زندگی کا پیکیج

0
171

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

ڈاکٹرشبنم رضوی

آج کل جب امتحان کی شروعات ہوتی ہے- دن ایسا بھاگتا ہوا نظر آتا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ آج کا دن بھی ایسا ہی تھا۔ ہندی اور سوشولجی کا پیپر ہو تو کا ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ لڑکیاں اسی مضمون کی ہوتی ہیں۔ آج یہی پیپر تھا۔ انوجلیشن (Invigilation) ڈیوٹی میں بھی دوسرے کالج کی ٹیچرس کو بلایا جاتا ہے۔
اس دوران ایک ٹیچرس کالج کی اور ایک دوسرے کالج کی ڈیوٹی ایک کمرے میں لگائی جاتی ہے۔ اس طرح روز روز نئی نئی ٹیچر سے ملنے اور ملاقات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسے ہی سات بجے کا گھنٹہ بجا ساری ٹیچرس اسٹاف روم میں جمع ہوگئیں۔ کمرہ نمبر بولا جانے لگا اور ساتھ ہی دو دو ٹیچرس کا نام بھی۔ میرے ساتھ کسی ڈاکٹر حنا کا نام پکارا گیا مگر وہ تب تک نہیں آئیں تھیں۔ میں پیپر کا پیکیٹ اور کاپی لے کر کمرہ نمبر 12 میں پہونچ گئی۔
میں نے آنے والی لڑکیوں کی چیکنگ کی، رول نمبر وائز انہیں بٹھایا۔ پیپر اور کاپی بھی باٹ دی مگر ڈاکٹر حنا تب تک نہیں آئیں۔ جب کاپی پر سائن کرنے لگی تب ڈاکٹر حنا دوڑتی بھاگتی…… کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ میں انہیں دیکھ کر بڑی مایوس ہوئیں۔
گرمی میں سینتھیٹک کپڑے میں ملبوس، اُڑے اُڑے کھچڑی بال پرانا پرس جگہ جگہ سے اُدھڑا ہوا، بڑی چپّل، گندے ناخون، لبڑ دھبڑ کرتیں کمرے میں داخل ہوئیں۔ مجھے انہیں دیکھتے ہی الجھن ہونے لگی۔ بہرحال میں نے سلام کا جواب دیا اور بچی ہوئیں لڑکیوں کی کاپی پر سائن کرنے کو کہہ کر میں کرسی پر بیٹھ گئی۔
حنا بہت انہماک کے ساتھ کام کرنے لگیں۔
وہ ایک ایک لڑکی کے پاس جاتیں- اس کا ’پرویش پتر‘ چیک کرتیں، رول نمبر ملاتیں، فوٹو چہرے سے ملاتیں اور پھر سائن کرتیں کاپی پر پھر لڑکی کی سائن کرواتیں۔ بہت اطمینان سے کام کرتا دیکھ میرا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔
’’یہ پیپر اسٹاف روم میں دیں آئوں‘‘ حنا نے پوچھا
میں نے ’ہاں‘ میں سر ہلا دیا۔ وہ چلی گئیں۔
اور جب واپس آئیں تو فرج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل بھی لے آئیں۔ ٹھنڈا پانی دیکھ کرجی خوش ہوگیا اور چند لمحے بعد ہی ہم اور حنا دوست بن گئے۔
حنا نے بتایا کہ… دس سال سے پڑھا رہی ہیں ابھی تک پرمانینٹ نہیںہوئیں۔ اسی اسکول میں بچی بھی پڑھتی ہے۔ میں آگے بات نہیں کرنا چاہتی تھی مگر حنا تو استاد نکلی بات کرنے میں۔
پھُس پھُس بات کرتے کرتے اس نے آخر اپنی پوری رام کہانی سنا ہی دی۔ بہت جلدی مجھے معلوم ہوگیا کہ ڈاکٹر حنا تین طلاق کی ماری ہیں۔ اس کے شوہر نے رمضان کے دنوں افطاری کے وقت سرِشام طلاق-طلاق-طلاق کہہ کے گھر سے نکال دیا تھا۔
مجھے یقین ہی نہیں ہوا…
’’نہیں بھئی ایک مسلمان رمضان کے مہینے میں روزہ رکھے ہوئے۔ ایک روزے دار بیوی کو طلاق کیسے دے سکتا ہے۔‘‘
’’مگر اس نے مجھے دیا‘‘ حنا آنکھوں میں آنسو بھر کے بولی۔
’’یہ تو سراسر غلط ہے؟…
ہاں… مگر یہ سچ ہے…
مگر کیوں بھئی…مجھے اس کے شوہر پر شدید غصہ آنے لگا۔
’’افطاری کے وقت شربت کی مٹھاس کم تھی…‘‘
’’ارے یہ کوئی بات ہے؟…
ہاں میم ہمارے یہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے…
’’بات بات پر طلاق دی جاتی ہے‘‘… وہ خاموش کسی خیال میں گھستی گئی۔
حنا کی باتیں اتنی دلچسپ اور دل دکھانے والی تھیں کہ میں چند منٹ کے لئے کلاس سے باہر نکل آئی تاکہ اس کی روداد سن سکوں… حنا بتا رہی تھی… میم شام کا وقت تھا ابھی اذان شروع ہی ہوئی تھی کہ میں نے افطاری لگا کے وضوع کیا اور نماز مغرب کے لئے کھڑی ہوئی کہ شوہر کی آوازیں آنے لگیں…
’’میں نے نماز ختم کیا تو دیکھا بیٹی کمرے کے کونے میں کھڑی رو رہی ہے۔ اس نے شکایت کی… پاپا نے مارا‘‘
میں نے شوہر کی طرف دیکھا- یہ پوچھنے کے لئے کہ کیوں مارا۔ مگر اس کا غصہ سے طم طمایا چہرا دیکھ کر ہمت نہ پڑی…میں نے بیٹی کو چمٹا لیا۔ وہ ڈر رہی تھی- شوہر غصہ تھے… روزہ کھولنا بھی بھول گئے۔
انہوں نے شربت اٹھایا اور میرے منھ پر پھینک دیا… میں ترچھی ہوگئی ورنہ گلاس میرے منھ کو زخمی کر دیتا۔
’’یہ شربت بنایا ہے… پھیکا…گرم… دن بھر دکان پر رہنے کے بعد گھر آئو تو یہ ملتا ہے۔ اس نے دستر خوان کی طرف اشارا کیا۔
میں نے دستر خوان کی طرف دیکھا۔ کھجور، ٹھنڈا پانی، شربت، پکوڑی، کباب، چنے کی گھنگنی، اُبلا انڈا، پوری، سوجی کا حلوہ کھجورسبھی کچھ تو تھا۔ مگر اس نے طلاق طلاق طلاق کہہ کر گھر سے نکال دیا۔ میں تو روزہ بھی نہیں کھول پائی تھی۔ اس نے لڑکی سمیت مجھے گھر سے نکال دیا۔
شام ڈھلے جب میں گھر پہونچی تو والدین کا رو رو کے برا حال ہوگیا۔ بھائی مرنے مارنے کو تیار ہوگیا… مگر ہوا کچھ نہیں والدین بیٹی کی بدقسمتی کا رونا رونے لگے۔ چند دنوں بعد ہی بھائی بھاوج کا نظریہ بدلنے لگا۔ میں معصوم بہن سے مکار تند بن گئی۔ گھر میں میرے جگہ کی کمی ہوگئی۔ بھائی بھاوج بھی کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ نہ جانے میم زندگی کہاں سے کہاں پہونچ گئی۔ حنا نے ٹھنڈی سانس لی… اب نوکری کرتی ہوں پانچ ہزار ملتا ہے… اسی میں گزارا کرتی ہوں۔ اپنا اور بیٹی کا… حنا خاموش ہوگئی۔ گہری اداسی اس کے چہرے پر چھا گئی بالکل بدلی کی طرح… اور آنکھوں سے آنسو کی بارش ہونے لگی… تبھی امتحان ختم ہونے کا گھنٹا بجا۔
ہم اور حنا سب غم و غصہ بھول کے کاپی جمع کرنے گئے۔ پھر کاپی جمع کرانے میں کافی وقت لگ گیا… اور پھر زمانہ گزرنے لگا… روزمرّہ کے کام دھام، دوڑ دھوپ میں کہاں حنا یاد رہنے والی تھی… وہ تو میرے ذہن سے ہی نکل گئی تھی۔ میں جونیئر ٹیچر سے ایسوسیٹ پروفیسر بن گئی۔ کالج میں تبدیلی آگئی۔ شاندار کالج فاتحانہ انداز میں کھڑا ترقی کی داستان سنا رہا ہے۔ میں بلکہ ہم سب ٹیمپو کی جگہ گاڑی سے کالج جاتے ہیں۔ رتبہ، عہد ہ سب بلند ہوتا گیا۔
آج دس برس کا زمانہ گزر گیا مگر آج بھی ہمارے کالج میں امتحان کے دوران جب جب بڑا پیپر ہوتا ہے تو دوسرے کالجوں سے ٹیچرس کو بلایا جاتا ہے۔
آج پھر سوشولجی کا بڑا پیپر تھا۔ دوسرے کالجوں سے کئی ٹیچرس کو بلایا گیا تھا…
گھنٹا بجتے ہی ٹیچرس کے نام اور کمرہ نمبر بتایا جانے لگا۔ میری ڈیوٹی کمرہ نمبر 14 میں تھی کسی ڈاکٹر حنا کے ساتھ۔ جیسے ہی ہمارا نام بولا گیا۔ حنا نے لپک کے کاپی کا بنڈل اور پیپر تھام لیا اور کمرہ نمبر 14 کی طرف چل پڑی۔ چند لمحے بعد میں بھی چلی گئی۔ دیکھا… ایک اسمارٹ سی ٹیچر لڑکیوں کی چیکنگ کرکے ان کی سیٹ پر بٹھا رہی ہیں۔ میری نظر اس کی اسمارٹ نیس دیکھنے لگی۔ اچھی لگ رہی تھی ٹیچر… میں نے دل میں سوچا!
ہیل کی چپّل، تراشے ہوئے مناسب بال، منی کیور، پیڈی کیور کیا ہوا چمچماتا ہاتھ پیر، اوہ ’ہش پپی‘ کی چپل۔ یہ تو بڑی مہنگی ہوتی ہے؟
دل نے کہا… شفون کی مناسب ساڑی، گوچی کا بہترین پرس، واہ میرا جی خوش ہوگیا۔ وہ اپنے ساتھ ٹھنڈے پانی کی بڑی بوتل بھی لائی تھی۔
کلاس میں کاپی پیپر باٹنے کے بعد سائن کیا تب تک چائے آگئی ہم دونوں چائے پینے لگے۔ اس نے مسٹر برائون کا بسکٹ کا پیکٹ نکالا اورہماری طرف بڑھایا…
میں کافی دیر سے یہ سوچ رہی تھی کہ اس کو کہاں دیکھا ہے۔ لگاتار دماغ یادوں کا در کھٹ کھٹا رہا تھا مگر کچھ یاد نہیں آرہا تھا…
’’لیجئے میم‘‘ حنا کے خوبصورت ہاتھ میں ہیرے کی انگوٹھی چمکی-
لیجئے میم-پلیز… اس نے اسرار کیا-
حنا نے چہک کے کہا… میم آپ نے آج کا اخبار پڑھا…
نہیں… صبح صبح تو یہاں آنا پڑتا ہے۔ صبح کو نہیں میں دوپہر کو اخبار پڑھتی ہوں…
ہاں…میم…وقت تو نہیں ملتا مگر آج کی نیوز تو زبردست ہے۔ ’’آج تین طلاق کے خلاف بل پاس ہوگیا‘‘… وہ بہت خوش ہو رہی تھی۔ ہم دونوں بات کرتے کرتے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ میں یاد کر رہی تھی کہ حنا کو کہا ںدیکھا ہے… مگر یاد ہی نہیں آرہا تھا۔ حنا نے چہک کے کہا… اچھا ہے نہ طلاق بل- کم سے کم اب بات بات میں مرد عورتوں کو طلاق نہیں دے پائے گے… جیسے مجھے دیا…
اوہ!… میرا ذہن دوڑا… یہ وہی حنا ہے۔ ڈاکٹر حنا… کافی سال پہلے جس اجڑے چمن کے ساتھ ڈیوٹی لگی تھی۔ آج شاداب گلشن بن گئی تھی۔ میں نے پہچانتے ہوئے اس کے شگفتہ چہرے کی طرف دیکھا۔ آج وہ مجھے ’’مطمئن خوش اور خوبصورت لگ رہی تھی۔
’’بہت خوش ہو ڈاکٹر حنا میں نے پہچانتے ہوئے نئے لہجے میں کہا…‘‘
’’آپ تو پہچان لیا تھا۔ڈاکٹر اثیر
’’میں مسکرائوں-‘‘
کافی بدل گئی ہو نہ اسی وجہ سے پہچاننے میں دقت ہوئی۔
ہاں… یہ تو ہے… مگر زندگی بھی تو بدل گئی… نا۔ میں تو وہی ہوں… پر بیٹی بڑی آدمی بن گئی ہے۔ بڑے عہدے پر کام کرتی ہے دبئی ایئرپوٹ پر… اس نے ایک لمبی سانس لی جی جان لگا دیا بیٹی کو پڑھانے میں۔ آج اس کو خوش دیکھتی ہوں تو اپنا غم بھول جاتی ہوں۔
اچھی سیلری پاتی ہے…جانتی ہے جتنا روپیہ مجھے اسکول سے تنخواہ ملتی تھی اتنا تو وہ اپنی نوکرانی کو دیتی ہے۔ تین ہزار روپیہ۔ ڈاکٹر حنا نے تین ہزار کو اتنا کھینچ کر کہا کہ ہمیں تیس ہزار لگنے لگے اور ذرا سوچئے ڈاکٹر ایّر تین ہزار روپیہ میں میں نے اسے پالا تھا۔ تبھی بیل بج گئی…
ہم دونوں کافی لینے کے لئے اٹھ گئے۔ اور میرا دماغ ڈاکٹر حنا کی پچھلی زندگی کی طرف چلا گیا۔
:9415547544

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here