سیدہ جعفر کی زندگی کے ابتدائی نقوش

0
286

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

پرویز شکوہ
ماہر دکنیات ،ممتاز ناقد و محقق پروفیسر سیدہ جعفر نے تحقیق و تنقید کے تعلق سے بہت کارنامے انجام دیے، انہوں نے بہت سے اہم مخطوطات کو مرتب کرکے اردو والوں سے روشناس کراکے اپنا انفرادی تشخص قائم کیا، ان کے مضامین سے ان کی گہری تنقیدی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے، سیدہ جعفر کو مطالعے کا بے حد ذوق ابتدائی دور سے تھا، وہ بذات خود ذہین ،مودب، شائستہ خوش اخلاق تھیں، ان کی ہم جماعت لڑکیوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سیدہ انہیں اپنے حلقہ احباب میں جگہ دیں انٹر میڈیٹ اور بی اے میں معاشیات اور عمرانیات ان کے اختیاری مضمون تھے اور انہوں نے یونیورسٹی سے دونوں امتحانات میرٹ اور اعزاز سے پاس کئے تھے، ایم ،اے کا نتیجہ نکلاتو معلوم ہوا کہ سیدہ جعفر نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے طلباء میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے۔
سیدہ جعفر کی ہم جماعت لڑکیاں اکثر کہا کرتی تھیں کہ معاشیات بہت مشکل سبجیکٹ ہے، سیدہ جعفر لیکچر روم کے باہران کی رہنمائی کرتیں اورذرا سی دیر میں مشکل مسائل کا حل پیش کردیتی تھیں، امیر مینائی کی پوتی آمنہ مینائی سید ہ جعفر کی اسکول میٹ اور عزیز دوست تھیں، اردو کا گروپ اگر چہ بہت بڑا تھا اور بہت سی لڑکیوں کے اختیاری مضامین علیحدہ علیحدہ تھے تاہم بعض طالبات جن کو اردو سے بے حد شغف تھا وہ ایک گروپ کی طرح تھیں،پوت کے پائوں پالنے میں ہی نظر آتے ہیںاور ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق کالج میں سیدہ جعفر ہر مضمون میں صف اول کی طالبہ شمارکی جاتی تھیں۔
سیدہ جعفر کو سینکڑوں معیازی شعراز بر تھے اور اپنی تحریروں میں وہ انہیں خوش اسلوبی سے استعمال کرتی تھیں۔
سیدہ جعفر ہر کلاس میں منفرد مقام رکھتیں تھیں، ان کی انگریزی استعداد بہت اچھی تھی، انگریزی بول چال پر عبور رکھتی تھیں، سیدہ جعفراپنی ان ہم جماعت لڑکیوں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتی تھیں جو نادار گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔
ان کے کلاس میں ایک لڑکی تھی جس کے والد وظیفے پر سبکدوش ہو چکے تھے ،دو بھائی پڑھے لکھے تھے لیکن بے روزگار تھے والد کے اپنی چھوٹی سی پنشن میں گھر چلانا بہت مشکل تھا، یہ لڑکی اکثر و بیشتر گھر سے اپنے ساتھ ٹفن نہیں لاتی تھی، کبھی کبھی لے آتی ، سیدہ جعفر نے مصلحتاً اس لڑکی سے خوب دوستی کر لی تھی، انٹرول میں سب لڑکیاں اپنا ٹفن لے کر نیچے آتیں ، وہ غریب لڑکی دوسری لڑکیوں کی طرح لنچ کیلئے نیچے نہیں آتی تھیں، سیدہ جعفر سیڑھیاں طے کرکے اوپر پہنچ جاتی اور اس لڑکی کو بڑے اصرار کے ساتھ نیچے لے آتیں، اسے اپنا ٹفن کھلاتیں اور خود بھی دکھانے کے لئے تھوڑا سا کھا لیتی تھیں، کبھی جب یہ لڑکی ٹفن لے کر آتی تو سیدہ جعفر تھوڑا سا شیئر کرتی تھیں،اس کے روکھے سوکھے ہر نوالے پر تعریف کے پل باندھ دیتیں ، ایسے ہمدرد اور غمگسار انسان کہاں ملتے ہیں ، سیدہ جعفر جیسی شریف النفس لڑکیاں کم نظر آتی ہیں، سیدہ جعفر واقعی اپنے بارے میں کم اور دوسروں کی خوشی اور آرام کے بارے میں زیادہ سوچتی تھیں، وہ طالب علمی کے زمانے میں اپنی پاکٹ منی سے کم استعداد لڑکیوں کی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
سیدہ جعفر تعلیمی سال شروع ہوتے ہیں اختیاری اور لازمی مضامین کی کتابیں خرید لیتیں، لیکن چارپانچ ماہ کے اندر اندر ان کے پاس کوئی کتاب نظر نہیں آتی ، سیدہ جعفر ان لڑکیوں میں کتابیں تقسیم کر دیتیں جن میں انہیں خرید نے کی استعداد نہیں ہوتی اور جو کتاب کے موضوع والے سبجیکٹ میں کمزور ہوتی ،سیدہ جعفر خود امتحان قریب آنے پر لائبریری میں زیادہ وقت گزار کر مطالعہ کرتیں کیونکہ ان کے پاس کتابیں موجود نہیں ہوتیں، ہم جماعت لڑکی کے تنبیہ کرنے پر کہ وہ حد سے تجاوز نہ کریں،سیدہ جعفر جواب دیتی ہیں کہ جنہیں ضرورت تھی انہیں کتابیں مل گئیں میرا اللہ مالک ہے،اور اللہ نے سیدہ جعفر کی مدد کی اور وہ زیادہ نمبر حاصل کرتی رہیں۔
طالب علمی کے دور میں سیدہ جعفر بزم اردو کی سکریٹری تھیں، مخدوم محی الدین جیل یاترا سے جب لوٹے تو کلیہ اناث میں ان کا خیر مقدم کیا گیا تھا،یہ وہ دور تھا جب حیدر آباد کے بچے بچے کو مخدوم محی الدین کی نظم’’قید ‘‘یادتھی،خیر مقدمی تقریرمیں سیدہ جعفر نے کہا تھا’’مخدوم کی شاعری میں روح عصر بولتی ہے اور عوام کا دل دھڑکتا ہے۔‘‘
مخدوم نے جب شکریہ ادا کیا تو سیدہ جعفر کا یہ جملہ دوبارہ دہرایااور کہاتھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ لڑکی ایک دن اردو کی مایہ ناز ادیبہ بن جائے گی۔
ان کی یہ پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور آگے چل کر سیدہ جعفر نے اردو تحقیق و تنقید میں اپنا نام کچھ ایسے روشن کیاکہ وہ دکنی تحقیق کا اہم ستون کہلائیں، سیدہ جعفر نے اپنی تحریروں میں کہیں بھی سرسری طور پر کچھ نہیں لکھا وہ بغیر حوالوں اور دلائل کے لکھتی ہی نہیں تھیں۔
ڈاکٹر سیدہ جعفر نے’’تاریخ ادب اردو عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک‘‘ چار جلدوں میں شائع کی ہے، مکمل طور پر تاریخ ادب اردو پر انہوں نے نو(9) جلدیں تصنیف کی ہے جس کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی ، پہلی پانچ جلدوں میں پروفیسر گیان چندجین کے ابواب بھی ہیں لیکن باقی چار جلدوں کیلئے انہوں نے تنہا کام کیا تھا۔
پروفیسر سیدہ جعفر تیس(30)سے زائد کتابوںکی مصنفہ ہیںان کی تحریروں کا انگرزی ، مراٹھی ،ہندی،عربی اورمیتھلی میں ترجمہ ہو چکاہے، وہ دکنیات کی ماہر تھیں انہوں نے دکنی کی کئی کتابوں کو ازسرنو مرتب کیا، اس کے علاوہ دکنی کی قدیم مثنویات پر بیش بہا تحقیقی کام کیا۔
مثنوی’’ یوسف زلیخا‘‘ہو یا کوئی اور مثنوی انہوں نے تاریخی اور دستاویزی شہادت سے اس کا صحیح مقام متعین کیا، جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔
لہٰذا کہا جا سکتاہے کہ ان کی ابتدائی زندگی کے نقوش ان کی مجموعی ادبی خدمات کی شکل میں ابھر کے سامنے آئے جس کی بدولت وہ ہمیشہ دکنی ادب کی ایک روح رواں کی حیثیت سے یاد کی جاتی رہیں گی۔
7505299219
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here