توہم

0
161

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

آبیناز جان علی موریشس

شمع کی دادی کہا کرتی تھی کہ ایک اچھا شوہر ایک لڑکی کی زندگی کو خوبصورت بنا سکتا ہے اور ایک خراب شوہر اس کی زندگی کودوزخ سے بھی بدتر بنا سکتا ہے۔ اس لئے وہ شمع کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر اور پوری چھان بین کے بعد شادی کرنے کی ہدایت دیا کرتی تھی۔ دادی کو وفات پائے زمانہ ہو گیا لیکن ان کے اقوالِ زرین شمع کے ذہن میں گونجتے رہتے۔
آج بھی شمع دادی کو یاد کر رہی تھی۔ دادی کے سفید بال، جھکی ہوئی کمر، ان کی گول موٹے شیشے والی عینک، مصنوعی دانت اور سفید لہنگا۔۔۔ دادی کس نفاست سے اس کے بال گونڈھتی تھی۔ وہ آم کا پیڑ جس کی شاخ پر ابو نے لوہے کی زنجیروںسے شمع کے لئے جھولا باندھا تھا۔ اس کو جھولاجھلاتے ہوئے دادی اس کو دنیا داری کی سیکھ دیتی ۔ یا پھر راجا اور رانی کی کہانی سناتی۔ راجا اپنی رانی کو اتنا پیار کرتا کہ اسے محل میں لے جاتا اور عمر بھر وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گذارتے اور ان کے بہت سارے شہزادے اور شہزادیاں ہوتیں۔
شمع کا بچپن ماں باپ اور دادی کی سرپرستی اور شفقت کی وجہ سے گل وگلزار تھا۔
پرویز سے اس کی شادی پوری چھان بین اور سوچ سمجھ کے کی گئی تھی۔ پرویز پڑھا لکھا، اچھے خاندان کا خوش اخلاق لڑکا تھا۔ سماج میں اس کی عزت تھی۔ اس کی اچھی سرکاری نوکری تھی۔ اچھی آمدنی تھی۔ پرویز کا اپنا گھر بھی تھا۔ شمع کے والدین اس رشتے سے مطمئن تھے۔ انہوں نے نہایت تزک و احتشام سے اپنی نیک دختر کی شادی کی۔ شمع بھی اپنے شوہر کو پیار کرتی تھی اور ہر طرح سے اس پر ِ اعتبار کرتی تھی۔ شمع نے پوری تقویت سے ازدواجی ذمے داریوں کو اپنایا۔ اپنے نئے گھر کو سجانے میں اپنے سارے پیسے لگا دئے۔ لیکن شمع کو کوئی عذر نہیں تھا۔ وہ ایک منیجر تھی اور اسے کوئی مالی پریشانی نہیں تھی۔ اس کا گھر اور اس کا شوہر اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھے۔ وہ پرویز کے لئے لذیذ اور مزیدار کھانا تیارکرتی۔ خریداری کرتے وقت پرویز کے لئے قیمتی قمیض، جوتے اور خوشبوخریدتی۔ پرویز اس کی زندگی تھا اور اس کے لئے بہتریں چیز لینے میں شمع انتہائی خوشی محسوس کرتی۔
پرویز اور شمع کی زندگی خوشیوں سے معطر تھی۔ اپنے عالیشان آرام کمرے میں بیٹھی شمع دیوار پر ٹنگی ہوئی تصویر کو غور سے تک رہی تھی جو پرویز نے روس کے سفر میں ایک پرانی دکان سے لی تھی۔ اس وقت دل پرایک تیر سا چل گیا تھا۔ دو سال تک مسلسل کوشش اور ڈاکٹروں سے صلاح ومشورہ کرانے کے باوجود بھی شمع کی گود سونی ہے۔ ڈاکٹروں کی جانچ کے مطابق کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کئی ڈاکٹروںنے یہی تشخیص کی کہ وقت کے ساتھ شمع ماں بن جائے گی۔ لیکن افسوس! ایسا نہیں ہوا۔
پرویز آج بھی دفتر سے لوٹتے وقت اپنے بڑے بھائی کے بچوں کو دیکھنے گیا ہوگا۔ سڑک کے اس پار اس دو منزلہ مکان سے بچوں کی
آوازیں دیر رات تک سنائی دیتیں جسے سن کر پرویز نیند میں بھی مسکراتا۔ گھر آنے سے پہلے وہ دکان سے ان کے لئے ٹافی لیتے آتا اور شمع بالکنی سے سڑک کے اس پار پرویز کو ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتی۔ ـ’’ تم کچھ نہیں کہتے لیکن میں تمہارے دل کی بات سمجھتی ہوں۔
تمہاری آنکھوں کی مایوسی مجھ سے چھپی نہیں ہے۔ـ‘ ‘ شمع نے اپنے پیٹ کو دونوں ہاتھوں سے لپیٹ لیا اور ایک آہِ سرد بھری۔
اسرافیل اور میکائیل کو چھوڑ کر گھر واپس آنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ گھر کی لال دیواروں کے بارے میں سوچ کرپرویز کو گھٹن سی ہونے لگتی۔ خاموش گھر کے خالی کمرے اس کی ناکامی کی داستان سنارہے تھے۔ لیکن آج تک پرویز نے اپنا درد شمع کے سامنے کبھی ظاہر ہونے نہیں دیا۔
انہی دنوں پرویز کے دفتر میں ایک نیا ملازم مقرر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پرویز اور عرفان اچھے دوست بن گئے ۔ ایک دن باہر سگریٹ پیتے ہوئے پرویز کہنے لگا:’’تم نے نوٹس دیکھا؟ آفس میں مہینے کے آخر میں اسٹاٖف کے بچوں کے لئے پارٹی رکھی گئی ہے۔‘‘ پرویز نے ایک لمبی کش کھینچی۔
’’اچھا! میں نے غور نہیں کیا۔ ویسے بھی میری ابھی تک شادی کہاں ہوئی ہے جو میں ان باتوں کی فکر کروں؟‘‘ عرفان ہنسنے لگا۔
’’ تو کیا آفس میں جب لوگ بات بات پر اپنے بچوں کا تذکرہ کرتے ہیں،تمہیں کچھ نہیں ہوتا؟ لوگوں کی زندگی تو ان کے بچوں کے آس پاس ہی گھومتی ہے۔ میں سب کے بچوں کے نام جانتا ہوں،وہ کون سے اسکول میں پڑھتے ہیں اور انہیں کیا کیا پسند ہے۔ دن بھر تو اسی پر باتیں ہوتی ہیں۔‘‘
’’میں تو اپنی دنیا میں رہتا ہوں۔ والدین کا تو بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ رشتہ داروں نے کب کا منہ موڑ لیا تھا۔ ایک بوڑھے دادا نے پرورش کی تھی۔ اب وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ مجھے تو اکیلے رہنا ہی پسند ہے۔ـ‘‘ پرویز نے عرفان کی طرف شفقت آمیز نظروں سے دیکھا پھر کہا:’’ میرے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ بس اپنے بچے کو گود میں لینے کے لئے ترس گیا ہوں۔ جانے خدا کو کیا منظور ہے۔‘‘
’’پریشان کیوں ہوتے ہو؟ خدا نے چاہا تو جلد ہی تمہاری مراد پوری ہوجائے گی۔‘‘
’’کاش تمہاری بات سچ نکلے۔ اپنا بچہ پانے کے لئے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔‘‘
عرفان نے پرویز کو غور سے دیکھا۔
ایک روز عرفان پرویز کے گھر آیا۔ شمع نے میزبانی کا شرف بخوبی نبھایا۔
’’ارے واہ بھابھی، چکن قورمہ کھانے کے لئے میں ترس گیا تھا۔ میں چار سال سے مڈغاسکر میںکام کر رہا تھا۔ وہاں ایسا کھانا کہاں ملتا تھا۔ مزا آگیا۔‘‘
’’تو آپ حال ہی میں واپس آئے ہیں؟‘‘ شمع نے پوچھا۔
’’جی۔ ابھی موریشس واپس آئے دو مہینے ہوئے ہیں۔ وہاں ہیرے کا بزنس کرتا تھا۔ زمین بہت زرخیز ہے اور مہنگائی بھی نہیں۔‘‘
’’سنا ہے وہ قدیم رسومات کے پابند ہیں۔‘‘
’’یہ آپ نے بلکل درست فرمایا۔ وہاں پیڑ پودوں کے ساتھ ساتھ پتھر کو بھی پوجتے ہیں۔ وہاں ایک جزیرہ ایسا ہے کہ وہاں صرف خاص
دن پر دعا مانگنے کے لئے جاتے ہیں۔‘ ‘ شمع حیرت سے سنتی رہی اورعرفان قورمہ کھاتے ہوئے شمع کو دیکھتارہ گیا۔ اس کی نظر دیوار پر ٹنگی روسی بچے کی تصویرپر پڑی اور وہ مسکرانے لگا۔
اگلے روز عرفان نے پرویز سے کہا: ’’ پرویز تمہیں معلوم ہے میں کئی سال مڈغاسکر میں رہا۔ میں نے وہاں کالا جادو کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ میں انسان کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ اس پر کالا سایہ ہے۔ تمہاری بیوی پر ایک جن کا سایہ ہے۔ وہ جہاں جہاں جاتی ہے وہ جن اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اسی جن کی وجہ سے وہ ماں نہیں بن پارہی ہے۔ وہ جن تمہاری بیوی کو اپنے قابو میں کر چکا ہے اور تمہیں راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔‘‘
پرویز ڈنگ رہ گیا۔ ’’ سچ کہہ رہے ہو۔ تبھی تو اتنی کوششوں اور علاج کے باوجود ہم بچے کی خوشی سے محروم ہیں۔ تو اب کیا کیا جائے؟‘‘
’’فکر مت کرو۔ میں نے اس جن کو دیکھ لیا ہے۔ مطلب کہ میں اس پر قابو پا سکتا ہوں۔ یہ لو، میں نے تمہارے لئے تعویز تیار کی ہے۔ اس سے وہ جن دور ہو جائے تو اچھا ہوگا ورنا مجھے اور قربانیاں دینی ہونگیں۔‘‘ عرفان نے پر اسرار لہجے میں کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ پرویز نے کہا۔
’’وقت آنے پر میں تمہیں بتا دوں گا۔ اس تعویز کو اپنی بیوی کے تکیے میں ڈال دو۔ اور یہ گلاب کی چند پنکھڑیاں ہیں۔ میں نے اس میں دم کر کے دعا کی ہے۔ اسے پانی میں ملا کر اپنی بیوی کو پلا دینا۔ اور اسے معلوم مت ہونے دیناورنہ وہ جن اسے اور پریشان کرے گا۔اگر یہ کام کر گیا تو بہت جلد تمہارے ہاتھوں میں تمھارا بچہ ہوگا۔‘‘ عرفان پرویز کے گندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرایا۔
بچے کا نام سنتے ہی پرویز دیوانہ وار خوش ہوگیا۔ اس نے عرفان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کیا۔ ایک مہینے تک عرفان اس کے لئے دعائیں کرتا رہا ۔ لیکن ایک مہینے کے بعد بھی شمع حاملہ نہیں ہوئی۔
’’تم قربانیوں کی بات کر رہے تھے عرفان؟‘‘ پرویز نے دریافت کیا۔
’’ہاں لیکن میں وہ کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ عرفان نے صاف صاف کہا۔
پرویزنے منت سماجت شروع کر دی۔ ’’دنیا مجھے بار بار یاد دلاتی ہے کہ میرا کوئی وارث نہیں ہے۔ میں کب تک دوسروں کی باتیں سنتا رہوں؟ بچے کے بغیر میرا خاندان ادھورا ہے۔ بچہ پانے کے لئے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔‘‘
’’ اس جن نے بچے کے گھر میں قبضہ کر لیا ہے۔ اسی لئے بچہ نہیں ہو رہا۔ جنسی تعلقات سے اور منتروں سے اس جن کو بھگانا ہوگا۔‘‘ عرفان
نے اندھیرے میں تیر چھوڑا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو تبھی تو بچہ نہیں ہو رہا۔ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔ مجھے تم پر پورا بھراسہ ہے۔‘‘ پرویز نے عرفان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اگلے دن پرویز جلدی گھر آیا۔ شمع جب کام سے لوٹی تو پرویز نے اسے ٹھنڈی شربت پینے کودیا۔ شمع نے خوشی خوشی گلاس قبول کی۔ ’’میرے اچھے شوہر!‘‘ پرویز مسکرا اٹھا۔
شمع کو کچھ کمزوری محسوس ہونے لگی۔ سامنے روسی بچے کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی۔ پرویز اسے اٹھاتے ہوئے خوابگاہ میں لے گیا اور پھر کمرے سے چلا گیا۔
شمع کو کچھ دھندلی دھندلی سی باتیں یاد ہیں۔ کمرے میں عرفان تھا جو اسے بے لباس کررہا تھا۔ شمع سب دیکھ رہی تھی لیکن نشے نے اسے معذور سا کر دیا تھا۔ و ہی نشہ جو اس نے پورے بھروسے سے اپنے شوہر کے ہاتھوں سے لیا تھا۔ وہ شوہر جس نے خدا کے گھر میں سماج کے سامنے اس کی ذمے داری لینے کا عہد لیا تھا۔وہ شوہر جس نے اس کے والدین کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی بیٹی پر آنچ تک آنے نہیں دے گا۔
نشے کا اثر جب اترا تو شمع بستر پر ساکت پڑی تھی جیسے کسی چیل نے اسے دبوچ کے رکھا ہو۔ سگریٹ کی بدبو پورے کمرے پر چھائی ہوئی تھی۔ اسے قئے آنے لگی اور سر میں شدید درد ہونے لگا۔ جسم پر جگہ جگہ جمے ہوئے خون کے نشانات تھے۔ یہ اس کا اپنا کمرہ تھا جسے اس نے پرویز کی پسند کے مطابق سجایا تھا۔ جارجیٹ کا پردہ سرکایا گیا تھا۔ آسمان نے نہ جانے کب شرم کے مارے اندھیرے کی چادر تان لی تھی۔
پلنگ کے بغل میں چھوٹی میز پر اس کی شادی کی تصویر تھی جو دیوار کی مدھم زرد چراغ کی مدد سے دکھائی دے رہی تھی ۔ دادی اماں کی کہانیاں یاد آنے لگیں۔ وہ راجا اور رانی جو خوشی خوشی رہا کرتے تھے۔ شمع کی آنکھوں سے آنسو آخرکار نکلنے لگے۔
’’لیکن دادی کسی کا چہرہ دیکھ کر یہ کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ اس کے دل میں کتنا بڑا شیطان بسا ہے؟‘‘
پروییز کے دھوکے اور فریب کوشمع کس کے سامنے بیان کرتی اور کن الفاظ میں بیان کرتی۔ کیسے کہتی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ ایسی کون سی عدالت تھی جو اس کے ساتھ انصاف کر پاتی۔ شمع کو ڈر تھا کہ جو ایک بار ہوا کہیں بار بار نہ ہو اور جب اپنے ہی بھیڑیہ کی کھال پہن لیتے ہیں تو کون محافظ ہوگا؟ لہٰذا شمع چپ چاپ پرویز کے گھر سے اور اس کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل آئی۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here