ڈاکٹر محمدہارون رشید
یہ امر مسلمہ ہے کہ اردو غزل فارسی کی مرہون منت ہے۔لیکن یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ فارسی کی نسبت اردو غزل نے بہت جلد ترقی کر لی اور فکر و اسلوب کی سطح پرفارسی غزل کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہاں یہ امر موضوع بحث نہیں ہے کہ اردو کا پہلا شاعر ہونے کا شرف کسے حاصل ہے لیکن بر سبیل تذکرہ یہ عرض کر دوں کہ اردو کا باقاعدہ پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کو سمجھا جاتا ہے۔ جن کا تعلق دکن سے ہے۔لیکن دکنی اردو اور شمالی ہند میں بولی جانے والی اردو میں بہت فرق ہے یہ فرق شاعری میں بھی نمایاں ہے۔اردو شاعری میں انقلاب آفریں تبدیلی کا سہرا ولی دکنی کے سر ہے ۔ولی دکنی کا دیوں جب دہلی آیا تو عوام میں ان کی شاعری کو زبان کی سطح پر سادہ عام فہم اور روز مرہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مقبولیت ملی۔ولی دکنی کے دیوان سے متاثر ہو کر دوسرے شعراء نے بھی ولی کی تقلید شروع کر دی۔ میر سودا اور درد نے اردو غزل کو آبرو بخشی تو غالب مومن اور ذوق نے غزل کو آسمان کی رفعتوں سے روشناس کرایا۔جب دہلی کے سیاسی اور معاشی حالات دگر گوں ہونے لگے تو شعراء کی ایک بڑی تعداد نے وقتاً فوقتاً لکھنؤ کی طرف ہجرت شروع کی لکھنؤ میں فارغ البالی تھی ۔اسی فارغ البالی کی وجہ سے لکھنوی شاعری میں بہت سے خارجی عوامل در آئے تھے انہی خارجی عوامل کی بنا پر مؤرخٰین اور محققین نے لکھنوی شاعری کو سرمہ مسی اور کنگھی چوٹی کی شاعری کہہ کراس کی روح کو مجروح کیا۔بھلا ہو علی جواد زیدی کا جنھوں نے ’’دو ادبی اسکول ‘‘لکھ کریہ ثابت کر دیا کہ جن عوامل کو لکھنؤ کے ساتھ منسوب کر کے لکھنؤ کی شاعری کو بد نام کیا جاتا ہے وہی عوامل دہلی کی شاعری میں بھی موجود ہیں ۔انھوں نے لکھنؤ کے شعرا کے کلام سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ جن خصوصیات کو دہلی سے منسوب کیا جاتا ہے وہ خصوصیات لکھنؤ کی شاعری میں بھی موجود ہیں ۔لہذا یہ تقسیم غلط ہے۔اور دونوں اسکولوںکی شاعری پر ایک خاص قسم کا لیبل لگانا ادبی انصاف نہیں ہے۔یہ بحث ابھی چل ہی رہی تھی کہ ہندوستا ن میں جنگ آزادی کی جد و جہد تیز ہو گئی ۔ہر طرف حصول آزادی کے نعرے بلند ہونے لگے۔اسی تناظر میں ۱۹۳۶ء میں لکھنؤ کے رفاہ عام کلب میں اس دور کے مشہور افسانہ نگار منشی پریم چند کی صدارت میں ایک کانفرس منعقد ہوئی۔یہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی باقاعدہ پہلی کانفرنس تھی اس کانفرنس میں منشی پریم چند نے یہ نعرہ دیا تھا کہ ’’ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہو گا‘‘اگر چہ خود پریم چند اسی معیار کے تقاضوں کے تحت اپنے افسانے اور ناول لکھ رہے تھے۔بہر حال اس نعرے نے نہ صرف اردو شعر و ادب بلکہ پورے ہندوستانی ادب کو متاثر کیا۔شاعری میں مقصدیت کی وہ روح جو کبھی حالی نے مقدمہ شعر و شاعری کے ذریعہ پھونکی تھی۔ایک مرتبہ پھر اس کی لے تیز ہو گئی۔اسی کانفرنس کے تقریباً دو برس بعد اتر پردیش کے مردم خیز علاقہ بدایوں جو ایک چھوٹا شہرہے لیکن علم و ادب میں اس کا ایک نمایاں مقام رہا ہے اور دور قدیم سے ہی کلاسیک شاعری کا ایک مرکز رہا ہے ،اسی بدایوںکی شیخو پور نامی بستی میں مولوی مسیح الدین خان کے ہاں بوقت فجر بتاریخ ۲۵؍جنوری ۱۹۳۸ء کو ایک بچے نے آنکھیں کھولیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نسبت سے غلام جیلانی خاں نام رکھا گیا۔ابتدائی تعلیم شیخو پور میں ہی حاصل کی بعد میں محشر شیخو پوری سے طب کی تعلیم حاصل کی۔محشر شیخو پوری ایک ماہر طب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش فکر شاعر بھی تھے۔ لہذا طب کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی اصلاح لینے لگے۔کچھ غزلیں اکرام احمد شاد بدایونی کو بھی دکھائیں۔وہ ان کے کلام پر صرف اصلاح ہی نہیں دیتے بلکہ توجیہ بھی لکھ دیا کرتے تھے۔ایسے اساتذہ پہلے بھی کمیاب تھے اور فی زمانہ تو نایاب ہو چکے ہیں۔بعد میں حضرت رونق بدایونی سے با قاعدہ منسلک ہو گئے ۔رونق بدایونی ان اساتذہ میں تھے جو غزلیںبنانے کا ہنر جانتے تھے۔رونق بدایونی بدایوںکے ایک مڈل اسکولی میںمدرس تھے اور شاعر ی میں خود حضرت جامی مرحوم کے شاگرد تھے۔غلام جیلانی خاں کب شاد جیلانی ہو گئے اس کا علم نہیں ہو سکا۔
شاد جیلانی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے رہا ہو گا۔ یہ قیاس اس لئے کہ کو خود شاد جیلانی نے اپنے ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ انھوں نے اپنا پہلا مشاعرہ پندرہ سال کی عمر میں پڑھا۔ یہ مشاعرہ طرحی تھاجس کا مصرعہ طرح ’’آندھیوں میں دئے جلائے ہیں‘‘ تھا۔شاد جیلانی کے اس بیان سے ان کی تاریخ پیدائش متنازعہ ہو جاتی ہے ۔حالانکہ میں ذاتی طور سے یہ سمجھتا ہوں کہ شاعری کی تاریخ پیدائش سے ایک سخن شناس قاری کو کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، کیونکہ اس سے اس کے فن کے رخ کو متعین کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ایک ہی وقت میں دو فن کار الگ الگ اسلوب اور مقام بناتے ہیں میر سودا اور درد کا دور ایک ہی ہے لیکن تینوں حضرات کا اسلوب نگارش جدا ہے۔غالب،ذوق اور مومن کا دور ایک ہی ہے لیکن یہاں بھی ان کا فن اور طرز نگارش جدا ہے۔ یہی حال جوش اور فراق کا ہے ۔ہاں کبھی کبھی خاص ماحول فن کے رخ کو سمت و رفتار عطا کرنے میں معاون ضرور ہوتا ہے۔شاد جیلانی کا شعری مجموعہ’’غبار شب‘‘ جو فخرالدین علی احمد کمیٹی حکومت اتر پردیش کے مالی تعاون سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا تھا میرے پیش نظر ہے۔اسی مجموعہ میں طیب بخش بدایونی نے ’’تعارف ‘‘کے عنوان سے اپنی تحریر میںغلام جیلانی شاد کی تاریخ پیدائش ۲۵؍جنوری ۱۹۳۸ء لکھی ہے جب کہ اسی مجموعہ میں قاضی الیاس رشید نے’’غبار شب اور شاد جیلانی‘‘کے عنوان کے تحت انکی تاریخ پیدائش ۲۵؍جنوری ۱۹۴۲ء بتائی ہے۔اورخود شاد جیلانی صاحب نے اپنے ایک انٹر ویو میںجس کی نقل مجھے میرے پاس محفوظ ہے ۔گر چہ اس میں یہ واضح نہیںہے کہ یہ انٹر ویو کس نے کیا ہے اور کہاں شائع ہوا ہے(لیکن میں اسے فی الحال معتبریت کے خانے میں اس لئے رکھتا ہوںکیونکہ یہ نقل مجھے میرے شاعر دوست محی بخش قادری نے مہیا کرائی ہے،محی بخش قادری کا آبائی وطن بھی بدایوں رہا ہے۔اور اسی انٹر ویو میں شاد جیلانی نے محی بخش قادری کے بارے میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ وہ ان سے مشورہ سخن کرتے تھے ) اس انٹر ویو میں شاد جیلانی نے اپنی تاریخ پیدائش ۲۵؍جنوری ۱۹۳۸ء ہی بتائی ہے۔لیکن جب وہ یہ کہتے ہیںکہ انھوں نے پہلا مشاعرہ پندر ہ برس کی عمر میں ۱۹۵۷ء میں پڑھا تو ۵۷میں ۱۵ کم کرنے سے یہ ۳۸ کے بجائے ۴۲ ہی نکلتی ہے۔اس طرح قاضی الیاس کا بیان صحیح ثابت ہوتاہے۔شاد جیلانی کی تاریخ پیدائش کے اس تنازعہ سے قطع نظر یہ صاف ہے کہ انھوںنے کم عمری ہی میں شاعری شروع کر دی تھی۔اور انکی شاعری کا زمانہ وہی زمانہ ہے جب ہندوسان نیا نیا آزاد ہوا تھا۔اگر چہ آزادی کے بعد ملک میں ایسے حالت رونما ہوئے جنھوں نے تہذیب اور انسانیت کو پارہ پارہ کر دیا۔آزادی کے متوالوں نے غلامی کے اندھیروں سے جنگ کرتے ہوئے جس سحر کا
خواب دیکھا تھا وہ سحر کیسی نمودار ہوئی اس کا ایک نقشہ فیض احمد فیض کے ان شعروںمیں نظر آتا ہے؛۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گذیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جا ئے گی کہیںنہ کہیں
علی سردار جعفری نے اسے ’’فریب‘‘ ساحر لدھیانوی نے اسے’’مفاہمت‘‘احمد ندیم قاسمی نے اسے ’’دھوکا‘‘اور اخترالایمان نے اپنی ایک نظم ’’پندرہ اگست‘‘میںامیدوں اور توقعات پر پورا نہ اترنے کا شکوہ کیا۔آمدم بر سر مطلب ۔۔۔عرض یہ کرنا تھا کہ اردو شعرو ادب میں ترقی پسندی کا عروج بھی شاد جیلانی نے دیکھا اور ترقی پسندی اپنے مقاصدمیں کامیاب نہیں ہوئی یہ بھی انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔لیکن کیا وہ اپنے زمانے کے غالب بلکہ اغلب رجحان سے متاثر ہوئے یا نہیں۔جب اس نقطہ نظر سے انکے شعری مجموعہ ’’غبار شب‘‘کی اوراق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں کہیں انکے اشعار میں وہ رجحان نہیںملتا جو انکے دور شباب میں شاعری کا اغلب رجحان کہا جا سکتا ہے ۔ان کی شاعری میں وہ اسلوب بھی نظر نہیں آتا جسے شدت پسند کہا جا سکے یا مقصدیت کے علم بردار ہونے کا لیبل اس پر چسپاں کیا جا سکے۔ شاد جیلانی نے غزل کو غزل کے وقار کے ساتھ برتا ہے۔گھسے پٹے الفاظ اور تراکیب سے وہ بچنے کی شعوری کوشش ان کے ہاں ملتی ہے۔شاد جیلانی فطری طور پر غزل کے ہی شاعر ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غزل ہی ادب کوزندہ رکھے گی۔آج بھی عوام غزل ہی کی زلفوں کے اسیر ہیں۔اس لئے غزل کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ان کا یہ بھی ایک متنازعہ خیال ہے کہ جو شاعر اچھی غزل نہیں کہہ پاتے وہ آزاد نظم اور نثری نظم اور گیت کی طرف مڑ جاتے ہیں۔شاد جیلانی خود کو ایک جدید شاعر تصورکرتے ہیں۔لیکن وہ جدید شاعری کامنبع غالب کو تسلیم کرتے ہیں۔آئیے ہم شاد جیلانی کے دعووں کو ان کی شعروں کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں:۔
دشت فلک سے دنیا تک
میری نظر میں تو ہی تو
صفحہ شب پہ چھوڑ گیا
تحریریں اپنی جگنو
جو اپنے گھر کو اجالوںسے تھے سجائے ہوئے
وہ پھر رہے ہیں اندھیرے گلے لگائے ہوئے
جب آیا دھوپ کی سرحد میں کاروان شعور
تو آدمی سے دراز آدمی کے سائے ہوئے
کہیں نہ چاندنی راتوں میں جسم زخمی ہو
وہ رکھیں جسم کو مہتاب سے بچائے ہوئے
انہیں بھی دیکھ ذرا اے امیر شہر کبھی
جو اپنے دوش پہ غربت کو ہیںاٹھائے ہوئے
تیرنے والے یہاں غرقاب ہیں
تیری آنکھیںبھی عجب تالا ب ہیں
موج اندر موج طوفاں درد کے
یم بہ یم افلاس کے گرداب ہیں
بدن بدن میں ہیں پنہاں تھکاوٹوں کے ہجوم
قدم قدم پہ سلاسل نما سفر ہے یہاں
یہ اور اس قبیل کے اور بہت سے اشعار ’’غبار شب ‘‘کے صفحات پر جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔جو قاری کو اس بات کا بین ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ شاد جیلانی جس دور میںشاعری کر رہے تھے وہ چاہے ترقی پسندی کا عروج ہو یا زوال یا جدیدیت کی ا بتدا ہو یا اس کی طلسماتی پیچیدگیاں۔شاد جیلانی نے خودکو زمانے کی روش سے نہ صرف محفوظ رکھا ہے۔بلکہ اپنی راہ بھی الگ نکالنے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔اس دور کے مروجہ اسلوب بیان سے جدا اسلوب نگارش ایجاد کیا ہے۔انکے اشعار میںمستعمل الفاظ و تراکیب پر غور کریں تو دشت فلک،جگنو کی تحریریں،اندھیرو ںکو گلے لگانا،کاروان شعور،تھکاوٹوں کے ہجوم،سلاسل نما سفر،اور آنکھوں کو تالاب کااستعارہ بنانابلا شبہ ان کی انفرادیت پر دال ہے۔پہلا شعر جس میں محبوب کا تعین نہیںکیا جا سکتا۔اگر آپ چاہیں تومحبوب مجازی مراد لیںجس کی چاہت عاشق کو زمین و آسمان کی بے کراں وسعتوںمیںاسی کا جلوہ دکھاتی ہے۔چاہیں تو آپ حقیقت کی طرف جائیں تو آپ کو یہ محبوب خد ا کی ذات نظر آئے گی۔اور مزہ تو یہ کہ مجاز اور حقیقت دونوں مراد لینے کے لئے قرینہ موجود ہے۔اچھے شعر کی تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ اس کے معنوں کا تعین نہ کیا جا سکے۔اسکو معنی آفرینی بھی کہتے ہیںجو میر اور غالب دونوں کے ہاںخصوصیات شعرمیں داخل ہے۔شب کے صفحہ پرجگنوکااپنی تحریریںچھوڑ جانابھی شعر میںیک گونہ لطف پیدا کر دیتا ہے اور ساتھ ہی معنی کے کینو س کو پھیلاتا ہے۔جگنوکے چمکنے کا منظر جگنو کے غائب ہو جانے بعد بھی ایک پیغام کے ساتھ انسانی ذہن میں محفو ظ ہو جاتا ہے۔مذکورہ بالا دونوں اشعار میں وہ آہنگ کہی نظر نہیںآتا جو جو ۱۹۶۰ء کے دہائی تک اردو شاعری کا غالب رجحان رہا ہے۔تیسرے شعر میں شاعر نے اپنے انداز بیان کو خفیف سا بدلا ہے اور بظاہر وہی بات کہی ہے جو ایک عام شاعر بھی کہتا آیا ہے۔لیکن اجالے اندھیروںمیں کیوںتبدیل ہو گئے ہیں۔یہ غورکرنے کی دعوت بھی موجود ہے،ور یہ سوال بھی ہے کہ ایسی کیا مجبوری آ گئی ہے کہ انسان نے اندھیروں کو گلے لگالیا ہے یعنی وہ اندھیرو ں کے ساتھ خوش ہے۔یہ انفعالیت کیوں پیدا ہو گئی ۔اس کے کیا سماجی ،سیاسی عوامل ہیں۔اگر اس شعر کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو صفحوںکے صفحے سیاہ ہوتے چلے جائیں گے۔دھوپ کی سرحد میں کاروان شعور کا آنے کے بعدیہ احساس ہونا کہ انسان سے زیادہ اس کے سائے بڑھ گئے ہیں۔اپنے آپ میں ایک جدید طرز بیان ہے۔اوریہاںبھی ایک سوال موجود ہے کہ وقت رہتے ہوئے کیوں ہوشیار نہیں ہوئے۔انسان کے شعور کا قافلہ دھوپ میں آ جانے کے بعد اس احساس کا بیدار ہوناپوری تاریخ پیش کر دیتا ہے۔شاد جیلانی نے سیدھے سوال نہ کر کے سوال اپنے اسلوب میں فنکاری کے ساتھ پیش کئے ہیں اور یہ ان کے فن کا کمال ہے کہ وہ سوالوںکے جواب خودنہیںدیتے بلکہ قاری کے ذہن کومتحرک کرتے ہیں کہ وہ خود غور و فکر کرے۔یہی دعوت فکر و عمل شاد جیلانی کے کلام کا اہم خاصہ ہے۔اور ان کے فن کی کامیابی کا ضامن بھی۔پانچوں شعر شاد جیلانی کے عام اسلوب سے الگ ہے لیکن یہاں بھی انھوں نے اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے۔یہاں بظاہر اسلوب عامیانہ ہے لیکن اگر چاندنی راتوں میں جسم کے زخمی ہونے کے خدشہ پر غور کریں اور مہتاب سے جسموں کو بچائے رکھنے کا مشورہ اور نصیحت پر ذہن کو دوڑانے کی کوشش کریں تو یہ عام سے الفاظ پھر علامت کی شکل میںابھرتے ہیں۔پھر وہ مہتاب جس کی خصوصیت سکون افزا ہوا کرتی ہے جسموں کو جلانے والا کیسے بن سکتا ہے تو معانی کی پرتیں اترنے لگتی ہیں اور از خود سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ جسے انسان دریا سمجھ رہا ہے وہ اصلاً سراب ہے۔اسی طح سے آنکھوں کو جھیل تو ابتک سنتے آئے تھے لیکن آنکھوں کو تالاب کہہ کرجدت طبع کا ثبوت دیا جائے اور پھر لفظی رعایتوں کے سہارے تالاب کے عجب ہونے کوشعر کی ساخت میں پوری طرح فٹ کر دیا جائے اور ثابت کر دیا جائے تو یہ اختراع کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ آسان عمل نہیں ہے اس کے لئے فطری شاعر ہونا اور مشاق ہونا بھی ضروری ہے۔اس طرح سے شاد بدایونی ایک قادر الکلام شاعر ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔آٹھویں شعر کو آپ وہیں رکھ سکتے ہیں جہاں آزادی کے بعد ٹوٹنے والے خوابوں کی تر جمانی فیض،احمد ندیم قاسمی،علی سردار جعفری،اخترالایمان اور ساحر وغیرہ کر رہے ہیں۔جس رد عمل کا اظہار ان شعراء نے کیا ہے اسی رد عمل کا اظہار شاد بدایونی کے اس شعر میںبھی ہے لیکن یہاںبھی شاعر کی قوت کم نہیں ہوئی ہے۔بلکہ لفظوں کے انتخاب اور ان کی تکرار سے معنی میںجو فورس پیدا کیا گیا ہے اسے اہل نظر خوب سمجھ سکتے ہیں۔شاد نے بڑی خوبصورتی سے قرآنی اسلوب سے استفادہ کیا ہے۔سورہ نور کی آیت پر غور کریں۔اوکظلمات فی بحر لجی یغشہ موج من فوقہ موج من فوقہ سحاب۔ظلمات بعضہا فوق بعض۔پہلے مصرع میں موج اند ر موج طوفان کا درد ہے دوسرے مصرع میں یم بہ یم افلاس کے گرداب سے اس منظر کی تکمیل کی گئی ہے جو پہلے مصرع میں ابھرتا ہے۔دونوں مصرعوںمیںایک ایک لفظ کی تکرارشعرکی ساخت کے حسن میںاضافہ کرتی ہے اور معنی میں گہرائی بھی اسی سے پیدا ہو جاتی ہے۔اس طرح فن اور فکر کی حدیں ٹوٹ کراس طرح ایک ہوجاتی ہیں کہ ان کو الگ کرناناممکن العمل ہو جا تاہے۔بدن بدن میں تھکاوٹوںکے ہجوم اور قدم قدم میںسلاسل نما سفر میں شاعر نے ایک بارپھر تکرار الفاظ سے شعرمیں لطف پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تھکاوٹوںکے ہجوم سے مسائل کے انبار کی طرف اشارہ کیا ہے۔پھر دوسرے مصرعہ
میں قدم قدم کی تکرار سے کمال فن کے ساتھ اسے دور تک پھیلا دیا ہے۔یعنی یہ مسائل کے انبار صرف کسی ایک انسان یا اک فرقہ یا ایک نسل ایک جنس کے ساتھ مخصوص نہیں ہیںبلکہ ہر ذی نفس اس میںمبتلا ہے۔
’’غبار شب ‘‘کے کے مطالعے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شاد جیلانی کی شاعری اپنے ہمعصروں سے الگ اور اس مزاج سے منفرد ہے جو اس زمانے میں سکہ رائج الوقت ہوا کرتا تھا۔یہ انفرادیت شاد کے ذہن و دل میں اپنی معنویت کے ساتھ واضح رہتی ہے انکے موضوعات بظاہر وہی ہیں جو اردو شاعری میں برتے جا رہے ہیں۔لیکن زیادہ پڑھے لکھے نہ ہونے کے با وصف بھی انھیں لفظ و معنی کا ادراک منجانب قدرت ودیعت ہے ۔ان کے ہاں لفظوںکے مرکبات معانی میں گہرائی اور وسعت پیدا کرتے ہیں قاری جتنی گہرائی میں اترتا جاتا ہے معانی کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔شاد کی شاعری میں ایک تہذیبی رچاؤ اور ایک پاکیزہ رکھ رکھاؤملتا ہے۔جو انکی شاعری کو پر وقار بناتا ہے۔شاد انسانی مسائل کو ایک ڈھنڈھورچی کی طرح پیش نہیں کرتے بلکہ ایک مطربکی طرح چھیڑتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کا قاری ان جذبات و احساسات کو چھونے لگتا ہے جہاں انسان نر م گرم معمولی واقعات سے اوپر اٹھ کر آسمان کی رفعتوں کو مس کرنے لگا ہے،جہان قاری کا تخیل اور تصور ایک نئے قسم کی انگڑائی لینے لگتا ہے۔اور حقیقت و صداقت زمین پر بال پر پھیلانے لگتی ہے
کیلاش کنج اندرا نگر لکھنؤ
8090025365
Also read