عہد سلاطین میں کتب خانوں کی اہمیت

0
741

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

ڈاکٹر نورالصباح

یہ امر مسلم ہے کہ ماضی کی بیش قیمت روایات حال کے لیے کوہ نور کے مانند ہوتی ہیں۔جس طرح اسلاف کے تہذیب و تمدن نسل نو کے لیے نشان راہ بنے،اسی طرح مسلمانوں کے اندر کتب خانوں کے ذوق نے اپنے عہد کے ان گنت افراد کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے علاوہ ایک فرد کے احساسات وافکار کو دوسری نسلوں میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنے۔اقوام قدیم میں مسلمانوں کی شادیاں بھی کتب خانوں کے تبادلے میں ہوتی تھیں اور امیر و وزراء و شاہان وقت علم کے ذوق اور اس کی جستجو میں کتب خانے بناتے تھے مگر عوام جو ناخواندہ ہوتے تھے وہ لوگ صرف گھر کو مزین کرنے کے لیے کتابیں رکھتے تھے۔ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی فرماتے ہیں:
“مسلمانوں نے کتب اور کتب خانے سے تطہیر قکب و نظر اور تزکیہ ذہن وفکر کے علاوہ آرائش مکین ومکان کا بھی کام لیا تھا”(بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم۔شمارہ 5.6/اسلامی قلمرو میں اقراء اور علم بالقلم کے ثقافتی جلوے،عہد عباسی/مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی/مکتبۃ الکوثر)
کتب خانہ جس کو انگریزی میں library کہتے ہیں۔لائبریری لاطینی زبان کے لفظ libra سے مشتق ہے جس کے معنی چھال یا گودہ کے ہیں۔ وحشی دور میں انسان آڑھی ترچھی لکیروں سے اپنی باتیں ایک دوسرے تک ارسال کرتے تھے،جب ان لوگوں نے بولنا سیکھا تو انھیں اپنی باتیں محفوظ کرنے کی فکر ہوئی اسی فکر نے ان کی عقلوں کو مہمیز کیا اور وہ پیڑوں کے پتوں اور پتھروں پر اپنی باتیں لکھنے لگے۔ابتداء میں پیپرس( papyrus)نامی پیڑ کی چھال لکھنے کے استعمال میں لائی جاتی تھیں۔جیسے جیسے انسانی ذہن نے ترقی کی ویسے ویسے وہ متمدن ہوتا گیا چین میں سب سے پہلے کاغذ کی ایجاد ہوئی جس سے تحریری کام میں تیزی آئی پھر چھاپے خانوں نے اس میں مزید ہلچل مچادی۔
تعلیم وتعلم کا کام سب سے پہلےایشیائے کوچک،مصر اور چین میں ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے کتب خانوں کی بنیاد یہیں پڑی۔
“کتاب کی ابتدائی تاریخ جو ہم تک پہونچتی ہے اس کی ابتدا دو مشہور اقوام کی تہذیبوں کے مطالعہ سے ملتی ہے۔وادی دجلہ اور فرات سے برآمد ہونے والی مٹی کی الواح نما کتابیں اور وادی نیل کی تہذیب مصر سے برآمد ہونے والے پیپائرس یعنی درخت کی چھال سے تیار کیے ہوئے تحریری مواد۔”(dailypakistan.com.pk)
یعنی انسانی تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت و معاشرت کو بھی عروج حاصل ہوا،جس کی وجہ سے طرز رہائش کے ساتھ علمی وفکری ارتقاء کی راہیں بھی متعین ہوگئیں اور انسانوں نے اپنی باتوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا۔ان کے قیمتی طرز ہائے زندگی اور کتابوں کو محفوظ کرنے کے طریقے ہمیں مختلف تہذیبوں کے مطالعے اور کھنڈرات کی کھدائی میں ملی ہوئی وہ تختیاں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
“قدیم نینوا کے کھنڈرات سے ایک کتب خانہ برآمد ہوا جو 700 قبل مسیح کا ہے اس کتب خانہ کی تقریبا بائیس ہزار مٹی کی تختیاں برٹش میوزم میں محفوظ ہیں”(مشرقی کتب خانے/مولانا عبدالسلام ندوی/مولانا عبدالسلام ندوی فاؤنڈیشن،بمبئی/2008/تقدیم)
مسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے علاءالدین خلجی نے عوامی کتب خانوں کی بنیاد ڈالی اور امیر خسرو کو شاہی کتب خانے کا نگراں مقرر کیا۔کتب خانوں میں بے شمار کتابیں ہونے کی وجہ سے اس کے نام معلوماتی مرکز ہوا کرتے تھے۔زمانہ قدیم میں لوگ علمی محفلیں منعقدکیا کرتے تھے جس میں کوئی دقاق عالم کسی موضوع پر باتیں کیا کرتا اور لوگ اس سے مستفید ہوتے تھے۔ان دقاق علما میں جاحظ اور ابن سینا وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ کتب فروشوں کی دوکانوں میں خود کو رات میں بند کرالیا کرتے تھے تاکہ کسی بھی کتاب سے استفادہ کرسکیں اس کے لیے اجرت بھی دینی پڑتی تھی۔کتب بینی کے ایسے انوکھے اورنرالے شوق اب ہماری تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیے ہیں۔


موجودہ عہد میں علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اسکول،کالج،اور یونیورسٹی کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ ان اداروں میں محض تعلیم دی جاتی ہے۔ان سے طلبا کو صرف راستے بتائے جاتے ہیں منزل تک نہیں پہونچایا جاتا۔سرپرست اپنے بچوں کو ان اداروں تک چھوڑ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارا بچہ ملک میں ان کا نام روشن کرے گا اور طلبا اسی ادارے کو علم کی انتہا سمجھ لیتے ہیں نتیجتا بے روزگاری، ذہنی انتشاری،مایوسی،اضطرابی،رنجیدگی اور افسردگی ان کا خیر مقدم کرتی ہے۔کیونکہ ان کی رسائی کتب خانوں تک نہیں ہوتی یا ان سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ہونا یہ چاہیے کہ والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کریں اور بچے تعلیمی ادراے سے کتب خانوں کی طرف متوجہ ہوں،جو عملی زندگی کی شاہراہوں پر مسلسل گامزن ہونے کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔کتب خانے ہی صحیح معنوں میں علم کا
ذریعہ ہیں۔کتب خانے ہی راستے کا پتھر بننے سے بچا سکتے ہیں اور علم و نور کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔کتابوں کے ذریعہ سے ہی مختلف علوم وفنون تک رسائی ہوتی ہے۔بلند اور اعلی شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے اور مختلف علائق وممالک کے اسفار کا اختیار بآسانی ہوسکتا ہے۔اور اس کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کتب خانے ضروری ہیں گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔عربی زبان کے ایک نامور شاعر متبنی کے ایک شعر کا مصرعہ کتابوں کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کرتا ہے”وخيرجليس في الزمان كتاب”یعنی زمانہ میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔اس ضمن میں قطب شاہی عادل شاہی اور مغلیہ ادوار کا جائزہ لیں تو بے شمار کتب خانے تاریخ کے جھروکے میں نظر آجائیں گے۔مروجہ روایات اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری کسی بھی فرد کو ایک اچھا شہری بھی بناسکتی ہے بشرطیکہ وہ تمام علوم وفنون سے واقف ہو ایسے علوم کتب خانوں سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔جیسا کہ اکبر کے زمانے میں اس کے کتب خانے میں اس کی وفات کے وقت 24000 کتابیں تھیں اور یہ کتابیں مختلف مضامین پر مشتمل تھیں ہر موضوع کے لیے مختلف جگہ بھی متعین تھی۔اس سلسلےمیں ابوالفضل رقمطراز ہے:
“بادشاہ کا کتب خانہ کئی حصوں میں منقسم ہے،کچھ کتابیں حرم میں اور کچھ حرم کے باہر رہتی ہیں۔کتاب خانوں کے مختلف حصے تھے،جو کتابوں کی ذاتی قیمت اور اس علم کے درجے کے لحاظ سے جس میں وہ کتاب ہوتی یہ حصے مقرر ہوتے۔کتب نثر،کتب نظم،کتب ہندی،کتب فارسی،کتب یونانی،کتب کشمیری،کتب عربی کے لیے جدا جدا حصے متعین تھے۔”(فارسی اور ہندوستان/ڈاکٹر نذیر احمد/لیبل لیتھو پریس،پٹنہ/ص:57-85)
اکبر کے زمانے میں منعم خان خاناں جو جونپور کا حاکم تھا اور جس کے مشورے سے گومتی ندی پر پل بنا تھا وہ بھی علم کا قدردان اور عمدہ کتابوں کا شائق تھا۔ اس کے علاوہ فیضی اور عبدالرحیم خان خاناں کے کتب خانے بھی انتہائی شہرت کے حامل تھے۔ان کتب خانوں میں نجوم وفلسفہ، قانون و حکمت، تصوف اور شاعری کے علاوہ جیومیٹری کی کتابیں بھی موجود تھیں۔اکبر کی طرح جہانگیر کو بھی کتابوں سے دلچسپی تھی اور سیرو سیاحت میں بھی اکبر کی طرح ہی وہ اپنے ساتھ کتابیں لے جایا کرتا تھا۔مسلمان سلاطین و امراء کے نزدیک کتب خانے حکومت وامارت کی علامات سمجھے جاتے تھے۔شاہی کتب خانوں کے ساتھ ذاتی کتب خانوں کا بھی رواج تھا،جو کسی بھی عہد کے لیے اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنی کہ ہمارے جسم میں روح۔ہماری تاریخی فتوحات انھیں باذوق سلاطین وامراء کی مرہون منت ہیں۔بادشاہ اپنے تمام تر اقتدار کے باوجود اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرتے تھے اور ظلم وزیادتی سے احتراز کرتے تھے یہ صرف علم کا ہی نتیجہ تھا اور علم بھی ایسا تھا جو جامد نہیں بلکہ متحرک تھا اس بات کا اندازہ ہمیں ہمایوں کے علمی شوق سے ہوتا ہے اس کے دربار میں ایک شاعر سید علی ترکی آیا جو علم ہیئت میں بھی مہارت رکھتا تھا۔اس کی قابلیت کی وجہ سے بادشاہ اسے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا، مگر وہ ہندوستان میں ٹھہرنے کا خواہشمند نہیں تھا ،لہذا اس نے بادشاہ سے جانے کی اجازت مانگی ۔ بادشاہ نےجانے کی اجازت تو دے دی مگر برسات کے مہینے میں دہلی زیر آب ہوجاتی تھی۔ اس لیے تین ماہ تک اس کو اس غرض سے روک لیا کہ وہ ہندوستانی علمائے ہیئت کے ساتھ مل کر ان کو شمس وقمر کی گردش اور آفتاب کی گردش و خط استوا کے نکات کو سمجھنے میں معاونت کرے۔ہمایوں انتہائی صاحب ذوق اور قاضی القضاۃ بادشاہ اور صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کے دربار سے اپنی رعایا کے لیے صلہ رحمی و عدل وانصاف کے معاملات کے لیے دینی و دنیوی فتوے جاری ہواکرتے تھے۔کوئی بھی صاحب علم سمجھ سکتا ہے کہ فتوے کتابوں کے ذریعہ ہی باہر آسکتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمایوں کے پاس اپنا ذاتی کتب خانہ بھی تھا اور اس کے والد بابر کا بھی ذاتی کتب خانہ اس کی ملکیت تھا، جس کے آثار دہلی کے لال قلعے میں پائے جاتے ہیں جس کے زینے سے پھسل کر اس کی موت بھی واقع ہوئی تھی۔ہمایوں کی طرح اس کی بھانجی سلیمہ سلطانہ بھی کتب بینی کا شوق رکھتی تھی اس کے پاس بھی ذاتی کتب خانہ تھا۔نورجہاں بیگم شاہی محل میں داخل ہونے سے قبل ہی مختلف علوم وفنون کی قدردان تھیں۔وہ بھی کتب بینی کا شوق رکھتی تھیں ان کے پاس بھی ذاتی کتب خانہ تھا۔ نئی کتابوں کے اضافے کا اسقدر شوق رکھتی تھیں کہ مرزا کامران کا دیوان تین مہر میں خرید لیا تھا۔دیوان کے اول صفحے پر درج ذیل عبارت رقم ہے:
“تین مہر قیمت اموال،نواب نورالنساء بیگم”
(مسلم سلاطین کے عہد میں ہندوستان کے تمدنی کارنامےدارالمصنفین شبلی اکیڈمی/2013/ص:252
اورنگ زیب ،جہانگیر،داراشکوہ اور متعدد امیروں بادشاہوں،شاہزادوں،شہزادیوں اور دانشمندوں وغیرہ میں علم دوستی اور کتب بینی کے شوق کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کے ذوق بھی پائے جاتے تھے۔جن کی یادگاریں ہم تک پہنچی ہیں اور ہم ان کے طرز زندگی،تہذیب وتمدن سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ سے آشنا ہوئے اور قلمی نسخے،مخطوطے،یونانی عربی،فارسی کی متعدد کتابیں،دوسری زبانوں کے تراجم،مہابھارت،رامائن،کلیلہ ودمنہ بابر نامہ،توزک جہانگیری،تاریخ خاندان تیموریہ اور مثنوی مولانا روم جیسے قیمتی نسخوں سے آشنائی عطا ہوئی اور تحقیق و تنقید کے دریچے بھی وا ہوئے۔کتب خانوں اور علم دوستی کے سلسلے میں شاہانہ مغلیہ سلطنت کے متوازی دکنی سلاطین میں شاہان گولکنڈہ اور شاہان بیجا پور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں وہ لوگ علم پروری میں انتہائی آگے تھے جس کی وجہ سے ان کی حکومت بھی اعلی پائے کا درجہ رکھتی ہے۔کیونکہ کسی بھی عہد کی حکومت ہو کوئی بھی رعایا ہو ان کے دل ظلم وجبر سے نہیں بلکہ علم دوستی اور علم پروری سے مسخر کیے جاتے ہیں جیسا کہ دکنی بادشاہوں کا شیوہ امتیاز رہا۔قطب شاہی دور میں علمی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔اس میں ادبی،تخلیقی اور فنی کارنامے زیادہ ہوئے۔اسی عہد میں شہر حیدرآباد بسا،تعمیری کام دو تہذیبوں کے سنگم پر ہوئے،نئے نئے باغات وجود میں آئے،فن موسیقی اسی کا خاصہ ہے۔فن مصوری بھی انہیں اہل ذوق کی احسان مند ہے،اسی عہد شاہی میں فواروں،سڑکوں،سیر گاہوں،عبادت خانوں،مدرسوں،اور کتب خانوں کا قیام عمل میں آیا۔انھیں علم دوست بادشاہوں کی وجہ سے علما و فضلا کو اہم مقام ملا۔قطب شاہی سلطنت کا یہی کمال تھا کہ زوال کے بعد بھی علم وادب کی دنیا میں اس کا نام روشن ہے۔ورنہ بہت سی حکومتیں آئیں اور تخت و تاراج ہوکر دنیا سے ہی نیست و نابود ہوگئیں۔شاہان قطب کا کمال یہ تھا کہ ان لوگوں نے اپنے زمام اقتدار میں اپنی صحمت مند قدروں کے ساتھ علوم اسلامیہ کو بھی ترقی دی۔جمیل جالبی تاریخ ادب اردوجلد اول میں رقمطراز ہیں جس سے شاہان قطب کے کتب خانے کا پتا چلتا ہے:-
“ابراہیم کے دور میں قاسم طبسی ،حاجی ابرقوہی اور خورشاہ بن قبادالحسینی فارسی زبان کے عالم وشاعر تھے اور فیروز،محمود،ملا خیالی اردو زبان میں داد سخن دے رہے تھے۔اس نے تلگو زبان وادب کی بھی سرپرستی کی اور تلگو شعرا نے ابراہیم قطب شاہ کی مدح میں بہت سی نظمیں لکھیں۔ممکن ہے اردو فارسی کے اور بھی بہت سے شعرا اس دور میں موجود ہوں لیکن اس دور کی بیشتر تصانیف،عبداللہ قطب شاہ کے دور حکومت میں ‘خداداد محل’ میں آگ لگ جانے سے،جہاں ابراہیم کا کتب خانہ خاص واقع تھا اور جس میں محمد قلی قطب شاہ نے اضافہ کیا تھا جل کر خاک ہوگئیں۔”
(تاریخ ادب اردو،جلد اول/جمیل جالبی/ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس/2015/ص290)
سلطان قلی قطب شاہ ترک نژاد تھا جو ایران سے اپنی جان بچاکر دکن آیا تھا۔وہ بانی سلطنت قطب شاہ تھا۔یکے بعد دیگرے اس سلطنت میں علم پرور بادشاہ گزرے جن میں سب سے اہم محمد قلی قطب شاہ ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس کےپہلے صاحب دیوان شاعر ہونے سے لگایا جاسکتا ہے اور اس کی علم پروری کا اندازہ محمد حسین تبریزی کی شہرہ آفاق فرہنگ برہان قاطع کے انتساب سے لگایا جاسکتا ہے جو محمد قلی قطب شاہ کے نام معنون ہے۔اس کے متوازی عادل شاہی سلاطین ہیں جس کا بانی یوسف عادل شاہ بھی سلاطن عثمانیہ کا شہزادہ تھا اور ایران سے اپنی جان بچاکر دکن آیا تھا۔اس نے اپنی محنت و قابلیت سے عادل شاہی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ان میں سب سے اہم ابراہیم یوسف عادل شاہ ثانی ہیں جو جگت گرو کے نام سے مشہور ہیں اور ان کی کتاب ‘نورس’ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ محمد قلی اور ابراہیم عادہ شاہ ثانی دونوں ہی ہم مزاج تھے۔جس کی وجہ سے محمد قلی نے اپنی بہن چاند سلطان کی شادی اس سے کردی۔
عادل شاہ ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا۔مختلف علوم وفنون میں دسترس حاصل تھی۔وہ فن موسیقی کا رسیا تھا اور علم دوست شخصیت کا حامل تھا اس کے دربار میں خلیل اللہ جیسے اعلی پائے کے خطاط گزرے ہیں اور ظہوری و فرشتہ جیسے جید عالم بھی گزرے ہیں۔ابراہیم عادل شاہ ثانی کے کتب خانہ کی اہمیت اس میں پائے جانے والے اہم قلمی نسخوں سے ہوتی ہے۔بقول ڈاکٹر نذیر احمد:
“ابراہیم عادل شاہ کے کتاب خانے کا ایک اور اہم نسخہ کتابخانہ دیوان صاحب باغ مدراس میں راقم کی نظر سے گزرا۔یہ خمسہ امیر خسرو کا نہایت نفیس مصور نسخہ ہے۔جس پر ایک یادداشت ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ابراہیم عادل شاہ کے کتابخانے کی زینت رہ چکا ہے،اس نسخے کی ایک بے نظیر خصوصیت یہ ہے کہ اس کی مصوری مغل دور سے قبل کی ہے۔اور احتمال یہ ہے کہ شاید اس نسخہ کی کتابت اور تصویر کشی ہندوستان میں ہوئی ہو،چونکہ مغل دور سے قبل کے مصور نسخے نہیں ملتے۔اس بنا پر اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے،ابراہیم عادل شاہ خود بڑا صاحب نظر تھا،اس سے یہ قیاس ہوتا ہے کہ یہ نسخہ یقینا قیمتی ہوگا۔(فارسی اور ہندوستان/ڈاکٹر نذیر احمد/لیبل لیتھو پریس،پٹنہ/1974/ص79)
درج بالا سطور سے عادل شاہی سلطنت کی علم دوستی،صاحب نظری،اور ان کے کتب خانوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس مختصر سے جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کتب خانوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ کتب خانے ایک ایسا ادارہ ہوتے ہیں جہاں پر ہر قسم کی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔وہاں پر اعلی قسم کےفلاسفر،دانشور،مصور،خطاط،سائنس داں،عالم علم کیمیا،عالم علم ہیئت ونجوم کا ہجوم ہوتا ہے اور اس ہجوم سے ہر طالب علم اپنی بساط بھر استفادہ کرسکتا ہے،اور اس استفادے سے اپنی آرزو کی تکمیل کر سکتا ہے۔ایک زمانے پر اقتدار بھی حاصل کرسکتا ہے اور لوگوں کے قلوب کو مسخر بھی کرسکتا ہے۔علم ہی اس تسخیر کا سبب بنتا ہے علم ہوگا تو تہذیب ہوگی تہذیب ہوگی تو فتح ہوگی اور علمی فتح زمینی فتح سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔جس طرح اسلاف کے تہذیب و تمدن نسل نو کے لیے نشان راہ بنے،جس طرح قدیم اردو جدید اردو کے لیے ایک اہم ستون ثابت ہوئی،جس طرح قدیم شعراء جدید شعرا کے لیے نقش پا ثابت ہوئے،جس طرح قدیم نثر جدید نثر کے لیے ایک حسین شاہراہ بنی اورشاہ علی محمد جیو گام دھنی ،قاضی محمود دریائی شیخ خوب محمد چشتی ،میران جی شمس العشاق،برہان الدین جانم جیسے صوفیائے کرام سے اردو کے راستے ہموار ہوئےم قیمی ،غواصی، صنعتی،امین ، ابن نشاطی کے ذریعہ اردو کی سلاست ولی تک پہنچی پھر اس سے آبرو، حاتم ،فائز، آتش، ناسخ، میروسودا۔ غالب ،اقبال اور حالی جیسے کتنے ہی گلدستے فضا کو معطر کرنے کے لیے کھلے اور یہ عطربیز پھول عہد سلاطین کے مرہون منت ہیں۔کیونکہ اگر ان باذوق سلطانوں کی علم سے رغبت و ذوقیت نہ ہوتی تو پھر کتب خانے بھی نہ ہوتے کتب خانے نہ ہوتے تو وہ انسانی خیالات،تجربات اورا حساسات بھی ہمارے پاس نہ ہوتے۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here