کچھ دنوں پہلے اخبارات اور نیوز چینل پر ایک خبر دیکھی تھی کہ ایک پڑھے لکھے اعلی عہدے پر فائز بیٹے نے اپنی ماں کو ساتویں منزل سے پھینک دیا یہ سارا واقعہ ایک سی سی ٹی وی کیمرے نے قید کر لیا تھا تب سے اس موضوع پر لکھنا چاہ رہی تھی پر عدیم الفرصتی نے قلم ہاتھ میں لینے نہ دیا جس ماں نے مہینوں اپنے پیٹ میں جس کی حفاظت کی تھی جس نے دنیا دکھائی جس نے چلنا بولنا سکھایا ایک بیٹے نےاسکی ہی سانسیں چھین لی افسوس صد افسوس !حیران کرنے والے ایسے کئی قصّے ہیں جنہیں جان کر ہمیں حیرانگی تو ہوتی ہی ہے پراس سےکہیں زیادہ افسوس بھی ہوتا ہے
ہمارے جان پہچان کے ہی ایک شخص تھے جنہیں سب نانا کہتے تھے تو ہم بھی انھیں نانا ہی کہتے جب میری عمر مشکل سے 10 سال ہوگی …انکے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی وہ ایک کولڈ ڈرنک کی ڈھکن بنانے والیکمپنی میں کام کرتے تھے حالات اتنے اچھے نہیں تھے پر بمبئی میں ایک چھوٹا سا روم تھا انکا ….بچے بڑے تھے تو شادی کرا دی یہ ریٹائرڈ ہوے ….چھوٹے سے روم میں رہنا ممکن نہ تھا تو روم بیچ کر بیٹوں میں پیسے تقسیم کئیے بچے سب اپنے فلیٹ میں شفٹ ہو گئے پر بوڑھے ماں بابا کے لئے کسی کے بھی گھر میں جگہ نہ تھی تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ گاؤں کے گھر میں شفٹ ہو گئے ..بیٹی کبھی کبھار آکر دیکھ جاتی ….ایسے میں ایک دن نانی پر فالج کا حملہ ہوا اور انہوں نے بستر پکڑ لئے بات کرنا بھی جیسے بھول گئی ….نانا نے بیٹوں اور بہوؤں کی طرف مدد کی گہار لگایی پر بہوؤں نےذمہ داری لینے سے صاف انکار کر دیا اور خرچ دینے سے بیٹوں نے ہاتھ اٹھا لئے نانا دل مسوس کے رہ گئے
پاس پڑوس رشتے داروں سے تھوڑی بہت مدد مل جاتی پرنانی کی ذمہ داری ان کو نہلانا، کھلانا ،پہنانا، کھانا بنانا وہ بھی اس عمر میں نانا تھک سے جاتے…. مگر وہ اپنی اہلیہ کو کیسے چھوڑ سکتے تھے جس نے ہر خوشی اور غم میں ان کا ساتھ دیا تھا….. وہ تو کچھ بول بھی نہیں پاتی تھی سات سال سے دونوں ساتھ رہتے تھے پر ایک دوسرے کو اپنے دل کا حال تک نہیں بیان کر پاتے اس دن حسب عادت نانا نانی کو ناشتہ کرا کر اپنے مکان کی سیڑھی پر آ کر بیٹھ گئے….. فکر ان کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی بہت دیر سے جب وہ گھر کے اندر واپس نہیں گئے تو سامنے کے گھر سے ان کے دوست نے آواز لگائی کیا بات ہے آج صبح سے باہر بیٹھے ہو اوردو پہرگزر کر شام ہونے آئی اندر کیوں نہیں جا رہے….. پر انکی بات کا جب کوئی جواب نہ ملا. تو انہیں تشویش ہوئی
اور وہ نانا کے قریب آئے پر نا نا اپنی آنکھیں کھلی رکھے رکھے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تھے اناً فاناً میں لوگ جمع ہو گئے ہر کسی کو نانی کی فکر ہونے لگی بیٹے بہو بھی آئے پر ان کے چہرے سے غم سے زیادہ فکر جھلک رہی تھی کوئی نانی کے نزدیک بھی نہیں گیا اس ڈر سے کہ اب نہ جانے یہ اپاہج ماں کس کے حصے میں آ ئے گی۔۔۔ ۔۔۔۔۔ بے دلی سے لوگوں سے ملناصاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔ آخری دیدار کے لیے جنازہ نانی کی کھٹیا کے پاس لایا گیا۔۔۔۔۔۔۔ نانی کی آنکھیں مانو نانا پر جم سی گئی۔۔۔۔۔۔۔ لب لرز پڑے، آنکھیں پتھر ہو گئیں اور جسم ساکت ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ نانی بھی نانا سے جاملیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جانتی ہوں کہ ان کے بعد کون دیکھے گا،کون خیال رکھے گا اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں نافرمان بیٹوں کا محتاج نہ کیا اور دونوں ساتھ ساتھ قبرستان لے جائے گئے پاس پاس دفنا گئے بڑھاپا ہے آئے گا ضرور یہ بچے بھول کیوں جاتے ہیں کم عمری کی موت کی دعائیں کوئی نہیں دیتا سب لمبی عمر کی دعائیں دیتے ہیں اور لمبی عمر میں دائمی بڑھاپا ہی ہے بچپن اور جوانی اٹھ کر چلی جاتی ہے
کئی بچے ماں کو اس لیے اپنے ساتھ رکھتے ہیں کے اپنے بچے سنبھالنے کے لیئے آیا مہنگی پڑتی ہے…. بابا کے بعد اکیلی ماں یا تو پینشن پانے کا ذریعہ ہے یا تو گھر کی نوکرانی دو بوڑھا بوڑھی بوجھ لگتے ہیں دس میں سے آٹھ گھروں میں دادا دادی گاؤں کے پرانے گھر میں اکیلے ملیں گے یآ آشرم میں اور کچھ ہونگے جن کی گھر میں کوئی قدروقیمت ہی نہیں نہ ان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے کوئی ہے نا ان کی ہدایت بھری باتوں کی کسی کو ضرورت ہے ساری زندگی کی گاڑھی کمائی کے بعد جو پینشن آتی ہے اس میں ان کے لیے دوائیں بھی مانگ مانگ کے حصے میں آتی ہے جوس تو دور کی بات ایک گلاس دودھ بھی نہ ملے پانی ہی کوئی ذمہ داری سے رک جائے تو بہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔پال پوس کر بیٹوں کو بڑا کیا تو بہویں لے گئی بیٹیاں سسرال کی ہوگئی……بوڑھا بوڑھی دونوں ساتھ ہو تو ایک دوسرے کو دیکھ کر گزارا ہو بھی جائے مگر تنہائی کا درد ضعیفی میں راتوں کو سونے نہیں دیتا تو دل کی بات دل میں دبا کر دن بھی نہیں گزار پاتے ناتے پوتوں کی طرف اٹھتی محبت کی نگاہیں. ان کو ویسٹ آف ٹائم لگتی ہیں بہووں کو سیریل سے دوستوں سے فرصت نہیں اور بیٹوں کو ماں باپ کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ماں باپ محبت پانے کے محتاج نہیں وہ تو اپنا شفقت بھرا ہاتھ تمہارے ماتھے پر پھیرنا چاہتے ہیں دعاوں سے تمہارے ماتھے کو چومناچاہتے ہیں جبتم رال ٹپکاتے منہ کو بھی وہ پیار سے چومتےتھے بہتی ناک کو اپنے آنچل سے صاف کرتے تھے جب سو سو کر کے تم ان کی گودی گیلی کرتے تھے تم کو اسی محبت سے گلے لگاتے تھے وہ ماں باپ انکے کپکپاتے ہاتھوں کا لمس ان کی بھیگی پلکیں آج بھی اسی محبت سے تمہیں چھونا چاہتی ہیں پر آج تمہیں ان کا لڑکھڑانا ڈگمگانہ اور کمزوری کے بعد کھانا یارال ٹپکانا کتنا ناگوار گزرتا ہے آج بچے اپنے ضعیف والدین پر ہاتھ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتے اونچی آواز کر کے ماں باپ کو چھپ کرآنا عام بات ہو گئی ہے ضعیف ماں باپ بوجھ بن گئے ہیں جن ماں باپ نے سمجھداری سے تم کو سمجھداری سکھائیں آج انہیں کچھ نہیں سمجھتا کہہ کر ٹال دیتے ہو یہ مت بھولو کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے اللہ نے زندگی دی ہے جوانی دی ہے بڑھاپا تم پر بھی آئے گا یہ وقت تم پر بھی آ سکتا ہے تب کوئی تمہارے ساتھہ ایسا نہ کرے جو آج ہم اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں کاش کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے اللہ نیک ہدایت دے۔
بُڑھاپا تم پر بھی آےگا …..!!!
Also read