9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹرشبنم رضوی
میری عمرسولہ یا سترہ برس کی رہی ہوگی۔ ہمارے غازی پور شہر میں بجلی بہت جاتی ہے۔ اس لئے رات کا وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ یا تو بچے لالٹین کی روشنی میں پڑھتے ہیں یا بڑے بوڑھوں کے بیچ گھس کر دلچسپ اور ان کی تجربے سے پُر باتیں سنتے ہیں۔… بوا اب تو بچے باتوں کا مزہ لینا بھی نہیں جانتے… ہائے افسوس…
مجھے یاد ہے ہمارے گھر بشیر منزل میں شام مغرب کی نماز کے بعد اکثر ہمارے پڑوسی جمع ہوجاتے۔ بڑا گھر کھلا صحن اور میری امّی کی مزیدار مگر عالمانہ باتیں۔ ایک سے ایک مسئلے حل کئے جاتے۔ نہ جانے روز کتنی لڑکیوں کی شادیاں طے کی جاتیں، سیاست، معاشرت، روزگار، تعلیم و تربیت، مذاہب، تیج تیوہار، کپڑے لتّے، زیورات، رسم و رواج، ہنسی مذاق گویا گائوں کے چوپال کا مزہ آتا۔ ہر عورت اپنی اپنی کہانی بیان کر رہی ہے۔ ہر اک کے پاس ہزاروں کہانیاں اور لاکھوں قصّے ہیں کہ ایک ختم نہیں ہوتا اسی سے متعلق دوسرا تیسرا قصّہ شروع ہو جاتا۔
ان سب قصّوں میں دو قصّے خاص طور سے بڑے مزے لے لے کے بیان کئے جاتے اور اس سے بھی زیادہ چٹخارے کے ساتھ سنے جاتے۔
ایک قصّہ ہوتا جن، بھوت، چڑیل اور روحوں کا اور دوسرا قصہ ہوتا مولانا علی بیگ کا۔ وہ سٹی مسجد کے آس پاس رہتے تھے اور ہر دکھیاری عورت کی مرہم پٹی اپنی دعا تعویذ سے کرتے۔
مولانا علی بیگ کا دربار دن میں دو مرتبہ لگتا تھا۔ صبح فجر کی نماز کے بعد اور شام مغرب کی نماز کے بعد۔ ان کے پاس دو طرح کے مریض آتے۔ ایک تو وہ لوگ جن کے سر پر جنّ، بھوت، چڑیل کا سایا تھا یا جن کو بلائیں لگ جاتی تھیں۔ دوسرے وہ مریض جن کے اوپر ٹونا جادو کیا گیا ہو۔ ان میں بھی زیادہ تعداد ان بیاہی لڑکیوں کی ہوتی جن کے شوہر یا تو ان کے قابو میں نہ ہوتے یا کسی سے پھنسے ہوتے۔
ہمارے گھر میں اکثر عورتیں مولوی علی بیگ کی باتیں کرتیں۔ کیونکہ ان کے یہاں کی باتیں پراسرار ہوتیں، جستجو سے لبریز اور ایک انجانی دنیا کی آسیبی کہانی، جس میں کسی نے کسی کو نہیں دیکھا ہوتا۔ یہ جنّ، بھوت صرف تخیّل کی پرواز پر کارنامے انجام دیتے، کچھ بھی دیکھا بھالا نہ ہوتا، جن فلاں کی لڑکی کے لمبے بال پر عاشق ہوگیا۔ فلاں کی لڑکی سر کھول کے سرِ شام چھت پر ٹہل رہی تھی۔ جن آگیا۔ اب اس کی شادی نہیں ہونے دے رہا ہے۔ فلاں کے گھر میں صبح منھ نہارے کوئی سیب کی پیٹی چھوڑ گیا، کبھی مٹھائی کی ٹوکری ڈیوڑھی میں رکھ گیا۔ فلاں کی بہو شام کو جھومتی ہے، آواز مردانی ہو جاتی ہے، ساس کو مارنے دوڑتی ہے۔ اے ہاں منّی باجی دن بھر بالکل سیدھی سادھی رہتی ہے شام ہوتے ہی نہ جانے کیا ہو جاتا ہے۔ بمبئی میں رہنے والے شوہر کو یاد کرکے روتی ہے، گھنٹوں۔ اور پھر… ایک عورت بولی… ایک روز سنا گیا ساس کو مارنے لگی تھی۔ وہ تو کہو ڈاکٹر کو بلایا گیا! تب جاکر کہیں قابو میں آئی… اچھا وہی ڈاکٹر، عورتیں مسکرا پڑیں۔ ا ہاں… ہماری بوڑھی بوا نے دور گھڑے سے پانی انڈیلتے ہوئے لقمہ دیا… منّی بہنی، جب میاں آجاتا ہے تو مزے کی ہو جات ہے۔ بوا نہ جانے کون کون سی باتیں بتاتی گئیں…اور بڑبڑاتی رہیں۔
آج زمانہ گزر گیا ان باتوں کو اب سوچتی ہوں تو سب نفسیاتی مریض نظر آتیںہیں۔ نہ بھوت، نہ چڑیل، نہ بلا، نہ جنّ… سب دماغ کا خلل ہے! دلّی، بمبئی، مدراس جیسے بڑے شہروں میں کسی پر جنّ کیوں نہیں عاشق ہوتا۔ اب تو ایک سے ایک خوبصورت بال، طرح طرح کی اسٹائل میں کھول کے لڑکیاں اکیلے دوکیلے گھومتی ہیں۔ اب سوائے لڑکوں کے کوئی عاشق نہیں ہوتا۔ آخر جنّ بھوت پریت سب کہاں چلے گئے ہیں؟ تعلیم نے کیا ان کو بھی ڈرا دیا ہے۔ اب تو گائوں دیہات میں ہی اس طرح کے واقعات سنائی پڑتے ہیں۔ جہاں جتنی جہالت وہاں اتنی ذہنی بیماریاں…
میں گرمی کی چھٹّی میں غازی پور گئی تھی تو پتہ چلا مولانا علی بیگ کی طبیعت خراب ہے۔ امّی نے کہا یہ پھل اور دوائیاں وہاں دیتی ہوئی بازار چلی جانا، ان کا گھر بیچ راستے ہی میں پڑتا تھا۔
میں نے سنا، سامان اُٹھایا اور نکل پڑی بازار کو۔
امّی بولی اکیلے نہ جائو، بوا کے ساتھ جائو۔ بوا فوراً لپکی… چل بٹیا چل… کراہتی، کھکھارتی، آہ آہ کرتیں چلیں۔
میں نے امّی سے کہا… امّاں میں اکیلے چلی جائوں گی!
امّی بولی… یہ دلّی بمبئی نہیں۔ غازی پور ہے، یہاں اکیلے نہیں جایا جاتا۔ میں نے کہا… ’’چلئے بوا…‘‘ ہم دونوں نکل پڑے۔
بوا راستے بھر پتہ نہیں کہاں کہاں کی، کس کی کہانی سناتی رہیں۔ میں ہوں…ہاں کرتی رہی۔
بوا یکایک رک گئیں… ائے چل بٹیا… کہاں میں نے پوچھا؟ اے ہے غضب ہے انہوں نے سر پیٹ لیا۔ مولانا علی بیگ کے گھر نہ جانا ہے؟ بوا نے کہا…
’’جی… بوا…‘‘
’’تو چلوبٹیا… سامنے انہی کا گھر ہے… پہلے تو بہت خراب تھا۔ اب دیکھو؟‘‘
اتنا اچھا… میں نے حیرت سے پوچھا
بوا ہنس دی… کچھ بولیں نہیں۔
سامنے دو منزلہ مکان کھڑا اپنی خوش قسمتی پر مسکارا رہا تھا۔ مکان کے اندرمولوی صاحب اپنے برامدے میں تخت پر گائو تکیہ لگائے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ اجلا پاجامہ کرتا، سفید ایرانی ٹوپی اور منھ میں پان کی لالی، چہرے کا سکون اور دل کے اطمینان کو ظاہر کر رہا تھا۔
السلام علیکم مولوی صاحب… میں نے سلام کیا۔
جیتی رہو، خوش رہو، شاد و آباد رہو، انہوں نے سلام کے جواب میں دعائوں سے میری جھولی بھر دی۔
میں نے ایک خوبصورت پیکیٹ ان کو تھما دیا۔ امّی نے سلام کہا ہے اور آپ کا حال چال پوچھا ہے؟ میں نے کہا۔
’’منّی بہن کو اللہ خوش رکھے۔ ہر ایک کا خیال رکھتی ہیں۔ بڑی ہی نیک بی بی ہیں…‘‘
میں نے کہا… مولوی صاحب ممانی نظر نہیں آتیں…؛
انہوں نے کہا۔ اچھا بلاتا ہوں… آواز لگائی۔ گل بدن ذرا ادھر آنا۔ کمرے کا دروازہ کھلا۔ کوئی بائیس تئیس برس کی لڑکی۔ سر پر آنچل ڈالے۔ لال لپسٹک لگائے، بھر بھر ہاتھ چوڑی پہنے، چھن چھن پائل کی آواز کرتی آکر مولوی صاحب کی پلنگ کے پتیانے بیٹھ گئی۔
میں ہکّا بکّا… انہیں دیکھتی رہی۔ میرے منھ سے ابھی کچھ نکلتا کہ بوا نے فوراً چلنے کی اجازت مانگی…
چلو بہنی۔ دیر ہو جائے گی…
اچھا مولی صاب سلام۔ بوا نے ہاتھ ماتھے پر لے جا کر سلام کیا۔ اور ہمیں کہنی ماری۔
میں بھی اٹھ گئی- دل میں تو سوالوں کے طوفان اٹھ رہے تھے۔ بوا بھانپ گئی تھیں۔ مجھے لے کر باہر لپکی۔
بُوا- میں نے پوچھا- یہ نئی نویلی بی بی کہاں سے آگئی۔ یہ اتنا عمدہ مکان کیسے بن گیا۔ پورے گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔
بوا نے کہا- اب مولوی صاحب بوڑھے ہو چلے ہیں۔ اب ان سے دعا تعویذ نہیں ہو پاتا۔ عمل، چِلّہ نہیں کر پاتے۔ جسم میں طاقت بھی تو ہونی چاہئے؟ بوا افسردہ ہوگئیں…اسی لئے اب وہ حلالہ کراتے ہیں بوا۔ اپنا کام ختم کرکے ہم لوگ گھر آئے۔
امّی نے پوچھا- دے دیا مولوی علی بیگ کو – کیا بولے۔
امّی آپ کو خوب دعائیں دیں۔ میں نے مختصر جواب دیا۔ پھر یکایک پوچھا-
یہ حلالہ کیا ہوتا ہے امّی؟ ان کی تو نئی نئی بیوی تھی۔ کمسن؟
امّی نے حیرت سے پوچھا… کیا کہا؟
’’حلالہ‘‘ … امّا…
تم کو اس سے کیا مطلب- جائو اپنا کام کرو۔
میں نے دماغ میں سوالوں کا بنڈل باندھ دیا۔ پتہ تھا- جواب تو ملنے سے رہا۔
اس دن کی شام بہت عمدہ، مزیدار، خوشنما اور تفریح بھری گزری۔ وہ بگّا خالہ، نوابن خالہ، حسّن خالہ، خالی امّی، راضیا، مہتاب بانو، رضیہ خالہ اور بھی جانے کون کون سے لوگ جمع ہوگئے۔
بُگّا خالہ نے اپنے زوردار قہقہے سے بات بات کا آغازکیا۔
سنا منّی باجی۔ انہوں نے مزہ لیتے ہوئے کہا- اب علی بیگ مولوی حلالہ کرتے ہیں۔
(حلالہ جب کوئی شوہر غصہ کی حالت میں بیوی کو تین بار طلاق، طلاق، طلاق کہے! تو طلاق مان لیا جاتا ہے اور شوہر بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اگر شوہر اسی بیوی سے شادی کرنا چاہے تو اس لڑکی کی شادی دوسرے مرد سے کرا دی جاتی ہے وہ دونوں باقاعدہ شوہر بیوی کی طرح رہتے ہیں- پھر وہ لڑکا یا مرد اس بیوی کو طلاق دے۔ تب پہلے والا شوہر دوبارہ شادی کر سکتا ہے۔ اس پورے عمل کو ’حلالہ‘ کہا جاتا ہے۔)
سبھی عورتیں اکدم سے ہنس پڑی۔ نوابن خالہ نے دوپٹّہ سے اپنا منھ ڈھنپ لیا۔ حسنی خالہ مسکرا دیں۔ امّی نے پونی نظر سے ادھر ادھر دیکھا- کہیں کوئی لڑکی تو آس پاس نہیں- مطمئن ہوکر کہنے لگی۔
ہاں-سنا تو ہم نے بھی تھا۔ مگر جو بوا نے بتایا یہ تو بہت غلط ہے۔ کیا بتایا… سبھی ایک ساتھ بول پڑیں…
بتائو یہ بھی کوئی بات ہے۔ دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا۔ کیا بھلے چنگے لوگ کہیں ایسا کرتے ہیں کیا؟
ارے منّی باجی بتائیے نا، اصرار ہونے لگا۔
ایک رات ایک لڑکا اپنی بیوی کو اس شرط پر ان کے یہاں نکاح کراکے اپنی بیوی کو چھوڑ گیا۔ کچھ روپیہ پیسہ کا لین دین بھی ہوا۔ اسی نے گھر بھی بنوا دیا۔ اب تو لڑکا بہت شرمندہ ہے۔ ہر وقت مولوی صاحب سے التجا کرتا رہتا ہے۔ میری بیوی کو طلاق دے دو مولوی صاحب مگر مولوی صاحب کچھ نہ کچھ کام بتا کر ٹال دیتے ہیں۔ بیوی کے مرنے کے بعدتنہا رہ گئے تھے۔ ایسے میں اس طرح کے کیس آنے لگے جس سے اچھی آمدنی ہونے لگی۔ ان کی دکانداری پھر چل نکلی… امّی خاموش ہوگئیں۔ کچھ غور و فکر کرنے لگیں… پھر بولیں ایک طرف سے تو سب درست لگتا ہے۔ آخر نوجوان بات بات پر طلاق کیوں دے دیتے ہیں؟ ایک وبا پھیل گئی ہے… بتائو ذرا یہ سزا عورت کو ہے یا مرد کو؟؟؟؟
موبائل:9415547544
صدرشعبہ اردو، کرامت حسین مسلم گرلز پی جی کالج،