9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
بلقیس مقبول
ایک اچھا فنکار جب دنیا سے رخصت کرتا ہے تو اس کی اداکاری کی اچھائیاں بہت ستاتی ہے،رلاتی ہے ،بہت تعاقب کرتی ہے،لگتا ہے کہ وہ ہمارے ہی آس پاس ہے لیکن افسوس اب وہ نہیں ہے۔
بڑے کینوس والے اداکار عرفان خان کے فلمی کام کو جتنا سراہا جائے اتنا کم ہے۔ہندی سنیما کے علاوہ برطانوی اور امریکی فلموں میں بھی وہ اپنے کام کے لئے جانے جاتے ہیں۔عرفان خان کے تیس سالہ فلمی کیرئیر میںبہت پذیرائی ملی ۔انھیں نیشنل فلم ایوارڈ ،ایشین فلم ایوارڈ،چار فلم فئیر ایوارڈ اور ہندوستان کا چوتھا بڑا اعزاز پدما شری سے نوازا گیا ہیں۔
اردو ادب سے ان کا کیسا لگاؤ تھا اس کا اندازہ ایک خط سے لگا سکتے ہیںجو انھوں نے امیل کے ذریعے اردو ادب کے معلم شمس الرحمن فاروقی کو لکھی تھی جس میں انھوں نے فاروقی صاحب کے ناول ’کئی چاند تھے سر آسمان‘ کی تعریف کی تھی۔
وہ لکھتے ہیں ۔
شمس الرحمن صاحب
آداب!
سب سے پہلے اپنی تحریری صلاحیتوں کے لیے معافی چاہوں گا میں اپنے خیالات کو تحریری زبا ن میں تبدیل کرنے میں بہت محدود ہوں ۔مگر پھر بھی میں کافی وقت سے آپ سے بات کرنا چاہتا تھا اور آ خر کار ہوگئی۔سنیما کے چلتے میرا کہانیوں سے برسوں پرانا رشتہ ہے۔میرے لیے کہانیا ں اپنے آپ کو ناظرین کے ساتھ بانٹنے کا سب سے پڑا پلیٹ فارم ہیں ۔کہانیاں جو میرا حصہ بنتی ہیں ،میرے ساتھ رہتی ہیں ،مہینوں اور برسوں تک مجھ سے گفتگو کرتی رہتی ہیں۔کہانیاں جو زندگی کے نئے پہلؤوں کا اظہار کرتی ہیں
جو مجھے بہتر بناتی ہیں ۔اتفاق سے میری کچھ فلمیں ہیں جن کا ادب سے رشتہ رہا ہے۔شیکسپٔیر کی میکبیت (Macbeth)پرایک مقبول نامی فلم جسے وشال بھا ردواج نے بنا یا تھا۔’دی نیم سیک‘ جسے میرا نیٔرنے ڈائرکیٹ کیا تھااور حال فی الحال میں’ دی لائف آف پی‘ین مارٹیل کی تخلیق پر مبنی تھی۔ دریا میں ایک تنہا آدمی ایک شیر کے ساتھ کئی مہینوں تک رہتا ہے۔اس میں ایک درشن تھا انسان اور حیوان کیسے ساتھ رہ سکتے ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسہ پاسکتے ہیں ،کہتے ہے نا آپ کتاب کو نہیں کھوجتے ،کتابیں آپ کو کھوجتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ آپ کی کتاب نے مجھے ڈھونڈھ لیا ہے۔میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں بہت متاثر ہوںجادوں ہے آپ کی قصہ گوئی میں ،اندر کتنی گہرائی ہے،آپ کے تخلیق میں حسن بیان ،طرز تحریر،خوبصورتی ،دلکش رومانی انداز اور لذت حسن کا قائل ہوں ۔
میں نے جو کہا ہے وہ آپ کی تخلیق کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کر سکے گی۔ایسا لگتا ہے کہ کتاب کی شکل میں باہر آنے سے پہلے آپ کے اندر دہائیوں تک مشابہت پیدا کی تھی۔جب سے آپ کی کتاب پڑھی ہے وہ میرے ذہن میں بس گئی ہے،نکل نہیں رہی ،لگتا ہے اس نے مجھے پابند کیا ہے۔میری خواہش یہ ہے کہ میں اس کتاب کو سنیما کے ناظرین کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں ۔آپ کی کتاب کی خوبصورتی کو برقراررکھوں گا۔اس کے لیے عاجزی کے ساتھ آپ کی اجازت طلب کرتا ہوں ۔
میرے لیے جو بھی حکم ہو فرمائیں گا،میں منتظر رہوں گا۔
ایک ادنی سا اداکار۔عرفان
اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ عرفان خان فاروقی صاحب کے شاہکار ناول ’کئی چاند تھے سر آسمان ‘پرفلم بنا نا چاہتے تھے لیکن پتا نہیں کیا سبب رہی کہ وہ اس فلم کو بنا نے سے قاصر رہ گئے اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ عرفان خان جیسا فنکار شاید ہی اس دنیا میں دوبارہ پیدا ہو۔آپ بہت یاد آؤگے۔
شعبۂ اردوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی