مو سیٰ رضا
انسانی سرشت میں داخل ’’تحقیق و جستجو‘‘ کا مادہ ہی جدیداختراعات کا سبب بنتا ہے، جواپنی ارتقائی منزل میں زمانے کی ترقی کا محتاج ہوتا ہے ۔اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے تا ایں دم بتدریج ایسے ایسے حقائق منکشف ہورہے ہیں جن کا تصور عام طورپر محال سمجھا جاتا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق ہی کی کارفرمائی ہے، جس کی بدولت نت نئے وسائل کی فراہمی اور جدید آلات سے انسان کو آگہی حاصل ہورہی ہے اور یہ سب اسی وقت ممکن ہوپایا جب منظم طور پر تحقیق کی طرف توجہ کی گئی۔ ایک کامیاب تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمانہ کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ وسائل تحقیق سے بخوبی آشنا رہے تاکہ تحقیق کے بعد زمانہ کو ’وہ‘ عطا کرے جس کی حیثیت منفرد و جداگانہ ہو۔ یہ اصول ہر میدان میں ’کامیاب تحقیق‘ کے لئے لازم ہے، خواہ وہ زندگی سے متعلق ہو یا ادب سے۔
جب تحقیق نے انسانی زندگی کو متاثر کیا تو لازماََ اس کا اثر ہمارے ادب پر بھی نمایاں ہوا جس کی وجہ سے ارباب علم و دانش اس فن کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے محسوس کیا گوکہ ’تحقیقی کام ‘انسانی دلچسپی اور محنت و سعی کا طلبگار ہے لیکن یہی تحقیقی کام اس وقت افادیت کا حامل ہوتا ہے جب اس میں کچھ اصول و ضوابط کی پابندی کی جائے اسی پہلو کے پیش نظر ارباب علم و نظر نے تحقیق کے اصول مرتب کئے جن کی مدد سے انسانی دلچسپی کو تحقیق کے راستے میں رہنمائی حاصل ہوئی اور اس کی محنت رائیگاں ہونے سے محفوظ ہو گئی۔
تحقیق کے عنوان سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں مولانا کلب عابد کی عماد التحقیق ، گیان چند کی تحقیق کا فن، رشید حسن کی “ادبی تحقیق: مسائل اور تجزیہ” ، ڈاکٹر تنویراحمد علوی کی “اصول تحقیق و ترتیب متن” اور پروفیسر ابن کنول کی “تحقیق و تدوین” کے علاوہ دیگر بہت سی کتابوں کے نام لئے جا سکتے ہیں لیکن Research Scholarکو ابھی بھی اس راہ میں ’علمائے تحقیق‘ کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ٹکنالوجی نے جس طرح طرز زندگی کو تبدیل کر کے Hi Tech. بنا دیا ہے اسی طرح تحقیقی فضا میں زندگی گزارنے والا طالب علم بھی Hi Tech نظام سے مستفید ہوئے بغیر زمانے کو ایکMeaningful Research ’افادی تحقیق‘ سے روشناس نہیں کرا سکتا.جس طرح قدیم کتابوں سے صرف نظر کر کے ایک اچھی تحقیق معرض وجود میں نہیں آسکتی اسی طرح فقط قدیم کتابوں سے استفادہ کر کے ایک گرانقدر تحقیق منصہ شہود پہ نہیں لائی جا سکتی۔
ڈاکٹر عبدالقدوس(انچارج مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس لکھنؤ) اور معاون (ڈاکٹر عبداللہ صابر) کی’رہنمائے تحقیق‘ تحقیق کے عنوان پر لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے جس میں قدیم کتابوں سے اخذِ اصول کے ساتھ ساتھ جدید ٹکنالوجی سے مستفید ہونے کے طریقِ کار پر بخوبی روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ کتاب تحقیق کے حوالے سے اس قدر جامع ہے کہ تحقیق کی راہ میں طلبا کے قدم بڑھانے کی آمادگی سے لیکر منزل کی رسائی تک ساتھ دیتی ہے۔خود ڈاکٹر عبدالقدوس ’وجہ تالیف‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’آسام یونیورسٹی سلچر، آسام میں دوران تدریس ہی میں اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کررہا تھا کہ کیوں نہ اردو زبان میں تحقیق کے موضوع پر کوئی جامع کتاب تیار کی جائے، جس میں طوالت کے بجائے ضروری مباحث اور صلب موضوع اور تحقیق کے جملہ مراحل پر روشنی ڈالی جائے۔‘‘
اس کتاب کاجائزہ لینے کے بعد اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدوس اپنی اس سعی جمیلہ میں بخوبی کامیاب نظر آتے ہیں۔
کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، جو ’تحقیقی کام‘ کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں. پہلے باب میں قارئین کو تحقیق کی ہمہ جہت پہلوؤں سے آشنائی کرائی گئی ہے، مثلاََ تحقیق کیا ہے، اقسام تحقیق ، خصوصیات و لوازمات وغیرہ۔ دوسرے باب میں تحقیق کے بہت اہم عنوان ’موضوع ‘ سے گفتگو کی گئی ہے جس کے آخر میں ’تحقیقی خاکہ کی تیاری‘اور’ مصادر، مراجع، مآخذ کی تحدید ‘کے عنوان سے فصل قائم کی گئی ہے جس میں خاکہ کی تیاری اور مآخذ سے طریقِ استفادہ پر روشنی پڑتی ہے۔ باب سوم: مواداور دیگر اہم ارکانِ تحقیق سے پْر ہے مثلاََ تحقیقی مواد، انٹرویو، آزمائش،نمونہ بندی وغیرہ۔ آخری اور چوتھے باب میں مقالہ کو کس طرح منزل تکمیل میں داخل کیا جائے سے لیکر شفوی (Viva) امتحان کی آمادگی کا بیان سلیس اور واضح انداز میں کیا ہے۔ یہ کتاب اپنے ایجاز اور جامعیت کی بنا پر دوسری کتابوں سے جدا ہے ، زبان کی نہایت سادگی نے پیچیدہ بحث کو بھی آسان سے آسان تر بنا دیا ہے ساتھ ہی اردو اصطلاحوں کے ساتھ انگریزی Term کو بھی تحریر کر دیا گیا ہے جس سے مفاہیم کا سمجھنا ہر سطح کے قاری کے لئے آسان ہو گیا ہے۔کتاب کے 222صفحہ سے لیکر 237 صفحہ یعنی 15صفحات کو تحقیق و تدوین کی اصطلاحات کے لئے مخصوص کیا گیا ہے جس میں ابجد کے اعتبار سے اردو اصطلاحات مع انگریزی Term کے درج ہیں. یہ صفحات نہایت اہم ہیں کیونکہ ان میں کچھ ایسی اصطلاحات بھی موجود ہیں جنکا انگریزی ترجمہ عام ڈکشنری میں دستیاب نہیں۔زیر عنوان کتاب’رہنمائے تحقیق‘ کی کتابیات دیکھنے سے ڈاکٹر عبدالقدوس اور معاون کی عرق ریزی اور بالغ نظری کا اندازہ ہوتا ہے جس میں 23اردو اور 10انگریزی کتابوں کے نام درج ہیں۔ کتاب کا گرانقدر علمی مقدمہ پروفیسرمحمد ثناء اللہ ندوی(شعبہ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) کی رواں قلم اور جواں فکر کا نتیجہ ہے جس کا مطالعہ اجمالی طور پرمکمل کتاب سے آشنا کرا دیتی ہے۔ تحریرِ’سرگزشت کتاب‘ راقم ڈاکٹر عبدالقدوس کی دانشورانہ فکر ، بلند نگہی اورمستحکم عزم و ارادے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تقریباََ 250صفحات کی یہ کتاب Research سے تعلق رکھنے والے ہر خاص وعام کے لئے ’راہنما‘ ہے جس کے لئے ڈاکٹر عبدالقدوس (انچارج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس لکھنؤ) اور معاون لائق صد ستائش ہیں۔