مولانا کے افکار پر ایماندارانہ عمل ملک کا تعلیمی و تہذیبی نقشہ بدل سکتا ہے:پروفیسر رضوان قیصر
شاعری اور افسانہ ہی نہیں دیگر موضوعات پربھی اردو میں لکھنا چاہئے:پروفیسر مزمل
ڈاکٹر ہارون ر شید
لکھنؤ۔۱۱؍نومبر۔مولانا ابوالکلام آزاد آخر وقت تک ملک کی تقسیم کے خلاف رہے۔اقلیت اور اکثریت کی تقسیم اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارناموں اور خدمات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔مسلمان اپنے اندر سے یہ بات نکال دیں کہ وہ اقلیت میں ہیں کیونکہ اقلیت کا لفظ کمزوری اور محرومی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی خدمات اکثریت میں ہیں۔اسلام اور ہندوستانی قومیت میں کو ئی بعد نہیں ہے۔مولاناابوالکلا م آزاد آخر وقت تک ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔لیکن تقسیم ہو کر رہی۔مولانا کسی ایک زبان کی سیادت کے بھی خلاف تھے۔ان خیالات کا اظہار مانو لکھنؤ کیمپس کے زیر اہتمام کیفی اعظمی اکادمی میںقومی یوم تعلیم کے موقع پر پروفیسر رضوان قیصر(جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) نے کیا۔پروفیسر رضوان قیصر’’مولانا آزاد کے دانشورانہ و رثے کی بازیابی‘‘موضوع پر توسیعی خطبہ پیش کر رہے تھے،انھوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے وئے کہا کہ مؤرخین یہ مانتے ہیں کہ مسلمان کانگریس سے دور ہو کر مسلم لیگ سے قریب ہو رہے تھے لیکن میں اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ مسلمان کانگریس سے دور تو ہو رہے تھے لیکن وہ مسلم لیگ سے قریب نہیں ہو رہے تھے۔ مولانا نے ہمیشہ کہا کہ مذہب سے قومیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے مذہب اور قومیت میںکوئی بعد نہیںہے بلکہ حب الوطنی ہمارے ایمان کا جز ہے۔مولانا آزاد کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان کے باہمی ر شتے ہمارے ایمان کا حصہ ہونا چاہئیں۔انھوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہ ایک و قت مولانا نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر آسمان سے کوئی فرشتہ قطب مینار پر اتر کر آجائے اورو ہ یہ کہے کہ تم ہندو مسلمان اتحاد سے دست بردار ہو جاؤ تو آزادی تمہیں کل مل جائے گی تو میں کہہ دوں گا کہ آزادی تو ایک دن ہم حاصل کر ہی لیں گے لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد مجروح ہو گیا تو اس سے بڑا نقصان کوئی نہیں ہو سکتا۔اس کا مداوا پھر کبھی نہ ہو سکے گا۔پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ مولانا آزاد نے کہا تھا کہ ملک کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا مسلمان بھی بٹ جا ئے گا جو یہاں رہ جائیں گے انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا جو چلے جائیں گے وہ وہاں پر سکون نہیں رک سکیں گے۔پوفیسر رضوان نے کہا کہ جو دانشوارانہ ورثہ مولانا نے چھوڑا ہے اس پر اگر آج بھی ایمانداری سے عمل کیاجائے تو ملک کا تعلیمی اور تہذیبی نقشہ بدل سکتا ہے۔
پروگرام کی صدارت آگرہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمدمزمل کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عمیر منظر (اسسٹنٹ پروفیسر مانو) نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہو ئے مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا اجمالی تعار ف اور پروگرام کا خاکہ بیان کیا۔مانو لکھنؤ کیپمس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدوس نے مہمانوں اور سامعین کا خیر مقدم رکتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد اردو کے سب سے بڑے ادیب اور سب سے بڑے خطیب اور مفکر تھے۔اگر ان کے تعلیمی نظریات پر ایمانداری سے عمل ہوتا تو آج ہندوستان کا تعلیمی منظرنامہ کچھ اور ہوتا۔
مہمان خصوصی پروفیسر ایس پی سنگھ(وائس چانسلر لکھنؤیونیورسٹی۔لکھنؤ) نے مانو کے اساتذہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں اس پروگرام میں نہیں آتا تو میں مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں اتنا کچھ نہ جان پاتا جو کچھ ابھی پروفیسررضوان قیصر نے اپنی تحقیق اور ریسرچ کی بنیاد پر بتایا۔انھوں نے کہا کہ بعض لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں وہ جس منصب پر فائز ہوتے ہیں تواس منصب کا وقار بڑھاتے ہیں۔بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی پہچان عہدہ اور منصب بناتا ہے۔مولانا آزاد پہلی صف میں تھے۔ان جیسی عظیم شخصیتیں صرف دو چار ہی ہوتی ہیں ۔اگر ایسی عظیم شخصیتیں دس بھی مل جائیں تو پورے عہد کا نقشہ بدل جائے۔ایسی شخصیتوں کے کردار کی چمک پر وقت کبھی اثر انداز نہیں ہوتا چاہے کتنا ہی زمانہ گذر جائے ۔انھوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ انسان کے افکار اور نظریات بدلتے ہیں مولانا کے افکار و نظریات میں بھی تبدیلی آئی ہمارا بھی نظریہ اور سوچ بدلتی ہے لیکن اہم یہ ہے کہ وہ تبدیلی کس رخ پر ہو رہی ہے۔اگر مثبت ہے تو سماج اور ملک کے لئے مفید ہوتی ہے اگر منفی ہے تو فرد سماج اور ملک سب کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔مولانا کی سوچ ہمیشہ مثبت رہی۔دوسرے مہمان خصوصی خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی کے و ائس چانسلر پروفیسر ماہ رخ مرزا نے اپنے مختصر خطاب میں مولانا آزاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد نے بیس سال کی عمر میںحضرت امام حسین ؑ پر ایک کتاب’’ شہید اعظم‘‘لکھی تھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے امام حسین کی سیرت کا مطالعہ کس دلجمعی سے کیا ہوگا اور ان کی سیرت کو کس طر ح اپنے اندر اتارلیا ہوگا۔یہ اسی کا اثر تھا کہ مولانا آگے چل کر اتنے کارنامے انجا م دے سکے اور کبھی اپنے موقف سے سمجھوتا نہیں کیا۔انھوں نے اس موقع پر اپنی یو نیورسٹی کے مسائل اور منصوبے بھی بیان کئے۔اور یہ بھی کہا کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا داغ لگایا جارہا ہے اس سلسلہ میں بھی ریسرچ کی جانا چاہئے تاکہ اس کے پس پردہ عوامل پر سے پردہ ہٹ سکے۔
پروفیسر مزمل (سابق وائس چانسلر آگرہ یونیورسٹی ) نے اپنے صداتی خطبہ میں پروفیسر رضوان قیصر کے کلیدی خطبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جتنا تفصیلی خطبہ اور جس انداز میں پیش کیا وہ یقینا قابل تعریف ہے کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے انھوں نے چھوڑ دیاہو یا چھوٹ گیا ہو ،پروفیسر مزمل نے کہا کہ اردو کی خدمت صرف افسانہ اور شاعری لکھ کر ہی نہیں کی جاتی بلکہ دیگر موضوعات پر بھی لکھ کر ار دو کی خدمت کی جا سکتی ہے جو بہت کم ہو رہی ہے۔مولانا آزاد کے نظریہ تعلیم پر انھوں نے کہا کہ تعلیم انسانی زندگی کو اور خوبصورت بناتی ہے۔فنون لطیفہ انسانی جذبات اور احساسات سے تعلق رکھتے ہیںدیگر علوم دماغ سے تعلق رکھتے ہیں زندگی صرف دماغ سے ہی نہیں چلتی بلکہ اس میںاحساسات اور جذبات کا بڑا دخل ہے۔انھوں نے مولانا کی قرآن فہمی کے بارے میں کہا کہ انھوں نے صرف سورہ فاتحہ کے معنی اور مفہوم کو پانچ سو صفحات میں لکھا ہے جس سے مولانا کی ذکاوت اور فطانت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے خطبات کو بار بار پڑھنا چاہئے جو انھوں نے الگ الگ موقع پر دئے ہیں۔پروفیسر مزمل نے کہا کہ اساتذہ کا کام ہے کہ طلبہ کو حوصلوں کو بلند رکھیں۔تبھی وہ کھلی فضا میں پر واز کے لئے تیار ہوپاتے ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر نور فاطمہ (اسسٹنٹ پروفیسرمانولکھنؤ کیمپس)نے کلمات تشکر ادا کئے۔ مانو لکھنؤ کیمپس کے طلبہ و طالبات کے قومی ترانہ پیش کئے جانے کے ساتھ ہی پر وگرام کا اختتام ہوا۔ پروفیسر مزمل (سابق وائس چانسلر آگرہ یونیورسٹی ) نے اپنے صداتی خطبہ میں پروفیسر رضوان قیصر کے کلیدی خطبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جتنا تفصیلی خطبہ اور جس انداز میں پیش کیا وہ یقینا قابل تعریف ہے کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے انھوں نے چھوڑ دیاہو یا چھوٹ گیا ہو ،پروفیسر مزمل نے کہا کہ اردو کی خدمت صرف افسانہ اور شاعری لکھ کر ہی نہیں کی جاتی بلکہ دیگر موضوعات پر بھی لکھ کر ار دو کی خدمت کی جا سکتی ہے جو بہت کم ہو رہی ہے۔مولانا آزاد کے نظریہ تعلیم پر انھوں نے کہا کہ تعلیم انسانی زندگی کو اور خوبصورت بناتی ہے۔فنون لطیفہ انسانی جذبات اور احساسات سے تعلق رکھتے ہیںدیگر علوم دماغ سے تعلق رکھتے ہیں زندگی صرف دماغ سے ہی نہیں چلتی بلکہ اس میںاحساسات اور جذبات کا بڑا دخل ہے۔انھوں نے مولانا کی قرآن فہمی کے بارے میں کہا کہ انھوں نے صرف سورہ فاتحہ کے معنی اور مفہوم کو پانچ سو صفحات میں لکھا ہے جس سے مولانا کی ذکاوت اور فطانت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے خطبات کو بار بار پڑھنا چاہئے جو انھوں نے الگ الگ موقع پر دئے ہیں۔پروفیسر مزمل نے کہا کہ اساتذہ کا کام ہے کہ طلبہ کو حوصلوں کو بلند رکھیں۔تبھی وہ کھلی فضا میں پر واز کے لئے تیار ہوپاتے ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر نور فاطمہ (اسسٹنٹ پروفیسرمانولکھنؤ کیمپس)نے کلمات تشکر ادا کئے۔ مانو لکھنؤ کیمپس کے طلبہ و طالبات کے قومی ترانہ پیش کئے جانے کے ساتھ ہی پر پروگرام میں ڈاکٹر فخر عالم اظمی۔ڈاکٹر عشرت ناہید،ڈاکٹر نور فاطمہ، ڈاکٹر ابو عمیر منظر، ڈاکٹر سرفراز، ڈاکٹر فائز ،ڈاکٹر صدف فرید، ڈاکٹر سلطان شاکر ہاشمی،ڈاکٹر جہاں آرا سلیم،ڈاکٹر ثمامہ فیصل،ڈاکٹر ثوبان سعید،ڈاکٹر ہما یعقوب،ڈاکٹر ڑضوان احمد،ڈاکٹر مسیح الدین مسیح،احسن اعظمی۔پرویز ملک زادہ،سعید مہدی رضوی(سکریٹری کیفی اعظمی اکیڈمی)سعید ہا شمی،کے علاوہ کرامت گرلس کالج ندوۃ العلما اور خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی کے طلبہ و طالبات نیز شہر کے باذوق حضرات کی بڑی تعداد میں موجود تھے پروگرام میں ڈاکٹر فخر عالم اظمی۔ڈاکٹر عشرت ناہید،ڈاکٹر نور فاطمہ، ڈاکٹر ابو عمیر منظر، ڈاکٹر سرفراز، ڈاکٹر فائز ،ڈاکٹر صدف فرید، ڈاکٹر سلطان شاکر ہاشمی،ڈاکٹر جہاں آرا سلیم،ڈاکٹر ثمامہ فیصل،ڈاکٹر ثوبان سعید،ڈاکٹر ہما یعقوب،ڈاکٹر ڑضوان احمد،ڈاکٹر مسیح الدین مسیح،احسن اعظمی۔پرویز ملک زادہ،سعید مہدی رضوی(سکریٹری کیفی اعظمی اکیڈمی)سعید ہا شمی،کے علاوہ کرامت گرلس کالج ندوۃ العلما اور خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی کے طلبہ و طالبات نیز شہر کے باذوق حضرات کی بڑی تعداد میں موجود تھےوگرام کا اختتام ہوا۔
خطبہ استقبالیہ
ڈاکٹر عبدالقدوسڈاکٹر عبدالقدوس انچارج لکھنؤ سٹیلائٹ کیمپس، لکھنؤ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ،امابعد!
صدر عالی مرتبت پروفیسرمزمل حسین صاحب (سابق وائس چانسلرآگرہ یونیورسٹی )مہمان خصوصی عزت مآب پروفیسرایس پی سنگھ صاحب(وائس چانسلر لکھنؤ یونیورسٹی) مہمان اعزازی عالی وقارپروفیسرمہ رخ مرزا صاحب(وائس چانسلرخواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی، لکھنو)قابل قدرڈاکٹررضوان قیصر صاحب(پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)معززین شہر، دیگر مہمانان ،اساتذہ کرام عزیزطلباء وطالبات! یہ میرا دینی واخلاقی فریضہ ہے کہ میں آئے ہوئے مہمانوں کا دل کی گہرائیوں سے استقبال کروں جن کی تشریف آوری یقیناہمارے لئے خوش نصیبی اور حوصلہ افزائی کا باعث ہے اس کیلئے ہم آپ کے بے انتہا ممنون ومشکور ہیں۔
ساتھ ہی میں آپ سب کا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،لکھنؤ کیمپس میںاپنی طرف سے اور تمام اساتذہ وطلباء کی طرف سے دل کی عمیق گہرائیوں سے استقبال کرتا ہوں۔ حضرات!مناسب تو یہ ہے کہ’’ قومی یوم تعلیم‘‘ کی مناسبت سے مولانا آزاد ؒ کے تعلیمی افکار ونظریات پر دل کھول کر بات کی جائے ،اس کی جامعیت پر خوب غوروفکر کیا جائے ،اسے عملی شکل دینے کے لیے دل وجان سے محنت کی جائے ۔ ساتھ ہی میں آپ سب کا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،لکھنؤ کیمپس میںاپنی طرف سے اور تمام اساتذہ وطلباء کی طرف سے دل کی عمیق گہرائیوں سے استقبال کرتا ہوں۔ حضرات!مناسب تو یہ ہے کہ’’ قومی یوم تعلیم‘‘ کی مناسبت سے مولانا آزاد ؒ کے تعلیمی افکار ونظریات پر دل کھول کر بات کی جائے ،اس کی جامعیت پر خوب غوروفکر کیا جائے ،اسے عملی شکل دینے کے لیے دل وجان سے محنت کی جائے ۔
’’نیشنل ایجوکیشن ڈے‘‘ کی مناسبت سے لکھنؤ کی تین بڑی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کا ایک اسٹیج پر موجود ہونا یقینا ایک خوش آئند بات ہے اوریہ ان کی مولانا آزاد کے تئیں بے انتہا محبت اور عقیدت کی دلیل ہے۔اور آپ حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس وقت ملک کی تعلیمی صورتحال کیا ہے؟ہم تعلیمی میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ پوری دنیا میں ہندوستان کی تعلیمی پوزیشن کیا ہے؟ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم غور کریں اور مولانا آزاد ؒ کے تعلیمی نظریات کے تمام پہلوؤں بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ برملااعتراف کرنا ہوگا کہ مولاناآزاد کے تعلیمی نظریات پر اگر مکمل عمل درآمد ہوتا تو آج ملک کا تعلیمی نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ہم تعلیم کے کسی بھی شعبے میں نہ کسی سے کم ہوتے اور نہ پیچھے ہوتے ۔پرائمری،سکنڈری، سینئر سیکنڈری ہائر ایجوکیشن،سائنس وٹکنالوجی،ریسرچ اورکلچرل ایجوکیشن وغیرہ سے متعلق آپ نے جوخاکہ پیش کیا تھاوہ یقینا غیر معمولی اور لاثانی تھا۔ لیکن افسوس کہ اسلاف فراموشی ہماراطرہ امتیاز ہے اور ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر استمرار کے ساتھ زیادہ دنو ں تک نہیں چل سکتے۔یہی مولانا آزاد کے تعلیمی افکارونظریات کے ساتھ بھی ہوا۔وقت گذرنے ساتھ ہم نے انہیں اور ان کے افکارونظریات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ’’نیشنل ایجوکیشن ڈے‘‘ کی مناسبت سے لکھنؤ کی تین بڑی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کا ایک اسٹیج پر موجود ہونا یقینا ایک خوش آئند بات ہے اوریہ ان کی مولانا آزاد کے تئیں بے انتہا محبت اور عقیدت کی دلیل ہے۔اور آپ حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس وقت ملک کی تعلیمی صورتحال کیا ہے؟ہم تعلیمی میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ پوری دنیا میں ہندوستان کی تعلیمی پوزیشن کیا ہے؟ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم غور کریں اور مولانا آزاد ؒ کے تعلیمی نظریات کے تمام پہلوؤں بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ برملااعتراف کرنا ہوگا کہ مولاناآزاد کے تعلیمی نظریات پر اگر مکمل عمل درآمد ہوتا تو آج ملک کا تعلیمی نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ہم تعلیم کے کسی بھی شعبے میں نہ کسی سے کم ہوتے اور نہ پیچھے ہوتے ۔پرائمری،سکنڈری، سینئر سیکنڈری ہائر ایجوکیشن،سائنس وٹکنالوجی،ریسرچ اورکلچرل ایجوکیشن وغیرہ سے متعلق آپ نے جوخاکہ پیش کیا تھاوہ یقینا غیر معمولی اور لاثانی تھا۔ لیکن افسوس کہ اسلاف فراموشی ہماراطرہ امتیاز ہے اور ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر استمرار کے ساتھ زیادہ دنو ں تک نہیں چل سکتے۔یہی مولانا آزاد کے تعلیمی افکارونظریات کے ساتھ بھی ہوا۔وقت گذرنے ساتھ ہم نے انہیں اور ان کے افکارونظریات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
میں اس اسٹیج سے تمام ارباب علم ونظر سے درخواست کرتا ہوں کہ مولانا آزاد ؒ کو اگر صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنا ہے تو ان کے تعلیمی نظریات پر پورے اخلاص وایمانداری کے ساتھ کا م کرنے اور انہیں اپنے اداروں میں نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ورنہ گیارہ نومبر کو کسی ہال میں بیٹھ کر چند لمحوں کے لیے مولانا کو یاد کرنے سے ایک رسم کی ادائیگی تو ہوسکتی ہے لیکن ایماندارانہ خراج عقیدت نہیں ہوسکتیْ۔ میں اس اسٹیج سے تمام ارباب علم ونظر سے درخواست کرتا ہوں کہ مولانا آزاد ؒ کو اگر صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنا ہے تو ان کے تعلیمی نظریات پر پورے اخلاص وایمانداری کے ساتھ کا م کرنے اور انہیں اپنے اداروں میں نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ورنہ گیارہ نومبر کو کسی ہال میں بیٹھ کر چند لمحوں کے لیے مولانا کو یاد کرنے سے ایک رسم کی ادائیگی تو ہوسکتی ہے لیکن ایماندارانہ خراج عقیدت نہیں ہوسکتیْ۔
معزز حضرات!مو لاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ہندوستان کی واحد مرکزی یونیورسٹی ہے جو کلی طور پر اردو کے فروغ کیلئے قائم کی گئی ہے۔اس کی شروعات اگرچہ فاصلاتی طرز تعلیم کے ذریعہ ہوئی تھی لیکن سن 2006ء سے روایتی طرز تعلیم کے ذریعہ ملک بھر میں اسکی نمایاں خدمات سنہرے حروف میں لکھے جانے قابل ہیں۔دودہے سے کم عرصہ میں یونیورسٹی عروج کے جس منزل پر فائز ہے یہاں تک پہنچنے کیلئے کئی دہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔سالوں کی صحرا نوردی اور آبلہ پائی کے بعد کہیںجاکر یہ مقام حاصل ہوتا ہے۔یونیورسٹی کی مین کیمپس تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر خوبصورت اور پرکشش ہے کہ دیکھنے والامبہوت رہ جائے۔یونیورسٹی نے اپنے فیض کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کیلئے حیدرآباد سے باہر آف کیمپس کا بھی سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع کیاہے۔لکھنو،بنگلور،کشمیر،سنبھل ،آسنسول ،کرناٹک،دربھنگہ کے کیمپسزاس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اتنے زیادہ آف کیمپسس کسی اور مرکزی یا ریاستی یونیورسٹی کے پاس ہیں۔لکھنو چونکہ سرزمین علم وادب ہے۔ مرکز تہذیب وتمدن ہے، اردو کی خدمات کے سلسلے میں لکھنو کے کردار کو تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ اردو میڈیم اسکول اور مدارس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بھی یہاں ہے۔ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے 2009ء میں یہاں سٹیلائٹ کیمپس کا آغاز کیا۔تاکہ شمالی ہندوستان کے مدارس اورمیڈیم اسکول کے بچوں کی پیشہ ورانہ تربیت کرکے انہیں مین اسٹریم سے جوڑا جاسکے۔لکھنوسٹیلائٹ کیمپس میںفی الحال ایم اے ،اپی ایچ ڈی اردو،عربی،فارسی اور انگریزی کے شعبے چل رہے ہیں۔موجودہ وائس چانسلرجناب ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی خصوصی توجہ اور عنایات یہ کیمپس بہت تیزی کے ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے۔۔اللہ دعا ہے کہ وائس چانسلر صاحب کی اسی طرح نظر عنایت کیمپس پر رہے اور یہ کیمپس خوب پھلے اور پھولے اور اہل اردو کی خوابوں کی حقیقی اور سچی تعبیر بن سکے۔ کیمپس کو ایک عالیشان اورممتاز سٹیلائٹ کیمپس میں تبدیل کرنے کی ساری تیاریاں تقریبا مکمل ہوچکی ہیں اور بہت جلد آپ تک یہ خوشخبری بھی سنائی جائیگی۔ کیمپس کے توسیعی منصوبہ کے تحت مستقبل قریب میں گریجویشن اورپروفیشنل کورسز شروع ہونے کی توقع ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ اردو میڈیم اسکول ،مدارس اور اردو یونیورسٹی کے درمیان ایک خوشگوار علمی رابطہ قائم ہو اور ملک وملت کی خدمت میں ہم مل جل کر کردار ادا کریں۔ آخر میں ایک دفعہ تمام مہمانان،سامعین،رفقاء کیمپس،آل انڈیاکیفی اعظمی اکیڈمی کے ذمہ داران،میڈیا کے دوستوں اورطلباء وطالبات کا شکریہ ادا کرتا ہوںجن کی دلچسپی، محنت،لگن اور تعاون سے یہ پروگرام منعقد ہوا۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں مولانا آزاد کے نقش قدم پر چل کر ملک وملت کیلئے ایماندارانہ خدمت کی توفیق عطا فرما۔ معزز حضرات!مو لاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ہندوستان کی واحد مرکزی یونیورسٹی ہے جو کلی طور پر اردو کے فروغ کیلئے قائم کی گئی ہے۔اس کی شروعات اگرچہ فاصلاتی طرز تعلیم کے ذریعہ ہوئی تھی لیکن سن 2006ء سے روایتی طرز تعلیم کے ذریعہ ملک بھر میں اسکی نمایاں خدمات سنہرے حروف میں لکھے جانے قابل ہیں۔دودہے سے کم عرصہ میں یونیورسٹی عروج کے جس منزل پر فائز ہے یہاں تک پہنچنے کیلئے کئی دہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔سالوں کی صحرا نوردی اور آبلہ پائی کے بعد کہیںجاکر یہ مقام حاصل ہوتا ہے۔یونیورسٹی کی مین کیمپس تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر خوبصورت اور پرکشش ہے کہ دیکھنے والامبہوت رہ جائے۔یونیورسٹی نے اپنے فیض کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کیلئے حیدرآباد سے باہر آف کیمپس کا بھی سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع کیاہے۔لکھنو،بنگلور،کشمیر،سنبھل ،آسنسول ،کرناٹک،دربھنگہ کے کیمپسزاس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اتنے زیادہ آف کیمپسس کسی اور مرکزی یا ریاستی یونیورسٹی کے پاس ہیں۔لکھنو چونکہ سرزمین علم وادب ہے۔ مرکز تہذیب وتمدن ہے، اردو کی خدمات کے سلسلے میں لکھنو کے کردار کو تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ اردو میڈیم اسکول اور مدارس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بھی یہاں ہے۔ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے 2009ء میں یہاں سٹیلائٹ کیمپس کا آغاز کیا۔تاکہ شمالی ہندوستان کے مدارس اورمیڈیم اسکول کے بچوں کی پیشہ ورانہ تربیت کرکے انہیں مین اسٹریم سے جوڑا جاسکے۔لکھنوسٹیلائٹ کیمپس میںفی الحال ایم اے ،اپی ایچ ڈی اردو،عربی،فارسی اور انگریزی کے شعبے چل رہے ہیں۔موجودہ وائس چانسلرجناب ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی خصوصی توجہ اور عنایات یہ کیمپس بہت تیزی کے ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے۔۔اللہ دعا ہے کہ وائس چانسلر صاحب کی اسی طرح نظر عنایت کیمپس پر رہے اور یہ کیمپس خوب پھلے اور پھولے اور اہل اردو کی خوابوں کی حقیقی اور سچی تعبیر بن سکے۔ کیمپس کو ایک عالیشان اورممتاز سٹیلائٹ کیمپس میں تبدیل کرنے کی ساری تیاریاں تقریبا مکمل ہوچکی ہیں اور بہت جلد آپ تک یہ خوشخبری بھی سنائی جائیگی۔ کیمپس کے توسیعی منصوبہ کے تحت مستقبل قریب میں گریجویشن اورپروفیشنل کورسز شروع ہونے کی توقع ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ اردو میڈیم اسکول ،مدارس اور اردو یونیورسٹی کے درمیان ایک خوشگوار علمی رابطہ قائم ہو اور ملک وملت کی خدمت میں ہم مل جل کر کردار ادا کریں۔ آخر میں ایک دفعہ تمام مہمانان،سامعین،رفقاء کیمپس،آل انڈیاکیفی اعظمی اکیڈمی کے ذمہ داران،میڈیا کے دوستوں اورطلباء وطالبات کا شکریہ ادا کرتا ہوںجن کی دلچسپی، محنت،لگن اور تعاون سے یہ پروگرام منعقد ہوا۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں مولانا آزاد کے نقش قدم پر چل کر ملک وملت کیلئے ایماندارانہ خدمت کی توفیق عطا فرما۔