مسلم معاشرہ کی مہلک بیماریاں اور ان کا علاج

0
545

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سید درالحسن الرضوی

ان الدین عنداللہ الاسلام۔ بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ خدا کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ ہم نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں اسلام کا چرچا ہے، اسلام کی تعلیم ہے اور اسلامی تہذیب کا درس ہے۔ برا ہو شیطان رجیم کا جس نے پہلے ہی دن اللہ تعالیٰ سے وقت معلوم تک (ایک طولانی زندگی) کا عہد لے کر اعلان کردیا کہ وہ اللہ کے مخلص بندوں کے علاوہ سب کو بہکائے گا اور گمراہ کرتا رہے گا۔ (حجر 26 تا 40 ) پروردگار عالم نے بھی ابلیس سے کہہ دیا کہ تیری اطاعت کرنے والوں سے جہنم کو بھردوں گا۔ عالم انسانیت کی اکثریت کو عقیدہ میں اس نے منحرف کیا اور ادھر سے مطمئن ہوگیا۔ قرآن، رسول اسلامؐ، اہل بیت طاہرین ؑ اور منتخب اصحابؓ کی سیرت و کردار و قربانیوں اور اقوال کے زیراثر جن لوگوں کے عقائد پختہ تھے وہ عقائد میں نہ بہک سکے تو ان کے اعمال و کردار پر شیطان نے حملہ کردیا۔ اور اس مہم میں اُسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ نتیجہ سامنے ہے کہ قوم کلمہ توحید و رسالت و ولایت پڑھنے کے بعد بھی جہل مرکب بنی ہوئی ہے، بیجا رسوم کی قید میں جکڑی ہوئی ہے، واجبات کی ادائیگی سے غافل ہے اور محرمات کی طرف بے خوف و خطر راغب ہے۔
آیئے قوم و ملت میں پھیلی ہوئی ان مہلک بیماریوں کا جائزہ لیں اور ان کے علاج کی ممکنہ صورت تلاش کریں۔ یہ یاد رکھئے کہ ’’اللہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک قوم کے افراد اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ (ان اللہ لا یغیرُہا بقوم حتی یغیروا مابانفسہم۔ سورئہ رعد آیت 11)
قوم کے بگڑتے ہوئے حالات میں نمایاں تبدیلی لانے کیلئے مندرجہ ذیل کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں:
۱۔ آل انڈیا مرکزی بورڈ۔
۲۔ آل انڈیا تعلیمی بورڈ۔
۳۔ آل انڈیا علماء کانفرنس۔
۴۔ آل انڈیا قومی تجارت/ سروسیز کمیٹی۔
علم و تعلم پر جہالت کا سایہ
کسی بھی قوم کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے۔ اسلام میں اس کی سخت مخالفت ہے۔ تبلیغ اسلام کی ابتدا سورئہ اقرأ کی پانچ آیتوں سے ہوئی جس میں پیغمبر اسلاؐم کو مخاطب کرکے دائرئہ اسلام میں قدم رکھنے والوں سے کہا گیا ’’اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اسی نے انسان کو علق (جمے ہوئے خون) سے پیدا کیا۔ پڑھو، پڑھو! تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم کا ہنر دیا۔ اور انسان کو وہ چیزیں سکھادیں جس کا اُسے علم نہیں تھا‘‘ علم انسانیت کا زیور ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ امیرالمومنین ارشاد فرماتے ہیں ’’کسی ظرف میں جب کوئی چیز رکھی جاتی ہے تو ظرف تنگ ہوتا جاتا ہے مگر علم کا ظرف وسیع تر ہوتا رہتا ہے‘‘ طالب علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مولا فرماتے ہیں ’’دو ایسے خواہشمند ہیں جو کبھی سیر نہیں ہوتے، ایک طالب علم اور دوسرا دنیا کا طلبگار‘‘ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے مگر عمل نہ کرے تو علم بھی جہالت میں بدل جاتا ہے۔ علم خدا کی عظیم ترین نعمت ہے۔ مولا فرماتے ہیں کہ ’’اس عظیم نعمت کو گناہوں میں نہ بدلو‘‘ آپ علم اور مال کا تقابل کرتے ہوئے کمیل ابن زیاد سے فرماتے ہیں ’’علم مال سے افضل ہے اس لئے کہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے، مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم۔‘‘ علم اور عالم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے امام محمد باقر ؑ ارشاد فرماتے ہیں ’’وہ عالم جس کے علم سے فیض حاصل ہو 70 ہزار عبادت گذاروں سے افضل ہے۔‘‘
افراد قوم و ملت سے سوال ہے کہ وہ دنیا میں عزت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں یا ذلت کی؟ اگر عزت، خوشی اور سکون چاہتے ہوں تو خود کو اور بچوں بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کیجئے۔ جوش میں آکر نعرے لگانا بہت اچھی بات ہے مگر صرف نعرئہ تکبیر، نعرئہ رسالت اور نعرئہ حیدری نہ لگایئے بلکہ علم حاصل کرکے اللہ کی رضا اور اہل بیت طاہرین ؑ کی خوشنودی حاصل کیجئے اور پرسکون زندگی بسر کیجئے۔
یقینا ہماری قوم میں تعلیمی ادارے بہت کم ہیں۔ انہیں وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف والدین اور سرپرست حضرات کو بچوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینا بیحد ضروری ہے۔ اسٹینڈرڈ تعلیمی ادارے قائم کرنے کیلئے مالی امداد ضروری ہے۔ مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے۔ مفکرین اور مدبرین کا ایک تعلیمی بورڈ ہونا چاہئے جو مختلف بستیوں کا دورہ کرکے تعلیم و تعلم کا پروجیکٹ تیار کرکے مرکزی بورڈ کے سامنے پیش کرے اور بورڈ اسے جلد سے جلد عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے۔ تعلیمی بورڈ کو ہونہار طلباء کی کوچنگ کا مناسب انتظام بھی کرنا چاہئے۔ اس وقت قوم کو صرف ایک کلب صادق مدظلہ العالی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان سے روشنی سبق، تجربہ اور حوصلہ حاصل کرکے قوم کے مفکر و مدبر حضرات کو بلاجھجک میدان میں آکر جہالت کے پرہول سایہ سے ملت کو بچانے کی ضرورت ہے۔
تجارت: جب باعزت اور سکوں بخش نوکریوں کے راستے تنگ ہیں تو قوم کے نوجوانوں کو تجارت کی طرف مائل کرنے کی ضرورت ہے۔ تجارت میں بڑی برکت ہے۔ خوجہ حضرات تجارت ہی کے ذریعہ ماشاء اللہ پھل پھول رہے ہیں۔ قرآن مجید میں بار بار نماز کے قیام کے ساتھ زکوٰۃ دینے کا حکم موجود ہے۔ زکوٰۃ وہی نکال سکتا ہے جس کے پاس کافی سونا، جانور یا غلہ موجود ہو۔ یعنی اسلام مسلمانوں کو دولتمند دیکھنا چاہتا ہے، فقیر اور نادار مسلمان اُسے پسند نہیں ہیں۔
مولائے کائنات فرماتے ہیں کہ ’’فقیری سب سے بڑی موت ہے… آگاہ ہوجائو کہ فقر و فاقہ ایک عظیم مصیبت ہے۔ فقر سے زیادہ سخت جسمانی امراض ہیں، جسمانی امراض سے زیادہ سخت دل کا مرض ہے۔ یاد رکھو! مال کی فراوانی ایک نعمت ہے مگر مال کی فراوانی سے بہتر بدن کی صحت ہے اور صحت بدن سے بہتر دل کی پرہیز گاری ہے… فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ فقیری (۱) دین کے لئے نقص ہے۔ (۲) عقل کے لئے وحشت اور پریشانی ہے اور (۳) لوگوں کی نظر میں حقارت اور نفرت کا باعث ہے۔‘‘ (کلمات قصار نہج البلاغہ)
تجارت کے پیشے کو فروغ دینے کیلئے ایک بزنس بیوروہونا چاہئے اس بیورو میں خوجہ حضرات کو بھی ایکٹیو ممبر بنایا جائے تاکہ ان سے مالی امداد بھی حاصل ہو اور تجارت کی تکنیک بھی مل سکے۔
بے جا رسم و رواج اور فضول خرچی
شادی بیاہ: اس وقت شادیاں غیرمعمولی حد تک اسلامی احکام کے خلاف ہورہی ہیں مثلاً (۱) نکاح سے پہلے اسٹارٹر کے نام سے فضول خرچی۔ (۲) کھانے میں مختلف انواع و اقسام کی بے شمار ڈشیں۔ (۳) غیرمسلم ویٹرس کے ہاتھ سے کھانے کی سروس۔ (۴) عورتوں اور لڑکیوں کا بھرپور بنائو اور سنگار کے ساتھ کھلے عام ٹہلنا، گھومنا اور نامحرم لڑکوں سے ہنسنا بولنا۔ (۵) نامحرم اور غیرمسلم فوٹو گرافرس کا عورتوں کے درمیان فوٹو گرافی کرنا اور مووی بنانا۔ (۶) بے شمار باراتی اور گھراتی مدعوئین کی تعداد۔ (۷) حد سے سوا سجاوٹ اور بڑے بڑے میریج ہال/ ہوٹلوں پر خرچ وغیرہ۔ یہ سب غیراسلامی امور ہیں جن کے احتساب ہوگا۔
کیا ہمیں قرآن پر یقین ہے؟ کیا ہم اہل بیت ؑ طاہرین کو دل سے مانتے ہیں؟ کیا ہمیں جنت اور جہنم پر یقین ہے؟ اگر ہے تو آیئے دیکھیں قرآن کیا کہہ رہا ہے۔ ’ولاتبذمر تبذیراً۔ اِن المبذیرینَ کانوا اخوان الشیٰطین۔‘ (بنی اسرائیل: 26 و 27) یعنی ’’دولت کو بیجا مت اُڑائو۔ کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘ جہاں تک نجاست اور طہارت کا مسئلہ ہے، قرآن مجید میں واضح لفظوں میں اعلان ہے کہ مشرکین نجس العین ہیں۔ (سورئہ توبہ 28 ) جس طرح کتا اور سور نجس العین ہیں اسی طرح یہ بھی نجس محض ہیں۔ عورتوں کے حجاب سے متعلق قرآن آنحضرؐت سے درخواست کررہا ہے کہ ’’مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنے بنائو سنگار کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں مگر جو خود بخود ظاہر ہوجاتا ہو۔ اور چادر (دوپٹہ یا اوڑھنی) کو (گھونگھٹ مارکے) اپنے گریبانوں (سینوں) پر ڈالے رہیں۔ مگر اپنے شوہر پر، اپنے باپ پر، شوہر کے باپ پر، اپنے بیٹوں پر، شوہر کے بیٹوں پر، اپنے سگے بھائیوں پر، سگے بھتیجوں پر، سگے بھانجوں پر، اپنی جیسی عورتوں پر، کنیزوں پر، بزرگ و بوڑھے نوکروں پر، ناسمجھ بچوں پر جو پردے کا مفہوم بھی نہ سمجھتے ہوں (ان سے یہ پردہ ضروری نہیں ہے مگر) ان کے علاوہ کسی پر بنائو سنگار نہ ظاہر ہونے دیں۔ اور پیروں کو اس طرح زمین پر نہ رکھیں کہ ان کے چھپے ہوئے بنائو سنگار ظاہر ہوجائیں۔ (یعنی میریج ہال وغیرہ میں بنائو سنگار کے ساتھ مٹک مٹک کر نہ چلیں) اور جن سے ایسی غلطیاں ہوچکی ہیں وہ سب کی سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں تاکہ فلاح و بہبود حاصل ہو۔ (نور 31) جہاں عورتوں کے لئے مندرجہ بالا نصیحتیں ہیں وہیں مردوں کے لئے بھی صریحی حکم موجود ہے کہ ’’اے پیغمبرؐ! مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نظروں کو جھکاکر رکھیں، اپنی عفت کی حفاظت کریں، اسی میں ان کی پاکیزگی ہے۔ بیشک اللہ ان کی تمام حرکتوں سے بخوبی واقف ہے۔ (نور 30 )
شادیوں میں فوٹو گرافی اور مووی کا چلن عام ہے، اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ شریف اور پردہ دار عورتوں کی شادیوں میں شرکت ایک مصیبت ہے۔ نہ شریک ہوں تو دولھا/ دولھن کے گھر والوں کو شکایت ہو، اور اگر میریج ہال پہونچ جائیں تو پردہ قائم رکھنا مشکل، بلکہ ناممکن۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ مووی گھر کی لڑکیاں بنائیں۔ اب تو موبائل بھی مووی کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ نامحرم مردوں کو عورتوں کے درمیان بھیج کر گنہگار بنیں۔ لڑکیاں اپنے موبائل کے ذریعہ خاطر خواہ مقصد حاصل کرسکتی ہیں۔
شادیوں میں بے حساب فضول خرچی کا ایک سماجی نقصان بھی ہے۔ سماج میں جہاں کچھ لوگ صاحب حیثیت ہیں وہیں کمزور مالی حالت والوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ اس نابرابری کا نتیجہ بہت برا ہے۔ غریب کو شادی کیلئے قرض لینا پڑتا ہے پھر تاحیات اس کا سکون چھن جاتا ہے۔ اچھی، مہذب، دل پسند غریب گھر کی بچی صرف کمزور مالی حالت کی وجہ سے کسی جاہل یا بے روزگار سے بیاہ دی جاتی ہے۔ چند دنوں کے بعد اس کا سنہرا خواب بکھر جاتا ہے نتیجہ مارپیٹ اور پھر طلاق تک پہونچ جاتا ہے۔ کاش صاحب حیثیت افراد اپنی فضول خرچی کو کم کرکے کمزور طبقہ کی بچیوں کی شادی کا سہارا بن جائیں۔
جہیز: جہیز بھی سماج میں ایک تکلیف دہ مسئلہ ہے۔ یقینا جہیز گناہ نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ آنحضرؐت نے جب اپنی پارئہ جگر فاطمہ زہراؐ کی شادی کی تو حضرت علی ؑ سے پوچھا کہ مالِ دنیا میں تمہارے پاس کیا ہے؟ جواب ملا کہ ایک زرہ اور ایک تلوار۔ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ تلوار بہادروں کی ضرورت ہے مگر اے علی ؑ تمہارے جیسے شجاع کیلئے زرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے فروخت کرکے جہیز اور مہر کا انتظام کرو۔‘‘ یہ مسلمانوں کے لئے سبق ہے۔
عزاداری کے طریقہ میں اصلاح کی ضرورت: یہ ایک بہت ہی حساس موضوع ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عزاداری ہماری روح و جان ہے۔ عزادار سرکار دوعالمؐ کی آرزو ہیں، مولائے کائنات ؑ کی تمنا ہیں اور معصومہ کونین ؑ کی دعا ہیں۔ لیکن اتنا عظیم درجہ حاصل کرنے کیلئے سچا عزادار بننا ضروری ہے۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر دل کی گہرائیوں سے سوچئے اور جواب خود تلاش کیجئے۔ کیا نماز فجر کی پرواہ کئے بغیر رات میں دو تین بجے تک نوحہ و ماتم کرکے سوجانے سے امام حسین ؑ کو خوشی حاصل ہوگی؟ رات بھر لائوڈ اسپیکر پر نوحہ و ماتم کرکے بوڑھوں، مریضوں اور غیرمسلم و غیرشیعہ حضرات کی نیند خراب کرنے اور انہیں ذہنی تکلیف پہونچاکر ان کی بددعائوں کو سن کر امامؑ خوش ہوں گے؟ عورتوں کی مجلس و ماتم لائوڈ اسپیکر پر نشر ہونے سے، وہ مولائے کائنات جو سر پر ضربت لگنے کے بعد گھر سے قریب ہونے پر بیٹوں سے کہہ رہے ہوں کہ میرے چاہنے والوں کو اب رخصت کردو، ایسا نہ ہو کہ زینب و اُم کلثوم کے گریہ و بکا کی آواز نامحرموں کے کان تک پہونچے، کیا مولا ان مجلسوں سے راضی ہوں گے؟ کیا مجلسوں میں تبرک کے نام پر مقابلہ بازی سے امامؑ کو خوشی حاصل ہوگی؟ کیا ہر مجلس میں تبرک تقسیم ہونے کے وقت پہونچ کر پورے خاندان کا تبرک لے کر اسے سڑانے گلانے کے بعد کوڑے دان کے حوالے کرنے سے اللہ، اس کا رسولؐ اور اہل بیت طاہرین ؑ راضی اور خوشنود ہوں گے؟ دل کی گہرائیوں سے سوچئے اور ہر اس عمل سے پرہیز کیجئے جو ثواب کے بجائے قہر الٰہی کا سبب بنے۔
علماء، خطباء اور ذاکرین کرام کی ذمہ داریاں: ہمارے علماء ’نائب امام عصرؑ ہیں۔‘ یقینا ان کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔
؎ جن کے رُتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے۔
علماء کی پہچان قرآن حکیم نے اس طرح بیان کی ہے ’’انما یخشی اللہ من عبادہٖ العلماء‘‘ اللہ کے بندوں میں اللہ سے بس وہی ڈرتے ہیں جو عالم ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ جو عالم ہوگا اُسے اللہ کی معرفت حاصل ہوگی مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں ’’عالم و دانا وہ ہے جو رحمت خدا سے مایوس نہ کرے اور اس کی طرف سے حاصل ہونے والے آرام و آسائش سے نااُمید نہ کرے اور نہ اللہ کے عذاب سے انہیں بالکل مطمئن کردے‘‘ (کلمات قصار) بصد ادب علماء، خطباء اور ذاکرین کرام سے دست بستہ التماس ہے کہ ناچیز کے مندرجہ بالا مضمون کے پیش نظر سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اور گناہ سے ہمکنار کرنے والی رسموں اور جو اُن کی نظر میں خلاف شریعت امور انجام دیئے جارہے ہیں ان پر کھل کر مجلسوں میں تبصرہ فرمائیں اور ہر مجلس میں کم از کم ایک مسئلہ ضرور بیان فرمائیں تاکہ معاشرہ سے برائیاں کم ہوں اور نیکیوں میں اضافہ ہو۔ نکاح پڑھنے کے لئے یا شادی میں شرکت کے لئے جب مومنین وعدہ لینے آئیں تو ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ شریعت کے خلاف اگر کوئی کام انجام دیا جائے گا تو وہ شرکت نہیں کریں گے اور نکاح نہیں پڑھیں گے۔ یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے۔
آخر میں مولائے کائنات کے خطبہ کا ایک حصہ پیش ہے۔ مولا کے چاہنے والے اسے پڑھیں اور سبق حاصل کرکے مولائی ہونے کا ثبوت دیں۔ مولا فرماتے ہیں: ’’جن چیزوں کو تمہارے مرنے والوں نے دیکھا ہے اگر تم بھی انہیں دیکھ لیتے تو گھبرا جاتے سراسیمہ اور مضطرب ہوجاتے اور حق کی بات سنتے اور اس پر عمل کرتے۔ لیکن جو انہوں نے دیکھا ہے وہ ابھی پوشیدہ ہے اور قریب ہے کہ تمہاری نظروں سے وہ پردہ اُٹھا دیا جائے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ عبرتیں تمہیں بلند آواز سے پکار چکی ہیں… (خطبہ 79 ) خدا کی قسم وہ چیز جو سراسر حقیقت ہے، ہنسی کھیل نہیں ہے بلکہ سرتاپا حق ہے وہ موت ہے… زندہ لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ نہ دے (کہ موت کو بھول جائو)… جس شخص نے اپنے دل کو تقویٰ شعار بنا لیا وہ نیکیوں میں سبقت لے گیا، اس کے دل کو سکون حاصل ہوا۔ پس تقویٰ حاصل کرنے کا موقع غنیمت سمجھو اور جنت کے لئے جو عمل ہونا چاہئے اُسے انجام دو کیونکہ دنیا تمہاری قیام گاہ نہیں ہے بلکہ یہ تمہاری گذرگاہ ہے تاکہ تم اس میں رہ کر اپنی مستقل قیام گاہ کیلئے زاد (عمل صالح) اکٹھا کرسکو۔ اس دنیا سے نکل کر آخرت کے سفر کیلئے آمادہ رہو اور کوچ کے لئے سواریاں (اعمال صالحہ) اپنے سے قریب کرلو۔‘‘ (خطبہ 82)
واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
٭٭٭
نوٹ: محترم قارئین سے التماس ہے کہ اس مضمون کو پڑھیں اور اپنے قیمتی خیالات سے اودھ نامہ کو مطلع فرمائیں۔

موبائل نمبر: 9450549586
خخخ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here