باذوق ہم سفر

0
300

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

غلام علی اخضر

اگر ہم سفر باذوق ہے، تو بہت کچھ اس سے سیکھنے اور سمجھنے کو ملتا ہے جس سے سفر آسان ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی علم میں اضافہ بھی۔ زندگی کی شاہرائوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو بظاہر ہمارے ساتھ چند لمحوں یا گھنٹوں کے لیے رہتے ہیں مگر ان سے جڑی باتیں اوریادیںہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ میںدہلی ریلوے اسٹیشن پر کھڑا انتظار کررہا تھا۔ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی، جوشایدآنے والے مہمان کی آمدکا اشاریہ تھی۔ ان رم جھم بوندوں میں اس قدر ادب و احترام کا خیال تھا کہ سنبھل کرزمین پر دبے پائوں چلی آتیں،اگر کوئی بوندکسی مہ جبیں کے رخسار پر ٹھہرتی تو اس کی چمک سے ایسا معلوم ہوتا کہ قدرت نے آسمان سے کوہ نور نازل فرمایا ہے۔ زلفیں اگر رخ پر آتیں تو اس پر کیف ماحول میں وہ بھی رخ زیبا کی بوس و کنار سے مست ملنگ ہوجاتیں۔میں اس جنت نشان موسم کا دل کھول کر نظارہ کررہاتھا کہ اتنے میں لکھنؤمیل کی آمد کا اعلان کیاگیا ۔گاڑی آتے ہی جلد ہمیں پروفیسر جمال نصرت مل گئے ۔ سلام ومصافحہ اور خبرو خیریت کے بعد چائے نوشی ہوئی پھر اس کے بعد ایک آٹومیں بیٹھ کر ہم اپنی منزل کی طرف بڑھے کہ سعادت حسین منٹو،ان کے ہم عصر اور ان کے معزز دوستوں (عباس، عصمت چغتائی،راجندر سنگھ بیدی وغیرہ)کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔
میرے ہم سفر نے بتایا کہ منٹو کے تمام دوست ان کو کہتے تھے کہ تم اردو کو خراب کررہے ہو! کیوں کہ تمھاری تحریروں میں مضامینِ خرافات بندھے رہتے ہیں، تو اس پر منٹو بولے کہ میرے مضمون میں محاشی کاایک لفظ بھی دکھادو! میں سچ لکھ رہا ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ان کا مضمون بڑا دلچسپ ہوتا تھا جس کی وجہ سے رسائل اور اخبارات میں بہت جلد چھپ جاتاتھا۔ جہاں مہینوں میں احباب کے ایک یادو مضمون چھپتے وہاں ان کے ۳؍سے چار کبھی اس سے زیادہ چھپ جاتے، پھر یہ کہ جہاں دیگر رائٹرزکو ایک مضمون پر ۱۰؍سے ۱۵؍روپے ملتے تو وہیں منٹو کو ۱۵؍سے ۲۰؍کبھی ۲۵ بھی مل جاتے تھے۔ ان کے احباب خواجہ عباس وغیرہ آتے اور کہتے میاں! کچھ کھلائو پلائو ۔ منٹوایک اچھے آدمی اور شریف طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوست اور مہمان نواز انسان بھی تھے۔ اس لیے وہ خوب دل کھول کردوستوں کو کھلاتے پلاتے اور خود بھی ان کے درمیان مست ہوجاتے۔میرے ہم سفر نے یہ بھی بتایا کہ ان کے دوستوں کے درمیان یہ باتیں ہوتی تھیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ منٹو جس طرح لکھتے ہیں، ہم نہیں لکھتے۔ وہ شروع سے ہی قاری کو اپنی قید میں کرلیتے ہیں جب کہ ہم اس کے لیے تمہید باندھتے ہیں تاکہ قاری کی تشنگی بڑھے اور وہ ہمارے قید میں رہے۔
اسی درمیان غالب اور عبدالماجد دریاآبادی کی بات نکل آئی۔ ہم سفر نے بتایا کہ ایک بار کی بات ہے کہ مولانا دریاآبادی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھے۔ معمول یہ تھا کہ عشاکی نماز کے بعد سب لوگ فرداً فرداً عبادتوں میں مصروف ہوجاتے، مگر مولانا کا معمول تھا کہ فرض نماز کے بعد مناجات پڑھتا اور پھر اس کے بعد باقی عبادتوں میں لگ جاتے۔ ایک دن مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد غالب کے بارے میں ان کے کچھ احباب اور دیگر افرادوں نے شکایت کی کہ وہ شرابی کبابی ہے اوران کے بارے میں بُرا بھلا کہنے لگے، تو مولانا نے کہا کہ تم سب سچ کہہ رہے ہو۔ کچھ دیر کے بعد مجلس والوں نے کہا کہ حضرت! آپ نے اپنی رائے نہیں بتائی۔ مولانا کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا جاری ہوگیا،جب کہ وہ جلد رونے والوں میں سے نہیں تھے۔پوری مجلس پر سکتہ طاری ہوگیا۔ سبھی ادب سے بول پڑے: حضرت کیا بات ہے؟ مولانا کہنے لگے کہ میں روز جو مناجات پڑھا ہوں، وہ ان ہی کی لکھی ہوئی ہے۔ ہم سفر نے تو مناجات کے اشعار نہیں سنائے مگرانھوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیا :
غالبؔ کہتے ہیں کہ اے حشر کے دن کے داروغائو! جب مجھے جہنم کے لیے حکم ہوجائے تو مجھے اس راستے سے نہ لے جانا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیں،کیوں کہ میں انھیں منھ دکھانے کے قابل نہیں ۔ اس بیان نے ایک عجیب سی کیفیت پیدا کردی اور میں سوچ میں پڑگیا کہ غالب کس قدر محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے۔
اس کے بعد شریعت و طریقت وغیرہ پر گفت گو کا سلسلہ بایں طور چلا کہ میں نے محترم جمال نصرت صاحب سے کچھ سوالات کیے، جن کے انھوں نے مدلل جوابات عنایت فرمائے۔ حسن اتفاق کہ اسی وقت میرے پاس الہ آباد سے تصوف پر شائع ہوئے معروف سال نامہ’’الاحسان‘‘ کے ذریعے مجمع البحرین حضرت مفتی عبیدالرحمن قبلہ رشیدی سے لیے گئے ایک انٹرویوکے اقتباسات موجود تھے۔ اس کا یہ حصہ خاص طور پر میں نے پڑھ کر انھیں سنایا:
’’طریقت، شریعت سے علاحدہ کوئی چیز نہیں- حضرت مولانا رومی کا یہ مقولہ مشہور ہے: طریقت از شریعت نیست بیروں‘‘ طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں- طریقت تقویٰ اور صلاح باطنی سے عبارت ہے-لہٰذا یہ شریعت سے علاحدہ نہیں- مختصر لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ طریقت، شریعت کا اعلیٰ درجہ ہے-مثلاً وہ نماز جو خشوع و خضوع سے خالی ہو تو از روئے شرع اس کے صحیح ہوجانے کا حکم ہوگا مگر از روئے طریقت یہ نماز نامکمل ہوگی، مگر یہ حکم شریعت کے خلاف نہیں۔ پس جہاں طریقت، شریعت کے خلاف نظر آتی ہے تو یہ صرف بادی النظر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ غائر کے اعتبار سے -حضرت علامہ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ جو جامع شریعت و طریقت تھے، انھوں نے اپنی کتابمستطاب’الحدیقۃ الندیۃ فی شرح الطریقۃ المحمدیۃ‘ کی پہلی جلد میں اس مسئلے پر بھر پور روشنی ڈالی ہے- واضح رہے کہ شریعت کے دوپہلو ہیں؛ ظاہر، دوسرے باطن-باطن کو طریقت کہتے ہیں اور ظاہر کو عام اطلاعات میں شرع، ورنہ ظاہر وباطن دونوں ہی کا تعلق شرع سے ہے‘‘۔
اسی مجلہ سے ہم نے یہ بھی جانا کہ’’رواداری وصلح جوئی صوفیہ کا خاص مسلک رہا ہے‘‘ اس انٹرویو سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ آج علمائے اسلام(ظاہر) میں جو شدت ہے اس کی خاص وجہ تصوف سے دوری ہے۔
پھروجاہت علی سندیلوی جو خودہم سفر کے والد ہیں ، کے بارے میں بات ہوئی کہ انھوں نے آزادی اور ظلم کے خلاف خوب لکھا۔ لوگوں کو آزادی کے لیے بیدار کیا پھر یہ کہ مسلمانوں پر جو ظلم وستم کے کوہ محن ٹوٹے اس حوالے سے بھی انھوں نے’’غریب مسلمان کدھر جائیں‘‘ تحریر کی جن پر انگریزوں نے پابندی عائد کردی اور ساتھ ہی جس کتب خانے نے اس کتاب کو چھاپا، تھا اس پر بھی پابندی لگادی گئی۔ وہ قحط پر بھی لکھے ہیں ، تو میں نے کہا کہ اس موضوع پر کرشن چندر نے بھی ایک ناول ’’ان داتا‘‘ کے نام سے لکھا ہے اور اس کاموضوع قحط بنگال ہے۔ انھوں نے کہا:جی،ہاں!
بعدہٗ موجودہ دور میں ہندوستانی سیاست اور اس کی صورت حال پر بات ہوئی۔ ماب لنچنگ میں مالی اور جانی نقصان پر انھوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ واقعی یہ ایک جمہوریت پسند ملک کے لیے خطرناک صورت ہے اگر اس پر کڑی کاروائی نہیں ہوئی تو ہندوستان میں حالات بہت سنگین ہوسکتے ہیں۔ اتنے میں ہم ’’ایمس ہسپتال‘‘ پہنچ گئے۔ہم سفرکچھ انتظار کے بعد ڈاکٹر کو دکھالیے۔ مگر دوسری تاریخ لینے کے لیے کافی دیر تک لائن پر کھڑا رہنا پڑا ۔ یہیںایک حسن و خوبی کی دل اندام، نازک فام، ماہ تمام، طلوع صبح کی دلکش عکاس، سے آنکھیں دوچار ہوئیں ۔ یہ ہوبہو اسی طرح تھی جس طرح میں نے’’اردو نظم اور جوش ملیح آبادی-شاہ فیصل‘‘میں پڑھا تھا:
ہاں!’’ دوشیزہ کے حسن کا یہ عالم تھا کہ اس کے انگ انگ سے شباب ٹپک رہا تھا اس کے حسن کے جلوے سب کو دیوانہ اور گرویدہ کررہے تھے، اس کی شخصیت اور چال ڈھال انتہائی دل لبھانے والی، دلکش اور دلربا تھی۔ ہر کوئی ایک نظر میں اس کافدوی بن جاتا تھا۔ اس کی جوانی مست کرنے والی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خمار، گردن کا خم، ہونٹوں کی تازگی، چہرے کی شادابی، چال مستی، سانسوں کے ساتھ ساتھ سینے کا زیروبم، ہواکے ساتھ زلفوں کا لہرانا، اس کے بدن کی سفیدوسرخی، رنگت، غرض اس کے جسم کے ایک ایک عضو سے حسن اور جوانی پھوٹی جارہی تھی اور دیکھنے والوں کے دلوں میں بجلیاں گررہی تھی‘‘ اور میں حیرت میں غرق تھا ۔ اتنے میں وہ بولی:اے! میں فوراً اپنے کو سنبھال کر متوجہ ہوا۔ وہ بہت ہی محبت اور پیار بھرے لہجے میں بولی…موبائل سنبھال کر رکھنا۔ یہاں بہت چوری ہوتی ہے۔دبے لہجے میں میں نے بھن بھناتے ہوئے ’’موبائل گم ہونے سے کیا ہوگا،تم نے تو دل ہی چُرالیا ہے… تم نے کچھ کہا…کچھ نہیں۔ میں انجان ہوکر بولا۔ہاں! موبائل ہم نے بیگ میں رکھا ہے۔ اتنے میں ہم سفر دوسری تاریخ لے کر وہاں سے رخصت ہونے کی تیاری کرنے لگے ۔ ہم دونوںنے آنکھوں سے ملاقات کی۔ ہم سفرنے آٹو والے سے بات کی پھر ہم وہاں سے اپنی منزل کی طرف چل دیے۔ یہ دیکھ کر کہ ہم سفر اخبار خواندگی میں مصروف ہیں، قلم اٹھایا اور خیالوں کو حقیقت کی دنیا میں قلم بندکرنے لگا:
یہ زندگی بھی ہر گھڑی روپ بدلتی رہتی ہے اور انسان بھی عجیب مخلو ق ہے، ہر لمحہ مزاج بدلتا رہتاہے۔ کبھی تنہا رہنے کو جی چاہتا ہے تو کبھی بھیڑ میں گم ہوجانے کو من کرتا ہے۔ کبھی کسی کی باہوں میں زندگی گزار نے کی خواہش ہوتی ہے ، توکبھی فنا کا خیال آتاہے۔ کبھی زمین چھوڑنے کو جی نہیں کرتا تو کبھی چاند کے پار جانے کا دھن چڑھا رہتا ہے۔ کبھی پوری دنیا حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے تو کبھی دنیا سے نفرت ہوجاتی ہے۔ کبھی پاس کچھ نہ ہوکر بھی دوسرے کو دینے کے لیے بہت کچھ رہتا ہے تو کبھی سب کچھ ہوتے ہوئے دوسرے کو دینے کے لیے کچھ نہیں رہتا۔
ہے نا کچھ عجیب یہ زندگی!!
ہاں ،یار! دیکھونا کوئی پیار کے لیے مرتا ہے۔کوئی پیارمیں مرتاہے تو کوئی پیارسے مرجاتا ہے۔ کوئی گھر بساتا ہے توکوئی جنگل آباد کرکے غزالوں کی نیند حرام کردیتا ہے۔کوئی سات سمندر پار اپنے جانِ دل، جان جگر، جسم کی ٹھنڈک، روح کی سکوں، آنکھوں کی معراج کا مرکز،تشنگی بجھانے کی دوا، عزت و آبرو کا سرمایہ، پل پل راحت کی عظیم دیوی، من کی بھولی، صورت وسیرت میں اکیلی، رات کی رانی، دن کی مہارانی سے مل کر زندگی پرضیا بنالیتا ہے تو کوئی چند قدم کے فاصلے پر رہ کر بھی ملاقات نہیں کرپاتا… ہے نا کچھ عجیب یہ زندگی…
ہاں، یار! قدرت کا کرشمہ بھی کچھ عجیب ہے۔ کبھی دودل ملاکے ہنسا دیتا ہے تو کبھی دودل جداکرکے رلا دیتا ہے۔ کبھی زندگی میں اجنبی کو آشنا بنادیتا ہے تو کبھی آشنا کو اجنبی۔ کبھی پل بھرکی ملاقاتوں میں بہت کچھ کوئی چھوڑ جاتا ہے تو کبھی سالوں سال ساتھ رہ کر بھی کچھ نہیں۔کبھی کسی سے اس قدر ملاقات کرادیتا ہے کہ دور رہنے کو جی چاہتا ہے تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خوابوں میں بھی ملاقات نہیں ہوتی۔ کوئی کسی کو کھودینے پر سردھنتاہے توکوئی کسی کو پاکر مچلتاہے۔ کوئی کسی کے لیے برسوں راہ تکتا ہے تو کوئی ہواکے جھونکوں کی طرح آکر کسی کی زندگی میں اپنا حق جمالیتا ہے…قدرت کا کرشمہ بھی کچھ عجیب ہے نا!!
میرے رفیق سفراخبار بینی سے جب فارغ ہوئے تو میں نے اپناقلم روک دیا ۔ اسی اثنا میں ایک اخبار میں نے اپنے بیگ سے نکالا اور دیکھنے لگا کہ میری نظر عصمت چغتائی اور منٹو کے بارے میں ایک طویل مضمون پر پڑی، اس میں کچھ اقتباسات بہت معلوماتی تھے جو میں نے انھیں پڑھ کر سنائے۔
منٹو کا خیال عصمت کے بارے میں:
’’عصمت اگر بالکل عورت نہ ہوتی تو اس کے مجموعوں میں بھول بھلیاں، تل، لحاف اور گیندا جیسے نازک اور ملائم افسانے کبھی نظر نہ آتے۔ یہ افسانے عورت کی مختلف ادائیںہیں۔ صاف، شفاف، ہرقسم کے تصنع سے پاک۔ یہ ادائیں، وہ عشوے، وہ غمزے نہیں جن کے تیر بناکر مردوں کے دل اور کلیجے چھلنی کیے جاتے ہیں۔ جسم کی بھونڈی حرکتوں سے ان ادائوں کا کوئی تعلق نہیں۔ ان روحانی ارشادوں کی منزل مقصود انسان کا ضمیرہے۔ جس کے ساتھ وہ عورت ہی کی ان جانی، ان بوجھی مگر مخملیں فطرت کے بغیر بغل گیر ہوجاتے ہیں‘‘۔
…’’میں جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عصمت کے چہرے پر وہی سمٹا ہواحجاب نظر آیا جو عام گھریلولڑکیوں کے چہرے پر ناگفتی شے کا نام سن کر نمودار کرتاہے۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی اس لیے کہ میں لحاف کے تمام جزئیات کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا۔ جب عصمت چلی گئی تو میںنے دل میں کہا کہ یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی‘‘۔
عصمت پرلے درجے کی ہٹ دھرم ہے۔ طبیعت میں ضدی ہے بالکل بچوں کی سی، زندگی کے کسی نظریے کو فطرت کے کسی قانون کو پہلے ہی سابقے میں کبھی قبول نہیں کرے گی۔ پہلے شادی سے انکار کرتی رہی۔ جب آمادہ ہوئی تو بیوی بننے سے انکار کردیا۔ بیوی بننے پر جوں توں رضا مند ہوئی تو ماں بننے سے منکر ہوگئی۔ تکلیفیں اٹھائے گی، صعوبتیںبرداشت کرے گی مگر ضد سے کبھی باز نہیں آئے گی۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی اس کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سے وہ زندگی کے حقائق سے دوچار ہوکر بلکہ ٹکرا کر ان کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے‘‘۔
فحش نگاری کے الزام میں عصمت اور منٹو کی گرفتاری بھی ہوئی… ’’اس مقدمے کے سلسلے میں ہم ۲؍دفعہ لاہور گئے۔ دونوں مرتبہ کالجوں کے تماشائی طالب علم مجھے اور عصمت کو دیکھنے کے لیے ٹولیاں باندھ کر آتے رہے۔ عصمت نے مجھ سے کہا: منٹو بھائی!
’’چودھری نذیر سے کہیے کہ ٹکٹ لگادے کہ یہاں آنے جانے کا کرایہ ہی نکل آئے گا‘‘۔
اس اقتباس کو سنتے ہی ہم سفر مسکرانے لگے اور میں ختم کرکے زور سے ہنس پڑا۔ اتنے میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد ان کی کتاب’’دانا پانی‘‘ پر کچھ کام کیا، پھر وہ آرام کرنے چلے گئے۔ شام کو چائے کے بعد بہت خوش مزاجی کے ساتھ دعا دیتے اور فی امان اللہ کہتے ہوئے لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے ؎
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
ضضضضض7275989646

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here