تحفۂ بیش بہا: عوامی مرثیہ کی روایت

0
86

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

جرار نقوی جائسی

اس دار فانی میں ہر ایک بشر اپنی ثقافت کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے علمی لیاقت اس کے ہنر و کردار کو دوبالا کرتی ہیں تو وہیں تہذیب و ادب اسکے عملی کارواں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ بشر کن اوصاف کا مالک ہے مگر کیا یہ ثقافت،تہذیب، ادب و لیاقت کسی کو نسلی طور پر یا وراثتاً مل جاتے ہیں ؟ اگر یہ گمان ہے کہ نسلی یا وراثتاً حاصل ہوتے ہیں تو یہ کج فکری ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو خدا وند کریم کبھی یہ نہ کہتا العلم نور علم نور ہے یعنی خدا وند عالم جس کے ذریعہ کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کام کی صلاحیت اسکو عطا کر دیتا ہے اب یہ بشر کے ظرف پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسکی حفاظت کر کے آنے والی نسلوں تک کیسے پہونچاتا ہے اور انکو اس علم کا وارث کیسے بناتا ہے
یعنی علمی جواہرات کسی انسان کو نسلی طور پر نہیں ملتے مگر تہذیب و ثقافت کے بعض حصوں کا حقدار نسلی طور پر انسان ضرور ہوتا ہے اب قابل تحسین و مبارکباد ہیں وہ افراد جو اس تہذیب و ثقافت کو علمی جواہرات میں پیرو کر ایک ایسی شکل دے دیتے ہیں کہ آنے والی نسلیں اس ثقافت کا مطالعہ کر کے اس تہذیب و ادب و ثقافت سے روشناس ہوں جو ماضی کے جھروکھوں میں کھو چکی ہیں ان ہی یادوں اور کھوئی ہوئی ہندوستانی ثقافت کی ڈبڈبائی ہوئی نبضوں میں روانی پیدا کرنے کے لئے جناب لئیق احمد رضوی صاحب نے ” عوامی مرثیہ کی روایت ” کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جو آنے والی کئی صدیوں تک اہل علم کے لئے نایاب تحفہ ہے عوامی مرثیہ کی تاریخ خود ایک سخت موضوع ہے چونکہ ہمارا ملک ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اور پھر اس میں مختلف تہذیبیں ضم ہیں اسکے بعد ان تہذیبوں کو ادا کرنے کا طریقہ ہر علاقہ اور زبان کے لحاظ سے بہت ہی جدا گانہ ہے چونکہ امام حسین علیہ السلام کی ذات اقدس کسی ایک فرقہ یا کسی ایک گروہ سے منسلک نہیں ہےبلکہ ہر قوم و قبیلہ امام حسین کی مظلومیت کی داستان اپنی علاقائی زبان میں قائم کرتا ہے اس نقطئہ نظر سے یہ موضوع بے حد سخت تھا جسکو لئیق رضوی صاحب نے اپنی سالوں کی محنت کو اس کتاب میں جمع کر کے “عوامی مرثیہ کی رویت ” اہل بصیرت و علمی دوستوں کے حوالہ کی۔
عوامی مرثیہ کی رویت چونکہ یہ موضوع اپنے آپ میں وسعت رکھتا ہے اور ہجم اسکا ثقیل ہے لہذا اسکی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے لئیق رضوی صاحب نے اس کتاب کو گیارہ ابواب پر منقسم کیا جس میں پہلا باب ہندوستان میں عزاداری ، یہ باب اپنے آپ میں وسیع اور تحقیق کا حامل ہے مگر مصنف نے اپنی کاوشوں سے اس موضوع کو ابتدائے شیعت در ہندوستان سے لیکر ابتدائے رسومات عزاداری کو بخوبی انجام دیا اول تو آپ نے 39 ہجری میں حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں نمائندہ حضرت علی کا ہندوستان آنے سے لیکر امیر تیمور تک کے زمانہ کی عکاسی کی ہے جو قابل تحسین ہے ” ہندوستامیں عزاداری” یہ موضوع ایک سخت مرحلہ تھا کیوں کہ یہ مشہور ہیکہ امیر تیمور ہر سال محرم میں کربلا جایا کرتا تھا مگر ایک بار جنگ میں مشغول ہونے کی وجہ سے کربلا نہ جاسکا تو اس نے روضہ امام حسین کی تصویر بنا کر قلب کی تسکین کی اسکی ابتدا (1370۔1405) مانی جاتی ہے جبکہ امیر خسرو کی پہلی کچھ اور کہتی ہے ۔
گور کے اندر روضہ دیکھا سچ لائو ایمان
پھر روضہ میں گور بھی دیکھی ذری نہیں طوفان
ایک جزیرہ ایسا دیکھا سدا بنے پھر ٹوٹ
گور کے اندر گور رکھی ذری نہیں ہے جھوٹ
امیر خسرو کا زمانہ (1325۔1253) کا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمور بھی کسی قدیم تہذیب و ثقافت کی پیروی کر رہے تھے ان ہی تمام حقائق کو بہت ہی خوبصورت انداز میں مصنف نے واضع کیا ہے ۔
دوسراباب “عزاداری میں ہندوستان” یہ باب بھی تحقیق و جستجو کا حامل ہے کیوں کہ ہندوستان میں 39 ہجری میں نمایندہ حضرت علی آئے مگر واقعئہ کربلا تو 61 ہجری میں واقع ہوا اس لئے اس کی تحقیق لازمی تھی کہ ہندوستان میں عزا کا اہتمام کب سے ہوا ؟ چونکہ ہندوستان میں محاجرین ، عرب و ایران سے آئے اور انہوں نے یہاں اس کا اہتمام کیا جس کا ثبوت ہندوستان کی قدیم آبادیوں میں موسم عزا میں صاف نظر آتا ہے فارسی کے نوحے روضہ خوانی اور کہیں عزاداری میں عربوں کی تہذیب ، ہندوستان کی آبادی مختلف اقوام و مذاہب پر مشتمل ہے اس لئے رنگِ عزا میں علاقہ کے اعتبار سے کچھ فرق ضرور دیکھائی دیتا ہے مگر سبھی ایک ہی منزل کے نمائندہ نظر آتے ہیں ہندوستان میں عزاداری کے پہلے دور میں ایرانی تہذیب کا رنگ اور پھر رفتہ رفتہ یہاں کی علاقائی ثقافت نے جگہ بنائی یہی وجہ ہیکہ آج یادِ شہیدانِ انسانیت ہندوستان کی ہر زبان و قوم میں سرایت کر گئی اسکی مفصل تفصیل اور آخر میں حسینی برہمن کی تاریخ اور 2014 دہلی میں فساد کے سبب تعزیہ نہ اٹھ سکا پھر حسینی برہمن کا آکر تعزیہ اٹھانے کا ذکر اس طرح اس باب میں دو نایاب تحقیقیں اہل بصیرت کے ہاتھ آئیں۔
تیسرا اور چوتھا باب “غم حسین کے عوامی اظہارات و عوامی مرثیہ رنگ روپ اور رویہ ” ہندوستان میں غم حسین کے اظہار کا طریقہ بھی علاقائی ثقافت کے لحاظ سے جدا گانہ ہے کہیں ڈھول،تاشے، جھانج تو کہیں تلوار ، لاٹھی ، بھالے اور ماتم کے بھی عوامی سلسلہ ہیں جن میں سینہ زنی ، زنجیر تلوار آگ کا ماتم قدیم تہذیب ہے ہندوستانی عوام عقیدت کے ساتھ امام کی یاد قائم کرتی ہے جس میں سینہ زنی کے ساتھ آگ کا ماتم بھی ہوتا ہے آگ کے ماتم کی روایت بھی قدیم ہے جس کا تذکرہ عبداللہ قلی قطب شاہ (1672۔1626) نے اپنے ایک مرثیہ میں کیا ہے
گھر میں لوگاں شدے کھڑے کر کے کوٹ سینے دریغا
الاوے کھودے آگ پھونک سلگا کریں گے پھر اگن میں ماتم
اس طرح یہاں کی عوام غم حسین کے اظہار کو رواں رکھے ہے اور اس کی عکاسی یہاں کی مختلف زبانوں میں مرثیہ ، نوحہ دہوں ، لوگ گیت میں نظر آتی ہے جو ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو چار چاند لگاتی ہے۔
پانچواں باب “شمالی ہند میں عوامی مرثیہ چھٹا باب پنجاب میں عوامی مرثیہ ساتواں باب دکن میں عوامی مرثیہ” پر مشتمل ہے شمالی ہندوستان کئی لحاظ سے معزز و محترم مانا جاتا ہے یہاں مختلف تہذیب اور صوفیائے کرام کا مرکز اپنے آپ میں نایاب ہے یہاں پر عزاداری سالار مسعود غازی کی لشکر کشی کے بعد سے نظر آتی ہے پھر ہندوستان میں کئی آبادیاں سادات کی وجود میں آئیں گیارہوں صدی میں یہیں عزا کا اہتمام ہوا اس کے علاوہ سلطان غیاث الدین بلبن (1287۔1266) کے دور میں کئی علوی خانوادے دہلی میں آکر قیام پزیر ہوئے یہ افراد سچے اور پکے عزادار تھے اسکے علاوہ روشن علی کے عاشور نامہ 1100ہجری اور امیر خسرو کی مقتل خوانی 1325۔1253 اس کے علاوہ ابتدائی عزاداری دہلی میں ایرانی ثقافت سر چڑھ کر بولتی ہوئی نظر آتی ہے جسکا ثبوت میر محمد صلاح کا یہ شعر ہے۔
پھر دہا آیا و اسباب الم موجود شد
آب نہر باجود این ہمہ سامان چرا
اسکے بعد بنگال بھی تقریبا ان ہی صفات کا حامل نظر آتا ہے کہ یہاں سولویں صدی عیسوی سے ہی عزاداری کے نشانات ملتے ہیں 17 ویں صدی میں محمد خاں کا شہادت نامہ ” مقتل حسین ” اٹھارویں صدی میں حیات محمد کا ” جنگ نامہ ” کا ذکر موجود ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کلام جنکی یہاں پر ضرورت نہیں ، اسی طرز پر دکن میں بھی عوامی مرثیہ کی اہمیت اور ذخائر ملتے ہیں یہاں پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم حضرات بھی عزا میں شامل ہوتے ہیں آندھرا اور تلگانہ کے علاقوں میں محرم کا چاند نظر آتے ہی امام حسین سے متعلق غم میں ڈوبی ہوئی آوازیں فضا میں گونجنے لگتی ہیں۔
تیتلو وارو تو ننڈی میلکو ما حسینو
بھکتالاو دس توننارو میلکو ما حسینو
مککینا موکولانی ماروا کنڈو ٹیسٹن نارو
اپر و میرو لیسٹروانی اڈارو چستا اننارو
المختصر یہ تینوں باب نہایت قابل تعریف کیوں کہ ان روایات کو جمع کرنے کے لئے کتب و مضامین کے علاوہ سالوں تک ان آبادیوں کی خاک بھی چھانی گئی ہوگی اس نقطئہ نظر سے بھی یہ تینوں باب آنے والی نسلوں کے لئے نایاب تحفہ ہیں۔
آٹھواں باب ” دہوں کی دنیا” ہے اس کی تلاش سخت کام تھا کیوں کہ آج کے دور میں دہوں کی روایت تقریباً عدم کی وادیوں میں جا چکی ہے مگر تلاش و جستجو سے مصنف محترم صاحب نے اس عدم کو وجود سے بدل کر آنے والی صدیوں تک اس حقائق کو محفوظ کر دیا۔ یہ باب سخت مگر مصنف کے لئے اتنا سخت نہ تھا کیوں کہ بچپنہ سے ہی کانوں میں دہوں اور عوامی مرثیہ کی آوازیں آیا کرتی تھیں شاید اسی بنا پر مصنف کو جستجو کا ولولہ پیدا ہوا کہ آخر یہ ہے کیا لئیق رضوی کا تعلق جس سر زمین سے ہے وہ علم و ادب کا مرکز علماء و فضلاء ادباء و شعراء کا مسکن رہا جو دار الفنون و دار العلوم سے یاد کیا جاتا ہے یعنی جائس وہاں آج بھی گیارہ محرم اور 20 صفر کے جلوس ( جسکو وہاں کی زبان میں تربت کہتے ہیں ) میں ایک مخصوص طبقہ کی بعض عورتیں اپنے سروں پر شیرینی رکھے ہوئے جلوس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے دہا روتی ہیں ایسا منظر شاید ہی کہیں اور نظر آتا ہو کہ آگے مرد حضرات یا حسین حسین کی صدا بلبد کرتے ہوئے اور پیچھے پیچھے عورتیں دہا روتی ہوئی کربلا کی سمت جاتے ہیں گویا یہ اس بات کا اعلان اور اپنی آرزو کا اظہار بھی رہتا ہے کہ کاش ہم کربلا میں ہوتے تو اے آقا آپ پر اپنی جان نچھاور کرکے آپ کو اور آپکے خانوادے کو بچانے کی ضرور کوشش کرتے
ان دہوں کے الفاظ میں وہ جزّابیت ہے کہ سامع کے دل پر ایسا اثر ہوتا ہیکہ انسان اسی میں محو ہو کر رہ جاتا ہے۔
جلدی سے مہندی بھجوا رے مالی، رن کی تیاری ہو رہی
اللہ رن کی تیاری ہو رہی
مہندی تو آئی بڑی دھوم سے ، اب مہندی کو لیکر میں کا کروں
مہندی کے لگوئیا حسن تو رن میں جوجھیں، مہندی کو لیکر میں کا کروں
اللہ مہندی کو لیکر میں کا کروں
ان دلخراش دہوں کو سنکر کربلا کے مناظر آنکھوں میں پھر جاتے ہیں اور تلاش و جستجو پر انسان مجبور ہوجاتا ہے اور جب تلاش و جستجو سے واپس آتا ہے تو ایک ضخیم کتاب جو طلباء و علمی دوست و تاریخ ادب میں سب سے گراں و معزز ہوتی ہے
نواں باب “زاری درد سے اپجاگان” سے منسوب ہے اس باب میں زاری کی وجہ تسمیہ اور اسکے استعمال پر مکمل بحث کر کے حقائق سے مصنف نے روشناد کرایا ہے۔
دسواں باب “اردو رثائی شاعری پر عوامی ادب کے اثرات” پر مشتمل ہے یہ باب بھی تاریخ اور لساب کی مناسبت سے بہت اہم ہے کیوں کہ ہندوستان میں محاجرین حضرات نے عزا کی ابتدا کی مگر ابتدا ہی میں ان محاجروں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم یا پھر نو مسلم نے حصہ لیا جو الحمد اللہ آج تک قائم ہے اسی بنا پر وہاں کے باشندوں نے علاقائی زبان اور محاوروں کا استعمال کیا جس سے عزا پر ان کی تہذیب صاف نظر آتی ہے۔
گیارہواں باب “انتخاب عوامی مرثیہ” سے متعلق جس میں دہے ، زاریان سے آشنائی کرائی گئی ہے اور نمونہ کے طور پر کچھ کلام بھی ہے۔
جناب لئیق احمد رضوی صاحب کی عوامی مرثیہ کی روایت نے اہل علم و بصیرت کو جہاں نایاب تحفہ سے نوازا ہے وہیں عالمی اردو کتاب میلے میں نمایا مقام حاصل کیا ناقدین نے اپنے بہترین بیان و تحریر کے ذریعہ تعریف کے پل باندھے تو اسکی گونج منبر تک پہونچی کہ آیتہ اللہ عقیل الغروی صاحب قبلہ نے اپنے بہترین مشوروں سے ہدایت فرمائی اور عوام کے لئے نایاب سرمایہ بتا کرنوجوانوں سے اس کتاب کے مطالعہ پر زور دیا تاکہ وہ عزا میں تہذیب و ثقافت کے رنگ کو سمجھ سکیں اس کے علاوہ دہلی اردو اکادمی نے سال کا پہلا انعام بھی اسی کو مقرر کیا اور کیوں نہ مقرر ہوتا کیوں کہ یہ کتاب آنے والی کئی نسلوں اور صدیوں پر محیط ہے۔جناب لئیق رضوی صاحب کی کتاب عوامی مرثیہ کی روایت ہر نہج سے تحقیقی اور جامع ہے اس سے قبل اس موضوع پر جامع اور کامل کتاب نہ تھی مصنف محترم نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے کہ آنے والے افراد کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اس بنا پر تحقیقی اسکالرس کے لئے راستہ ہموار کیا جناب لئیق رضوی صاحب ابتدائے عمر سے ہی جستجوگر تھے کیوں کہ آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ دار العلوم جائس کا محترم و ادبی خانوادہ تھا وہ جائس کہ جس کے فلک پر دور میں علمی آفتاب طلوع ہوئے اور انہوں نے اپنی علمی شعائوں سے زمانہ کو نورانی بنایا جن کی گلیوں میں آج بھی علمی رمق باقی ہے انہی آفتابوں میں آج کے دور کا علمی سورج جس کی تصنیف عوامی مرثیہ کی روایت نے ادبی دنیا میں دھوم مچاکر جائس کی بلندی میں ایک منارہ کا اور اضافہ کیا۔
جناب لئیق رضوی کے لئے دسواں باب زیادہ سخت نہ تھا کیونکہ آپ کے جد میر روشن علی حیدری مرثیہ گو تھے لہذا ان کے حالات کو مسلسل سن کر ایک ولولہ کا پیدا ہونا اور ان کے مرثیوں کا مطالعہ کر کے اشتیاق جستجو بچپنہ سے ہی پیدا ہوگیا بعد میں جب الہ آباد قیام ہوا تو والد محترم جناب اقبال احمد رضوی صاحب مرحوم نے ایک ادبی رسالہ مقابلہ پچاس کے دہے میں جاری کیا جس کی بعض کاپیاں آج بھی ادارہ اردو ادبیات حیدرآباد کے کتب خانہ میں موجود ہیں اس طرح جد کی وراثت اور والد کی محنت کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے اس منزل تک پہونچے کہ آپ کی تصنیف کو وہ عروج حاصل ہوئی جو دوسروں کو نہ ہوسکی یقیناً یہ منظر دیکھ کر والدین کی ارواحیں شاد ہوتی ہوں گیں خدا آپ کی اس تصنیف کو قبولیت کا درجہ عنایت فرمائے اور آپ کو طول عمر تاکہ آنے والی نسلوں کو اور قیمتی تحفوں سے نوازتے رہیں
9324037327

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here