9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
بشیر اطہر
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کےلئے توبہ کے سبھی دروازے وا کرتا ہے اس مہینے کی بہت سی فضیلتیں ہیں جن کی اگر ذکر کی جائے تو مہینے اس میں درکار ہیں میں اس وقت صرف اپنی اُن ذمہ داریوں کا تبصرہ کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کر دی ہیں ماہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اور ہمارے پیارے آخری نبی و رسول برحق حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آخری اور کامل ترین کتاب قرآن مجید نازل کی، یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا انتظار اہلِ ایمان بے صبری سے کرتے ہیں کہ کب یہ مہینہ آئے اور ہمیں اپنے رب العزت کی سعادت حاصل ہوجائے۔
قارئین کرام آپ سب کو معلوم ہے کہ اس مہینے کا مہمان خود باری تعالیٰ ہوتا ہے اور میزبان اہلِ ایمان ہیں اور دعوت نامہ ہم تک قرآن مجید کی صورت میں پہونچا ہے یعنی اس دعوت نامہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے مخاطب ہےکہ یَا اَیُّھَاالَذِینَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَی٘کُمُ الصّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَب٘لِکُم لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ سورہ بقرہ آیت ۱۷۳ یعنی اے ایمان والو تم پر روزے واجب کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاہل ایمان کو اس طرف دعوت دی کہ وہ روزہ رکھیں اور اہل ایمان پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ اس دعوت نامے کو کسی بھی صورت میں قبول کریں اور اگر کسی نے اِس دعوت نامے پر عمل نہیں کی یا قبول نہیں کیا تو اُس کو ہرجانہ دینا پڑے گا جو بہت ہی سخت اور کٹھن ہوگا دوسری بات یہ کہ اہلِ ایمان کےاندر تقویٰ پیدا ہوجائے وہ تقویٰ اس وقت حاصل ہوجاتا ہے جب ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی کو بھی مدنظر رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہینے میں اہل ایمان عبادات میں مصروف رہنے کے ساتھ ساتھ مستحقین کا خاص خیال رکھتے ہی ہیں مگر کورونا کی اس وباء نے ہمیں عبادت اور امداد فراہم کرنے کا زیادہ ہی موقع فراہم کیا ہے کیونکہ وبائی صورتحال کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اب اگر اس لاک ڈاون میں جو کچھ بچا وہ ہے یادِ خدا یعنی اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا۔ اگر اس سال اہلِ ایمان چاہیں تو اپنے پالنے والے پروردگار کی قُربت حاصل کرنے میں کمال حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ پچھلے سال کے رمضان میں لوگوں کو ایسا موقع کبھی فراہم نہیں ہوا کہ وہ یادِ الٰہی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے کیونکہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں دن بھر مصروف رہتے تھے، ملازم اپنی ڈیوٹیاں انجام دینے میں لگے رہتے تھے، کاشتکار کاشتکاری میں لگے رہتے تھے مگر اس سال اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا موقع فراہم کیا کہ ہم حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد میں بھی مصروف رہیں اور اس کے لئے دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے یعنی ہم اپنے اپنے قریوں، بستیوں، گاؤں یا شہروں میں یا اپنے آس پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں کہ کہیں ہمارے آس پاس میں کوئی بیوہ، یتیم یا مسکین بھوکا نہیں سو رہا ہے اور ہم غفلت کی نیند میں سورہے ہیں آپ کو یہ مان لینا چاہیے کہ ہمیں ایسا سنہری موقع آج تک نہیں ملا کیونکہ ہم مصروفِ کار رہتے تھے اور شام کو تھکے ہارے گھر پہنچ رہے تھے اور اپنے آس پاس پڑوس کی فکر نہیں رہتی تھی۔ اگر ہم اس سال خواب غفلت سے بیدار ہوگئے اپنے آس پاس پڑوس میں رہنے والوں کی حالت پُرسی کی تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمیں دنیا کی سب سے بڑی دولت یعنی تقرب الہی حاصل ہوگیا ۔ اہلِ ایمان اگرچہ اس مہینے میں مومنین کےلئے افطاری کا انتظام کرتے ہیں اور اپنے گھر بُلا کر افطاری کراتے ہیں مگر اس سال ہم لاک ڈاؤن کی وجہ سےایسا کرنے سے قاصر ہیں تو اس کے لئے بھی ہمیں ایک بہترین موقع ہاتھ آیا ہے ہمیں اُس افطاری کو اب ان لوگوں میں تقسیم کرنا چاہئے جو دن میں مزدوروی کرکے شام کو اپنے اہل وعیال کےلئے کھانا لاتے تھے اور اب مزدوروی نہ ملنے کی صورت میں فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں اور اپنی عزت کو برقرار رکھنے کےلئے کسی سے فریاد نہیں کرتے ہیں یا ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں مگر اس آس میں ضرور رہتے ہیں کہ شام تک اللہ تعالیٰ ہمارے کھانے کا انتظام ضرور کرے گا جب شام کے وقت ہم یاآپ اس کے گھر جاکر اس کو کھانا فراہم کریں گے تو اُس کو اللہ تعالیٰ پر اور زیادہ بھروسا ہوجائے گا اس کے ایمان میں نئی جان آئے گی اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی سعادت نصیب ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس سال کی افطاری کا اہتمام ان ہی کےلئے کرنا چاہئے جو اس وباء کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوگئے ہیں اور اب کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں اس لئے اے اہل ایمان ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں اگر ہم اس امتحان کی گھڑی میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں دنیا و آخرت سعادت حاصل ہوگئی ہے۔
قارئین کرام یہ بھی ایک مسلمہ حقیقتِ عیاں ہے کہ اس کورونا کی وباء اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، بہت سے لوگوں کو مزدوروی نہیں ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہیں اس لئے یہ ہم پر فرض عائد ہورہا ہے کہ ہم ان کا خاص خیال رکھیں۔ خاص کر سحری اور افطاری کے وقت۔۔ جب ہمارے دسترخوان پر طرح طرح کے پکوان اور طرح طرح کی نعمتیں ہوتی ہیں اور ہمارے پڑوس میں رہ رہے یتیم، غریب اور بیوہ کے بچے بھوک سے نڈھال رو رو کر سورہے ہیں۔ اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی پڑوسی یتیم، مسکین یا بیوہ روزِ آخرت اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں کہ اے اللہ میرے آسودۂ حال ہمسایہ کو سحری اور افطاری کے وقت بھی میرے بچوں پر ترس نہیں آئی اور خود طرح طرح کے پکوان کھاتا تھا اور جُوٹھا میرے آنگن کی طرف پھینکتا تھا اور میرے بچے رو رو کر بھوکے سو رہے تھےتو اُس وقت ہمیں کن حالات سے گزرنا پڑے گا اس بات سے آپ سب واقف ہیں۔ اس لئے اگر ہم اپنے مفلس، غریب، یتیم پڑوسیوں کو رہنے کےلئے مکان فراہم نہیں کرسکتے ہیں مگر ان کےلئے روٹی تو فراہم کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور ہم پر فرض بھی ہے اگر ہم نے ان کےلئے کھانا فراہم نہیں کیا تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی برکت و سعادت کیسے حاصل ہوگی زمانہ بدل جائے گا وہ یتیم آسودۂ حال ہوجائے گا اور ہم پرمفلسی کے ایام آجائیں گے اس وقت ہمیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہوگا کیونکہ یہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ نہ غریبی رہنے والی ہے اور نہ ہی امیری۔آؤہم آج سے یہ عہد کریں کہ ہمارے آس پاس پڑوس میں کوئی بھوکا نہ سوئے یاکوئی یتیم، مسکین یا بیوہ بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوجائے۔
٭٭٭
7006259067