان اپنے ووٹروں پر مسکرا دیتا ہے ۔ بحر کیف بس کے آخری اسٹاپ تک وہ یونہی مسلسل بولتے رہے۔
حق بھلا کرے اس ڈرائیور کا کہ مجھے اپنی منزل تک پہنچا ہی دیا ۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گھر کی جانب دوڑ پڑا ۔ گھر کے دروازے پر دستک دی اور ہماری بیگم صاحبہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے ہمارے استقبال کیلئے آنکلی۔ اسکی مسکراہٹ سے میرے اندر کا تمام غصّہ یک لخت لاوا کی طرح باہرنکلا ۔
یہ تحریر آج میں بارہ دن، پانچ گھنٹے اور تین منٹ بعد لکھ رہا ہوں اور بیگم صاحبہ کل ہی میکے سے لوٹی ہیں اور کچن میں برتن پیٹ رہی ہے۔
ہندوارہ کشمیر،7780912382
2) :- *ابھی ہم زندہ ہیں*
لاک ڈاون کے اعلان کو گاؤں کے تمام لوگ مفید اور مثبت قدم ٹھہرا رہے تھے۔ لوگوں نے سرکاری احکامات کو کھلے دل سےقبول کیا اور ڈاکٹروں کی بتائ ہوئ تدابیر پر بھی عمل کیا۔ ہر گھر کی صفائی ہوئی اور پورے گاؤں میں دواؤں کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ ماسک بنائے گئے ، دستانے لگائے گئے ۔ مسجد کمیٹی نے مسجد کی صفائی کی ، نمازیں مختصر کرائی گئیں ۔ وہ تمام کام نمٹاے گئے جو ضروری تھے۔ مگر مسجد کے سامنے رحمان کے جھونپڑے میں کچھ نہیں بدلا۔ اسکے بچے اب بھی ادھ ننگے گھوم رہے تھے۔
رحمان دن بھر مسجد کے صحن میں بیٹھا اگلے اکیس دن کی سختیوں کو برداشت کرنے کی تدبیر سوچ رہا تھا۔ سرکار نے امداد کا اعلان توکیا مگر میری باری آنے تک کہیں ۔۔۔
وہ زانو پر سر رکھ کے طرح طرح کے اوہام میں مبتلا تھا، کہ مسجد کمیٹی کے صدر صاحب نے اس کی پیٹھ تھپک کر کہا،
“رحمان ۔۔ تم پریشان کیوں ہو ۔ ابھی ہم زندہ ہیں۔”
عادل نصیر
ہندوارہ