9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں
ڈاکٹرجہانگیر احساس
ابتداء ہی سے انسان کو اپنے علاقہ سے انسیت رہی ہے اسی باعث ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے اس کی عظمت کے ترانے گائے ۔ خواہ نظم ہو یا نثر دنیا کے ہر خطہ میں اور ہر زبان کے ادب میں اس رجحان کو محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ امر فطری بھی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ انسان کی شناخت کا اولین ذریعہ اس کا اپنا علاقہ ہی ہوتا ہے۔ انسانی تہذیب جوں جوں ترقی و ادراک کے مدارج طے کرتی گئی وقت اور حالات کی مناسبت سے اس کے ادراک میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس تناظر میں جب ہم اردو شعرو سخن کا جائزہ لیں تو یہ بات ہم پر واضح ہوگی کہ ہمارے شعراء و ادباء نے بھی اپنی اپنی سرزمین سے اٹوٹ انداز میں محبت کا اظہار کیا ہے ۔ اسی طرح ’’ارض ِ ِدکن ‘‘ کے کلاسیکی ادب پاروں میں بھی اس کی عظمت ‘شان و شوکت کا بیان تواتر کے ساتھ ملتا ہے ۔ مگر‘ گزرتے وقت کے ساتھ اپنی سرزمین سے وابستگی کا احساس یہاں کے شعراء میں پوری طرح ختم تو نہیں ہوا مگر‘ اس میں ضرور کمی واقع ہوئی ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہاں کے مقامی فن کاروں کا مقامی لب و لہجہ سے دور ہونا بھی ہے جب تک کہ ہم ’’ارضِ دکن ‘‘کی مقامی زبان یا بولی ’’دکنی‘‘سے جڑے رہے ہم میں اپنی زمین کی عظمت ورفعت کا احساس شدت کے ساتھ باقی رہا لیکن جب اردو زبان کو معیاری شکل و صورت دینے کے لیے برصغیر کے مقامی لہجوں سے اس کو پاک کرکے ایک مرکزی لہجہ عطا کیا گیا تو اس کا عظیم نقصان اہل جنوب کو اٹھانا پڑا۔ اس لیے کہ جب تک یہاں کے شعراء و ادباء اپنی زمین اپنے لہجہ سے جڑے رہے بلکہ ایک شان بے نیازی کے ساتھ اس کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا تو اردو ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ اولیت ہمیں کو حاصل رہی چاہے وہ ملا وجہی کا نثری شاہ کار سب رس ہو یا فخردیں نظامی کی شعری کاوش کدم راؤ پدم راؤ رہی ہو ۔ بعد ازاں اہل ِ دکن جب معیاری زبان میں اپنی تخلیقات پیش کرنے لگے تو انہیں نہ وہ مقام ملا اور نہ وہ اپنی زمین سے وابستہ رہے ایک عجیب و غریب ذہنی کشمکش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ میں یہ بات اس لیے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ یہاں کے بڑے بڑے ادباء و شعراء نے شاذ ونادر ہی اپنی سرزمین کا تذکرہ کیا ہے ۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ ان حالات میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورـؔ کی علمی و ادبی کاوشوں و تربیت کی بدولت دکن کے قلم کاروں میں یہاں کے زمین کی عظمت و رفعت جاگزیںہوئی ورنہ ہم ابھی تک اس سے ناآشنا رہتے ۔
سرزمین دکن نے یوں تو ہر دور و زمانہ میں درِ نایاب و عبقری شخصیات کو اپنے دامن و آغوش میں پالا ہے مگر ‘ اس کا حق جدید دکن میں بہت کم نے ادا کیا ہے ۔ جو قوم اپنے علاقہ و مسکن کی عظمت سے بے بہرہ ہوتی ہے تو ان پر غیر مقامی لوگ مسلط ہوجاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں اگر کوئی یہاں کا فن کا ر اپنی زمین کے عظمت کے ترانے گائے تو دل روحانی مسرت سے جھوم اٹھتا ہے ۔ بلاشبہ !اقبال محمد خان المعروف بہ قمراقبال کا شماردکن کے ان معدودے چند شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے ’’ارضِ دکن ‘‘کی نہ صرف مدح سرائی بلکہ شعوری طور پر اس کی عظمت و اختصاص کی علامتوں کو اپنے فن پاروں میں گنوایا ہے ۔ اس تناظر میں پروفیسر ارتکازافضل کے یہ کلمات دکن کی عظمت سے متعلق صحیح معلوم ہوتے ہیں اور ان کے ’’دکنی شعور‘‘ کی بھی نشاندہی کرتے ہیں وہ کہتے ہیں :
’’دکن ایک علاقہ نہیں بلکہ ایک ورثہ ہے اور دکن میں تخلیقی سطح پر جینے کے لیے ضروری ہے کہ اس بارِ گراں کو اٹھانے کی اہلیت ہو ۔ آج کے حالات میں دکن کی روایات کا احساس اور بھی شدید اس لیے ہوجاتا ہے کہ دکن کے فن کاروں کو دوہری کشمکش کا سامنا ہے ۔ ایک طرف تو دکن کی عظیم روایات ہیں جن کے مقابلے میں کسی فن کارکاپنپ جانامعجزہ سے کم نہیں اور دوسری طرف عصر ی تقاضے ہیں جن سے وہ کسی صورت روگردانی نہیں کرسکتا۔ پھر دکن
کی تاریخ کا علم رکھنے والے فن کار کے لیے یہ احساس بھی کچھ کم کربناک نہیں ہوگا کہ کچھ ہی دہائیوںمیں دکن کی
درخشاںجبیں پر سیاسی حالات کی وجہ سے ایسی شکنیں پڑیں کہ اس کے خط و خال بگڑ کر رہ گئے ۔ ‘‘
(ربع صدی کی آواز‘ ڈاکٹر ارتکاز افضل ‘موم کا شہر‘ص:۴)
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں قمر اقبالؔکے کلام کو دیکھیں تو اس میں ہمیں دکن کی نہ صرف معدوم روایات نظر آتی ہیں بلکہ موجودہ عہد میں اس کی منزلت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ دکن کی عظمت سے متعلق یہ شعر ملاحظہ ہوں ۔
ایک ڈوبے تو ابھرتا ہے قمرؔ اک سورج
لوگ حیراں ہیں کہ یہ خاکِ دکن کیسی ہے
اک دن بھی قمرؔ سے کہیں جایا نہیں جاتا
کیسی یہ کشمکش تجھ میں ہے اے ارضِ دکن بول
ان اشعار میں جہاں ’’ارضِ دکن ‘‘ کی عظمت و تابندگی کا ذہنی شعور ملتا ہے وہیں یہ کمالِ فن کی بھی غمازی کرتے ہیں ۔ شاعر چوں کہ اپنے دور کا ایک باشعور انسان ہوتا ہے جس کی نظر یں صرف حال پر ٹکٹکی باندھے نہیں رہ تیں بلکہ وہ اپنے فکری رو سے ماضی کے تانے بانے کو حال کے فکری سانچے سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ فکری زاویے اشعار کی صورت کروڑ ہا سال کی انسانی تاریخ کے ترجمان بن جاتے ہیں تو کبھی کسی علاقہ کی عظمت رفتہ کی منہ بولتی داستاں بن جاتے ہیں ۔ قمرؔ کے یہاں ہمیں ایک ایسے فن کار کا تصور ملتا ہے جس نے نہایت کم عمری میں اپنی زمین سے جڑی تہذیبی روایات ‘وضع داری بلکہ ایک ملی جلی مخلوط تہذیب جس نے ’’ارضِ دکن ‘‘کو ایک مخصوص انفرادیت عطا کی تھی اس کا مشاہدہ اپنی ادراک کی آنکھوں سے کر لیا تھا ۔ کچھ علاقہ ایسے ہوتے ہیں جو زمانہ کی آندھی میں منتشر تو ہوجاتے ہیں مگر‘ ان کے توانا تہذیبی عناصر سینہ بہ سینہ اس علاقہ کی نسلوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں ضروری نہیں کہ یہ عمل شعوری ہو بلکہ لاشعوری طور پر بھی اس کا تسلسل جاری رہتا ہے ۔ ارض دکن بھی اپنی آغوش میںتاریخ کے ایسے ہی لازوال افسانے رکھتی ہے ۔ یہ افسانے در اصل اس کے درخشاں ماضی کے ایسے چشم دید گواہ ہیں جنہوں نے بلا کسی تخصیص مذہب وملت اپنی تہذیب روایات کو مختلف کرداروں کے ذریعہ تاریخ ِ عالم میں محفوظ کردیا کہ رہ رہ کر ہم وقت اور حالات کے تناظر میں انہیں یاد کرتے ہیں ۔
قمرؔ کی شاعری کا نمایاں پہلو ’’ارضِ دکن‘‘ کی وہ تابندہ نشانیاں ہیں جنہیں ہم پڑھ کر دیکھ کر اس کی عظمت و رفعت سے آگاہ ہوجاتے ہیں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دکن صرف ایک علاقہ کا نام نہیں بلکہ کرۂ ارض کا وہ خطہ ٔ زمین ہے جس نے اپنی منفرد ساخت کو زمانے کے لاکھ تھپیڑوں کے باوجود آج بھی برقرار رکھا ہے ۔ قمر نے اسی مزاج کو ایک جداگانہ انداز میں کچھ یوں بیان کیا ہے ۔
تثلیث :
لوگ یوں اک نئی ڈگر پہ چلے
جیسے دلی کو چھوڑ کر تغلق
دولت آباد کے سفر پہ چلے
سیدھی سادی بات کو سمجھانے کے لیے شاعر نے یہاں تلمیح کا سہارا لیتے ہوئے فن کارانہ خلاقی کا ثبوت دیا ہے جس سے اس کی شاعرانہ عظمت عیاں ہوتی ہے ایک اور جگہ قمر سر زمینِ دکن کا ذکر شاعرانہ رمز میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ’’دکن‘‘ ہی ان کی فکرکا منبع و محور ہے ۔ ہر لحظہ دکن کی رفعت ان کے پیشِ نظر رہی۔ کہتے ہیں :
چھپا کے نام قمرؔ کا وہ سب سے کہتے ہیں
سنا ہے ہم نے کہ شاعر ہے اک دکن میں بھی
مذکورہ اشعار اس بات کی ترجمانی کرتے ہیں کہ انہیں اپنی زمین اور اس سے وابستہ تہذیبی و ثقافتی عناصر سے حد درجہ انسیت رہی ۔ قمر سے قبل دکنی کلچر اور منظر نگاری ہمیں مخدوم محی الدین کے کلام میں بھی نظر آتی ہے ۔ مخدوم کا جب انتقال ہوا تو قمر نے انہیں خراج پیش کرنے کے لیے مخدوم ہی کی طرح تراکیب وضع کیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قمر کے آئیڈیل رہے ہوں ۔ بے شک ایک بڑے فنکار کی عظمت زماں و مکاں کے قیود سے ماورا ہوتی ہے ۔ زندگی کی سسکتی بلکتی سچائیوں کو اپنے کلام میں کچھ اس طرح منتقل کردیتا ہے کہ آفاقیت اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ پھر مخدوم تو مخدوم ٹھہرے ۔۔۔!! جس نے ’’دکن‘‘ کی سوندھی سانولی مٹی ‘ وہ چنبیلی کی خوش فکربہاروں کو اپنے اشعار میں کچھ اس رنگ و ڈھنگ سے سمودیا کہ پورا دکن ان کے کلام میں مجسم دکھا ئی دیتا ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلاتاہے ۔ قمر کی یہ نظم ’’چارہ گر جاچکا‘‘مخدوم کو ایک ایسا خراج ہے جسے ایک دکن کا سپوت ہی پیش کرسکتا ہے ۔
چاند تاروں کے بن سے پرے
رات کی جگمگاتی دھڑکتی ہوئی انجمن سے پرے
صبح کی دھوپ
ہنستی ہوئی دلربا شام کے گہرے ہلکے دھندلکوں سے
بوجھل گھنی کالی کجراری پلکوں سے
ابروئے دلدار کے بانکپن سے پرے
اپنے گھر
بام ودیوار و در
سر زمین دکن سے پرے
آج دھرتی گگن سے پرے
چارہ گر جاچکا
اِک صدا ہے جو آتی ہے ہرسمت سے
چار ہ گر چکا
چارہ گر چکا
قمر نے مذکورہ نظم میں مخدوم محی الدین کو ’’ارضِ دکن ‘‘ کا ایک ایسا فن کار ثابت کیا ہے جس نے اس کے چپہ چپہ، ذرہ ذرہ سے محبت کی اور جب وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا تو گویا پورا دکن مجسم حالت میں مخدوم کی جدائی پر ماتم کناں ہے ۔ یہ سچ بھی ہے کہ جب کسی عظیم ہستی کا انتقال ہوجاتا ہے تو بنی نوع انسان کے ساتھ اس کے متعلقہ علاقہ کی ہر شئے اداسی میں ڈوب جاتی ہے قمرنے مخدوم کے تئیں جس والہانہ عقیدت کا اظہار اس نظم میں کیا ہے وہ ان کے تخلیقی اپج کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
فن کے تئیں فن کا ر جب حددرجہ مخلص ہوجاتا ہے تو اس کے کلام میں تاریخی شعور بھی خود بہ خود شامل ہوجاتا ہے دکن کی تاریخی و دور اندیش ہستیوں میں’’بہادر یارجنگ‘‘ نمایاں طور پر اہمیت کے حامل ہیں جن کے زورِ خطابت ، درد مندی اور شانِ بے نیازی کو انہوں نے کچھ اس اندازمیں منظوم کیا کہ بہادر یار جنگ کی شخصیت کے اہم پہلو ہماری نگاہوں کے سامنے واضح ہوجاتے ہیں ۔ نظم دیکھیے ۔
’’دکن کا ٹیپو ‘‘
دن مہینے میں مہینے کئی برسوں میں ڈھلے
سال ہا سال سے لمحوں کا سفر جاری ہے
بحرظلمات کے سینے میں ہیں گرداب بہت
پھر بھی موجوں پہ چراغوں کا سفر جاری ہے
کس کو فرصت ہے کہ ملت کے لیے کچھ سوچے
قوم کے درد کو کب اپنا سمجھتا ہے کوئی
خود کے دامن میں رہیں پھول تو غیروں کے لیے
کب کسی شاخ کے کانٹوں سے الجھتا ہے کوئی
ایک جیسا نہیں ہوتا ہے مگر دل سب کا
دوسروں کے بھی لیے لوگ جنم لیتے ہیں
درد اوروں کا بھی مل جائے تو تحفے کی طرح
اہلِ دل ‘ اہلِ نظر‘ اہل قلم لیتے ہیں
یہ بھی ہے ارض ِ دکن کی ہی کرشمہ سازی
خاک سے اس کی کوئی قائد ملت اٹھا
وہ بہادر کہ دکن کا جسے ٹیپو کہیے
بزم در بزم لیے شانِ شجاعت اٹھا
اس کی آوازمیںبجلی سی چمک جاتی تھی
اس کے الفاظ سے شعلہ سا لپک جاتا تھا
اس کا انداز خطابت تھا مؤثر ایسا
سامنے جو بھی ہو پردہ وہ سرک‘جاتا تھا
آنے والوں کو نئی راہ دکھانے کے لیے
ہر نئے دور میں اک نقشِ قدم ہوتا ہے
لوگ کیا دیکھتے رہتے ہیں افق کی جانب
کبھی مٹی سے بھی سورج کا جنم ہوتا ہے
اس نظم میں قمراقبال نے زماں ومکاں کا ذکر کرتے ہوئے یہی آشکار کرنے کی کوشش کی کہ وقت کبھی رکتا نہیں مگر‘وقت کے اس بہاؤ میں کچھ ایسی عظیم ہستیاں بھی رونما ہوتی ہیں جو اپنی شخصیت کے انمٹ نقوش رہتی دنیا تک مرتسم کردیتی ہیں ۔ بہادر یار جنگ حالاں کہ نہایت قلیل عمر پائے تھے لیکن ، اس مدتِ ایام میں انہوں نے قوم و ملت کے لیے جو کارکردگیاں انجام دیں وہ صدیوں پر بھاری ہیں ۔ ایک درد مند دل لیے پیدا ہوئے وہ دور’’ارضِ دکن ‘‘ کے لیے نہایت سازشوں سے پر تھا دشمنوں کی نگاہوں میں دکن ایک کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا تھا جس کو قائدِ ملت نے تاڑ لیا تھا وہ چاہتے تھے کہ یہاں کی رعایا شیر و شکر کی طرح صدیوں سے جو رہتی آرہی تھی بالکل اسی طرح بدلے ہوئے حالات میں بھی اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ رہے لیکن ، یہ ہونہ سکا ۔ بہادر یار جنگ کی بے وقت موت نے بد نگاہوں کے حوصلہ بلند کردیئے ۔کاش ۔۔۔!! وہ حیات ہوتے تو آج دکن کی تاریخ کچھ اور ہی داستان بیان کرتی ۔ قمر کی اس نظم کو پڑھتے ہوئے ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دکن کی عظمت اور اس سے جڑی رفعتوں کو اپنے بیدار اذہن کی وساطت سے جان لیا تھا تبھی تو وہ اس نظم میں جہاں ایک فلسفی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں وہیں اپنے علاقہ کی تاریخ کا گہرا شعور رکھنے والے مؤرخ بھی نظر آتے ہیں ایک ایسا شعور جو وقت کے بہاؤ سے ماورا‘ ادراک کی انتہا سے ’’ارضِ دکن ‘‘کی علمی ، ادبی ، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی سرد و گرم حالات کا دیدار اپنی چشمِ بینا سے کرلیا تھا اسی لیے ان کے پیشِ نظر ہمیشہ وہی عظمت ِ رفتہ رہی جسے وہ گاہے بہ گاہے اپنے کلام میں رقم کرتے رہے ۔
نظم ِ مذکور میں بھی قمر نے بہادریار جنگ کو ’’دکن کا ٹیپو‘‘ قرار دیتے ہوئے دکن کی کرشمہ سازیوں کا احوال بڑے فخرو مباہات سے کیا ہے پوری نظم ’’دکن‘‘ کے حوالہ سے ایک ایسے ماحول کو تشکیل کرتی ہے جو محبت ، بھائی چارگی ، ایثار و قربانی کے علاوہ ایک شانِ بے نیازی کی داستان معلوم ہوتی ہے بلکہ صدیوں پرمحیط رواداری سے مزین ’’دکن کلچر‘‘ کی عکاس بھی ہے ۔ قمر نے در اصل اس نظم کی وساطت و وسیلہ سے ’’بہادر یار جنگ‘‘ کی شخصیت کا منظوم خاکہ کھینچا ہے ۔ نظم کا آخری شعر اگر‘ اس کا حاصل کہیں تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ عظیم ہستیاں آسمان سے نہیں اترتیں وہ تو ہمارے ماحول اور گردو پیش کے ساتھ خالقِ کائنات کی جانب سے ودیعت کردہ ہوتی ہیں ۔ اسی طرح دکن کی سانولی رنگت، رنگ ملیح کے حوالہ سے اکابر شعراء کے علاوہ ماضی ، ماضی بعید اور موجودہ شعراء نے بھی خوب خوب اس کا ذکرکیا ہے یقینا قمر کا کلام سانولی رنگت کے ذکر کے بغیر ’’دکن ‘‘ کے حوالہ سے ادھورہ رہ جاتا مگر‘ انہوں نے اس کا ذکر کرکے گویا اپنے مکمل ’’دکنی النسل ‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہے جو ان کے حقیقی جذبات و احساسات کا آئینہ دار بن گیا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔
قمر وہ سانولی جوگن ہے کون جس کے لیے
بنائے پھرتے ہو حالت یہ سادھوؤں جیسی
شہر کی بھیڑ میں چہرے تھے کئی سرخ و سفید
سانولا رنگ مگر دل کو بہت بھایا ہے
اسی طرح ایک اور شعر میں سانولی رنگت کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں ۔
سانولا رنگ وہ تیکھے سے خد و خال اس کے
تب ہی تو گرویدہ ہوئے ہیں قمر اقبال اس کے
یہ سچ ہے کہ اچھا اور سچا فن کار وہی ہوتا ہے جو اپنے جذبات میں صداقت رکھتا ہو ۔ اپنی زمین اور اس سے جڑی تہذیبی روایات کا پاس دار ہو ۔ قمر اقبال کا شمار بلاشبہ ’’دکن ‘‘کے ان عظیم شعراء ہوتا ہے جنہوں نے ’’جدید دکن ‘‘ میں اپنے عہد کے شعراء سے ہٹ کر اپنی شعری کائنات کو ترتیب دیا ۔ ماضی کی یادوں کو سینہ سے لگایا ۔ حال کو مقدر جانا اور زمانہ کی پرواکیے بغیر ’’ارض ِ دکن ‘‘ کی عظمت کے ترانوں کو رقم کرتے رہے ۔ قمر کو ہم سے جدا ہوئے کم وبیش 32 سال ہوچکے ہیں لیکن ، آج بھی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’دکن ‘‘ایسے گل ِسر سبدہیں جو ہر زمانے میں جب کبھی ’’دکن‘‘ کی عظمت کو شاعری کے حوالے سے سمجھنی کی کوشش کی جائے گی اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہے گا۔ یہی ان کی شعری عظمت کاراز بھی ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی حیات ہی میں ’’اپنی مٹی یعنی دکن کا قرض ‘‘ چکانے کی بات کی تھی وہ برملا ان کے انتقال کے بعد سچ ثابت ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہا تھا ۔
خود کی خاطر نہ زمانے کے لیے زندہ ہوں
قرض مٹی کا چکانے کے لیے زندہ ہوں
بے شک قمر اقبال بعد از مرگ اپنے اس شعر کی عملی تفسیر بن چکے ہیں اور اپنے کلام کے ذریعہ آج ہمارے درمیان موجود ہیں اور ’’دکن‘‘ کی عظمت کو سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ ٭٭٭
8790687051