9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شوکت محمود شوکتؔ
بہت دقتیں اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے، آخر کار وہ اپنے مرشد تک پہنچ گیا، مرشد سے ملتے ہی اس نے اپنی دکھ بھری بپتا سنائی جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ وہ مالی بحران کا سخت شکار ہے، کاروبار تباہ ہو چکا ہے، بیوی اس کی غریبی کو دیکھ کر اپنے میکے سدھار چکی ہے، دن ہیں کہ بجائے سنورنے کے، مزید بگڑتے جا رہے ہیں، اس کا ذاتی گھر بک چکا ہے، نوبت فاقوں تک آ چکی ہے،لہذا اس کے حق میں کوئی دعائے خاص ہونی چاہیے جو اس کے ان خراب حالات کو فوراً درست کر دے، پریشانیوں کی جگہ خوشیوں کا دور دورہ ہو جائے۔ مرشد نے اس کی دکھ بھری کہانی سنی اور کہنے لگا، بیٹا۔۔۔ دعائیں یوں مفت میں نہیں دی جا سکتیں، کوئی تحفہ کوئی نذرانہ، مرشد کے حضور پیش کرو گے تو تب کہیں جا کر دل سے دعا نکلے گی۔ تم اس وقت جاؤ اور لنگر سے کھانا کھاؤ، تمھیں بھوک لگی ہو ئی ہو گی۔ اور ہاں۔۔۔
کھانا کھانے کے بعد، مرشد کے پاس تب تک نہیں آنا جب تک کوئی قیمتی تحفہ یا بیش بہا نذرانہ ساتھ نہ ہو۔۔۔۔ مرشد کی ان باتوں سے وہ سخت مایوس ہوا، اسے وہ دور یاد آنے لگا تھا کہ جب ہر سال وہ مرشد کے والد صاحب کے عرس کے انعقاد پر، لنگر میں پکنے والے انواع و اقسام کھانوں کے لیے لاکھوں روپے نذرانے کے طور پر دیا کرتا تھا، اور آج اس کی غربت کو دیکھ کر، مرشد نے اسے مفت دعا دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنے مرشد کی خانقاہ سے نکل آیا ، خانقا ہی لنگر خانے سے کھانا کھانے کی بجائے وہ سرکاری لنگر خانے کی طرف چل دیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ٹھنڈا پانی پیا، سیر ہو کر کھانا کھایا اور دل ہی دل میں اس نئی حکومت کو دعا دی کہ جس نے سرکاری لنگر خانوں کاانتظام و انصرام احسن طریقے سے کیا تھا۔
سرکاری لنگر خانے سے نکل کر وہ سامنے ایک بڑے سے میڈیکل اسٹور میں داخل ہوا اور وہاں کاؤنٹر پر کھڑے پیرا میڈیکل اسٹاف کے ایک نوجوان سے اس نے دو گولیاںسر درد کی طلب کیں کیوں کہ تھکاوٹ اور بے آرامی کی وجہ سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا، کاؤنٹر پر کھڑے اس نوجوان نے اس کی طرف دو گولیاں سر درد کی بڑھائیں، مگر جب پیسے دینے کی بات ہوئی تو اس نے کہا کہ ایک تو وہ پردیسی ہے یہاں اس کا کوئی جاننے والا نہیں ہے، دوسری بات یہ کہ اس کی جیب اس وقت بالکل خالی ہے البتہ زندگی میں کبھی اس کے ہاتھ پیسا آلگا تو ان گولیوں کی دگنی قیمت چکادے گا۔ اس نوجوان نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا اور برہمی سے بولا کہ، اچھا یہ لو اورجاؤ۔۔۔ آ جاتے ہیں بھکاری جانے کہاں کہاں سے۔۔۔ میڈیکل اسٹور سے نکلنے کے بعد، اس نے ہوٹل کی تلاش شروع کر دی تا کہ وہاں چائے کے ساتھ یہ گولیاں حلق میں اتارسکے۔ چند قدموںکے فاصلے پر اسے ایک ہوٹل نظر آیا، وہ بڑے اطمینا ن سے ایک خالی کرسی پر بیٹھا اور چائے کا آرڈر دیا۔ چائے کے ساتھ اس نے سر درد کی دونوں گولیاں لیں۔ کافی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد،وہ وہاں سے اٹھا اور دائیں طرف کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے ہوٹل کے مالک کے سامنے کھڑا ہوا، اپنے حواس مجتمع کرتے ہوئے اور ہمت سے کام لیتے ہوئے، اس نے وہی باتیں ہوٹل کے مالک سے بھی بیان کیں کہ اس شہر میں وہ پردیسی ہے، جیب خالی ہے، چائے کے پیسے ادا کرنے سے قاصر ہے جب،اس کے پاس دولت آ
جائے گی تو وہ ضرور اس چائے کی پیالی کی دگنی قیمت ادا کرد ے گا۔البتہ، یہاں اس نے ایک جملے کا مزید اضافہ بھی کیا کہ، دیکھیں جناب، وہ کوئی پروفیشنل بھکاری نہیں ہے، بس حالات نے اسے بھکاری بنا دیا ہے۔ہوٹل کے مالک نے جب اس کی یہ روداد سنی تو اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے اپنے پاس پڑی ایک کرسی پربٹھایا اور اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر اسے ہوٹل میں ویٹر کا کام سونپ دیا جائے تو کیا وہ یہ کام کرے گا؟ اسے تین وقت کا کھانا اور رہائش بھی ہوٹل مفت فراہم کرے گا، حال آں کہ اس ہوٹل کااصول ہے کہ بغیر ضمانتی کے ( اور وہ ضامن بھی اس شہر کا ناگرک ہو)، یہ ہوٹل کسی کو ملازمت نہیں دیتا مگر وہ شکل سے بھلے مانس اور شریف آدمی لگتا ہے، لہذا، وہ اگر اس ہوٹل میں ویٹر کام کرنا چاہتا ہے تو اپنا اصل شناختی کارڈ ہوٹل کے مالک کے پاس جمع کرا دے، جہاں تک تنخواہ کا تعلق ہے وہ اسے ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو نو ہزار روپیامل جایا کرے گی مطلب تین سو روپے روزانہ کے حساب سے۔۔۔۔ نیز ایک اور شرط یہ بھی ہے کہ مہینے سے پہلے وہ ہوٹل کی یہ ملازمت چھوڑ کر نہیں جائے گا اگراس نے ایسا کیا تو اس کی ان خدمات کے عوض،اسے ایک پائی بھی ہوٹل ادا نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔ اس نے جب ہوٹل کے مالک کی یہ باتیں سنیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ سوچنے لگا کہ کہاں کروڑوں میں کھیلنے والا، گاڑیوں میں گھومنے والا، کہاں ایک ہوٹل میں معمولی ویٹر کی جاب۔۔۔۔۔۔ بہرحال، وہ جو مثل مشہور ہے کہ ’’اندھاکیاچاہےدو آنکھیں‘‘۔۔ ۔ اس نے بھی تھوڑے سے توقف کے بعد ہاں کر دی۔
دوسرے دن سے اس نے ویٹر کے طور پر ہوٹل میں کام کا آغاز کیا، صبح ناشتے سے لے کر عشائیہ ( ڈنر) تک ، کافی لوگ آتے جاتے رہے، ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی چیز منگواتا رہا اور ویٹر صاحب ان کے سامنے چیزیں لا لا کر رکھتے رہے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد، جب وہ بل ان کے سامنے رکھتا تو کچھ لوگ اسے ٹپ بھی دیتے رہے۔۔۔ وہ ٹپ لیتے ہوئے ہچکچاہٹ سی محسوس کر رہا تھا۔بہرحال ایسا کئی بار ہوا آخر کار رات کے دس بج گئے اورہوٹل بند ہوا۔اس نے بھی ڈنر کیا اور وہ ہوٹل کے اس کمرے میں آیا جو اس کی اب رہائش گاہ بن چکی تھی، وہ سخت تھک چکا تھا مگر جیب سے اس نے ٹپ کے طور پر دیے گئے پیسے جب گنے تو وہ پورے سات سو روپے تھے، اس کی تھکن اچانک جیسے دور ہو گئی ہو۔ پھر وہ فرش پر بچھے قالین پر لیٹ گیا اور لیٹتے ہی اسے نیند نے آ گھیرا۔۔۔
صبح فجر کی اذان کے ساتھ اس کی آنکھ خود بخود کھل گئی ۔ اس نے غسل کیا اور نیچے ہوٹل کے ہال میں جا پہنچا، ابھی پو پھٹنے میں تھوڑا وقت تھا۔ اس نے جلدی جلدی ہال میں رکھے گئے میزوں کو کپڑے سے صاف کیا اور ہر میز پر ایک پانی سے بھرا جگ اور دو شیشے کے بنے گلاس رکھے۔ اس دوران میں کچھ لوگ ہوٹل کے ہال میں ناشتے کے لیے آئے اس نے ان کے سامنے حسبِ فرمائش ناشتا رکھا، اس کے بعد لوگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا وہ جلدی جلدی ان سب کے سامنے ناشتا رکھتا جاتا، وہ لوگ ناشتا کر چکنے کے بعد، ہوٹل کے ہال سے سیدھا باہر نکل جاتے، یہ سب ملازم پیشے لوگ تھے، جنھوں نے ناشتے کے فوراً بعد اپنے اپنے آفس یا فرائض منصبی ادا کرنے کی جگہ پہنچنا تھا،ان لوگوں نے اس ہوٹل میں پورے مہینے کے لیے تین وقت کے کھانے ( ناشتا، دوپہر کا کھانا اور عشائیہ) کی بابت پیشگی رقم چکا دی تھی، اس لیے ان لوگوں سے اسے ِکوئی ٹپ نہیں ملی۔ صبح نو بجے تک ایک بار سارا ہال خالی ہو گیا۔ اس کے بعد، پھر لوگوں کا آنا شروع ہوا کچھ لوگ صرف چائے پینے کے واسطے آتے رہے اور کچھ ناشتا کرنے کی غرض سے۔ ان میں سے کچھ اشخاص نے اسے ٹپ بھی دی۔
ناشتے کا وقت جب ختم ہوا، گاہگوں کی آمدورفت ختم ہوئی تو وہ تھوڑی دیر کے لیے ایک دوسرے ویٹر کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ دوپہر کے کھانے میں ابھی کتنا وقت باقی ہے تو اس نے اسے بتایا کہ دوپہر کے کھانے میں دو گھنٹے باقی ہیں۔ وہ وہاں سے سیدھا ہوٹل کے مالک کے پاس آیا اور اس سے ایک گھنٹے کی اجازت طلب کی تا کہ وہ اپنے لیے نئے کپڑے سلوا سکے، کیوں کہ اس کے پاس سوائے اس جوڑے کے، کہ جو اس نے پہنا ہوا تھا، کوئی اور کپڑوں کا جوڑا نہیں تھا، ہوٹل کے مالک نے اسے اجازت دے دی، اس نے بازار سے کپڑا خریدنے کی بجائے تیار کپڑوں کا جوڑا ( ریڈی میڈ سوٹ)، چھے سو بچاس روپے میں خریدا اور واپس ہوٹل آکر، اس کپڑے کے جوڑے کو اپنے کمرے میں فرش پر رکھا اور ہوٹل کے ہال میں دوبارہ جاپہنچا۔
دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو لوگ آتے رہے، کھانا کر جاتے رہے۔ وہ ان کے سامنے کھانا رکھتا اور کھانا کھا لینے کے بعد، برتن سمیٹتا رہا۔ عشائیہ (، ڈنر) کے لیے بھی لوگ آئے اور کھانا کھانے کے بعد چلے گئے، کچھ صاحبِ ثروت اصحاب نے اسے ٹپ بھی دی۔ اب وہ ٹپ لینے کا عادی ہو گیا تھا۔۔
اسی طرح پورے مہینے ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتے کرتے گزرا، اس دوران میں اس کی ڈاڑھی بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی، اگلے روز ناشتے کے آغاز سے قبل، وہ سیدھا ہوٹل کے مالک کے سامنے کھڑا ہوا ، اپنا شناختی کارڈ طلب کیا اور کہا کہ اس سے مزید یہ کام اب نہ ہو سکے گا لہذا، عنایت ہوگی کہ اسے نہ صرف اپنی تنخواہ عطا کی جائے بلکہ اسے اب واپس اپنے شہر جانے کی اجازت بھی دے دی جائے، زندگی رہی تو وہ ملاقات کے لیے ضرورحاضر ہوتا رہے گا۔۔۔ ہوٹل کے مالک نے اسے پہلے اس کا شناختی کارڈ واپس کیا، پھر اسے نو ہزار روپے تنخواہ کی بجائے آٹھ ہزار نو سو چالیس روپے تنخواہ دی کیوں کہ ہوٹل میں پہلے دن اس نے جو چائے پی تھی، ہوٹل کے مالک نے اس کی دگنی قیمت( ساٹھ روپے) اس کی تنخواہ میں سے کاٹ لی تھی اور اسے اپنے شہر جانے کی اجازت دے ڈالی۔جب وہ ہوٹل سے نکلا، تو اس کی جیب میں کل( تنخواہ ، بالشمول ٹپ کی رقم کے) اٹھارا ہزار سات سو چالیس روپے تھے، وہ سیدھا بس اسٹاپ کی طرف آیا اور اپنے شہر جانے والی ایک بس میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے راستے میں وہ یہی سوچتا رہا کہ شہر میں تو اس کا کوئی اپنا ہے ہی نہیں، تو وہ کس کے پاس جائے گا، اپنا ذاتی گھر تو وہ دو سال پہلے ہی غربت کی وجہ سے بیچ چکا تھا اب وہ، جس کرائے کے مکان میں رہتا تھا اسے بھی مالکِ مکان نے اپنا ذاتی تالا لگا دیا تھا کیوں کہ اس نے تین مہینے کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا، مالکِ مکان نے اسے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اگلے ماہ تک کرایہ ادا نہ کیا تو وہ اس کا سارا سامان، جو مکان کے اندر ہے، بیچ دے گا۔ وہ انھی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ کنڈکٹر نے اس کے شہر کی آواز لگائی۔ تھوڑی دیر کے بعد، وہ اپنے شہر کے بس اسٹاپ پر اتر گیا تھا۔
اس نے بس سٹاپ پر رکشا پکڑا اور سیدھا مالکِ مکان کے گھر پہنچا،بیل بجائی اور مالکِ مکان کے دروازے کے دائیں طرف کھڑا ہوا تھوڑی دیر میں مالکِ مکان باہر نکلا اس نے چھے ہزار روپے تین مہینے کا کرایہ یعنی دو ہزار فی مہینا کے حساب سے مالکِ مکان کے ہاتھ پر رکھے اور اپنے مکان کی چابی مانگی ، مالکِ مکان نے پیسے جیب میں رکھے،گھراندر گیا اور چابی لا کر اس کے حوالے کر دی۔وہ اپنے اسی کرائے کے مکان میں داخل ہوا ۔ وہاں چند ضروری دستاویزات اور اس کے چند سلے ہوئے کپڑے الماری میں پڑے ہوئے تھے ، اس نے یہ سب سامان ،وہاں سے نکال کر بریف کیس میں ڈالا، باقی استعمال میں نہ آنے والے سامان کو اسی کمر ے میں رہنے دیا اورسیدھا مالکِ مکان کے گھر پہنچ کر چابی اس کے حوالے کر دی اور تاکید کر دی کہ وہ اس کا مکان ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہا ہے ۔اس کے بعد اس نے بس اسٹاپ کا رخ کیا، اس کا خیال تھا کہ وہ باقی زندگی اسی ہوٹل میں ویٹر کے طور پر گزارے گا مگر جب بس اسٹاپ پر پہنچا تو اس کے ذہن میں ایک نیا خیال عود کر آیا جس کے آتے ہی اسے ایک خوشی کا احساس ہواپھر اس کے قدم ایک ’’خیموں کی دکان‘‘کی طرف بڑھنے لگے وہاں پہنچ کر اس نے ایک خیمہ خریدا ساتھ ہی قالین والے کی دکان سے ایک چھوٹی سی قالین خریدی ، قریب ہی ایک اسلامک شاپ سے جائے نماز،تسبیح اور ایک سفید ٹوپی بھی خریدی، اس نے سفید ٹوپی سر پر رکھی، جب کہ تسبیح اور جائے نماز، بریف کیس کھول کر اس میں رکھے اور بریف کیس بند کر دیا۔ اس سارے سامان کے ساتھ وہ دوبارہ رکشے کے ذریعے بس اسٹاپ پر پہنچا ، ایک بس میں بیٹھنے سے پہلے کنڈکٹر سے کہا یہ قالین اور خیمہ بس کی چھت پر رکھ دے۔کنڈکٹر نے اس کا سامان چھت پر رکھا ، اس نے اپنا بریف کیس اپنے ہاتھ میں رکھا اور بس کے اندر بیٹھ گیا۔اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور اس کی منزل کون سی ہے۔ مگر جب کنڈکٹر نے اس کی محویت توڑی کہ اس نے کہاں جانا ہے تو اس نے کہا کہ اس بس کا جو آخری اسٹاپ ہے، میں نے وہاں تک جانا ہے۔ کنڈکٹر نے اس سے چھے سو روپے لیے اور آخری اسٹاپ کا ٹکٹ اسے پکڑا دیا۔ بس فراٹے بھرتی جا رہی تھی، اسے ذرا بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔۔۔۔ بس نے تین گھنٹے کا مسلسل سفر طے کیا اس کے بعد، بس ایک شہر نما قصبے میں کچھ سواروں کو اتارنے کے لیے رکی تو وہ بھی ان سواروں کے ساتھ بس سے اتر گیا اور کنڈکٹر کو چھت پر رکھے ہوئے سامان اتارنے کا کہا۔ کنڈکٹر نے جیسے اسے یاد دہانی کرائی کہ بھائی! آپ نے تو آخری اسٹاپ کا ٹکٹ کٹوایا تھا، آپ ادھر ہی کیوں اتر گئے ہیں۔ اس نے بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسے کوئی کام یاد آ گیا ہے لہذا، وہ آگے سفر کرنے کی بجائے اب کسی اور بس کے ذریعے واپس اسی شہر جائے گا جہاں سے وہ اس بس میں بیٹھا تھا۔ بس کنڈکٹر نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے،
جلدی سے اس کا سامان چھت سے زمین پر پٹخا اور بس کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہی’’ ڈبل ہے استاد‘‘ کی، آواز لگائی۔ اس آواز کے سنتے ہی ڈرائیور نے بس چلا دی۔
وہ تھوڑی دیر وہاں پر کھڑا رہا ، پھر خیمے اور اس چھوٹے سے قالین کو کندھے پر رکھا ، ایک ہاتھ میںبریف کیس اٹھایا اور ایک سمت چل پڑا۔کوئی چالیس منٹس تک پیدل چلنے کے بعد وہ اس شہر نما قصبے کی آبادی سے باہر نکل آیا تھا البتہ کہیں کہیں اکا دکا گھر نظر آ رہے تھے، اس نے ایک ویران سے کھیت میں اپنا پڑاؤ ڈالا۔ اسی کھیت میں خیمہ لگایا، ادھر ادھر سے گھاس پھونس لا کر خیمے کے اندر بچھائی اور اس گھاس پھونس کے اوپر قالین بچھا دی۔ قالین بچھانے کے بعد اس نے بریف کیس میں سے جائے نماز اور تسبیح نکالی ،جائے نماز کو قالین پر بچھایا اور دائیں ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی ،پھرخیمے کے اندر ایک طرف بریف کیس رکھا۔ عصر کا وقت ہو رہا تھا، وہ جائے نماز پر بیٹھ گیا، ابھی دس منٹس ہی گزرے ہوں گے کہ خیمے کے باہر اس نے دو آدمی کھڑے دیکھے۔ان آدمیوں نے اسے سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیااور پوچھا کہ کیسے آنا ہوا ہے؟ ان آدمیوں میں سے ایک نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کس کی اجازت سے یہاں ہماری ملکیتی و مقبوضہ زمین پر خیمہ لگایا ہے؟ اس نے درویشوں کے سے لہجے میں جواب دیا کہ، فقیر کو کوئی علم نہیں کہ اس نے یہاں کیوں پڑاؤ ڈالا ہے اور خیمہ کیوںلگایا ہے، اسے توبس مرشد نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، اگر آپ ناراض ہوتے ہیںتو فقیر یہاں سے چلا جاتا ہے۔ ان آدمیوں نے بیک وقت کہا کہ نہیں نہیں، ہمارا یہ مقصد ہرگز ہرگز نہیں،آپ خیمے میں آرام کریں ہم ،آپ کے لیے عشائیہ ( ڈنر) لے کر آتے ہیں۔ اس کے بعد، وہ دونوں آدمی چلے گئے۔ شام کے بعد وہ دونوں نہ صرف کھانا لے کر اس کے پاس حاضر ہوئے بلکہ ایک واٹر کولر میں اس کے لیے پینے کا ٹھنڈا پانی بھی لیتے آئے۔ انھوں نے یہ دونوں چیزیں خیمے کے اندر رکھیں اور اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آرام سے کھانا کھائیں ہم صبح خالی برتن اٹھا کر لے جائیں گے۔اس نے پہلے پانی پیا پھر اطمینان سے کھانا کھانے کے بعد، خیمے کے اندر قالین ہی پر سو گیا۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا، وہ اٹھا اور ناشتے کا بندوبست کرنا چاہا مگر وہی دو آدمی سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیے جو اس کے لیے ناشتا لے کر آ رہے تھے۔ اس نے رب کا شکر ادا کیا، ان آدمیوں نے ناشتا خیمے کے اندر رکھا اور رات کے پڑے خالی برتن واپس لے گئے۔
دوپہر کے قریب پورے قصبے میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ باہر سے کوئی ’’ولی اللہ‘‘ آیا ہے، کافی لوگ اس کی زیارت کے لیے آئے ان میں سے دو بندوں نے اسے نذرانے بھی پیش کیے۔
تین دن ایسے ہی گزرے کہ چوتھے روز ایک خوش لباس شخص نے خیمے کے اندر آنے کی اجازت مانگی، اس نے پہلے اس شخص کی طرف دیکھا اور پھر اسے اندر آنے کو کہا۔ اس خوش لباس شخص نے پہلے سلام کیااور پھر خیمے کے اندر قالین پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس نے، بڑی شائستگی سے اس خوش لباس شخص سے آنے کی وجہ پوچھی تو اس شخص نے بتایا کہ وہ اس قصبے کا مستقل رہائشی و سکونتی ہے مگر پچھلے چار سالوں سے وہ اور اس کی بیوی ملازمت کے سلسلے میں دوبئی مقیم ہیں، ہر چھے مہینوں کے بعد، پندرہ دن کی چھٹیاں ملتی ہیں تو وہ اور اس کی بیوی اپنے ملک یعنی اس قصبے آتے ہیں، ہمارا گھر یہاں خالی پڑا ہواہے، پندرہ دن یہاں گزار کر واپس چلے جاتے ہیں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں، بہت علاج بھی کروایا، فقیروں سے دعائیں بھی کروائیں مگر تاحال ہماری مراد بر نہیں آئی ہے، آپ کے بارے میں معلوم ہوا تو سوچا، آپ سے بھی اس سلسلے میں دعا کرا لیں۔۔۔ اس نے اس خوش لباس شخص کو دلی دعا دی اور کہاکہ ان شاء اللہ، بہتر ہو گا۔ اگلے سال، اللہ تعالیٰ،آپ کو نرینہ اولاد سے نوازے گا ۔۔۔ وہ شخص جب جانے لگا تو اس نے، اسے پانچ ہزار روپے دیے اور خیمے سے باہر نکل گیا۔ اس خوش لباس شخص کے جانے کے بعد، اس نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے میرے رب! اِس شخص کو اولادِ نرینہ عطا کر دے اور اُس کی دعا کو اِس شخص کے حق میں قبول فرما لے اور اُسے شرمندہ ہونے سے بچا لے ۔
دن یوں ہی گزر رہے تھے، اس قصبے میں وہ’’ مرشد‘‘ کے نام سے مشہور ہونے لگا، اب تو اس قصبے کے علاوہ، دوسرے شہروں، قصبوں اور گاؤں کے لوگ بھی اس سے اپنے مسائل اور پریشانیوں کے حل کے لیے رجوع کرنے لگے، کوئی نقد رقم بہ طور نذرانہ پیش کرتا تو کوئی تحفہ۔وہ لاکھ انکار کرتا کہ اسے ان چیزوں کی ضرورت نہیں مگر جتنا وہ انکار کرتا جاتا،پریشاں حال لوگ اورزیادہ نقدی یاتحفےدے کر گھروں کو لوٹتے ۔
اس خیمے میں اسے چھے مہینے اور کچھ دن ہوئے ہوں گے، اس کا بریف کیس روپے پیسوں سے بھر چکا تھا، خیمے میں طرح طرح کے بیش بہا تحفے ایک سلیقے سے رکھے ہوئے تھے ان سب تحائف اور نذرانوں پر اس نے ایک بڑی سی چادر اوڑھا دی تھی تا کہ کسی کو وہ نظر نہ آئیں۔ وہ اسی طرح’’ مرشد‘‘ کا بہروپ اوڑھے ہوئے تھا،کہ ایک روز صبح دس بجے کے قریب وہ خوش لباس شخص اس کے خیمے میں آیا اور کہنے لگا کہ اس کی بیوی امید سے ہے، اب آپ کو اس خیمے میں ہم نہیں رہنے دیں گے، ویسے بھی ہمارا گھر، ہمارے دوبئی جانے کے بعد خالی رہتا ہے، لہذا، ہماری خوشی اسی میں ہو گی کہ آپ ہمارے گھر میں اپنی باقی زندگی گزاریں۔ اس نے فقیرانہ اور درویشانہ انداز اپناتے ہوئے کہا، کہ فقیروں اور درویشوں کو پختہ مکانات سے کیا غرض، جہاں پر رات آجائے، فقیر وہیں بسر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، پھر اپنا ہی ایک شعر تٔاسف بھرے لہجے میں سنایا:۔
؎جہاں پر رات آجائے وہیںبسرام کرتے ہیں
فقیروں کا مکاں کیسا، سکونت کیا،ٹھکانا کیا
مگر، وہ خوش لباس شخص بہ ضد تھا کہ وہ اس کے ساتھ اس کے گھر میںسکونت اختیار کر لے ۔ آخر کار اس نے، اس خوش لباس شخص کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالے اور اپنے سب سامان سمیت اس کے گھر منتقل ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد، وہ میاں بیوی واپس دوبئی چلے گئے اور وہ تنہا اتنے بڑے گھر میں رہنے لگا۔
اگلی بار (چھے مہینے کے بعد) وہ خوش لباس شخص اور اس کی بیوی دوبئی سے جب واپس آئے تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی کی گود میں ایک پیارا سا بچہ بھی ہے۔ وہ خوش لباس شخص اور اس کی بیوی بہت خوش تھے اور اس کے احسان مند بھی۔اس خوش لباس شخص نے، اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ اب ہم نے دوبئی میںاپنے لیے ذاتی گھر خرید لیا ہے اور بیٹا پیدا ہونے کی خوشی میں اپنا یہ گھر آپ کو نذرانے کے طور پر دے کر جا رہے ہیں۔ اس نے بہت منع کیا مگر دوسرے دن اس خوش لباس شخص نے اس گھر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے نام’’ ہبہ‘‘ کر کے’’ ہبہ نامے‘‘ کی دستاویز اس کے حوالے کر دی اور تیسرے دن وہ جوڑا اپنے بچے اور ضروری سامان سمیت واپس دوبئی چلا گیا۔
وہ اب خود’’ مرشد‘‘ بن چکا تھا، اس کے برے دن ختم ہو چکے تھے، مرید آتے اور’’ مرشد‘‘ کے ہاتھ پر نہ صرف بیعت کرتے بلکہ بیش بہا نذرانے یا نقدی بھی دے کر جاتے، دو مریدوں نے تو کاریں تک نذرانے میں دے دی تھیں جو اس کے اس کوٹھی نما گھر میں کھڑی نظر آتی تھیں۔ اب وہ تنہائی کی زندگی سے تنگ آ چکا تھا اس نے اپنی بیوی کو بھی بلا لیا، اس کی بیوی اس کا یہ روپ دیکھ کر دنگ رہ گئی، اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے اور آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا۔
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ پگلی! جب تک اسے جاہل مرید میسر ہیں، یہ’’ مرشد‘‘ کرامتیں دکھاتا رہے گا اور روپیا کماتا رہے گا پھر اسے اچانک خیال آیا کہ جو اس کا’’ مرشد‘‘تھا اور بیش بہا تحفہ، اس کے حق میں برائے دعائے خاص مانگ رہا تھا ہو سکتا ہے وہ بھی اپنی غربت اور تنگدستی سے تنگ آ کر ہی’’ مرشد‘‘ بنا ہو ۔
٭٭٭٭٭