غزل

0
434

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

منور حسین منورؔ

ہماری ابتدا سے اشک افشانی نہیں جاتی
پریشاں تھے پریشاں ہیں پریشانی نہیں جاتی
کرشمے دیکھ کر قدرت کے حیرانی نہیں جاتی
خدا کی معرفت تک فکر انسانی نہیں جانی
کچھ اتنا ہوچکی ہے جھوٹ سے مانوس یہ دنیا
کوئی سچ بات کہتا ہے تو وہ مانی نہیں جاتی
نظر کے سامنے آئی ہے ایسے روپ میں دنیا
کسی سے بھی حقیقت اس کی پہچانی نہیں جاتی
تمنائوں کی دنیا لاکھ میں اس میں بساتا ہوں
مگر دل ہے کہ اس کمی خانہ ویرانی نہیں جاتی
پڑی ہوتی ہے اس دنیا میں جس پر گرد غربت کی
یہاں پہچان کر صورت وہ پہچانی نہیں جاتی
کسی کی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتی لباسوں سے
کسی کی شخصیت کپڑوں سے پہچانی نہیں جاتی
چلا کرتی ہیں بحر زیست میں جو نام سے اُس کے
قریب اُن کشتیوں کے موجِ طوفانی نہیں جاتی
چھنے ہیں گردشِ دوراں کے ہاتھوں تاج شاہوں کے
دماغوں سے مگر وہ بوئے سلطانی نہیں جاتی
کرشمے دیکھ کر سائنس کے اس دورِ حاضر میں
ذرا سوچو کہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی
حسینوں کو یہ دل دے کر سوا برباد ہوتا ہے
مگر اس عاشق ناداں کی نادانی نہیں جاتی
ہے سچ تو یہ زمانے میں مہربانی کے پردے میں
خفا ہوتی ہے ہم پر کسی مہربانی نہیں جاتی
میرے اس دل میں احساسِ غلامی اب بھی ہوتا ہے
ہوئے آزاد لیکن فکر زندانی نہیں جاتی
منورؔ ہو سیاست یا تصوف حسن کی دنیا
کہاں تک دیکھئے صنف غزل خوانی نہیں جاتی
شاستری نگر، سلطان پور

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here