مجید مجازی بحیثیت ڈرامانگار

0
447

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

عروسہ فاروق

ڈراما کہانی کی وہ قسم ہے جس میں ڈراما نگار کرداروں اور ان کے مکالموں کی حرکت و عمل سے کہانی کو انجام تک پہنچاتا ہے ۔ لفظ ڈراما ـ یونانی لفظ’ ڈراؤ ‘سے نکلا ہے جس کے معنی ہے’ کرکے دکھانا‘۔ دوسری افسانوی ادب کی طرح ڈراما میں بھی کہانی کا آغاز،وسط اور انجام کو دکھایا جاتا ہے لیکن دوسری اصناف کے مقابلے میں ڈراما کا براہِ راست تعلق اسٹیج سے ہوتا ہے ۔ارسطو نے بوطیقامیں ڈرامے کے تعلق سے یوں کہا ہے:
ــــ’’ڈراما انسانی عمل کی نقل ہے۔‘‘(ارسطوؔ۔’بوطیقا ‘ترجمہ عزیز احمد ۔ص ۱۹)
ارسطو ؔکی اس رائے سے ڈرامے کی تاریخ کا احساس ہوتا ہے کہ صنف ڈراما کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان ۔ انسان کی ہر عمل جس کی نقل کی جائے ڈراما کہلاتا ہے۔اگر ڈرامے کی ارتقا ء پر نظر ڈالی جائے تو ہندوستان میں ڈرامے کے سلسلے میں پہلا قدم لکھنؤ کے مشہور نواب واجد علی شاہ نے اٹھایا ۔ انہوں نے ’قصئہ رادھا کنہیا‘ لکھ کر ۴۲۔۱۸۴۱ء میں باقاعدہ دربار میں پیش کرایاجس میں خود نواب بھی شامل ہوئے۔لیکن کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق یہ قصہ اردو کا پہلا ڈراما نہیں کیونکہ یہ ڈرامے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے بلکہ یہ رہس ہے جو محض کرشن لیلاؤں سے متاثر ہوکر ترتیب دیا گیاتھا۔
اردو ڈرامے کی ابتداء میں امانت کی اندرسبھا کو ایک خاصا مقام حاصل ہے۔۱۸۵۲ء میں لکھا گیا یہ ڈراما جس کو عوام نے بے حد پسند کیا۔امانت لکھنوی کے بعد اور بھی بہت نام ایسے ہیں جنہوں نے اردو ڈرامے کی ابیاری کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ان میں آغا حشرؔ ،طالب بنارسیؔ،بیتاب بنارسیؔ،عباس علی عباسؔ،محمدعلی مراد لکھنویؔ،محمد حسین آزادؔ ،مرزا ہادی رسواؔ،امتیاز علی تاجؔ،محمد مجیبؔ،محمد حسن ؔوغیرہ کے نام قابل احترام ہیں۔
اردو ڈرامے کی روایت میں ریاست جموں و کشمیر کو اختصاص حاصل ہے،ڈرامے پر پہلی کتاب ’ناٹک ساگر‘ جو کہ کشمیر میں ہی محمد بن عمر نور الہیؔ کی لکھی ہوئی ہے،جس نے نہ صرف اردو ڈرامے کے لیے بلکہ ڈراما نگاروںکے لیے بھی راستہ ہموار کر دیا۔ ر یاست میں ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھانے میں ریڈیو کشمیر،دوردرشن،کلچرل اکیڈمی وغیرہ کا اہم رول ہے۔ریڈیو اور دوردرشن نے مختلف ادوار میں مختلف اقسام کے ڈرامے اسٹیج کرکے اردو ڈرامے کی روایت میں اہم رول ادا کیا۔ جموں و کشمیر میںجن فنکاروں نے اس صنف کو وسعت عطا کی ہیں ان میں علی محمدلون ؔ،سجاد حسین ؔ، نورشاہ ؔ، آنند لہرؔ ، ظہورالد ینؔ،راجہ یوسفؔ ،محمد امین بٹؔ وغیرہ کو ڈرامہ نگاری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھانے میں جدید دور کے ناموں میں ایک نام مجید مجازی ؔکا بھی ہے جو بیک وقت شاعر ،افسانہ نگار ، ترجمہ نگار ، مضمون نگار اور ایک بہترین آرٹسٹ بھی ہیں۔ اردو زبان کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کشمیری پر بھر انہیں خاصی دسترس حاصل ہے، جس کی عمدہ مثال ان کے افسانوی مجموعے ’’پھُلے گلُن ہنز ‘‘ ہے ۔پروفیسر محی الدین حاجنیؔ پر انہوں نے ایک مونوگراف اردوزبان میں ترتیب دیا ہے اور ڈراموں پر مشتمل کتاب ’’ گنہگار میں نہیں ‘‘ ۲۰۱۸ ء میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ،نئی دہلی کے مالی تعاون سے منظر عام پر آچکی ہیں جس میں ۱۱ ڈرامے شامل ہیں ۔مجموعے کے سارے ڈراما broadcast اورtelecastہوچکے ہے۔
زیرِ بحث ڈرامائی مجموعے میں بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے ڈرامہ نگار نے ہر ڈرامے کی ابتدا ء سے قبل ڈرامے کے بارے میں خلاصہ پیش کیا ہے تاکہ ڈرامہ پڑھتے یا اسٹیج کرتے وقت بچوں کے اذہان میں ایک خاکہ تیار ہوجائے ۔مجموعہ’’ گنہگار میں نہیں‘‘ میں شامل پہلا ڈرامہ ’’ایثار کا جذبہ‘‘ کے نام سے شامل ہے ۔ڈرامے میں قربانی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔سات مناظر پر مشتمل یہ ڈرامہ نو (۹)کرداروں کے ارد گرد گردش کرتاہے جس کے مرکزی کردار’ عدنان‘ اور اس کی بیوی ’سارہ ‘ہے۔ ڈرامے کے منظر اول میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کے یہاں گھر کا چراغ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ہر طرح کے ڈاکٹر ،پیر و فقیر کی سیر سے مایوس اور نا امید لوٹ کر آئے ہوتے ہیں۔اسی منظر میں عدنان اپنی بیوی سارہ سے کہتا ہے کہ دوسرے گائوں میں کچھ دنوں پہلے ایک ایکسیڈنٹ میں میا ں بیوی کی موت ہو گی ہے۔ ان کے یہاں ڈیڑھ سال کا ایک اکلوتا بیٹا ہے اسے گود لیتے ہیں ۔سارہ کی دل کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ دونوں بچے کو خوشی خوشی گھر لے کر آتے ہے۔ اس کا نام’ شاہد‘ رکھا جاتا ہے۔ شاہد کو اس گھر میں ہر طرح کی خوشی میسر ہوتی ہے۔ آگے ڈرامے میں شاہد کو جوان ہوتا دکھایا گیا ہے ۔شاہداب یونیورسٹی جاتا ہے ۔گھر کا سارا ماحول خوشی سے جھوم رہا تھا کہ اچانک سارہ کو چکرآنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر کے مطلع کرنے پر ڈاکٹر عدنان کو مبارک باد کہہ کر باپ بننے کی خوشخبری سناتا ہے ۔کچھ مہینے بعد ان کے یہاں ایک ’شاکر‘ نام کا بیٹا پیدا ہوجاتا ہے۔ دونوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ شاکر بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے۔ ڈرامہ نگار مجید مجازی ؔبچوں کی نفسیات سے واقفیت رکھنے کے ساتھ ہی ساتھ انہیں عورتوں کی زبان اور ان کی نفسیات پر بھی دسترس حاصل ہے۔مرد سے قبل عورت کے یہاں برے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اس کی مثال ڈرامہ نگار نے یوں پیش کی ہے:
سارہ ۔’’میری مانو شاہد سے کہو کہ اب یونیورسٹی نہ جائے۔‘‘
عدنان۔’’ مگر کیوں‘‘؟
سارہ ۔’’کیونکہ اب ہم اتنا خرچہ برداشت نہیں کر پائیں گے‘‘۔
عدنان۔’’ ایسا نہ کہو۔ وہ بھی تو ہمارا بیٹا ہے۔‘‘ (ڈراما : ایثار کا جذبہ : ص ۳۲)

سارہ کے دل میں برے خیالات تب سے پنپنے لگتے ہیں جب ان کے یہاں شاکر نے جنم لیا۔ سارہ کو اس بات کا خوف تھا کہ شاہد اب اس کے اکلوتے بیٹے شاکر کی جائیداد کا حصہ دار بنے گا لیکن شاہد کو جب اس معاملے کا علم ہو جاتا ہے تو وہ گھر چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور سارہ کا اپنا بیٹا شاکر برے کاموں کا عادی ہوجاتا ہے۔ آگے ڈراما میں عدنان کی صحت جواب دینے لگتی ہے۔ عدنان کے دونوں گردے خراب ہوجاتے ہیں۔ عدنان کی حالت ہر اعتبار سے غیر ہوچکی تھی لیکن اسی اثنا میں ان کا گود لیا ہوا بیٹا شاہد اپنے سیکرٹری کے ساتھ داخل ہو جاتا ہے۔ شاہد اب ایک کامیاب انسان بن گیا تھا وہ عدنان کو اپنا ایک گردہ دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے ۔ اس طرح سے ڈراما نگار نے ڈرامے کا اختتام پر تاثیر بناکر پیش کیا ہے۔
دراصل ڈراما نگار نے قارئین کو اس سبق آموز بات کی طرف راغب کیا ہے کہ انسان کی، کی ہوئی نیکی کبھی نہ کبھی اس کے کام ضرور آتی ہے دوسری طرف ڈرامہ نگار نے ڈرامے کا نام ایثار کا جذبہ رکھ کر کہانی کا حق ادا کیا ہے ۔کیوں کہ ڈرامے میں ایک یتیم بچہ شاہد جسے عدنان اور سارہ پال پوس کر ایک کامیاب آدمی بناتے ہے، وہ اپنا حق ادا کر نے کے لیے خوشی خوشی قربان ہوجاتا ہے۔ مجموعے میں شامل دوسرا ڈرامہ ’’گیہوں کا دانہ‘‘ کے نام سے ہے ۔ دراصل یہ ڈرامہ لیو ٹالسٹائی کی مشہور کہانی”The Green as big as a hen’s egg” سے ماخذ ہے۔ لیو ٹولسٹائی نے کہانی کی شروعات یوں کی ہے:
ـ”One day some children found ,in a ravine ,a thing shaped like a grain of corn ,with grooved down the middle , bhut as large as a hen’s egg”
ڈرامہ نگار مجید مجازی نے ڈرامے کی شروعات ایسے ہی کی ہے لیکن ڈرامہ نگار نے اس کہانی کو ڈرامائی انداز میں پیش کر کے کہانی کو اور بھی دلچسپ اور حسین بنایا ہے۔ ڈرامے کی شروعات اسٹیج پر آئی ہوئی دو بچوں کی آوازسے ہوتا ہے جو انڈا ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ جلدہی ڈرامے میں ایک راہگیر آتا ہے جو بچوں سے انڈا لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ بادشاہ اس نایاب چیز کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے اور وہاں بیٹھے لوگوں کو انڈے کے بارے میں پوچھتا ہے لیکن وہاں بیٹھے لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اس چیز کو نہیں پہچان سکا۔ کچھ وقت بعد ڈرامے میں تین بوڑھے نظر آتے ہیں۔ پہلا بوڑھا دربار میں حاضر ہوتا ہے بادشاہ اسے انڈا دکھا کر پوچھتا ہے جو جواباً کہتا ہے میرے والد سے پوچھو، شاید انہیں معلوم ہو۔ پہلے بوڑھے کے باپ کو دربار میں پیش کیا جاتا ہے جو اپنے بیٹے سے زیادہ صحت یاب تھا لیکن اس نے بھی اس انڈے نما چیز کو نہیں پہچانا اور جواباً کہا میرے باپ سے پوچھو شاید انہیں معلوم ہو۔ دوسرے بوڑھے کے باپ کو دربار میں لایا گیا جو صحت میں اپنے بیٹے اور اپنے پوتے سے کافی بہتر تھا ۔اس بوڑھے نے پہچان کر کہا یہ گیہوں ہے جو ہم اپنے وقت میں ہر جگہ بویا کرتے تھے۔ لوگ حیران ہو گئے اتنا بڑا گیہوں لیکن بوڑھے نے انہیں اپنی باتوں سے مطمئن کیا اور درباریوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ اس وقت کے لوگ بہت محنتی اور اپنی کمائی سے مطمئن ہوتے تھے ۔آج کا انسان خوب کماتا ہے لیکن دوسروں کی کمائی سے جلتا رہتا ہے ۔
دراصل ڈرامہ نگار نے اس زمانے میں اور آج کے زمانے کا تقابل کیا ہے کہ اس وقت کے لوگ حسد کے شکار نہ تھے۔ لوگ خوشی خوشی ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن آج کے زمانے کے لوگ ترقی یافتہ ہو کر بھی مطمئن نہیں ہے۔ آج کا انسان اپنے ہاتھوں سے زیادہ مشینوں کا سہارا لیتا ہے۔ انسان ہر طرح سے دوسروں کا محتاج بن گیا ہے جس کی وجہ سے آج کے انسان کی صحت بھی کم عمری میں ہی جواب دینے لگتی ہے۔ ڈراما نگار نے اسے ڈرامائی انداز میں یوں پیش کیا ہے:
تیسرا بوڑھا : سرکار ! آج کا انسان محنت سے جی چراتا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں سے زیادہ مشینوں کا سہارا لیتا ہے ، ہم اپنے زمانے میں اپنی محنت کی کمائی کھاتے تھے۔ ہر انسان خدا پر ایمان اور اپنی محنت پر بھروسہ رکھتا تھا۔ اس لئے ہمارا بویا ہوا گیہوں اتنا بڑا ہوتا تھا اور ہماری صحت بھی اچھی رہتی تھی۔‘‘(ص۵۰)
ڈرامہ’’ پالی تھین جن ‘‘ جیسا کہ عنوان سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرامہ اینٹی پلاسٹک((Anti Plastic یا یوں کہے کہ پالی تھین کے خلاف لکھا گیا ہے۔ ڈرامہ نگارنے مختصر طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ کس طرح پالی تھین کے استعمال سے ہماری زمین بھی احتجاج کرنے لگی ہے۔ ڈرامہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک گاؤں میں لوگ سرپنچ کے سامنے فکرمندہو کر جمع ہوئے تھے۔ لوگوں کا مطالبہ اتنا تھا کہ ان کی کھیت میں فصل نہیں اـگ رہی ہے اسی طرح ڈرامے میں کچھ ماہرین لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ تمہاری زمین میں پالی تھین جن ہے جو فصل اُگنے نہیں دیتا۔ ڈرامہ نگار قارئین اور ناظرین کو پالی تھین اور پلاسٹک کے خطرے سے آگاہ کرانا چاہتے ہیں۔ اس ڈرامے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ڈرامہ نگار خود اپنے ماحول کو صاف رکھنے اور پالی تھین جیسی خوفزدہ چیز سے بچانا چاہتے ہیں ۔اس ڈرامے کے حوالے سے ڈرامہ نگار خود لکھتے ہیں:
’’پالی تھین جن ایک سائنسی ڈرامہ ہے جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح پولی تھین کے برے اثرات سے ہماری زمین بانجھ بن رہی ہے. ‘‘ (ص : ۲۰۔۱۹)
اسی موضوع پر لکھا گیا ایک اور ڈرامہ’’ مجرم ‘‘کے نام سے ہے۔ ڈرامہ کافی مشہور ہو کر مختلف جگہوں ریاست اور ریاست سے باہر بھی کھیلا گیا ہے۔ڈرامے کے سارے کردار علامتی ہے جن میں کام دیو خوبصوتی کا بادشاہ ہے ۔ساتھ ہی ساتھ گنگا دریاے گنگا کی علامت ہے ۔ برنداون میسور کے برنداون باغ کا علامتی کردار ہے۔جھیل ڈل کشمیر کے حسین جھیل ڈل کی علامت ہے ۔ ڈرامہ ماحولیاتی آلودگی اور سائنسی ٹیکنالوجی کے برے اثرات پر طنز اًلکھا گیا ہے۔ دراصل ٹیکنالوجی نے انسان کو جہاں ایک طرف ترقی کی راہ پر گامزن کیا وہیں دوسری طرف انسان کے غلط استعمال نے اسے بربادی کی طرف لے لیا ۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگ فطری نظام ،اس کی دلکشی اور خوبصورتی سے کافی دور ہوا۔ مجموعے میں زیادہ تر سائنسی ڈرامے ہیں۔ ڈرامہ نگار نے بچوں کی صحیح تربیت کیلئے یہ ڈرامے لکھ کر ایک بہترین راہ کا انعقاد کیا ہے۔ انسان نے ترقی کی راہ پر خود اپنی اغلاط کی وجہ سے خود کو برباد کیسے کیا اس کی مثال مجموعے میں شامل ڈراما ’’گنہگار میں نہیں‘‘ سے ملتی ہے ۔مجموعے کے نام پر مبنی یہ ڈراما تقریباً ان کے باقی ڈراموں پر حاوی ہے ۔متذکرہ ڈرامہ انعام یافتہ ہے اور ڈرامے کو مختلف جگہوں پر اسٹیج بھی کیا گیاہے۔ یہ ایک المیہ ہے اس حوالے سے موصوف نے خود ذکر کیا ہے:
’’گنہگار میں نہیں‘‘ ڈراما میں مہلک ہتھیاروں کی دوڑ اور ہر طرف جنگ و جدال کی حالت سے متعلق ایک المیہ ہے کہ کس طرح ایک انسان دوسرے انسان کے لئے بربادی کے سامان پیدا کر رہا ہے۔‘‘ (’پیش لفظ‘ مجید مجازی)
ڈرامہ ٹریجیڈی سے شروع ہو جاتا ہے۔ ہر طرف چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں۔ ڈرامے میں آتما کا آنا پہلے منظر میں دکھایا گیا ہے۔ دراصل یہ ایک سائنسدان کی روح ہے جو دنیا کو تباہ و برباد ہوتا ہوا دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتی ہے دوسری طرف ڈرامے میں ایک شیطان کی آواز سنائی دیتی ہے جو آتما کو اس کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی بازگشت سناتا ہے۔ وہ شیطانی آواز دنیا کی تباہی کے لئے آتما (سائنسدان )کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ ڈرامہ نگار نے دونوں کا تقابل ڈرامے میں جس انداز سے دکھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ڈرامے میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ شیطان صرف کچھ انسانوں کو برے کام کرواتا ہے ان کاموں سے صرف انہی انسانوںکی ذات کا نقصان ہوتا ہے جبکہ سائنسی ترقی جس کا استعمال لوگوں نے غلط طریقے سے کیا وہ انسان کی ذات سے لے کر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیتاہے۔
ڈرامہ نگار نے ڈرامے میں بہت سے خطرناک ہتھیاروں کا ذکر بھی کیا ہے اور جاپان کے دو بڑے شہروں ’ہیروشیما ‘اور ’ناگاساکی‘ کو بھی زیر بحث لایا ہے ۔ڈرامے میں آتما اپنے بنائے ہوئے مختلف آلات کا ذکر چھیڑتا ہے جس پر شیطان اسے ہر غلط فہمی سے دور کر کے اسے انسان کی اصل حقیقت دکھاتا ہے۔ ڈرامے میں دونوں اسپتال کا رخ کر کے وہاں پڑے لوگوں کو دیکھتے ہیں جس پر آتما شیطان سے کہتی ہے کہ سائنس کی مدد سے ڈاکٹر انسان کو بچانے کے لیے آخری سانس تک کوشش کرتے ہیں :
آتما : ’دیکھا تم نے شیطان کہ کس طرح ایک مرے ہوئے انسان کو ایک نئی زندگی مل گئی ۔اب کیا خیال ہے تمہارا ۔۔۔‘
شیطاں :’ ہا ہا ہا ہا ۔۔۔اب مجھے پورایقین ہوگیا کہ تمہیں اپنی سائنس نے اندھا بنا دیا ہے ۔تمہاری آنکھوں کی جگہ دو چمکتے پتھرلگے ہوئے ہیں ۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اس بیچارے کا ایک گردہ چرایا گیا ہے ۔‘‘ (ص ۱۳۶۔۱۳۷)
دراصل سائنس کی ترقی کی وجہ سے حرص میں ڈوبے انسانوں کے اذہان نے بھی ترقی کرلی ہے، لوگ ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہے۔ ڈرامے میں ایٹم بم ، نائٹروجن بم ، ہائیڈروجن بموں کے ساتھ ساتھ اور بھی مہلک ہتھیاروں کا ذکر خوب ملتا ہے۔ ڈرامے کی قرات کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایٹمی ہتھیاروں کے غلط استعمال سے لوگ ناحق قتل ہورہے ہیں، اگر یہ ایٹمی ہتھیار نہ بنے ہو تے ،سائنس نے اتنی ترقی نہ کی ہوتی، تو یہ معصوم لوگ بھی اپنی زندگی ٹیکنالوجی سے نہ سہی لیکن خوشی سے ضرور بسر کر رہے ہوتے ۔
بچوں کو صحیح راہ کی طرف گامزن کرنا ڈرامہ نگار مجازی ؔکا اصل مقصد ہے۔ تعلیم کے فوائد اور جہالت کے نقصانات سے بچوں کو آگاہ کرانا بھی ڈراما نگار کا ایک مقصد ہے۔ مجموعے میں شامل ایک اور انعام یافتہ ڈرامہ’’ ان پڑھ ڈیڈی‘‘ دراصل اسی موضوع پر لکھا گیا ہے۔ ڈرامے میں ایک بچہ ’شاہد‘ جو کہ ڈرامے کی شروعات سے بیمار نظر آتا ہے اور آخر پر اس کی موت کو دکھا کر ڈرامہ نگار نے ڈرامے کا اختتام المیہ پر کیا ہے۔ ڈرامے کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ شاہد کی بیماری سے شاہد کا ڈیڈی بہت پریشان ہے لیکن ڈیڈی کی جاہل سوچ کی وجہ سے وہ شاہد کو ڈاکٹروں کو دکھانے کے بجائے پیروفقیر پر اعتماد رکھتا ہے۔ڈرامے میں شاہد کا بھائی جاوید اسکول جاتا ہے اور اس کا ذہن پڑھائی کی وجہ سے اپنے ڈیڈی سے زیادہ ہوشیار ہے ۔ وہ ایک دن ڈیڈی کی اجازت کے بنا اپنے ساتھ ڈاکٹر کو لاتا ہے۔ڈاکٹر شاہد کا معائنہ کرکے ایک ٹیسٹ کرنے کی صلاح دیتا ہے۔ ٹیسٹ کے آنے پر ڈاکٹر شاہد کے گھر والوں کو اس کی بیماری سے آگاہ کر اتا ہے۔ شاہد کو ایڈز کا مرض ایک ٹرک ڈرائیور کے خون دینے سے ہوا تھا لیکن وقت پر علاج نہ ہونے کے باعث شاہد زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے۔آخر پر ڈرامہ نگار نے ڈیڈی کی زبانی سامعین و ناظرین کو سبق آموز نصیحت بھی کراتا ہے۔
ڈرامہ نگار نے فنی پختگی سے اس بات کی تلقین کی ہے کہ کس طرح سے ایک جاہل انسان ایک معصوم کا قاتل بن جاتا ہے ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تعلیم سے انسان نہ صرف ترقی یافت بن جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی صحیح راہ کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے۔
مجید مجازیؔ کے ڈراموں میں نہ ہی غیر ضروری طوالت ہے اور نہ ہی الفاظ کا بوجھل پن دیکھنے کو ملتا ہے اور اگر زبان کے تعلق سے بات کی جائے تو ڈرامہ نگار نے ڈرامہ تحریر کرتے وقت بچوں کی ذہانت کا خیال رکھا ہے جو الفاظ بچوں کی سمجھ میں آجائے اسی ڈکشن کا استعمال کیا ہے یعنی ڈراما نگار نے عام فہم الفاظ کا انتخاب کیا ہے جو ایک بہترین اور کامیاب تخلیق کار کی مثال ہے ۔کرداروں کا انتخاب بھی پراثر ہے کرداروں کے حوالے سے ڈاکٹر عزیز حاجنی یوں رقمطرازہیں:
’’مجازی نے اس مجموعے کے اکثر ڈراموں کے کردار اپنی مٹی سے چنے ہیں۔اس لیے قاری کو پڑھتے وقت کوئی الجھن یا دقت پیش نہیں آتی ہے۔‘‘(ڈاکٹر عزیز حاجنی،اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ ۔مجموعہ گنہگار میںنہیں،ص۶)
مجموعی طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ ڈرامہ نگار مجید مجازیؔ ریاست کی ایسی ابھرتی آواز ہے جس سے ریاست میں رہنے والے بچے اور نوجوان قلم کار مستفیدہوتے آرہے ہیں۔
٭٭٭
ریسرچ اسکالرشعبہ اردوکشمیر یونیورسٹی سرینگر۱۹۰۰۰۶

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here