’ ’باغ کا دروازہ‘‘ایک تجزیاتی مطالعہ

0
1486

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


محمد بشیر کرگلی 

افسانہ ’’باغ کا دروازہ‘‘‘ مجموعہ میں شامل چوتھی کہانی ہے جو داستانی انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔کہانی میں کردار ،ماحول اور فضا سب کچھ علامتی ہے۔افسانہ نگار نے بھارت کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے پروان چڑھنے اور اس کے عروج کی خبر بیاں کیا ہے کہ کس طرح ہزاروں سال پہلے ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ ہندوستان کا آمد ہوا، اور ان کے آپسی میل ،جول اور رہن سہن سے ایک مشترکہ تہذیب جنم لی،جو دیکھنے میں باغ کی پھولوں کی طرح سرسبز نظر آتی تھی ، لیکن آہستہ آہستہ یہ باغ برباد ہوتا ہوا نظر آنے لگا جب اکثر یتی طبقے کے لوگوں نے اقلیتی طبقوں کی تہذیب و ثقافت کو اس سے مٹانے کی کوشش کی ۔میری نظر میں باغ کا اجڑنا آج کل کی دور کے اس حکمران کی طرف اشارہ کرتا ہے ،جو لوگوں کو مذہب کے بنیاد پر بانٹنے کا کام کر رہا ہے۔
اس افسانہ میں بیان ہوئی کہانی میں جانب داری پر گہرا طنز کیا گیا ہے اور باغ کو مٹنے سے بچانے کے لیے ذہن سے کام لینے اور علم کا صحیح استعمال کرنے کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور یہی اس افسانہ کا موضوع ہے۔تکنیک اور اسلوب کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب ترین افسانہ ہے کیونکہ اس میں داستانی انداز ،علامتی واستعاراتی اور تمثیلی اسلوب ،علامتی کردار اور فضا وغیرہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔کہانی میں بھرپور علامتوں کا استعمال کیا گیا ہے اس لیے اس کہانی کو علامت نگاری کے اعتبار سے ایک کامیاب ترین قرار دینا چاہئے۔داستانی انداز کے حوالے سے ایک اقتباس درجہ ذیل کئے جاتے ہیں:
’’دادی جان جب سبھی شہزادے باغ کی رکھوالی میں ناکام ہو گئے تو چھوٹے شہزادے نے بادشاہ سلامت سے کیا کہا۔۔۔۔۔۔۔؟نوراز تو اب بڑا ہو گیا ہے۔کہانیاں سننا چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔۔دادی جان یہ کہانی کہاں ہے،یہ تو ہمارے ہی شہر کے باغ کا قصہ ہے۔باغ کوٹھی والا باغ۔ہاںمیرے لال ،یہ ہمارے شہر کی بھی داستان ہے اور ان شہروں کی بھی جو ہم نے نہیں دیکھے ہیں‘‘۔ص۔۴۳
اس اقتباس سے قاری کا ذہن پر یشانی میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ قاری یہ سوچنے لگاتا ہے کہ یہ واقعی حقیقت ہی ہے یا کہانی۔اور دادی کا یہ کہنا کہ یہ ہمارے شہر کی بھی داستان ہے اور ان شہروں کی بھی جس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ اس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ایک ہی کہانی میں بہت سارے شہروں کی کہانی شامل ہیں۔افسانہ ’’باغ کا دروازہ میں جو کہانی لکھی گئی ہے اس کا آغاز اس طرح ہوتی ہے کہ دادی نوروز کو ایک باغ کی کہانی پیش کرتی ہے جس پر دیو کا سایہ ہے،جو سخت نگہبانی کے باوجود صبح ہوتے ہوتے باغ کے سارے چمن کو اجاڈ دیتا ہے ۔باغ کے پہرے کی کامیابی کے لیے بادشاہ سلامت نے آدھی سلطنت دینے کا حکم کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ باغ کی حفاظت نہ کر پایا تو ملک بدر کیا جائے گا۔بادشاہ کے پانچ بیٹیوں نے اپنی اپنی باری پر باغ کی رکھوالی کا کام اپنی ہاتھوں میں لیا ،لیکن آخرکار سب ناکام ہوئے،اس کے نتیجہ میں سب شہر بدر ہوئے اور جب سب سے چھوٹے شہزادہ ’’گل ریز‘‘ نے باغ کی رکھوالی کا کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہا اور بادشاہ سے اجازت چاہی تو بادشاہ سلامت کشمکش میں مبتلا ہوگئے اور کہنے لگے۔بقول افسانہ نگار:
’’ نہیں جان پدر،شرط مشکل ہے اور تو عزیز۔ اگر تیرا پہرا بھی ناکام ہوا تو اس وطن کے آخری ستارے کو بھی شہربدر ہونا پڑے گا۔شہر خالی ہو چکا ہے۔تیرے پانچوں بھائی بھی میری آنکھوں کو ویران کر گئے ہیں‘‘۔ (ص۔۴۴)
باپ کے نہ چاہنے کے باوجواد شہزادہ گل ریز نے باغ کی حفاظت کا ذمہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔شہزادہ گل ریز کو کسی قلندر نے بتایا تھا کہ اس باغ پر کسی دیو کا سایہ ہے ،جو بھی اس کا پاسبانی کرے وہ سحر نمودار ہوتے ہی نیند کی زد میں آجائے گا اور باغ کی رکھوالی میں ناکام ہو جائے گا۔اگر کسی بھی طرح جاگتا رہ جائے تو دیو پر فتح ہو جائے گا۔ قلندر کی بات پر یقین کرتے ہوئے شہزادہ گل ریز نے نیند نہ آنے کی تدبیر میں اپنی ساتھ ایک چاقو اورشیشی میں پسی ہوئی سرخ مرچیں اپنے ساتھ لے کر باغ کی طرف روانہ ہوا، اور آخر کار باغ میں پہنچ کر باغ کے تمام دروازے بند کرکے پہرہ دینے لگا۔آدھی رات کو جب گل ریز کو جھپکیاں آنے لگے تو اس نے چاقو سے اپنی کننّی انگلی تراش کر اس میں مرچیں بھرنے لگا اور نیند آنکھوں سے غائب ہو گئی،یہاں تک کی سحر نمودار ہوئی۔عین اسی وقت باغ میں دیو داخل ہوا اور اس نے باغ کی پھولوں کو روندنا شروع کیا۔ شہزادہ گل ریز اور دیو کے بیچ میں لڑائی شروع ہوئی اور آخر کار جیت گل ریز کی ہوئی۔ دیو نے اپنی جان بخشنے کے عوض میں گل ریز کو سات بال دے جو ضرورت کے وقت کام آسکتے تھے۔بقول افسانہ نگار:
’’آخر کار دیو کی ہار ہونی تھی سو ہوئی۔بولا تو جیتا میں ہارا۔اب مجھے چھوڑ،اس کے عوض تجھے سات بال دوں گا،جو وقت ضرورت تیرے کام آئیں گے۔جب مصیبت پڑے تو ایک بال جلا دینا،باقی برے وقت کے لے رکھ لینا‘‘۔ص۴۵۔۴۴
گل ریز نے باغ کی رکھوالی میں کامیابی حاصل کر کے بادشاہ سلامت سے سلطنت نہیں لی بلکہ وہ اپنے پانچ بھائیوں کی تلاش میں نکل پڑا۔اس سے بھائی تو مل گئے لیکن انہوںنے گل ریز کے ساتھ برا سلوک کیا۔ان پانچ بھائیوں کو حسد ہوئی کہ جس کام میں ہم سب ناکام رہے اور شہر بدر کیے گئے ، اس کام میں چھوٹے بھائی نے کامیابی حاصل کرلی ۔حسد کے مارے انھوں نے گل ریز کو سائیس بنا کر رکھا۔ایک دن گل ریز نے نیند کا ناٹک کر کے اپنے ہی بھائیوں سے یہ سنا کہ جو بھی محل کے پہلے دروازے سے برج کی محراب میں بیٹھی ہوئی شہزادی گلشن آرا کو پھولوں کی گیندسے مارنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ اسی سے شادی کرے گی۔لیکن وہاں ہوا اتنی تیز چل رہی تھی کہ شہزادی تک گیند کا پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔مختلف ملکوں سے آئے ہوئے شہزادے ناکام ہو کر واپس چلے گئے،حد تو یہ ہے کہ گل ریز کے بھائیوں نے بھی اپنی قسمت آزمائی لیکن وہ بھی ناکام رہے۔
وہاں کی ہوا کی تیز رفتار کو دیکھ کر شہزادہ گل ریز کو اس طلسمی بالوں کا خیال آیا جواس کو دیو نے دیا تھا اور مصیبت میں جلانے کو کہا تھا۔بہر حال اس جادوئی بال کی مدد سے گل ریز شہزادی گلشن آرا کو پھولوں کا گیند مارنے میں کامیاب ہوگیا۔لیکن پھولوں کی گیند مارتے ہی گل ریز غائب ہو گیا۔اسی طرح گل ریز سات دن تک جادوئی بال کی مدد سے شہزادی کو پھولوں کی گیند مارتا رہا اور غائب ہوتا رہا۔لیکن ساتوے دن شہزادی کے منصوبے کے مطابق سپاہیوں نے گل ریز کے داہنے پیر کو زخمی کر دیا۔شہر بھر میں زخمی پیر والے شخص کی تلاشی ہوئی تو گل ریز کو ایک سرائے کے پچھواڑے سائیس کے بھیس میں پایا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔شہزادی کی ضد سے دونوں کا شادی ہوا لیکن بادشاہ کو کم رتبہ رشتہ پسند نہیں آیا۔انہوں نے دونوں کو دو دھڑی ا ناج اور ایک اشرفی دے کر سلطنت سے بے دخل کر دیا۔گل ریز اور گلشن آرا نے مل کر اپنی نئی دنیا بسائی۔ان دونوں کی دنیا بسانے کاقصہ طارق چھتاری کی زبان میں ملاحظہ فرمائیں:
’’دنیا بسانے کا وہی پرانا طریقہ ۔ ایک اشرفی کے کچھ چاول،کچھ ریشم کے دھاگے، کچھ زری کے تار اور کچھ اوزار، چاول کے دانے میدان میں ڈالے۔رنگ برنگی چڑیاں آئیں،پر ٹوٹے ،ان کو سمیٹ کر پنکھا بنا۔شہزادہ بازار میں بیچ آیا ۔پھر چاول کے دانوں،ریشم کے دھاگوں اور زری کی تاروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ہر روز کئی کئی پنکھے تیار ہونے لگے۔پھر فرشی پنکھے،چھت سے لٹکنے والے پنکھے اور دیوار کے قالین بننے لگے۔کاروبار بڑھا تو ایک گڑھی نما قلعہ بنوایا،یوں ان کی دنیا آباد ہو گئی۔دونوں نے ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کی اور پھر ایک باغ لگایا‘‘۔ ص۔۴۶
اس اقتباس سے ہر کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ افسانہ نگار نے چندہی جملوں میں کتنی بڑی خوبی کے ساتھ گل ریز اور گلشن آرا کی دنیا بسانے کی منظرکشی کی ہے۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ افسانہ نگار نے دنیا کی تہذیب و تمدن کی تاریخ لکھ دی ہو۔ بہر حال یہاں تک کہانی دادی جان کی زبان سے سننے کے بعد نوروز بولنے لگتی ہے۔ بقول افسانہ نگار:
’’بس دادی جان۔آگےکاقصہ مجھےمعلوم ہے۔تجھے کیسے معلوم؟ہمارے ہی شہر کی تو کہانی ہے۔باغ کوٹھی کے دربان شیزفام نے مجھے سنائی تھی ۔اور دادی جان وہ کہانی میں نے رات میںنہیں دن میں سنی تھی‘‘۔ ص۔۴۶
نوروز نے شہزادی گلشن آرا کے لگائے ہوئے باغ اور اس کے ایک ایک پودے کو سجاتے اور پھر بعد میں اجڑتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔اب کہانی نوروز کی زبان سے بیان ہوتی ہے۔اس سے پہلے کہانی شروع سے یہاں تک دادی جان کی زبانی بیان کی گئی تھی۔یہ کہانی کلائمکس در کلائمکس کی بہتریں مثال ہے۔
نوروز ایک طلسمی واقعات کا بیان یوں کرتا ہے کہ ایک روز شہزادی کے شہر میں نٹوں کی ایک ٹولی داخل ہوئی۔ ایک نوجوان نٹ اوراس کی نٹی نے یہ دعویـ کیا تھا کہ وہ نقلی پر لگا کر دو کوس تک اڑسکتے ہیں۔یہ خبر پوری شہر میں پھیل گئی یہاں تک کہ شہزادی گلشن آرا تک پہنچی ۔شہزادی نے نٹ کے اس جوڑے کو بلوا بھیجا اور اپنی ہنر دکھانے کو کہا۔دونوں چھاج کی نقلی پر لگا کر اڑنے لگے لیکن ڈھائی کوس تک اڑکر زمین پر گرے اور دونوں مر گئے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب گلشن آرا خود وہاں دیکھنے کے لے گئی تو وہاں نٹ تھے نہ نٹی بلکہ دونوں کے لاش کی جگہ پر دو پھول کھلے ہوئے تھے ۔گلشن آرا نے اس جگہ پرالگ الگ قسم کی پھول وپھل والا ایک باغ لگنے کا حکم دیا۔بقول افسانہ نگارـ:
’’شہزادی گلشن آرا نے حکم نامہ جاری کیا کہ یہاں ایک ایسا باغ لگایا جائے جس میں دنیا بھر کے نایاب ونادر پھول ،طرح طرح کے پھل اور بے شمار خوبصورت درخت ہوں۔باغ کی چہار دیواری ایسی ہو کہ جس میں ہزار دروازے ہوں اور سارے دروازے سبھی کے لیے کھلے رہیں۔باغ کی پہرے داری گل صد برگ کریں اور ان کی سواری گل گوںہوں۔شہزادی کے حکم کی تعمیل ہوئی۔پہلے تمر ہندی، برگد،پیپل اور املتاس کے درخت لگائے گئے اور پھر درمیانی روشیں مولسری،آبنوس اور صنوبر کے درختوں سے آراستہ کی گئیں۔باغ کے وسط میں ایک عالی شان عمارت تعمیر کی گئی جو باغ کوٹھی کے نام سے مشہور ہوئی ۔لوگ مختلف ممالک سے آتے،اپنے ساتھ نایاب قسم کے پودے لاتے اور باغ کوٹھی میں قیام کر کے محسوس کرتے گویا باغ میں نہیں شہزادی گلشن آرا کے دل میں قیام پزیر ہوں۔کچھ آنے والے کوہ قاف کو عبور کر کے آئے تو کچھ سمندر کے راستے ۔دور دور تک اس گل کدے کی شہرت تھی۔لوگوں کی آمد کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔اب گل دائو دی ،گل رعنا اور گل آفتاب کے ساتھ ساتھ کرسمس ٹری ،پام کے درخت اور منی پلانٹ کی بیلیں بھی اس چمن زار میں دکھائی دینے لگی تھیں‘‘۔ ص۔۴۷
اس اقتباس کو بار بار پڑھنے کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ افسانہ نگار نے ملک ہندوستان اور اس کی مشترکہ تہذیب کے پروان چڑھنے کی کہانی پیش کی ہے،اور اس کہانی میں باغ کو دراصل ہندوستان کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔اس لیے علامت نگاری کے تحت یہ ایک کامیاب ترین افسانہ ہے۔شہزادی گلشن آرا نے باغ کے سارے دروازوں کو سبھی کے لیے کھلے رکھنے کا حکم دیا۔دنیا کے مختلف خطوں اور دور دراز ملکوں سے لوگ ہندوستان آئے ان مختلف قوموں کی آمد اور ان کے میل جول سے ہندوستان میں ایک مشترکہ تہذیب و ثقافت نے جنم لیا۔اس مشترکہ تہذیب کی وجہ سے ہندوستان ایک سرسبز باغ کی طرح دکھائی دینے لگا، لیکن پھر اچانک ایک ایسا وقت آیا کہ باغ اجڑنے لگا۔نوروز سوچنے لگا کہ اچانک یہ سرسبز باغ کیسے ویران ہوئے؟وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے چند لوگوں کو باغ کی پاسبانی کا عزم لیتے اور نعرے لگاتے ہوئے باغ میں جاتا ہوا دیکھا۔
اب باغ کی فصیل اونچی کر دی گئی اور باغ کے سارے دروازے بند کر دیا گیا ، صرف صدر دروازہ کھلا چھوڑا دیاگیا،جس پر سیاہ وردی پہنے سپاہی آبنوس کے درختوں کی طرح کھڑا پہرا دے رہا تھا۔اس سیاہ وردی پہرے دار نے نوروز کو یہ کہہ کر باغ کے اندر جانے نہیں دیا کہ داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور کاروائی شروع ہو چکی ہے۔دوسرے دن نوروز سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی باغ کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ جہاں جو چیز ہونا چاہئے وہاں نہیں تھی۔بقول افسانہ نگار:
’’صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ جہاں مولسری اور صنوبر کے شجر تھے وہاں ببول کی کانٹے دار جھاڑیاںاگ آئی ہیں۔حوض جس میں ہر پل فوارہ چلتا رہتا تھا اسے بارش کے پانی اور کائی کی پرتوں نے مینڈکوں کامسکن بنا دیا ہے۔سامنے نگاہ کی تو کھلاکہ باغ کوٹھی کے کھنڈر دم سادھے کھڑے ہیں۔کوٹھی کی بلند محراب کی طرف گردان اٹھائی تو اندھیرے میں ڈوبے آسمان کا عکس نظر آیا۔محراب ٹوٹ کر گرچکی تھی اور ستون سرنگوں تھے‘‘۔ ص۔۴۸
(جاری)
ان تمام حالتوں کو دیکھ کر نوروز سوچنے میں مجبور ہو جاتا ہے کہ نگہداشت کی تمام کوشش برقرار ہے لیکن باغ دن بہ دن ویران ہوتا جا رہاہے۔ وہ اندازہ لگاتا ہے کہ شاید وہ ہزاروں سال پرانا دیو پھر سے واپس تو نہیں آگیاہے۔بس یہ سوچ رہا تھاکہ اچانک ایک بھیڑ باغ کے اندر داخل ہوئی ۔ایک شخص چبوترے پر کھڑا ہو کر کہنے لگا۔بقول افسانہ نگار:
’’باغ کی حفاظت کی ذمہ داری اب ہماری ہے۔صدر دروازے کو بھی باقی دروازوں کی طرح بند کر دینا ہو گا۔ مجمع سے ایک آوازابھری ۔۔۔۔۔۔باہر سے کسی کو آنے کی اجازت نہیں ۔یہ کہہ کر اس نے دامن سمیٹ لیا اور بیٹھ گیا۔۔چبوترے پر کھڑا شخص پھر بولا ۔۔۔۔۔۔یوں تو ہم صدیوں سے اس باغ میں کسی گل ریز اور کسی گلشن آرا کو نئی قسم کا کوئی بھی پودا لگانے نہیں دیا ہے۔کیوںکہ ہر نیا پودا پرانے پودے کو غارت کر دیتا ہے ۔ چہاردیواری کے باہر سے لائے ہوئے پودے لگا کر باغ کی فضا کو آلودہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ ص۔۴۸
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ہندوستان کے اکثریتی فرقے کے لوگ ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جو آج کل برسر اقتدارحکومت کی طرف سے بھی ہو رہاہے ۔اسی لیے وہ باغ کے تمام دروازوں کو بند کر دیتی ہے۔باہر سے لائے ہوئے پودوں کو اندر لانے کی اجازت نہیں ہے،اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اندر کے بہت سے لگے ہوئے پودوں کو بھی جڑسے اکھاڑکر باہر پھینک دے جا رہے ہیں ۔ان تمام منظر کو دیکھ کر نوروز حیرت میں پڑجاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے۔بقول افسانہ نگار:
’’نوروز دیوار کی آڑ میں کھڑا حیرت سے سن رہا تھا ۔نئے پودوں کی آمد بندش؟کہیں باغ کے ویران ہونے کی یہی وجہ تو نہیں۔ہاں یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ہو سکتا ہے باغ اجڑا ہی نہ ہو بلکہ نئے پھولوں کے نہ کھلنے اور نئے پھلوں کے نہ پھلنے کے سبب دنیا کے دوسرے باغوںکے مقابلے میں اجڑتا ہوا سا محسوس ہو رہا ہو‘‘۔ ص۔۴۹۔۴۸
اس اقتباس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کہانی میں خود کلامی monology کی تکنیک کا استعمال ہوا ہے ۔افسانہ نگار ہمیں نوروز کے ذریعے باغ کے اجڑنے کی منظر کشی بیاں کرتا ہے کہ ہندوستان کے اکثر یتی فرقے کے تنگ نظر لوگوں نے اقلیتی طبقہ کے تہذیب کو مٹانے کی سازشیں کیں،جس کی وجہ سے باغ اجڑتا ہوا دکھائی دینے لگا۔افسانہ نگار نے اس افسانے میں زیادہ تر علامتی و استعاراتی انداز میں کہانی کو پیش کیا ہے۔بقول افسانہ نگار:
’’اب اس نے دیکھاکہ چبوترے پر کوئی شخص آکر کھڑا ہے ۔اس شخص نے شلوکے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور مسکراتے ہوئے باغ کے طرف اشارہ کیا،جیسے اس نے رکھوالی کا کوئی کار گر طریقہ ڈھونڈنکالا ہو۔دیوار کے پیچھے سے نوروزؔ نے جھانک کر دیکھا اورششدررہ گیا۔وہاں سے گل رعنا،گل جعفری اور گل سوسن کے پودے اکھاڑدیے گئے تھے۔ہاں کیتکی اور ناگ پھنی کے پودے قطاروں میں اسی طرح لگے ہوئے تھے۔باغ کی صفائی کے نام پر خودر وگھاس سمجھ کر ان لوگوں نے سب پودے اکھاڑ پھینکے۔گل سوسن بھی !اس نے چیخ کر کچھ کہنا چاہا مگر ا ب اس کی زبان پوری طرح گنگ ہو چکی تھی۔کیوڑے کی جھاڑیوں سے ایک سانپ نکلااور گل شب افروز کے جھنڈ سے ہوتا ہوا بھیڑ میں شامل ہوگیا۔ کچھ لوگ بلّم بھالے لے کر دوڑے اور سانپ مارنے کے بجائے گل شب افروز کے پودوں کو جڑ سے اکھاڑنے لگے۔اب حوض پر کھڑا وہ شخص کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیکاراور بے میل پیڑ پودے اکھاڑ پھینکو۔برگدکی صف میں برگد اور پیپل کی صف میں پیپل۔پلکھن ،چیڑ ،ساکھو اور بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات ادھوری ہی تھی کہ بغیر کچھ سوچے سمجھے بھیڑ چاروں طرف بکھر گئی اور پلک جھپکتے خیار شنبر، پام اور ایروکیریا کے درخت بھی اکھاڑ پھینکے۔‘‘ ص۔۴۹
(جاری)
پی،ایچ ،ڈی اسکالر شعبہ اردو ,مانو حیدر آباد

افسانہ نگار نے تنگ نظر لوگوں کی نفسیات کو بڑی فن کار ی کے ساتھ بیان کیا ہے۔اکثر یتی فرقے کے تنگ نظر لوگوں نے باغ کے کچھ پودوں کو چھوڑکر باقی تمام پودوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔انہوں نے باغ کی صفائی کے نام پر باغ کو برباد کیا۔نوروز حیران ہوا کہ آخر کار یہ باغ کی زیبائش کا کون سا طریقہ ہے۔چنانچہ نوروز نے اللہ سے دعا کی کہ پروردگار عالم کوئی ترکیب بتا۔ اسی دوران اس نے دیکھا کہ کچھ نوجوان ایک ہاتھ میں چاقو اور دوسری ہاتھ میں شیشی لیے باغ میں داخل ہوے۔ وہ سب باغ کے کونے میں پھیلنا ہی چاہے لیکن اچانک ایک بوڑھا شخص سامنے کھڑا ہوا اور کہنے لگا اب کوئی دیو باغ کو اجاڑنے کے لیے نہیں آتا۔اب اس باغ کی اجڑنے کی وجہ کچھ اور ہے ۔اس لیے نگہبانی کی تدبیر بھی کچھ الگ سی ہو گئی ،یہ سن کر سب ایک ایک کر کے واپس چلے گئے، لیکن باغ کے اجڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔باغ کی حفاظت کے تمام حربے آزمائے گئے مگر ہر بار ناکام رہا اور باغ برابر ویران ہوتا رہا۔آخر کار ایک دن سب لوگ سورج طلوع ہونے سے پہلے باغ کے صدر دروازے پر جمع ہوئے،تو نوروز بھی اس وقت وہاں پہنچا اسی دوران شام کو اچانک لوگوں کے بیچ میں سے یہ آواز آئی جب پلٹ کر دیکھا تو ایک بوڑھا شخص صدر دروازے کی طرف چلے آرہا تھا۔ بوڑھے نے جو کہا وہ افسانہ نگار کے لفظوں میں درج ذیل ہیں:
’’سب سے پہلے باغ کے تمام دروازے کھولنے ہوں گے‘‘ ص۔۵۱
افسانہ نگار نے یہاں پر وسعت نظری کے فلسفے کو اپنانے والوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جنہوں نے باغ یعنی ہندوستان کے تمام دروازوں کو بند کر کے رکھا ہے، اس کے بعد بوڑھا پھر بولتا ہے کہ اب سب لوگوں سے گذارش ہے کہ ٓاپ اپنی مٹھیاں کھول لیں۔جب سب لوگوں نے ایسا کیا جیسا بوڑھے نے کہا تھا تو صدر دروازہ پھر سے کھل گیا۔ اس کے بعد بوڑھا باغ کے اندر داخل ہو کر نوروز کے ہاتھ میںسیاہ دستے اور تیز دھار والی کوئی شے اور ایک شیشی نکال کر تھما دی اور کہا۔بقول افسانہ نگار:
’’اگر تو اس کا صحیح استعمال کرے گا۔تو یہ باغ قیامت تک شاداب وسرسبز رہے گا‘‘ ص۔۵۱
اوپر دے گئے اقتباس سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ بوڑھے نے نوروز کو صحیح علم کا استعمال کرنے کا کہا ہے۔ یہاں سیاہ دستے اور تیز دھار والی چیز سے مراد قلم ہے، اور شیشی سے مراد دوات ہے۔ آخرکار نوروز نے قلم اوردوات کا استعمال کیا تو اس کے چہرے سے دانشوری کی شعاعیں پھوٹنے لگیں اور جب نوروز نے آسمان کی طرف دیکھا تو اس سے پریوں کی ایک شہزادی جس کے ماتھے پر نقرئی تاج، ہاتھ میں قدیم ساز ہنس پر سوار ہو کر باغ کے دروازے کے قریب سے گزرتی ہوئی دکھائی دی۔
کہانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ افسانہ نگار نے کہانی میں ڈرامائی انداز کو برقراررکھا ہے اور کہانی کلامکس درکلامکس کی شکل میں اپنے انجام تک پہنچتی ہے۔ میری نظر میں اس کہانی کا جاندار کردار ’’نوروز‘‘ہے،جس کو افسانہ نگار نے علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔نوروز نے اپنی آنکھوں سے ہندوستان کی اس تاریخ کو دیکھی تھی جب مختلف علاقوں سے مسلمان اور دیگر لوگ ہندوستان آئے تھے ۔انہوں نے ہندوستان کو سنورتے اور اجڑتے بھی دیکھا تھا۔اسی لیے افسانہ نگار نے ہندوستان کی تاریخ کا ذکر نوروز کی زبانی کی ہے۔کئی سال پہلے ہندوستان میں الگ الگ جگہوں اور ممالک سے لوگ آنے لگے ،اور ان کے میل جول اور اتفاق کے نتیجہ میں ایک مشترکہ تہذیب پروان چڑھی تو اس وقت ہندوستان ایک پھولوں کی باغ کی طرح نظرآتا تھا، لیکن بعد میں کچھ باشعور لوگوں نے اس چمن کو تباہ کر دیا۔
افسانہ نگار نے ہمیں اس بات کا احساس کروایا ہے کہ پہلے باغ کی ویرانی کی سبب دیو کا تھا ۔یہاں دیو سے مراد غیر لوگ ہیں، لیکن اب اس باغ کی اجڑنے کا سبب وہ لوگ ہیں جو تنگ ذہن رکھتے ہیں۔ بوڑھے کی نظر سے افسانہ نگار تنگ نظری کے رویے کو ختم کر دیتا ہے۔اور علم کے صحیح استعمال کی طرف اشارہ کیا ہے ۔انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ہندوستان کے ہزاروں سال کی تاریخ کو آج کل کے زمانے کے ساتھ موزانہ کیا ہے۔کردار نگاری کے حوالے سے یہ افسانہ قابل قدر ہے جس میں نوروز کے ذریعے پوری ہندوستان کی عکاسی کی ہے۔
مختصر طور پر کہا جاتا ہے کہ افسانہ ’’باغ کا دروازہ ‘‘میں جو کہانی پیش کی گئی ہے اس میں ہندوستان کو مٹنے سے بچانے کے لیے قلم کا درست استعمال کرنا اورذہن سے کام لینے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اور یہی اس افسانہ کا موضوع ہے۔ میری نظر میں افسانہ ’باغ کا دروازہ ‘اپنے اسلوب اور بہتریں انداز بیان کی وجہ سے ایک کامیاب ترین افسانہ ہے۔

[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here