9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مجاہدلاسلام
مانو لکھنؤ کیمپس،لکھنؤ
کرسٹوفر کو پاروکا ماں بننایک منہ نہ بھایا ۔ پارورام کھلاون کی پالتو کتیا تھی۔رام کھلاون کوکتوں سے چاہے وہ نر ہو یا مادہ شروع سے ہی بڑی محبت تھی ۔ان کا مالک کیساتھ ساتھ چلنا ،بیٹھے بھی ر ہنا تو ٹکٹکی باندھے ہوئے ان کی طرف دیکھتے رہنا اور پھر مالک کاجس طرف کو بھی اشارہ کر دینا اسی پر مر مٹنا اس کے دل کو بڑا بھلا لگتا تھا ۔ رام کھلاون کی نانی اسے اکثربتایاکرتی تھی کہ ایک مرتبہ ہماری آبادی میںکہیں سے ایک جنگل سوّر گھس آیا ، تمہارے نانا بڑاگھبرائے ، انہوں نے فوراً ہی اپنے پالتو کتے کو اس کے پیچھے چھوڑدیا ،کتا ایسا سرپٹ اس کے پیچھے بھاگا کہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیںکر آیا۔
چنانچہ بچپن سے ہی رام کھلاون کے دل و دماغ میںیہ چیز گردش کرنے لگی کہ اے کاش اس کے گھر میں بھی کوئی کتیا یا کتاہوتا ،مگر اس مخلوق کو لے کر رام کھلاون کے گھر میں کوئی بھی اس کا حمایتی نہیں تھا ،اس کے پتا کا خیال تھا کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے اس گھر میں کوئی بھی پاک آتما پرویش نہیںکرتی ہے ۔
ہوایہ کہ انہی دنوں جب ایک مرتبہ رام کھلاون اپنے کھیت سے گیہوں کی کٹائی کراکے لوٹ رہاتھا تو اسے کلّو سنارکی کتیا بیائی ہوئی نظر آئی ۔ بچوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس کا ان کو صحیح صحیح گن پانا بھی بڑا مشکل کام تھا ۔ان بچوں میں سے ایک کو رام کھلاون کتیا کی نظروں سے بچ بچاکر کھینچتے پکڑتے ہوئے اپنے گھر لے آیا۔ اس کتے کے بچے کو دیکھ کر رام کھلاون کے بھائیوں و بہنوں کا تو کوئی خاص رد عمل نہیں ہوا ، جبکہ پتا جی ننکانہ صاحب کی یاترا پر پاکستان گئے ہوئے تھے ۔اس کی ماتا جی نے جب ذرا ٹوہ لینے والی نظروں سے اس کتے کے بچے کی طرف دیکھا تو فوراً چلّا اٹھیں۔ارے یہ تو کتیا ہے فوراً اسے بھگائو۔۔۔۔۔۔ اس وقت رام کھلاون کی سمجھ میں کچھ بھی نہیںآیا کہ ماتا جی کو آخرکتیا سے اتنی چڑ کیوں ہے۔آخر کتا اور کتیامیں فرق ہی کیا ہے۔۔۔۔۔؟
رام کھلاون نے اپنے عام رویے کے مطابق اپنی ماں کی ان باتوں کی طرف اس وقت کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ کتیا اس کے گھر میں رہنے لگی۔بلکہ جلد ہی اس کے گھر کا ایک حصہ بن گئی۔
ابھی ہفتہ مہینہ ہی گزرا ہوگا کہ رام کھلاون کے پتا سادھو سنگھ اپنی یاترا بیچ ہی میں سماپت کرکے گھر آٹپکے۔ رام کھلاون نے دن بھر تو اس کتے کے بچے کو کسی بھی طریقے سے ان کی نظروں سے چھپاکر رکھا ،مگر رات کے بعد جیسے ہی صبح ہوئی رام کھلاون ابھی بستر ہی پر تھا کہ سادھو سنگھ کی نظر اس کتے کے بچے پر پڑی۔۔۔۔۔۔ فوراً ہی وہ چونکے۔نوکرانی کی بچی جو پہلے ہی سے وہاں موجود تھی اس نے ساری باتیںسادھو رام کو بتا دی۔
ایک توکتیا وہ بھی رنگ کالا انہوں نے اسی وقت ہی سارے گھر کو اپنے سر پر اٹھا لیا جو لوگ ابھی تک گھر میں سوئے پڑے تھے وہ بھی فوراً ہی دوڑ کر دالان میں ان کے پاس پہنچ گئے کہ پتا نہیں کیا ہو گیا۔۔۔۔۔ وہ بلند آواز سے چلا رہے تھے میرے گھر میں کتاوہ بھی کالا یہ تو بھوت ہے۔اس کو ابھی فوراً ہی گھر سے بھگائو ۔۔۔۔۔۔۔
رام کھلاون بھی بھلا کیا کرتا پہلے تو اس نے اس کتے کے بچے کی جم کر پٹائی کی کہ وہ یہاں سے خود ہی بھاگ جائے مگر وہ کتے کا بچہ تھا کہ کسی طرح سے بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس بھی ہونے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ ابھی تک تو اتنی زیادہ محبت ہو رہی تھی پھر اچانک سے ہی اتنی زیادہ نفرت کیوں۔۔۔۔۔ ؟یہ سب کچھ آخر کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔
رام کھلاون نے اس کو گھر سے نکالنے کی بہت ساری کوششیں کی ایک مرتبہ تو اس نے نوکرانی کی بچی کی مدد سے اس کتے کے بچے کو گھر سے بہت دور جنگل میں پھنکوا دیامگر وہ تھاکہ پھر بھی لوٹ کر گھر واپس چلا آیا ۔ لا محالہ رام کھلاون کو پتا جی کی نظروں میں ذلیل و خوار ہونا پڑا، بالآخر رام کھلاون کے دماغ میںایک نئی ترکیب سوجھی ۔یہ تھی توذرا سنگ دلانہ قسم کی مگر یہ رام کھلاون کو کامیاب ہوتی ہوئی نظر آئی ۔ جیسے ہی شام ہوئی رام کھلاون نے اس کتے کے بچے کے گلے میں ایک نیلون کی رسی ڈال دی اور جنگل میں لے جاکر اسے ایک موٹے سے درخت سے باندھ آیا۔ اب اس کو پورایقین ہو گیا کہ رات کو جنگلی جانور اسے کھا جائیں گے، اور پھر وہاں سے آکر وہ اپنی پڑھائی میںجُٹ گیا ،اور رات گئے آرام سے سو گیا ۔ صبح تڑکے جب وہ نیند سے بیدار ہوا اور دروازے پر جیسے ہی قدم رکھاتو کیا دیکھتا ہے کہ کتے کا بچہ دم ہلا ہلا کر اس کے پائوں پر سسکاری مار رہا ہے،اور زبان حال سے رام کھلاون کویہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ تم نے تومجھے جنگل میں جنگلی جانوروں کی خوراک بننے کے لئے چھوڑ دیا تھا ،مگرلو اب میں پھر واپس آگیاہوں۔
اب تو رام کھلاون اس کتے کے بچے کو گھر سے باہر نکالنے کے جتنے بھی طریقے ہو سکتے تھے سب آزما کر تھک چکا تھا۔ اس کا اس کے پاس سوائے اس کے کوئی علاج نہیں تھا کہ اب جب کبھی بھی وہ گھر یا دالان میں نظر آجائے تو وہ اس کو پانچ،دس ڈنڈے لگا دیا کرے ۔ رام کھلاون کی اس آئے دن کی حر کتوںسے ایسا ہوا کہ اب اس کتے کے بچے نے اس کے گھر و دروازے پر آنے کے بجائے اس گھرکے قریب ہی ایک اجاڑ کھلیان میں اپنی جائے پناہ تلاش لی اور جب کبھی بھی رام کھلاون اسے دیکھتا تو بھوں بھوںکی آوازیں نکالتا اور جب رام کھلاون اس کے قریب جاتا تو وہ اپنی تھوتھنی اور زبان کو اس کے پائوں اور گھٹنے پر پھیرنے کی کوشش کرتا۔
بہرحال کسی نہ کسی طرح سے وقت گزرتا رہا مگر وہ جو قدرت کا قانون ہے۔ وقت کے ساتھ ہر چیز بڑھتی ،پھیلتی ہے ۔۔۔۔۔کتیا پر بھی دورشباب آیا چہرہ مہرہ یہاں تک کہ اس کی کھال بھی نکھر اٹھی۔کون کہتا ہے کہ کالے پن میں حسن نہیں ہوتا ہے ؟سنا گیاہے کہ اب افریقہ کی کالی ،بھبھوت لڑکیاں ہی مقابلہ حسن میں بازی مارتی ہیں۔ پارو بڑی کیوٹ دکھنے لگی۔
بہرحال ماتا جی نے جس خطرے سے شروع ہی میں رام کھلاون کو خبردار کیا تھاوہ صحیح ثابت ہوا۔گلی میں انواع و اقسام کے موٹے،پتلے اور دبلے کتوں کی باڑھ سی لگ گئی۔ کسی بھی شریف آدمی کا گلی سے گزرنا مشکل ہو گیا ۔نگاہیں شرم سے جھک جایا کرتیں ۔ یہ کتے آپس میں دانت نکوستے، ایک دوسرے پر غراتے بھوں بھوں کرتے، ان میںسے کچھ تو رسی تڑا کر اپنے گھر سے بھاگے ہوئے تھے تو کچھ کھمبے سمیت آدھمکے تھے،ان میں کچھ شہری تھے توکچھ دیہاتی۔ کنکروں،پتھروں اورڈنڈوں سے ان کی خاطر مدارت ہوتی اس کے باوجود بھی کوئی پاروکی گلی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا۔پارو دم دبائے ادھر سے ادھر بھاگی پھرتی۔
جلد ہی پھر اسی میں سے ایک دبنگ نے جس کا نام اس کے مالک نے کرسٹوفر رکھا ہوا تھا،سب کو چلتاکر کے اسی گلی میں اپنا جھنڈا گاڑ دیا ۔محلے والے ششدر و پریشان ۔بہرحال سار ا ماجرہ جلد ہی رام کھلاون کی سمجھ میں آگیا ۔اس بیچ میںپارو پرکئی بپتائیں آئیں ۔ مگر اس سر پھرے دبنگ نے پھر بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا ۔پارو کبھی سوتی تو دن چڑھے تک سوتی رہتی کبھی جاگتی تو دن و رات جاگتی رہتی ۔ کبھی خاموش رہتی تو پہروںخاموش ہی رہتی اور کبھی بھونکتی تو بھونکتی ہی چلی جاتی ۔کبھی فاقہ کرتی تو کئی دنوں تک کچھ بھی نہیں کھاتی۔ اگر کوئی پسند چیز مل جاتی تو کھاتی تو کھاتی ہی چلی جاتی۔
بہت جلد ہی ٹولے محلے والوں کی آنکھوںنے دیکھا کہ پاروکے یہاں آدھا درجن کے قریب بچوں کی پیدائش ہوئی۔ سب کے سب صحت مند ،موٹے ،تگڑے پاروکی دوڑدھوپ کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی،ان کو غذا فراہم کرنادن بھر محلہ محلہ آنگن آنگن پھرتی جب وہ واپس لوٹتی تو اس کی چھاتیاں دودھ سے لبا لب ہوتیں وہ چت لیٹ جاتی اور بچے جنہوں نے کہ ابھی تک اپنی آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں ،پارو کی ننھی منی چھاتیوں کو اپنے توتلے منہ میں ڈالے اس طرح سے نوچتے کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ ابھی تیا پانچا کردیں گے اور اگر ان میں سے کسی کو مناسب جگہ نہیں مل پاتی توپارو خود ہی اس کو اپنے پائوں اور تھوتھنی کی مددسے اصل مقام تک پہنچانے کی کوشش کرتی۔
کرسٹوفر پہلے ہی والی محبت کا پاروسے طلب گار ہوتا وہ اس کے قریب آنے کی کوشش کرتا ۔پہلے تو پارو اس پر غراتی پھر اتنی زور سے بھونکتی کہ کرسٹوفر کی سٹی ہی بندھ کے رہ جاتی ۔ وہ کہیں دور روٹی پانی سے بے نیاز سویا پڑا رہتااور جب جاگتا تو بڑی گرسنگی نگاہوں سے پارو اور اس کے بچوں کی طرف دیکھا کرتا۔اور اپنے پرانے دنوں کو یاد کرکے دل ہی دل میں بہت ہی زیادہ دکھی ہوتا۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے ہونگے کہ بچوں نے اپنی آنکھیں کھول دیں ۔ ان کی مٹر گشتیاں بڑھنے لگیں،ان کی یہ کشش اکثر راہ گیروں کا راستہ روک لیتی تھیں۔ کچھ ہی دن گزرے ہونگے کہ ان میں سے دو بچے کسی موذی مرض میں مبتلا ہوگئے اور چند ہی دنوں میں چل بسے ، اور دو کو پاس ہی کے گائوںکا جمن لوہار کا بیٹا لے اڑا،ا ب بچ گئے دو ،اب یہی دونوں پارو کی کل کائنات تھے ۔
ایک دوپہر کی بات ہے پارو معمول کے مطابق محلے کی گشت پرنکلی ہوئی تھی،لوٹنے میں ابھی دیر تھی۔جلدی جلدی کرسٹوفراٹھا۔بچوں کے پاس آ یا۔ پہلے پہل تو ان بچوں کو اپنی تھوتھنیوں سے پچکارا ۔بچے نادان تھے ان کو لگا کے کہیں سے ان کا کوئی حامی و ناصر آگیا ہے ۔خوشی سے اللّے تللّے ہونے لگے ۔مگر جلد ہی کرسٹوفر نے ان کو اپنے دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا۔ دونوں وہاں سے بھاگے، مگر کرسٹوفرنے بہت جلد ہی دوڑ کر اس میں سے ایک کو پھر سے ا پنی دانتوں کی گرفت میں لے لیا اور جب اس نے ان پر اپنے جبڑے کی پکڑ مضبوط بنا کر اسے جھنجھوڑنا شروع کیا تب آس پاس کے لوگ ٹھٹھکے ، چیخ چلّا کربچے کو کرسٹوفر کی گرفت سے آزاد کرایا۔ مگر کس کے پاس اتنا وقت تھا۔ آدمی تو آدمی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں اور وہ تھے خیر جانور ہی ۔ کرسٹوفر نے پھر بچے کو لپک کر پکڑ لیا۔ اب وہ اس بچے کو اپنے دانتوں تلے دبا کر وہاں سے کچھ دور ایک سنسان جگہ پر لے گیا ۔پہلے اس نے بچے پر اپنے دانتوں اور جبڑوں کی پکڑ مضبوط بنا ئی، پھر زمین پر جھنجھوڑنا پھر پٹکناشروع کردیا۔بچہ چلا چلا کرادھموا ہوگیا ۔کرسٹوفر نے اپنی بہیمیت کوآگے بھی جاری رکھا۔ آخر بچے نے تکلیف کی شدت کی تاب نہ لاکر دم توڑدیا۔ کرسٹوفر نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ اس نے بچے کی جان لینے کے بعد وہیں پاس ہی میں سالوں سے سوکھے پڑ ے ایک کنوے میں ڈال دیا اور پھر اپنی وہی پرانی جگہ پر آ کر سو گیا جہاں پر وہ پہلے سویا پڑا رہتا تھا۔
اس حادثے کے کچھ ہی دیر بعد پارو لوٹی حسب سابق اس کی چھا تیاں دودھ سے لبا لب تھیں۔اب ایک بچہ ہی رہ گیا جو فوراً ہی اس کے پاس آگیا دوسرے کو اس کی نظریں تلاش کرتی رہیں ، مگر لاحاصل وہ کہیں ہوتا تب نہ دکھتاوہ چیخی چلائی ولاب کرتی رہی۔کبھی پیروں سے زمین کو کریدتی تو کبھی تھو تھنوں مددسے بچے کی آہٹ لینے کی کوشش کرتی مگر سب لاحاصل ۔
ادھر کرسٹوفر تھا کہ جس نے پارو کی چیخ و پکار کا کچھ جواب دینے کے بجائے اس نے اپنے اوپر نیند کا مصنوعی غلبہ کچھ اس طرح سے طاری کرلیا کہ لگتا تھا کہ قیامت کا شور ہی اب اسے جگائے گا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ پارواب ایک ہی بچے پر صبر کر چکی تھی،اسی کو دودھ پلا تی ، اب وہی اس کی ساری توجہ کا مرکز بن کر رہ گیا تھا ۔ اس نے اب باہر بھی نکلنا بہت حد تک کم کردیا ۔جو کچھ بھی اس کو آس پاس میں مل جاتا اسی پہ گزر بسر کر لیتی ایک طرح سے اب اس کو کچھ زیادہ کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
وہ جو کہتے ہیں کہ آدمی وقت کے ساتھ ساتھ پہاڑ جیسے غم کو بھی بھول جاتا ہے پاروکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ کچھ ہی دنوں میںاس کی زندگی بھی معمول پر آگئی اس نے حسب سابق اپناقدم باہر نکالنا شروع کردیا ۔بچہ بھی اب کسی حد تک بڑھ چکاتھا ۔اب اس کو بھی اتنی زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں تھی۔
ایک روز کی بات ہے پارو کہیں گئی ہوئی تھی کرسٹوفرجو نیند کا بہانہ کرکے ابھی تک سویاہوا تھا، فوراً ہی اپنے پورے فارم میں آ گیا پہلے تو اس نے بھر پور انگڑائی لی، دانتوں کو نکوسا پھر وہ بچے کی طرف بڑھا۔ بچہ اب پہلے کی طرح بچہ بھی نہیں رہ گیا تھا۔بہت کچھ ہوشیار ہو چکا تھا۔اس نے سارے ماجرے کو پہلے ہی بھانپ لیا، وہ بھاگا مگر وہ کب تک کہاں تک بھاگتا ، کرسٹوفر نے لمبی ڈگ بھر کر اس کو پکڑ لیا ، دانتوں کی گرفت میں لے کر اپنے جبڑوں سے دبایا،پھرجھنجھوڑا،زمین پر پٹکا، یہ عمل اس نے کئی مرتبہ دہرایا۔ را ہ چلنے والوں نے کرسٹوفر کو اس کے اس عمل سے بازرکھنے کے لئے ڈھیلوں، ڈنڈوں کا سہارا لیا، اس سے کچھ دیر کے لئے تو وہ رک جاتا مگر پھر وہ فوراً ہی اسی عمل کو دہراتا اس طرح کے کئی حملوں کے بعد آخر کار کتیا کے اس بچے نے بھی پہلے ہی بچے کی طرح کچھ دیر میںاپنی جان جان جان آفریں کے حوالے کردی ۔ کرسٹوفر نے اس بچے کو بھی اسی کنوے میں ٹھکانہ لگا دیا جہاں اس نے پہلے کو لگایاتھا، اور پھر وہ اطمینان سے اپنی پرانی جگہ پر آیا اور بڑے ہی سکون سے پائو ں پسار کر سو گیا ۔
کچھ ہی دیر کے بعد کتیا آئی بچے کو تلاشا، چپہ چپہ چھان مارا کہیں ہوتب تو ملے ناپہلے تو گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخی، چلائی پھر فوراً ہی اس کی یہ چیخ و پکار آہ و بکا میں تبدیل ہو گئی۔ اب کتا بھی جاگ چکا تھا ۔ اب تک جو اس سے دور رہا کرتا تھا اس کے پاس پھٹکنے کی ہمت بھی نہیں جٹا پاتا تھا اب اس کے بالکل قریب آگیا تھا ۔ کتا اپنا منہ کتیا کے کان کے پاس لے گیا کوں کوں کرکے اس کوکچھ سمجھانے کی کوشش کی ۔ اب شام ہو چکی تھی گزرتے وقت کے ساتھ کتیا کی آہ و زاری اب بہت حد تک تھم چکی تھی۔ صبح کو دونوں ہی یک جاں دو قالب بنے ہوئے ایک دوسرے کے تھوتھنی سے تھوتنی ملائے خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے د یکھے گئے ۔(ختم شد)