سستی شہرت

0
374

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

نگینہ ناز

لائبریری میں کرسیاں سلیقے سے لگی تھیں۔ اسٹیج پرسفید کپڑوںسے ڈھکے بڑے شاندار انداز میں ٹیبل سجے تھے اور کرسیوں پرمہمانان بیٹھے ان ہستیوں کا انتظار کر رہے تھے جن کے ہاتھوں سے آج ایک کتاب کی رونمائی ہونی تھی۔ میں بھی وہاں شریک ِ انتظار تھی کہ ایک پچپن سالہ خاتون میرے قریب آ کر بیٹھ گئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں سارےمہمانوں کی آمد کے ساتھ اجراء کی تمہید باندھی جانے لگی۔ میں مقرّر کی تقریر سننے میں محو تھیکہ یہ محترمہ مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھنے لگیں ’’آپ کہاں سے تشریف لائی ہیں؟ کیا آپ کا نام جان سکتی ہوں؟‘‘ میں نے اپنا تعارف دیا تو کہنے لگیں’’ اوہ ! توآپ بھی رائٹر ہیں!‘‘ میں نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا۔ لمبے لمبے چوڑے دانتوں کو بڑے ہی عجیب انداز سے پھیلا کر وہ ہنسی اور نیلے پینٹ سے رنگے ناخنوں سے گالوں کو اس انداز سے کھجایا جیسے اپنی انگلیوں کی ساری انگوٹھیاں دکھانا مقصود ہو۔ نہ جانے کیوں مجھے ان میں پچپن سال کی عورت سےزیادہ سولہ سترہ سال کی الہڑ بچّی نظر آئی۔ ہربات پر گردن کوناز و اداسےجھٹکے دے رہی تھیں۔ میں بے اختیار مسکرا پڑی اور خود کو روکتے ہوئے ان کا تعارف چاہا ۔انھوں نے کہا ’’میں تبسم، ہاؤس وائف ہوں۔‘‘ اسی درمیان رونمائی کی تقریب شروع ہوئی اور ہم نے بھی اپنے فون نمبر ایک دوسرے سے بدل لیے۔ انہوں نے پھر پوچھا ’’آپ اس مصنفہ کو جانتی ہیں؟‘‘ میں نے ہاں میں گردن ہلائی۔
’’میں نہیں جانتی، اپنے خاوند کی کہنے پر آئی ہوں۔ کسے وقت ہے یہ سب پڑھنے کو!‘‘
’’یہ مصنفہ توگاؤں میں رہتی ہیں۔ اسےکیا جانکاری اتنی! میں تو بمبئی میں رہتی ہوں چاہوں تو اگلے سال ہی اپنی کتاب شائع کر دوں۔ یہ مصنفہ تو گھمنڈی لگتی ہیں‘‘
میں نے حیران نظروں سے اس کی جانب دیکھا مگر عمر کا لحاظ کر کے کچھ کہا نہیں کہ لکھنا پڑھناکوئی ہر ایک کے بس کی نہیں ہے ۔ اس کے لیے سوچ بلند اور مطالعہ وسیع ہونا چاہیے۔ کسی بھی موضوع کی معلومات نہ ہو تو قلم اٹھانا نقصاندہ ہوسکتا ہے۔ مصنفہ کی تقریر شروع ہوئی۔ ان کی کئی باتوں پر محترمہ عجیب عجیب کمینٹ پاس کرتیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جانے کسی بات کی جلن یا حسد بھری ہے دل میں! میں نے نظرانداز کردیا۔ جیسے ہی تقریر ختم ہوئی تو خاتون مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں’’ اگر برا نہ مانو تو میں آپ کو کال کر سکتی ہوں؟‘‘ میں نے کہا ’’جی ضرور ،آپ مجھ سے جب چاہے بات کر سکتی ہیں۔‘‘
اس طرح دھیرے دھیرے کبھی صبح کے میسج تو کبھی کال۔ ہنسی مذاق بڑھتے بڑھتے دوستانہ تعلقات طویل ہوتے گئے۔ عمر میں بڑی ہونے کے باوجود ان کی باتوں میں بچپنا تھا۔ اپنی شادی شدہ زندگی کی الجھنوں میں اونچی اڑان کی خواہش لفظ لفظ سے عیاں ہوتی تھی۔آخر ایک دن دل کی بات ان کے لبوں پر آ ہی گئی۔ کہنے لگیںمیں بھی کچھ لکھنا چاہتی ہوں، میں نے بھی کتابیں پڑھی ہیں، چاہو تو بہت کچھ لکھ سکتی ہوں۔ میں نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اس طرح انہوں نے پانچ دس لائنوں کے چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے سے شروعات کی اور میرے ذریعے تو کبھی اخبارات پر سے ای میل آئی ڈی لے کر انہیں چھپوایا اور وہ چھپےبھی ۔ان کی خوشی بڑھ کر دوگنی ہو گئی اور لائم لائٹ میں آنے کی چاہ نے انہیں میرے اور بھی قریب کردیا۔ ہر اس بات کی جانکاری لینا اور میرے ساتھ پروگرام میں شرکت کرنا تاکہ وہ بھی لوگوں کی نظروں میں بنی رہے۔ میں نے کبھی برا نہیں مانا ۔ابھی کچھ مضامین ہی چھپے تھے کہ عجیب عجیب باتیں منظر عام پر آنے لگیں کہ مضامین پورے کے پورے اٹھا کر اپنے نام سے چھپوا لیتی ہیں تو کبھی مضامین کا ڈھانچہ اٹھاکر اپنے کردار بھر دیتی ہیں۔ کبھی پورا کہ پورا میسج ہی کاپی پیسٹ۔ اونچائیاں چڑھنے کی چاہ میں اپنے مضامین میں چربہ بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زیادہ سے زیادہ لکھنا چاہ رہی تھیں۔خود کا لکھتی تو بات بھی تھی ، نقل کر کے لکھنے سے ان کا لکھا بھی چوری میں بدلنے لگا تھا۔ اب تو حد ہی کر دی تھی۔ اگر میرے مضمون کسی اخبار میں چھپ جاتے اور ان کا مضمون نہیں چھپتا ،شکایتوں بھرا کال ایڈیٹر کو جاتا کےبھئی فلاں کا مضمون چھاپ دیا، میرا کیوں نہیں؟ اس طرح دھیرے دھیرے انہوں نے مجھے صلح کار سے ہٹا کر خود ہی میری حریف بن گئی تھیں۔ وہ جو ہر چھوٹی چھوٹی بات مجھ سے پوچھتیں اور کہتیں’’ آپ مجھ سے چھوٹی ہیں مگر میں آپ سے مشورہ لیتی ہوں۔ آپ میری اکلوتی دوست ہیں ۔‘‘بولنےوالی نے دھیرے دھیرےسارے حربہ آزمانے شروع کردیے۔ میرے دوستوں کو دوست بنانا۔ اخبارات رسائل سے تعلقات بڑھانا اور میرے دوستی کے حوالے دے دے کر اپنی ساکھ جمانے کی پوری پوری کوشش کی اور پھر ایک دن حد ہی کر دی۔جب انھوں نے مجھے فون کیا۔
’’ہیلو کیسی ہیں آپ؟ ‘‘
’’جی اچھی ہوں آپ سنائیے آپ کیسی ہیں ؟‘‘میں نے بھی پوچھ لیا۔
’’نہیں بور ہو رہی تھی ۔کئی دن سے کچھ لکھا نہیں ہے، آپ کیا لکھ رہی ہیں؟ انہوں نے مجھ سےپوچھا ۔
’’میں نے بھی باتوں باتوں میں بتا دیا کہ’’ آج میرے سامنے ایک سوال آیا ہے۔ ’’تم دن بھر کیا کرتی ہو؟‘‘ سوچ رہی ہوں اسی پر کچھ لکھوں۔‘‘
’’اوہ، اچھا عنوان ہے،‘‘ اتنا کہہ کر اورباتیں بنا کر فون کاٹ دیا۔ میں نے بھی دھیان نہیں دیا اور اپنا مضمون تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔
میں نے اپنے مضمون کو نام دیا ’’شاید کہ کوئی بات لگ جائے تیرے دل کو‘‘ جو کئی اخبارات میں ’’تم دن بھر کیا کرتی ہو‘‘ اور مراٹھی میں ’’ای تو دیوس بھر کائے کرتیس‘‘ اس نام سے شائع ہوا تھا، مگر اس وقت مجھے ٹائپنگ کرنے میں دیری ہو گئی۔ اسی بیچ کئی اخبارات میں ان کا مضمون شائع ہوا۔ ’’دن بھر کیا کرتی ہو‘‘ میں حیران رہ گئی سارے دن کا ٹائم ٹیبل ہوں جیسا ایسے ایک آرٹیکل چھپا تھا۔ اخبارات نے بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی اور اس مضمون کو پڑھے بنا ہی شایع کرد یا کہ معیاری مضمون کی چھان پھٹک کئے بنا اسے چھاپا۔ جلدبازی میں انہوں نے سوچا کہ ان کےلکھنے سے پہلے کچھ لکھ کر چھپوا دوں مگر وہ بھول گئیں کہ اچھے مصنف معیار کا دھیان رکھ کر مضمون تیار کرتے ہیں۔ اس طرح میرے کئی مضامین سے ڈھانچا اٹھانا، تو کبھی کیریکٹر اٹھانا، ان کی عادت بن گئی۔میں نے پکڑ لیا اور ٹوک دیا کہ آپ کے کئی مضامین میں چربہ بڑھنے لگا ہے۔ اگر آپ نے میرے مضمون کی چوری کم نہیں کی تو میں آپ پر کیس کر دوں گی۔ میرا یہ کہنا ان کی اصلاح کرنا مقصد تھا کہ سدھر جائیں گی مگر ان کے اندر نہ جانے کیا تھا غرور سے کہا ’’کیا کرنا ہے کر لو، الفاظ جملے آپ کی جاگیر نہیں۔ کیا آپ سوچتے ہیں میں نہیں سوچ سکتی ؟‘‘
سوچ خیال ایک ہوسکتے ہیں مگر پورا کے پورا جملہ یا پیراگراف ہو بہو نہیں ہوسکتا۔ قلمکار کی تخلیق اس کا سرمایہ ہے قلم کی چوری برداشت نہیں کی جائے گی۔ کئی مصنفوں کے مضامین اور جملے تو خاکے چرا کر لکھنا عادت ہو گئی اور کئی لوگوں سے مراسم بڑھا کر انہوں نے کتابیں بھی چھاپ لیں۔ ان کی پہلی کتاب کا تبصرہ میں نے کیا تھا۔ مگر آج مجھے بہت افسوس ہے کہ ایک قلمکار کی ذمہ داری ہے کہ صحیح لکھیں مگر تب مجھے ان کی اس چوری کا اندازہ نہیں تھا آج میں اپنے وہ سارے الفاظ واپس لیتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ ایسے مصنفوں کا خود قارئین فیصلہ کریں گے۔
واشی، نوی ممبئی
ھ ھ

منصور ساکھرکر

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here