رافیل : یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا

0
497

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر سلیم خان

رافیل معاملہ میں جسٹس رنجن گوگوئی کی بینچ نے فیصلہ کرنے اور فیصلہ سنانے کا فرق واضح کردیا۔ فیصلہ کرنا تو یہ ہے کہ منصف شواہد کی روشنی میں غور کرے اور مبنی بر انصاف احکامات صادر فرمادے ۔ فیصلہ سنانا یہ ہے کہ کسی اور کا لکھا مکتوب من و عن سنا دے یا فریق اول کے تمام دلائل کو نظر انداز کرکے فریق ثانی کے سارےصحیح اور غلط دلائل کو بغیر کسی تفتیش کے اپنے فیصلے میں شامل کرلے ۔ رافیل کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ عدلیہ میں ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے ۔ بابری مسجد کا تالا کھلوانے کی عرضی پرابھی بحث ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ کئی صفحات پر مشتمل ٹائپ شدہ فیصلہ فاضل جج نے پڑھنا شروع کردیا ۔ نامہ نگاروں کو پہلے سے خبر کردی گئی تھی ۔ وہ وقت مقررہ پر پہنچے اور عدالتی فیصلے کی نقل کو شائع کردیا گیا ۔ سنگھ پریوار اور گاندھی پریوار دونوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔
رافیل کے معاملے میں گمان ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے جان بوجھ کر ایسی باتیں اپنے فیصلے میں شامل کردیں جس سے اس پربہ آسانی اعتراض کیا جاسکے ۔ عدالت عظمیٰ نے یہ توقع کرنا مناسب نہیں کہ وہ مکیش امبانی اور انل امبانی کے درمیان کافرق نہ جانتی ہو۔ اس کے باوجود فیصلے میں درج ہے کہ سرکار ۲۰۱۲؁ سے امبانی کے ساتھ رابطہ میں ہے۔ ان دونوں بھائیوں کے درمیان برسوں سے مہابھارت چھڑی ہوئی ہے۔ ایک ملک کا امیر ترین آدمی ہے اور دوسرا قرض سے چرمرا رہا ہے۔ مکیش ہزاروں کروڈ روپئے خرچ کرکے اپنی بیٹی کی شادی کررہا ہے اور انل کوعدم ادائیگی کے سبب بیرون ملک سفر سے روکنے والی عرضی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ۲۰۱۲؁ میں ڈیسالٹ نے مکیش سے رابطہ کیا تھا اور انل کی کمپنی سودے سے دوہفتہ قبل عالم وجود میں آئی تھی ۔ انل امبانی کی نئی نویلی کمپنی کی پیدائش سے پانچ سال پہلےڈیسالٹ اس سے کیسے گفت و شنید کرسکتی تھی؟ اس کامطلب یہ ہے حکومت نے عدالت کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کی تو اس نے آنکھیں موند کر کہہ دیا کہ ان دونوں اداروں کے درمیان کیا معاملات ہوئے ہم نہیں جاننا چاہتے؟ فرانس کے سابق صد ر اولاند کا واضح بیان بھی پوری طرح مسترد کردیا گیا۔ قیمت کی راز داری سے متعلق ہوائی دستے کے سربراہ کی رائے کا ذکر فیصلے میں ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ رائےکس چیف نے؟ کب؟ کہاں؟ کس کو؟ اور کیوں دی تھی؟
عدالت عظمیٰ کے ۲۶ صفحاتی فیصلے میں اگر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ فراہم کردہ معلومات کے مطابق سی اے جی کو جہاز کی قیمت بتائی گئی اور اس نے اپنی رپورٹ پی اے سی کے سامنے پیش کرد ی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بات کو درج کرکے سپریم کورٹ نے حزب اختلاف کو ایک ایسا ہتھیار تھمادیا کہ جس کی مدد سے وہ سرکار کے جھوٹ کو کو بے نقاب کرسکے۔ پی اے سی کے سربراہ ملک ارجن کھرگے نے پریس کانفرنس میں اعلان کردیا کہ ایسی کوئی رپورٹ بنی ہی نہیں تو پیش کیسے ہوگی ۔ عدالت کا یہ کہنا کہ بھی غلط ہے وہ عوام کی ملکیت ہے۔ کھرگے کے مطابق جب تک کوئی رپورٹ ایوان پارلیمان میں پیش نہ ہو عوامی ملکیت نہیں بنتی کیا عدالتِ عظمیٰ کے معزز منصف اس دستوری حقیقت سے ناواقف ہیں؟ اس طرح سارا فیصلہ مشکوک ہوگیا ہے۔ عدالت کہتی ہے کہ جے پی سی کو رپورٹ پیش ہوچکی ہے مگر وزیرخزانہ ارون جیٹلی یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس معاملے میں جے پی سی تفتیش نہیں ہو گی۔ بلکہ صرف ایوان میں بحث ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب ٹھیک ٹھاک ہے تو حکومت تفتیش سے کیوں گھبراتی ہے؟جے پی سی دراصل سی اے جی کے ذریعہ پیش کردہ ٹھوس حقائق کی جانچ پڑتال کرتی ہے جبکہ ایوان کی ہنگامہ آرائی ہوا ہوجاتی ہے اس لیے حکومت یہ راہِ فرار اختیار کررہی ہے ۔
سرکار کے اوٹ پٹانگ دلائل کو اپنے فیصلے میں شامل کرکے عدلیہ نے راہل گاندھی کو پھر ایک بار یہ اعلان کرنے کا موقع دے دیا کہ ’چوکیدار چور ہے‘۔ راہل گاندھی نے یہ کہہ کراخبار نویسوں کا دل جیت لیا کہ، ’’حکومت کو ہمیں وضاحت دینی ہوگی کہ سی اے جی رپورٹ کہاں ہے۔ رپورٹ کو پی اے سی کے چیئر مین کھرگے جی کو دکھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی متوازی پی اے سی چل رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کسی دوسری پارلیمنٹ میں، ہو سکتا ہے پی اے سی فرانس میں چل رہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مودی جی نے کوئی اپنی خود کی پی اے سی پی ایم او میں بنا رکھی ہو۔‘‘۔ راہل نے ببانگ دہل کہا سیاسی مفاد کی خاطر (پہلے سی بی آئی ، اس کے بعد آر بی آئی اور اب سپریم کورٹ جیسے مؤقر )اداروں کی ایسی تیسی کردی گئی ہے۔
اس فیصلے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ منصف اعظم رنجن گوگوئی بابری مسجد کے قضیہ کا فیصلہ کیوں ٹال رہے ہیں؟ سنگھ پریوار کی مانند رام مندران کی ترجیحات میں کیوں نہیں ہے؟ وہ جلدازجلد اس معاملے کو کیوں نمٹانا نہیں چاہتے؟ نیز اگر انہیں مجبور کردیا جائے تو کیا فیصلہ سامنے آئے گا؟ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کس فکر کے حامل ہیں اس کا اظہار انہوں نے سابق منصف اعظم دیپک مشرا کی الوداعی تقریب میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا ’’اگر ہم آئینی اقدار کو سربلند رکھنے کی اپنی جدوجہد میں ناکام ہوجائیں تو باہم نفرت اورقتل وغارتگری کرتے رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے جج اس کے پابند ہیں اور رہیں گے‘‘۔ انہوں نے آگے ایک نہایت بات کہی کہ ’’ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں کہ جب ہم کیا کھائیں اور کیا پہنیں یہ ہماری ذاتی زندگی کی معمولی باتیں نہیں ہیں ۔ ایسے میں دستور کے علاوہ کوئی چیز ہمیں متحد نہیں رکھ سکتی ۔ اس لیے آئینی اخلاقیات کو فروغ دیا جائے ‘‘۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں سپریم کورٹ کے چار جج سبکدوش ہوگئے یکم اکتوبر کوجسٹس دیپک مشرا نے اپنی الوداعی تقریب میں کہا تھا کہ ہماری عدلیہ دنیا کی سب سے مضبوط عدلیہ ہے۔ اس میں ناقابل تصور تعداد میں معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت ہے۔ مشرا جی نے تعداد کا ذکر کرکے پہلو بچالیا ۔ کثیر آبادی کے تناسب میں ناکافی عدالتوں کے سبب عدالتوں پر دباو تو ہے لیکن عدلیہ کا امتحانپیچیدہ مقدمات میں ہوتا ہے۔ جسٹس چلمیشور سبکدوش ہوئے تو نامہ نگاروں نے پوچھا کہ عوام انہیں چیف جسٹس کے طور پر دیکھنے کی توقع رکھتے تھے؟ اس سوال چونکا دینے والا جواب جسٹس چلمیشور نے یہ دیا کہ’’میں ایک برے چیف جسٹس کے بجائے ایک اچھے جج کے طور پر یاد کیے جانے پر خوشی محسوس کروں گا‘‘۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس تھی کہ ’’ برا چیف جسٹس‘‘ سے کون مرادہےلیکن پھر ریٹائر ہونے والے جسٹس کورین جوزف نے اسے کھول دیا ۔ اپنی الوداعی تقریر میں انہوں نے صاف کر دیا کہ سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کےبیرونی ریموٹ کنٹرول میں ہونے کے سبب عدلیہ کا انتظام وانصرام متاثر ہوتا تھا ۔ جسٹس کورین نے بیرونی ایجنسی کا نام نہیں بتایا لیکن ساری دنیا مرکزی حکومت کی دخل اندازی سے واقف ہے۔ جوزف کورین نے ساڑھے پانچ سال عدالت عظمیٰ میں گزارے اور ان کا شمار نہایت لائق و فائق منصفین میں ہوتا ہے اس لیے ان کا بیان توجہ طلب تھا۔ اس پر کانگریس نے بڑا شور مچایا اور عدالتی معاملات میں تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ سرکارچیف جسٹس کو کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کےوکیل ششانک دیو نے عدالت سے تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے عدالت کی ساکھ پر اثر پڑے گا ۔ جسٹس گوگوئی نے اس کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئےجواب دیا’ادارے کی ساکھ اس کے چلانے والوں سے قائم ہوتی ہے‘۔ سچ تو یہ ہے کہ رافیل کے حالیہ فیصلے نے عدالت کی ساکھ اور خودمختاری پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ۔ ایسے میں راحت اندوری سوال کرتا ہے؎
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here