9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عطیہ بی
’’لےگئی لے گئی دیکھو، دیکھو وہ لے گئی اماں پکڑو اسےوہ لے گئی ہمیشہ یہی کرتی ہے ‘‘ کہتے ہوئے چاندنی بے قراری سے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ارے کون لے گئی کیا لے گئی چاندنی تم نیند میں یہ کیا بڑبڑا رہی ہو۔ اللہ کی پناہ ہوا کیا بتاؤ بھی تو۔‘‘
’’دیکھئے اماں وہ سمیرا میری جلیبی پھر لے بھاگ گئی۔‘‘
’’ارے میری بچی کہاںہے سمیرا تم نے پھر کوئی خواب دیکھا ہے۔‘‘
چاندنی جو ابھی ابھی گہری نیند سے نکل کر حقیقت سے دو چار ہوئی تھی کچھ سمجھ ہی نہیں پارہی تھی۔ وہ بولی۔
’’نہیں اماں ابھی ابھی میرے ہاتھ میں تھی جلیبی وہ مجھ سے لے کر بھاگ گئی اب میں اسے نہیں چھوڑوںگی۔‘‘
’’ارے کوئی بھی نہیں لے گیا تم تو خود ابھی سو کر اٹھی ہو۔‘‘ والدہ نے چاندنی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’کیا چاندنی آج تم نے پھر جلیبی کا خواب دیکھ لیا۔‘‘
چاندنی جو ابھی تک وحشت میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اماں کے سمجھانے پر خاموشی سے بیٹھ گئی۔
ہاں اماں آج میں نے پھر دیکھا کہ وہ سمیرا میری جلیبی مجھ سے چھین کر بھاگ گئی۔ جب دیکھ چلی آتی ہے مجھ سے کچھ نہ کچھ مانگنے۔‘‘
’’ایسا نہیں کہتے چاندنی وہ تو تمہاری کتنی اچھی دوست ہے۔ تمہارے اسکول کے کام میں تمہاری مدد بھی تو کرتی ہے۔
’’ہاں اماں آپ صحیح کہہ رہی ہیں مگر وہ ہمیشہ میری ہر چیز لے کر چلی جاتی ہے اور خاص کر میری پیاری جلیبی۔ دیکھئے اماں خواب میں بھی میری جلیبی نہیں چھوڑی اس نے۔
’’اچھا اچھا چلو باتیں نہ بناؤ ہاتھ منھ دھو کر نیچے آؤ سب انتظار کر رہے ہیں ناشتے کے لئے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے اماں آتی ہوں مگر میں اس سمیرا کو چھوڑوں گی نہیں۔اس نے میری جلیبی چھینی ہے مجھ سے ۔
والدہ چاندنی کی معصوم باتوں پر ہنسے بنا نہ رہ سکیں۔
’’اچھا بھائی مت چھوڑنا چلو جلدی چلو سب انتظار کر رہے ہیں۔
جی اماں میں آتی ہوں مگر آپ ابو سے بولیں گی نہ مجھے ابھی دکان پر لے چلیں جلیبی دلانے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے چلو ابھی ابو سے کہتے ہیں۔‘‘ اماں نے دلاسا دیتے ہوئےکہا۔
اور یہ کہتے ہی دونوں ناشتے کی ٹیبل کے پاس آئے۔
’’السلام علیکم ابو۔‘‘ چاندنی نے ابو کو دیکھتے ہی کہا۔
’’وعلیکم السلام کیسی ہے میری گڑیا۔‘‘
’’ارے پوچھئے نہیں بے حد غصے میں ہے آپ کی بٹیا۔‘‘ اماں نے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھائی کہا ہوا خیریت تو ہے؟‘‘
’’ پہلے آپ وعدہ کیجئے کہ آپ مجھے ابھی حلوائی بھیا کی دکان پر لے چلیں گے۔‘‘
’’ہاں، ہاں لے چلیں گے مگر ہاتھ منھ تو دھولو پہلے۔ ہوا کیا ہے یہ تو بتاؤ؟‘‘
اماں بولیں ’’غضب ہوگیا! سمیرا چاندنی کی جلیبی خواب میں لے کے بھاگ گئی ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے قہقہہ لگاتے ہوئے ہنس پڑی۔
’’کیا ؟ ابو نے تعجب سے پوچھا۔‘‘
’’ہاں ابو وہ ہمیشہ یہ کرتی ہے میری من پسند جلیبی لے کر بھاگ جاتی ہے۔ آنے دو اسے بتاتی ہوں اب کوئی چیز نہیں دوںگی نہ اسکول میں ٹفن کھلاؤں گی۔
ابو چاندنی کی باتیں سن مسکرانے لگے۔
’’اچھا چلو تیار ہوجاؤ میں تمہیں ابھی جلیبی دلاکر لاتا ہوں۔‘‘
’’ابو بس میں آتی ہوں منھ دھوکر۔‘‘
کچھ ہی لمحوں میں چاندنی حلوائی کے پاس جانے کے لئے ابو کے ساتھ چل پڑی اور دونوں سامنے حلوائی کی دکان پر جا پہنچے۔
’’بھیا مجھے جلدی سے گرما گرم جلیبی دے دیجئے مجھے ابھی کھانی ہے۔‘‘ چاندنی نے حلوائی سے بے تابی سے کہا۔
’’اچھا گڑیا اچھا میں ابھی تیار کرتا ہوں تمہارے لئے گرما گرم جلیبی۔‘‘
جب تک حلوائی جلیبی بنانے کی تیاری کر رہا تھا تو چاندنی غور سے ان کا جلیبی بنانے کا طریقہ دیکھنے لگی۔ حلوائی بھیا نے ایک کپڑے میں کوئی پیسٹ بھر کر کڑھائی پر گول گول کچھ اس طرح گھمایا کہ کڑھائی میں موجود گرم تیل میں جالی دار خوبصورت گول گول جلیبیاں بننا شروع ہوگئیں۔اور سنہرا ہونے پر اس ایک بڑے برتن میں جو چاشنی سے بھرا تھا ڈال دی۔ اسی دوران پیچھے سے ایک آواز آئی۔
’’السلام علیم چچا جان۔‘‘
’’وعلیکم السلام سمیرا کیسی ہو۔‘‘
چاندنی نے جیسے ہی سمیرا کو دیکھا آگ بگولہ ہو اٹھی۔
’’پھر آگئی میری جلیبی کی دشمن۔ ایک جلیبی بھی دوں گی ۔‘‘ کہتے ہوئے وہ بڑبڑانے لگی۔
’’کیا کررہی ہو چاندنی جلیبی لے رہی ہو کیا۔‘‘ سمیرا نے کہا۔
’’تم سے مطلب میں کچھ بھی کروں۔‘‘
’’ارے مطلب کیوں نہیں میں تمہاری دوست ہوں۔‘‘
ہاں تو میں کیا کروں۔ تم جلیبی لینے آئی ہو نہ مگر میں تمہیں ایک بھی نہیں دوںگی دور رہو میری جلیبیوں سے۔ ابو اسے یہاں سے ہٹائیے جب دیکھو یہ میرے پیچھے پڑ ی رہتی ہے۔
سمیرا چاندنی کی یہ بات سن کر واپس چلی گئی۔
ابو نے چاندنی کی طرف غور سے دیکھا۔
’’یہ کیا تھا چاندنی کیسی غلط بات ہے کوئی اس طرح پیش آتا ہے کسی سے پھر وہ تمہاری دوست ہے۔‘‘
ابو آپ کو نہیں پتہ وہ بڑی بدتمیز ہے۔ ہمیشہ میرا پورا ٹفن کھا جاتی ہے۔اپنی کوئی چیز مجھ کو نہیں دیتی اور سب سے بڑی بات وہ میری جلیبی کھا جاتی ہے۔‘‘
’’ لو بیٹا تمہاری جلیبی تیار ہوگئی یہ کہتے ہوئے حلوائی نے ایک دونے میں گرما گرم جلیبی نکال کر چاندنی کو دیا۔
ابو نے حلوائی کو پیسے دئے اور دونا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’اچھا یہ بتاؤ تم نے دیکھا کیسے بنی یہ جلیبی؟‘‘
’’ابو یہ تو بڑی عجیب طرح سے بنی ہے۔ یہ سیدھی طرح سے کیوں نہیں بناتے اتنا گھما کر کیوں بناتے ہیں۔‘]
’’یہی تو اس کی خوبصورتی ہے چاندنی۔ یہ کتنی الجھی ہے مگر کھانے میں اتنی ہی میٹھی ۔ اسی طرح ہمارے رشتے بھی ہوتے ہیں۔ لاکھ الجھے کیوں نہ ہوں مگر اسی میں ان کی خوبصورتی پوشیدہ ہے۔ سیدھے سیدھے ہوںگے تو خوبصورت نہیں ہوںگے۔
سمیرا لاکھ بری ہو مگر تمہاری کتنی مدد کرتی ہے۔ تمہارے اسکول کا کام بھی کراتی ہے کام چھوٹ جانے پر اپنی کاپی بھی تم کو دے دیتی ہے اور تمہاری طرح طرح سے مدد بھی تو کرتی ہے۔
اگر وہ تھوڑی الجھی ہوئی بھی ہے تو رشتوں کی خوبصورتی ان کو نبھانے میں ہے تم نے اس سے کتنی غلط طریقہ سے بات کی یہ تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔
یہ سن کر چاندنی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
’’جی ابو مجھ سے غلطی ہوئی وہ میری بہت اچھی دوست ہے۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے اب کبھی میں ایسا نہیں کروں گی۔‘‘
’’چلو ابھی چل کر اس سے معافی مانگو۔‘‘ ابو نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ابو میںاس سے معافی بھی مانگوں گی اور اپنی جلیبی بھی اس کے ساتھ مل کر کھاؤں گی۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے دونوں سمیرا کے گھر کی طرف چلے گئے۔
۳۲؍۱۹۴ ، ایل بی روڈ
وزیر گنج، لکھنؤ، انڈیا