قمر رئیس اورترقی پسند تنقید

0
663

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

پروفیسرشارب ردولوی
’نئی ترقی پسند تنقید‘ اردو تنقید اس کے اسالیب نقد یا رجحانات کے لیے کوئی رائج اصطلاح نہیں ہے۔ میں نے اسے 1980 کے آس پاس اس وقت کے ترقی پسند رویّے کے لیے استعمال کیا تھا اس لیے کہ 1935 میں اختر حسین رائے پوری کے مضمون ’ادب اور انقلاب‘ کے بعد تقریباً نصف صدی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کاڈول اور رالف فاکس سے لے کر گیورگی لوکاچ اور اس کے بعد کے ناقدین کے یہاں مارکسی تنقید میں نظریاتی اور عملی دونوں سطح پر جس طرح کی تبدیلیاں آئیں اس کے تحت تمام تحریروں کو مارکسی تنقید سے وابستہ کردینا درست نہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے ادیب و ناقد جو وسیع انسان دوستی، سماجی برابری، پُرمسرت زندگی اور وسعتِ فکر و نظر پر یقین رکھتے تھے وہ مارکسسٹ نہ ہوتے ہوئے بھی عملاً مارکسسٹ ادیبوں اور ناقدوں کے ساتھ تھے۔
اس نصف صدی میں ترقی پسند ناقدین کی تین نسلیں سامنے آئیں۔ پہلی نسل اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر عبدالعلیم اور سجاد ظہیر وغیرہ کی تھی جنھوں نے تنقید میں نظریہ سازی کا کام کیا۔ پہلی بار ان لوگوں نے مارکسی نقطۂ نظر کا تعارف بھی کرایا۔ اس کی بنیاد پر ادبی تخلیقات کا جائزہ بھی لیا اور نظریاتی طور پر اس کا دفاع بھی کیا۔ دوسری نسل احتشام حسین، آل احمد سروٗر، عزیز احمد، ممتاز حسین، مجنوں گورکھپوری، اختر انصاری، سردار جعفری، اختر اورینوی، مجتبیٰ حسین، ظ- انصاری، خلیل الرحمن اعظمی وغیرہ کی تھی جنھوں نے اس عمارت کو پُروقار بھی بنایا اور وسعت بھی دی۔ انھوں نے ادب کے جمالیات، تاریخ، تہذیب اور سماج سے تعلق اور ان کے اثرات کی نشاندہی کی اور ان کے تحت اردو کے کلاسیکی اور جدید ادب کے مطالعے کے لیے راہیں ہموار کیں لیکن اسی دور میں اگر ایک طرف نظریاتی ادعائیت کو فروغ ملا تو دوسری طرف کمیونسٹ سیاست اور اس کی نظریاتی تقسیم نے تخلیق کار کو ایک دو راہے پر لاکر کھڑا کردیا۔
تیسرے دور کی ابتدا 1980 سے پہلے ہوچکی تھی لیکن 1980 تک اس نسل نے اردو میں ذمہ دار ناقدین کی حیثیت اختیار کرلی تھی جن میں ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر قمر رئیس،ڈاکٹرسید محمدعقیل رضوی،  صدیق الرحمان قدوائی،محمود الحسن رضوی، مجاور حسین، نامی انصاری، فضلِ امام رضوی، جعفر رضا، علی احمد فاطمی، پاکستان میں محمد علی صدیقی، عتیق احمد، آغا سہیل، کنیڈا میں خورشید عالم اور فیض تنقید سے اپنی شناخت بنانے والے اشفاق حسین کے علاوہ بہت سے لکھنے والے شامل ہیں۔ نئی ترقی پسندی کے پاس کوئی سیاسی مینی فسٹو نہیں تھا یہی اس کی خصوصیت بھی ہے اور وسعت بھی۔
قمر رئیس نئی ترقی پسند تنقید کا ایک اہم نام ہے۔ وہ ایک خوش مزاج اور بیحد سنجیدہ قاری و ناقد تھے۔ مطالعے میں ان کے انہماک، تحقیقی جستجو میں ان کی ژرف نگاہی اور تنقیدی تجزیوں میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ ان کے مقالے ’پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بحیثیت ناول نگار‘ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ پریم چند پر اردو میں یہ پہلا تحقیقی و تنقیدی کام تھا۔ اس کے علاوہ پریم چند کے ابتدائی ناولوں اسرار معابد اور روٹھی رانی سے لے کر گئودان تک فکر اور مسائل کے ایسے اتار چڑھاؤ ہیں کہ کسی فیصلے تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا۔ مسائل کے ساتھ صورت حال کا تبدیل ہونا فطری بات ہے۔ پریم چند کے یہاں بھی کہیں سیاسی جھلک ہے، کہیں ریت، رواج اور عقائد کے اثرات، کہیں ان سے بغاوت اور کہیں انھیں میں پناہ لینے کی کوشش۔ پریم چند کے ناول اچھا بھلا میدانِ کارزار ہیں۔ پہلے سے کوئی واضح راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی انجام دہی مشکل تھی لیکن قمر رئیس نے اس کام کو جس معروضی طریقۂ کار سے انجام دیا اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آج 50 سال بعد بھی پریم چند کے ناولوں پر اس سے بہتر کو ئی کام سامنے نہیں آیا۔ ان کی تحریریں پریم چند پر ان کی کتاب کی اشاعت (1959) سے پہلے ہی ادب و تنقید کا حوالہ بننے لگی تھیں۔ اس طرح 1959 سے 2009 تک پوری نصف صدی وہ تحقیق و تنقید، تدوین اور تنظیم کے کاموں میں مصروف رہے۔ قمر رئیس کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی تحریر اور ان کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ انھوں نے پریم چند پر 6 کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔ اس طرح اردو میں وہ مطالعۂ پریم چند کی ابتدا کرنے والے ہی نہیں بلکہ اسے وسعت اور وقار دینے والے بھی ہیں۔
پریم چند کے بعد ان کا پسندیدہ موضوع اردو افسانہ تھا۔ در اصل پریم چند کے موضوع اور اردو افسانے کے مطالعے میں ایک تعلق بھی ہے۔ افسانے اور افسانوی ادب کے مطالعہ کی بنیادی اینٹ پریم چند ہی ہیں۔ اردو افسانے پر قمر رئیس کی چار کتابیں شائع ہوئیں۔ مطالعہ کے تنوع کے لحاظ سے ’’اردو میں بیسویں صدی کا افسانوی ادب‘‘ ان کی ایک اہم کتاب ہے۔ یوں تو یہ کتاب ان کے 24 مضامین کا مجموعہ ہے جس میں 15 مضامین افسانے پر اور 9 مضامین ناول اور ناول نگاروں پر ہیں جس میں موضوع کے اندرونی ربط کی وجہ سے اردو کے افسانوی ادب کا یہ مطالعہ  ’انگارے‘ سے جدید اردو افسانے تک کا احاطہ کرلیتا ہے۔ اس کے علاوہ قمر رئیس نے ترجمے کے فن پر بھی ایک کتاب ترتیب دی۔ ترجمے سے انہیں ذاتی طور پر دلچسپی رہی ہے جس کی مثال ظہیر الدین محمد بابر، غفور غلام (ارمغانِ تاشقند)، علی شیرنوائی اور 2 جلدوں میں شعرائے ازبکستان کی نظموں اور غزلوں کے تراجم ہیں۔ یہ لفظی ترجمے نہیں ہیں، ظہیر الدین محمد بابر، کے بارے میں کتاب کی تحقیقی و ثقافتی اہمیت سے الگ ان کی غزلوں کے اردو غزل ہی کی ہیئت میں ترجمے قمر رئیس کی شعری اظہار پر گرفت کی علامت ہیں۔ وہ ازبکستان میں کافی عرصہ رہ چکے ہیں، اس لیے وہاں کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ بابر اور علی شیرنوائی پر ان کی کتاب سے ان کی شخصیت اور وہاں کے تہذیبی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطالعہ سے وہ مشترک تہذیبی اور تاریخی قدریں بھی سامنے آتی ہیں جن کے ساتھ ہندوستان اور ازبکستان دونوں کا گہرا رشتہ ہے جس نے ہندوستان میں ایک مشترکہ کلچر کو  فروغ دیا۔
قمر رئیس نے رتن ناتھ سرشار، اقبال، جوش، نیاز حیدر وغیرہ پر کتابیں لکھیں۔ یہاں پر ان کی کتابوں کی تفصیلات یا تجزیہ مقصد نہیں ہے۔ یہ اشارے صرف اس لیے کئے گئے کہ ان کی متنوع فکر کا اندازہ ہوسکے۔
قمر رئیس سائنٹفک فکر اور ترقی پسند نظریات رکھنے والے ناقد تھے۔ وہ ایک کھلا ذہن اور غیرمتعصب نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے مارکس کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا اور سیاست، تہذیب اور تاریخ میں تبدیلی کے عمل کو بھی اچھی طرح سمجھا تھا۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ تنقید کوئی میکانکی عمل نہیں ہے اور نہ میکانکی طریقۂ کار کو ادبی تفہیم یا ادبی مطالعہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ مارکس کے نظریات کو غلط نہیں قرار دیتے بلکہ ان کا اعتراض ان لوگوں پر ہے جنھوں نے مارکسزم کو میکانکی طور پر استعمال کیا یا اس فلسفہ کی غلط تعبیر کی جس کا اعتراف کرتے ہوئے قمر رئیس نے لکھا ہے۔
’’… اس حقیقت کو ماننے میں اب تامل نہیں ہونا چاہیے کہ مارکسزم نے جہاں ادبی تنقید کو ایک نیا تناظر اور ایک نئی جہت دی وہاں اس کے طریقۂ کار کو برتنے میں ادّعائی اور میکانکی انداز بھی نمایاں رہا‘‘۔ (ترقی پسند ادب کا پچاس سالہ سفر- قمر رئیس ص ۵۶۸)
قمر رئیس نے اختر حسین رائے پوری کے مضمون ’ادب اور زندگی‘ کے حوالے سے بھی مارکسی تنقید کے عمل میں میکانکیت اور ادعائیت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے ٹیگور کو فراری اور اقبال کو فاشسٹ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مارکسی فلسفہ کی غلط تعبیر تھی۔ تحریک کے ابتدائی دور میں بعض اصناف، شعراء یا کلاسیکی ادب کے بارے میں جو فیصلے کئے گئے اور جن فیصلوں کو مارکسی نظریے سے تعبیر کیا گیا وہ دراصل مارکسزم کی غلط اور پُرجوش تعبیر کا نتیجہ ہے۔ قمر رئیس اپنی زندگی کے آخری دن تک ترقی پسند رہے۔ وہ ایک رسمی یا سکّہ بند ترقی پسند نہیں تھے۔ انھوں نے ادب، تہذیب اور زندگی کے مسائل اور اس کے تعلق کو سمجھا تھا۔ وہ صرف مارکسزم کے نام پر کسی چیز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں  تھے۔ وہ مارکسی نقادوں کی کمزوریوں سے بھی واقف تھے اور ان کی کمزوریوں کے اعتراف میں  انھیں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ ایک ترقی پسند کے لیے خود ان کمزوریوں کا ذکر آسان بات نہیں تھی لیکن انھوں نے ان کا کھل کر اظہار کیا۔ وہ مارکسزم کو قطعی طور پر رد نہیں کرتے لیکن بدلتے ہوئے حالات میں بعض چیزوں پر استفہامیہ نشان ضرور لگادیتے ہیں۔ ایک جگہ پر تو وہ بہت صاف الفاظ میں لکھتے ہیں  :
’’آج کی برق رفتار مادّی تبدیلیوں نے فکر و احساس اور فن کے تناظرات بھی بدل دیئے ہیں۔ نتیجے میں لازمی طور پر شعر و ادب کی لفطیات، اظہارات تمثیلات اور اسالیب میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہم عصر زندگی اور ادب کے مطالعہ کے لیے مارکسی تنقید کا پرانا محاورہ کافی نہیں…‘‘
 (ترقی پسند ادب کے پچاس سال، قمر رئیس ص۵۷۶)
بعض ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا مارکسی تنقید ازکار رفتہ ہوچکی ہے۔ یہ بات درست نہیں، کوئی فلسفہ سرے سے ازکار رفتہ نہیں ہوجاتا۔ اس میں وقت کے تقاضوں اور  تبدیلیوں کے مطابق نئی شاخیں پھوٹتی ہیں، اس کی تعبیر و تشریح میں نئے گوشے پیدا ہوتے ہیں اور ان سے نئے فکری دبستان وجود میں آتے ہیں۔ آج لوگ نئی مارکسزم کا نام لیتے ہیں۔ نئی ترقی پسندی کے بنیادی عناصر میں مارکسزم کے فلسفہ کا اثر ضرور ہے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی علمی بصیرت بھی ہے، وسیع انسان دوستی کے اقدار اور جمالیاتی اثر انگیزی بھی ہے جس میں تخلیق کار اور ناقد کے درمیان تفہیم اور بصیرت کا شعوری رشتہ ہے۔ ایک تخلیق کار پرانی اصطلاح میں  اپنے عہد کی حقیقتوں کا مرقع ساز ہے لیکن ان حقیقتوں کا اظہار کس طرح اور کس پیرائے میں ہو اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ بعض مارکسی ناقدین سے ابتدا میں یہی غلطی ہوئی کہ انھوں نے تخلیق کار سے یہ مطالبہ کیا کہ اس کو کیا لکھنا چاہیے۔ متن کی تہہ داری پر راست بیانی اور بلند آہنگی کو ترجیح دی گئی جو  درست نہیں تھی۔ قمر رئیس نے اس کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا :
’’اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مارکسی نقادوں نے تخلیقی اظہار کی باریکیوں، لفظی پیکروں اور امیجری کی تہہ داریوں کے سنجیدہ مطالعہ کی طرف توجہ نہیں دی یا کم دی۔ خاص طور پر شاعری کے میدان میں۔ اسی طرح شعری تخلیقات کے متنی اور فنّی تجزیے میں بھی مارکسی تنقید کی پیش رفت نسبتاً سست رہی‘‘۔
  (ترقی پسند ادب پچاس سالہ سفر، قمر رئیس ص۵۷۶)
قمر رئیس کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے حالات اور فکری تبدیلیوں کے زمانے میں  ترقی پسند فکر کو وسعت دی۔ اس زمانے میں جب ترقی پسند ادب اور تحریک دونوں شدید اعتراضات کی زد میں تھے اسے کمزور نہیں ہونے دیا۔ اسی سلسلہ میں  انھوں نے حقیقت نگاری پر اردو میں ایک نئے ڈائیلاگ کی ابتدا کی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ آج از سر نو حقیقت نگاری کی تشریح، تعریف اور تعبیر کی ضرورت ہے۔ 19ویں صدی میں شروع ہونے والی حقیقت نگاری کی تحریک ہو یا نفسیاتی حقیقت نگاری یا پھر سماجی حقیقت نگاری یہ اصطلاحات آج پوری طرح ساتھ نہیں دے پاتیں۔ اس لیے آج کی حقیقت نگاری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج کا ادیب و شاعر اپنے عہد کی حقیقتوں کو جس انداز میں پیش کررہا ہے یا آج حقیقت کا اس کا جو تجربہ ہے اس کو سمجھے بغیر اس کی تخلیقات کا صحیح evaluation نہیں کیا جاسکتا۔ آج زندگی جس طرح کے معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی رشتوں کے تضاد کا شکار ہے اس نے فکر اور حقیقت کے اظہار کی نوعیت ہی تبدیل کردی ہے۔ قمر رئیس نے اس موضوع پر مختلف الخیال اہلِ علم کو جمع کرکے پہلی بار نئی حقیقت نگاری کے آثار اور عوامل پر گفتگو کا آغاز کیا۔ اس سلسلہ میںانھوں نے لکھا تھا :
’’ریلزم ہمارے نزدیک نہ کوئی مدرسۂ فکر ہے نہ نظریۂ ادب، نہ ہی ہمارا یہ موقف ہے کہ اس کو ترقی پسندی یا جدیدیت کی طرح کسی ادبی تحریک کا روپ دیا جائے۔ ریلزم ادیب کا خود اپنے عہد کی معروضی حقیقتوں سے تہذیب اور تاریخ سے جڑنے اور اسے اپنی ذات کے حوالوں سے تخلیقی میڈیم میں اتارنے اور بسانے کا عمل ہے۔   (اداریہ آب و گل  پہلا شمارہ ص ۱۱)
بعض لوگ انہیں ’’اشتراکی ترقی پسندی کا اہم ناقد اور مبلغ‘‘ مانتے ہیں۔ یہ بات پورے سچ پر مبنی نہیں۔ مارکسزم کے انسان دوستی کے پہلو پر سب کو یقین تھا۔ قمر رئیس نے بھی اشتراکیت یا اگر کوئی چیز ’’اشتراکی ترقی پسندی‘‘ تھی تو اس کی کسی طرح بھی تبلیغ نہیں  کی۔ وہ پورے کمیونسٹ بھی کبھی نہیں رہے۔ یہ لیبل ہر ترقی پسند پر اس لیے چسپاں کردیا جاتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے بانیوں اور بعد کے بعض سرگرم اراکین کمیونسٹ پارٹی کے فعال ممبروں میں تھے لیکن ترقی پسند ادیبوں کی زیادہ بڑی تعداد جس میں احتشام حسین، ڈاکٹر اعجاز حسین، مجاز، سلام مچھلی شہری، رفعت سروش، عبادت بریلوی، رتن سنگھ، اقبال مجید، مجاور حسین، رام لعل، قمر رئیس، شارب ردولوی، حسن عابد، آغا سہیل، اشفاق حسین، محمد علی صدیقی، احمد جمال پاشا، علی احمد فاطمی اور ایسے سیکڑوںقلمکاروں جو ترقی پسند تو تھے لیکن کمیونسٹ پارٹی کے ممبر نہیں تھے۔ قمر رئیس کی کتابوں یا ان کے مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے سیکڑوں مضامین میں کسی جگہ نہ تو اشتراکیت کی تبلیغ ہے اور نہ کسی طرح کی ادعائیت۔ یہ بات لوگ نظرانداز کردیتے ہیں کہ ان کے اندر کہیں ایک نازک تخلیقی فنکار بھی چھپا ہوا تھا۔ اگر ادب کے زندگی سے تعلق اس کے بین السطور میں  پوشیدہ سماجی، تہذیبی یا ثقافتی سیاق یا رشتوں کا ذکر یا مارکس کے حوالے سے ادبی مطالعہ میں کسی عہد کی حقیقتوں کی تلاش نہ اشتراکی تنقید نگاری ہے اور نہ تبلیغ۔
نئی ترقی پسندی کی یہی خوبی ہے کہ اس میں کسی طرح کی نظریاتی ادعائیت نہیں ہے۔ میں  نے 23 سال پہلے قمر رئیس کی تنقید نگاری کے بارے میں لکھا تھا کہ :
’’نئی ترقی پسند تنقید میں ڈاکٹر قمر رئیس کی اہمیت ان کے سیاسی و تہذیبی شعور اور واضح تنقیدی نقطۂ نظر سے ہے… قمر رئیس کے تنقیدی مضامین ان کے وسیع مطالعہ اور تنقیدی تجزیوں میں ان کی وسعتِ نظر کی نشاندہی کرتے ہیں… وہ عصری مسائل کو بدلتی ہوئی زندگی کے محرکات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں ادبی تخلیق اپنے عہد کی سماجی تفسیر و تنقید ہوتی ہے۔ خواہ اس میں باطنی تجربے اور داخلی حقیقت کا اظہار کتنی ہی نزاکت اور تہہ داری سے کیوں نہ کیا گیا ہو۔
(ترقی پسند ادب پچاس سالہ سفر،شارب ردولوی ص ۵۶۲)
قمر رئیس کی یہی خوبی ہے کہ وہ نہ عصری مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں اور نہ سماجی اثرات، انفرادی تجربے، ذات کی پیچیدگیوں اور فنی تہہ داریوں کو ان کے یہاں  یہ ساری باتیں ادبی تخلیق کے حسن کی علامت ہیں۔ ان کا یہی نظریاتی توازن انھیں اپنے زمانے میں ممتاز کرتا ہے۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here