خوفناک بلا

0
109

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

عطیہ بی

ٹن، ٹن، ٹن کی تیز آواز بے وقت کی چھٹی کی علامت بن کر سبھی بچوں کے چہرے پر سکون بھری خوشی کی شکل میں نمایاں ہوئی۔ چلو، چلو جلدی چلو چھٹی ہوگئی سب ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے بولے۔
’’ارے واہ چھٹی۔۔ مزا آگیا‘‘ جلدی چلو چلتے ہیں۔ ٹیچر نے کہا ہے کہ ایک ہفتے کی چھٹی ہوئی ہے۔ واہ بھائی واہ ایک ہفتہ اسکول نہیں آنا پڑے گا۔ یہ کہتے ہوئے سبھی بچے اسکول سے نکل کر اپنی اپنی سواری سے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔
ان ہی بچوں میں ایک چھوٹا سا بچہ جو بے حد فکر مند نظر آتا تھا اسکول بیگ پیٹھ پر لادے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔
کیا بات ہے انصار کیوں اتنے پریشان ہو؟ تم کو خوشی نہیں ہوئی کیا؟ انصار کے ایک دوست نے پوچھا۔
انصاکا چہرہ لٹکا کا لٹکاہی رہا۔ اس نے خاموشی سے گردن ہلاتے ہوئے کہا ’’نہیں‘‘ ارے کیوں؟ کیوں تمہیں چھٹی اچھی نہیں لگتی؟ واہ انصار تم بھی خوب ہو۔ ’’کیا اچھی لگے۔ کتنا سارا کام دے دیا ہےمیم نے چھٹی میں ۔ ساری چھٹیاں تو اسی میں گزر جائیںگی۔ یہ کہتے ہوئے انصار رکشے والے بھیا کے ساتھ گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔
’’ امی! امی! کہاں ہیں آپ، دیکھئے میں آگیا‘‘ یہ کہتے ہوئے انصار ماں سے جا لپٹا۔ اچھا ہوا انصار تم آگئے میں ابھی تمہارے اسکول جار ہی تھی تمہیں لینے۔بڑا برا حا ل ہے شہر کا۔
امی میری چھٹی کردی ٹیچر نے سات دن کی، ٹیچر نے کہا کہ کوئی بلا چل رہی ہے شہر میں اس لئے چھٹی کی گئی ہے۔
ہاں بیٹا بہت بر ی بلا آگئی ہے دنیا میں ۔ تمہارے ابو بھی آفس سے آگئے ہیں۔
’’امی کون سی بلا آئی ہے ، وہ کیا کرے گی؟ کیا وہ ہم سب کو مار ڈالے گی؟ ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ گھر سے باہر نہ نکلنا، بار بار ہاتھ دھونا، کسی سے ملنا بھی نہیں۔ بتائیے یہ کیسے ہو سکتا ہے اب میں اپنے دوستوں سے بھی نہ ملوں؟ آپ کو پتا ہے آج مجھے بالکل اچھا نہیں لگا رکشے والے بھیا کے بہت کھانسی آرہی تھی۔ تو ٹیچر نے انہیں گھر واپس بھیج دیا ۔دوسرے بھی لے کرآئے۔ اسی لئےگھر آنے میں دیر ہوئی۔‘‘
اچھا چلو میں تمہارے کپڑے بدلوادوں پھر ہاتھ منھ دھولو۔
میں بڑا ہوگیا ہوں امی میں خود کپڑے بدل سکتا ہوںمیں ابھی بدل کر آتا ہوں۔
انصار کی ذہین باتیں سن کر والدہ مسکرائی اور انصار کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد والدہ نے انصار کو آواز لگائی۔
’’انصار کہاں ہو دیکھو ابو بلارہے ہیں‘‘
’’ابھی آتا ہوں ہاتھ دھو رہا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہاتھ دھونے لگا اور تھوڑی دیر میں والد کے پاس جاپہنچا۔
’’ہاں صاحب دھو لئے ہاتھ پیر بڑی تیاری چل رہی ہے‘‘ ابو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ابو ٹیچر نے بتایا ہے کہ بار بار ہاتھ دھونا، باہر نہ نکلنا، سینیٹائزر کا استعمال کرنا، مگر ایسا کیوں کہہ رہی ہیں ،وہ کون سی اتنی بڑی مصیبت آئی ہے کیا کوئیBadman آیا ہے جو سب اتنے پریشان ہیں۔
’’ آؤ میں تمہیں بتاتا ہوںکہ سب پریشان کیوں ہیں۔‘‘
ابو سامنے کھلی ٹی وی کے پاس انصار کو لے گئے۔
دیکھو انصار یہ سب کتنے پریشان ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں ایک بڑی بری بیماری چل رہی ہے جسے ’کرونا ‘ کہتے ہیں۔
’کرونا‘ یہ کیسا نام ہے۔ انصار نے تعجب سے پوچھا۔
یہ ایک بڑی خطرناک بیماری ہے۔
خطرناک کیسے ابو؟ کیا اس’ کرونا‘کے جسم میں کانٹے لگے ہیں یا اس کے بڑے بڑے سینگ ہیںجو دوسروں کو لگاتا ہے ۔ ابو سچ بتائیے کیا یہ بھوت ہے؟
نہیں بیٹا یہ کوئی بھوت نہیں بلکہ ایک وائرس ہے۔ جو ایک دوسرے سے ملنے سے پھیلتا ہے۔اسی لئے لوگوں کو الگ الگ رہنے کو کہا گیا ہے تاکہ اس سے بچا جا سکے۔
یہ وائرس انسان کی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے کیوں کہ یہ بہت باریک ہوتے ہیں۔ یہ جب تک باہر ہوتے ہیں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا مگر جیسے ہی انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں یہ طاقت ور ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو بیمار کر دیتے ہیں۔
’کرونا‘ وائرس بھی اسی طرح کا ایک وائرس ہے جسے ہم Covid-19 کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
Covid-19 اسے کیوں کہتے ہیں ابو؟
Covid-19 کا مطلب کچھ اس طرح ہے Co کرونا vi وائرس اور19 اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا مکمل پتہ دسمبر ۲۰۱۹ میں چلا اس سے پہلےیہ صرف ایک معمولی وائرس تھا۔ دسمبر ۲۰۱۹ میں یہ طاقت کے ساتھ دجود میں آیا اور انسانی جسموں میں داخل ہوکر خطرناک طریقہ سے بیمار کرنا شروع کردیا سائنسی نقطۂ نظر سے اس نے اپنی فیملی بدلی۔
’’فیملی ابو جس طرح سے ہماری فیملی ہے۔ـ‘‘
ابو مسکرائے اور بولے ہاں! اس کی نسل ہے سمجھ لو۔ وہ دسمبر ۲۰۱۹ میں بہت زیادہ طاقتور ہوگیا۔
’’طاقتور جیسے ہم Bornvita پی کر ہوتے ہیں‘‘ انصارنے کہا۔
’’ہاں انصاربالکل اسی طرح مگر یہ لوگوں کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘
’’اچھا اسی لئے سب پریشان ہیں۔‘‘
ہاں بیٹا! ہمیں اس وائرس سے بچنے کےلئے احتیاط کرنا ضروری ہے۔
جب تک یہ بیماری وجود میں ہے ہمیں لوگوں سے دوری اختیار کرنی ہے تاکہ نہ ہمیں نقصان ہو اورنہ دوسروں کو ۔ کسی کے ساتھ کھیلنا بھی نہیں ہے اور نہ ہی ملاقات کرنی ہے۔ اس بیماری میں کھانسی، زکام، بخار، جیسی علامات ہوتی ہیں۔ جب بھی چھینک یا کھانسی آئے ہم ہتھیلی کا نہیں بلکہ کوہنی کا استعمال کریں ، کسی چیز کو چھونے کے بعد صابن سے ہاتھ دھوئیں، بھیڑ نہ لگائیںاور جہاں بھیڑ ہو وہاں کم سے کم ایک میٹر کی دوری سے کھڑے ہوں تاکہ یہ بیماری دوسروںتک نہ پہنچے۔ دیکھو ٹی وی میں، کتنے لوگوں کی جان اسی وجہ سے جارہی ہے۔
’’اب سمجھے تم ’کرونا‘ وائرس کیا ہے؟‘‘
جی ابو سمجھ گیا میں بھی لڑوں گا سپر مین کی طرح، اس سے ڈھشم ڈھشم کرکے اسے ہرادوںگا، بس آپ مجھے سوپرمین کے کپڑے لادیجئے۔
’’ابو ہنسنے لگے کیا سوپرمین‘‘؟
مگر اس میں سوپرمین کےکپڑوں کی نہیں سینیٹائزر کی ضرورت ہےجس سے وہ’ کرونا‘ کو بھگا سکے۔میں جب باہر جاؤں تو تمہارے لئے سینیٹائزر لادوںگا۔ یہ کہتے ہوئے ابو کمرے کے باہر چلے لگے۔
اور انصار کوئی سامان نکالنے میں مصروف ہوگیا۔
کچھ دیر بعد ابو گھر سے باہر جانے کے لئے نکلے ان کے ہاتھوں میں ایک لفافہ تھا انہوں نے امی کوبلا کر کہا کہ وہ باہرجارہے ہیں لوگوں کی مددکے لئے کچھ پیسے دینے۔ کچھ منگانا تو نہیں ہے۔
یہ کہتے ہوئے انہوں نے انصارکو آواز دی ،انصار! کہاں ہو بیٹا۔
انصار اپنے ہاتھ میں کچھ پکڑے ہوئے باہر آیا۔
’’یہ کیا ہے؟ ‘‘
یہ شیشی ہے ابو !
ارے وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں مگر کس لئے۔
میں نے سینیٹائزر بنانا سیکھ لیا ہے۔ اب آپ کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابو اس کی معصوم اداؤں پر تعجب کر رہے تھے۔
اچھا تم نے یہ کیسے بنایا ؟
’’ بس ایک شیشی میں تھوڑا پانی، تھوڑا آٹا، تھوڑا Dettol ڈال کر ملائے، بن گیا۔ اب میں سب کو ’کرونا‘ وائرس سےبچا لوں گا۔‘‘
اچھا! ارے واہ میرے سوپر ہیرو نے سینیٹائزرایجاد کر لیا!
ابو یہ بھی لے جائیے یہ میری گلک کے پیسے ہیں پورے ۲۱۵ روپیہ یہ بھی آپ ضرورت مند لوگوں کو دے دیجئے۔ ٹیچر نے مجھے گننا سکھایا تھا میں نےگن لئے پورے ۲۱۵ روپیہ ہے۔ اس سےلوگوں کو پاور ملے گا اور لوگ ڈھشم ڈھشم کرکے ’کرونا ‘ وائرس کو مار ڈالیں گے۔
جہاں امی ابو انصار کی اس معصوم پہل پرفخر کررہے تھے وہیں دوسری طرف ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھی چھلک رہے تھے۔
وزیر گنج، لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here