حسن شوقی کی مثنویوں اور غزلوں پر ایک نظر

0
1940
مہتاب عالم فیضانی
دکن کے نامور  اور پائے کے شعرا میں جہاں غواصیؔ،نصرتی ؔ،وجہیؔ، لطفیؔاور قلیؔقطب شاہ کا نام آتا ہے وہیں ایک بڑا نام شوقیؔ کا بھی ہے۔حسن شوقی کا شمار دکن کے اولین شاعروں میں ہوتا ہے۔ویسے تو دکن کے اکثر شعرا قصیدہ اور مثنوی کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔بہت کم ایسے شعرا ہیں جنہوں نے قصیدہ مثنوی کے ساتھ ساتھ غزلوں کی وجہ سے بھی شہرت پائی ہو۔جن شعرا نے غزلوں کی وجہ سے شہرت حاصل کی ان میں ایک بڑا نام ’’حسن شوقی‘‘ کا بھی ہے۔
ان کانام’’حسن‘‘ اور تخلص ’’شوقی‘‘ تھا۔اکثر لوگ شوقی کو گولکنڈہ کا شاعر مانتے ہیں ،یعنی ان کا شمار ریاستِ گولکنڈہ کے شعرا میں کرتے ہیں۔ لیکن حسن شوقی کی زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ شوقی کا تعلق صرف ایک جگہ سے نہیں رہا،بلکہ ان کا تعلق تقریباً تین ریاستوں سے رہا تھا۔ اور شاید اسی لیے ان کو سیلانی شاعر بھی کہا جاتا ہے
بہمنی دور کا جب شیرازہ بکھرا تو اس کے بعد دکن میں پانچ الگ لگ سلطنتیں قائم ہوئیں(۱)بیجاپوری میں عادل شاہی سلطنت،(۲) گولکنڈہ میں قطب شاہی سلطنت،(۳) احمد نگر میں نظام شاہی سلطنت،(۴) بیدر میںبرید شاہی سلطنت(۵) اور برار میں عماد شاہی سلطنت۔ ان میں تین سلطنتوں عادل شاہی (بیجاپور)،قطب شاہی( گولکنڈہ)، نظام شاہی(احمدنگر)سے حسن شوقی کا تعلق رہاہے،نظام شاہی سلطنت کے زوال کے بعد گولکنڈہ آئے اور پھر بیجا پور چلے گئے۔حسن شوقی نے اپنی زند گی کا زیا دہ تر حصہ بیجاپوری میں گزارا تھا اس لیے ان کو خاص طور پر بیجا پور کے شعرا میں شمار کیا جانے لگا۔ دبستانِ بیجاپور کے شعرا کی داستان حسن شوقی کے بغیر نہیں پوری ہو سکتی ہے۔
 حسن شوقی اپنے زمانے کا مسلم الثبوت شاعر گزرا ہے۔ اس کی شہرت ایک شاعر کی حیثیت سے اس کے زمانے میں ہو گئ تھی۔ اس کے قادر الکلام اور ماہر فن ہونے کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے بعد کے بڑے بڑے دکنی شعرا اسے فخر کے ساتھ اپنا استاد مانتے ہیں۔ابنِ نشاطی اپنی مثنوری ’’پھول بن‘‘ میں جہاں بہت سے شعرا کے لیے اشعار لکھے ہیں وہیں حسن شوقی کے بارے میں لکھتا ہے’’اگر شوقی زندہ ہوتا تو میں اپنے کلام پر ضرور داد پاتا،اور حسن شوقی مجھ پر ہزار ہاں رحمتیں بھیجتا،یعنی مجھے دُعائیں دیتا۔ابنِ نشاطی نے ایک شعر میں اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
حسن شوقی ہوتا فی الحال
 ہزاراں بھیجتا رحمت ِمنجہ اپرال
یوں تو حسن شوقی اپنی مثنویاں اور غزلوں دونوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ لیکن ان کو زیادہ شہرت مثنوی کی وجہ سے ملی ہے۔ اس وجہ سے پہلے ہم ان کی مثنویوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
حسن شوقی ایک بے مثال مثنوی نگار تھے،جس کی دومثنویاں آج بھی دکنی ادب میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔ دو مثنویوں میں سے ایک ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ ہے ،جو نظام شاہی سلطنت میں لکھی گئ اور دوسری مثنوی’’میزبانی نامہ‘‘ ہے ،جو عادل شاہی سلطنت میں لکھی گئ۔
(۱)’’فتح نامہ نظام شاہ ‘‘ ایک رزمیہ مثنوی ہے(رزمیہ مثنوی اس کو کہتے ہیں جس میں جنگ و جدل کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہوں)۔فتح نامہ نظام شاہ ۹۷۲؁ ھ مطابق۱۵۶۵؁ء میں دکن سلاطین اور وجیا نگر کے حکمراں ’’رام راج‘‘ کے درمیان ایک فیصلہ کن ہونے والی جنگ کے بارے میں لکھی گئ ہے۔ اس جنگ کو ’’تالی کوٹہ کی جنگ‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
اس جنگ میں دکن کے بڑے بڑے چار بادشاہوں’’علی عادل شاہ اول، ابراہیم عادل شاہ،حسین نظام شاہ، اور مرید شاہ‘‘ نے متحد ہوکر اپنی اپنی فوج کے ساتھ وجیا نگر پر چڑھائی کی تھی،اور اسے ہمیشہ کے لیے رام راج کے ہاتھ سے چھین لیا۔کیوں کہ اس قلعے کے فتح میں نظام شاہ کا سب سے اہم رول تھا اس لیے حسن شوقی نے فتح کا سہرا نظام شاہ کے سر باندھتے ہوئے’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ میں نظام شاہ کو اس جنگ کا ہیرو بنا دیا ہے۔بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نظام شاہ کے سر اس فتح کا سہرا باندھنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حسن شوقی نے نظام شاہ کو خوش کرنے کے لیے یہ کیا ہو۔ چوںکہ اس وقت حسن شوقی نظام شاہ کا درباری شاعر تھا۔
اس مثنوی میں تاریخ کے اعتبار سے بھی مستند واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ حسن شوقی نے اس مثنوی میں نظام شاہ اور رام راج کے دربار کا پور ا خاکہ پیش کیا ہے۔دونوں سلطنتوں کے دربار اور محلات کی منظر کشی اس انداز میں کی ہے کہ گویا وہ دونوں حکومتوں سے مکمل طور پر واقف ہے۔
شوقی جب دربار کی منظر نگاری پیش کرتے ہیں تو اس میں ہندومسلم تہذیب کی ہر چیز پر روشنی پڑنے کے ساتھ ہندو مسلم معاشرے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے راجا اور بادشاہ نہ صرف اپنے ہم مذہبوں کو فوقیت دیتے تھے بلکہ وہ ہر ایک کی عزت کرتے او ر ہر مذہب کا اور اس کے پیروکاروں کا سمّان کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رعایا ان کی تابع داری سے سرتابی نہیں کرتی تھی۔
شوقی ؔ ایک قادر الکلام شاعر تھے اس لیے وہ ہر واقعے کو اس طر ح سے بیان کرتے ہیں کہ گویا قاری اس واقعے کو بنفسِ نفیس دیکھ رہاہو،اور واقعے کی پوری تصویر قارئین کے سامنے آجا تی ہے۔ چُنانچے جب فوج میدان کی طرف کوچ کرتی ہے توشوقیؔ کہتے ہیں:
بہر شہر و کشور تے غازی چلے
چغتے، مُغل،تُرک و تازی چلے
 پس و پیش سیدے چلے باولے
چپ و راست افغان رن باولے
طبل ٹھوک کرنائے زریں دماں
 چلیا تُند جیلوں اژدہائے دماں
 چلیا کوچ پر کوچ شاہ ِدن
 قبا چار، آہن، زرہ پیرہن
یعنی :شہر کے کونے کونے سے بہادر لڑنے والے چلے ہیں، جن میں چغتے ،مغل، تُرکی و تازی لوگ شامل ہیں۔آگے پیچھے ایک قطار میں چلے جار ہے ہیں۔کونے کونے سے افغان لوگ جوش میں دوڑے جار ہے ہیں۔ زبر دست ڈھولک اور قیمتی بھوپوں ان کے ساتھ ہیں،ان کی فوج اس طرح ترتیب سے چل رہی ہے جیسے زمین پر اژدہا رینگتا ہے۔دکن کے چاروں بادشاہ کوچ پر کوچ کرتے جار ہے ہیں۔ ہاتھ میں خنجر اور تلوار لیے اور جسم پر زرہ و بختر پہنے ہوئے۔
حسن شوقی نے اس فوج کی تصویر کشی اتنی زبر دست کی ہے کہ قاری مرعوب ہو جاتاہے اور اس کے سامنے فوج کا پورا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ رزمیہ مثنوی ہے اس لیے میں کمال کی بلند آہنگی،للکاراور ایک جھنکار کا احساس ہوتا ہے۔
دوسری مثنوی ’’میزبانی نامہ‘‘ہے۔ ۲۱۶ اشعارپر مشتمل یہ ایک بہترین مثنوی ہے۔اس مثنوی میں ’’سلطان محمد عادل شاہ‘‘ کی نواب مظفر خاں کی لڑکی سے شادہ کا پورا حال بیان کیا گیاہے۔ اس میں دعوت کا اہتمام،جشن کی رنگارنگی، شادی کی دھوم دھام،محلات کی زیب و زینت،تقریبات کی خصوصیات،اس دور کے رسم و رواج،شادی کے ملبوسات اور خاص شادی میں پہنے جانے والے زیورات غرض ہر چیز کو بڑی فنکاری سے پیش کیا گیا ہے۔ بقول ڈاکڑ جمیل جالبی:اس تصویر میں ہندومسلم ثقافت کے وہ نقوش نظر آتے ہیں جو مغلیہ دور میں مُلک گیر سطح پر اپنے عروج پر تھے۔
اس کے علاوہ حسن شوقی نے مثنوی میں عادل شاہ کی علم پروری اور اہلِ علم وہنر کی قدر دانی اور اس کی شجاعت و فیاضی کا بھی خوب تذکرہ کیا ہے۔ چوںکہ اس مثنوی میں عادل شاہ کی شادی اور عیش و عشرت کے علاوہ فرحت و مسرت کا ذکر زیادہ ہے اس لیے اس مثنوی کا شمار ’بزمیہ‘ مثنوی میں ہوتا ہے۔
٭ آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ حسن شوقی کی مثنوی کے علاوہ غزلیں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ دکنی شعرا میں ایک بلند پایا غزل گو شاعر تھے۔ایک غزل گو شاعر ہونے کی حیثیت سے دکنی شعرا میں سب سے زیادہ اہمیت اور فضیلت حاصل ہے۔ان کی غزلیں قدیم اردو شاعری میں ایک نئے رنگ و آہنگ کی ترجمانی کرتی ہے۔سادگی، روانی،واقعیت پسندی، نغمگی اور موسیقیت شوقی کی غزلوں کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ان کی غزلوں میں خوبصورت استعارہ تلذذ آمیز پیش کش پائی جاتی ہے۔ شعر دیکھیے:
تُجھ مُکھ کنول کو لے بدل جک میں سُرنگ لالہ ہو
 تُجھ زلف تھے اپجا بھور دوجا بھونک کالا ہوا
تُجھ نین تے نرگس کھلے عمبر کھلے بن کرکھلے
 تجھ خوے تے دونا ہوا،مرواہوا،بالا ہوا
پہلے شعر میں شوقی کہتے ہیں کہ تیرے چہرے کی جو سُرخی ہے وہ اتنی زبردست ہے کہ( لالہ کا پھول جس کے ذریعے کسی کی سُرخی کی مثال دی جاتی ہے )کسی کی سرخی بیان کرنے کے لیے وہ لالہ کا پھول بھی تیرے چہرے سے سُرخی مستعار لیتاہے۔اور تیرے زلفوں کی سیاہی اس قدر گہری ہے کہ بھونک ناگ ( جس کی سیاہی کی مثال دی جاتی ہے کسی کو ڈرانے کے لیے)بھی اپنی سیاہی تیرے زلفوں سے حاصل کرتاہے۔دوسرے شعر میں شاعر کہتاہے تیرے نین کے کھلنے کا انداز ایسا ہے جیسے نرگس کا پھول کھِل رہا ہو،یاتیرے نین کے کھُلنے سے متأثر ہوکر نرگس کا پھول اپنے آپ کھِلنا شروع ہوجاتاہے۔تیرے پسینے کی خوشبو اس قدر عُمدہ ہے کہ دونا،مروا،بالاجو خوشبو دار پھول پتیاں ہیں وہ بھی تیرے پسینے کی خوشبو سے معطر ہوئے ہیں۔
آپ کو مذکورہ شعر کے ترجمے اور مطالب سے معلوم ہوگیا کہ شوقی نے شعر میں کیا کیا بیان کیااور کس انداز سے بیان کیاہے۔اس میں شوقی نے معشوق کی انتہائی پوشیدہ اور خفیا انداز میں تعریف کرتے ہوئے علی الاعلان بھی تعریف کی ہے۔ہر چیز کو کھل کر بیان کیا ہے لیکن معشوق کی جنسیت کو مخفی رکھا ہے۔حسن شوقی پہلا دکنی غزل گو ہے جس نے دکنی کو فارسی غزل کے طرز اسے آباد کیا۔ شوقی نے مقامی رنگوں کے حُسن اور مٹھاس کے ساتھ ساتھ فارسی غزل کی جمالیات سے بھی دکنی غزل کو آراستہ کیا۔
شوقی کی غزل ایک ایسے انسان کے تجربے پر مشتمل ہے جو ایک طرف دکنی طرز احساس میں پیوست ہے تو دوسری طرف فارسی اسلوب سے جوڑاہوا ہے۔ حسن نے ان دونوں کے درمیان پیوندکاری کرکے ایک امتزاجی کیفیت پیدا کی،اور یہی ان کی غزلوں کا فنی کمال ہے۔ دیکھاجائے تو شوقی کی حیثیت مُصحفی کی طرح ہے کہ جس طرح مصحفیؔ نے دلی اور لکھنؤ کے دبستان کے درمیان اس کا امتزاجی نقش بنا دیا تھا اسی طرح سے شوقی نے بھی دکنی اور فارسی روایت کے امتزاج سے ہٹ کر ایک منفرد شعری تجرہ کیا ہے۔شوقی کی غزلوں میں حیرت انگیز طور پر چند ایسے اشعار ملتے ہیں جو عہد ِجدید کے شعری اسلوب کے مطابق ہیں ۔ولی ؔ کہتے ہیں:’’ حسن و عشق کی کیفیت ،عشق کی واردات ،محبوب کے حُسن، محبوب کے جمال کو انہوں نے اپنی غزلوں کا موضوع بنا یا‘‘۔
حسن شوقی کو فارسی پر جو دست رس حاصل تھی اس سے یہ کہاجاسکتاہے کہ شوقی کو فارسی غزل کا عرفان تخلیقی سطح پر حاصل تھا۔دکنی شعری روایت میں پابندرہتے ہوئے بھی وہ اس عرفان کو تجربے ڈھالنے کا فن خوب جانتے تھے۔لیکن فارسی کے مبالغہ آمیز جزبات سے گریز کرتے تھے۔انہوں نے دکنی غزلوں کا جو پیکر بنایا اس میں ابتدا ہی سے فارسی غزلوں کی طرح لیلیٰ مجنوں،شیریں فرہاد، عشق و عاشقی،زلف و رخسار،شمع و شراب،زاہد و ناصح کے تلازمات اور تصورات پائے جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مآخد
۱) تاریخ ادب اردو ڈاکٹر جمیل جالبی
۲) تاریخ ادب اردو نورالحسن نقوی
۳ ) دکن میں اردو نصیرالدین ہاشمی
۴ ) دکنی ادب کی تاریخ  ڈاکٹر محی الدین قادری زور
۵) اردو مثنوی کا ارتقا عبد القادر سروری
ؔاحمد آباد گجرات
 اسکالر شعبہ اردومولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here