جشن شارب کے دعوت نامہ میں شاگردانِ شارب کے ساتھ ہمارا نام بھی لکھا جانا ہمیں وہ سربلندی عطا کرتا ہے جو شاید کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمیں ان کا کلاس روم شاگرد ہونے کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن آج جو کچھ بھی اردو ادب، اردو دنیا اور زندگی کے تمام اتار چڑھائو کے بارے میں جانتے ہیں یہ اُن ہی کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ جشن شارب کا یہ جلسہ اصل میں شاگردانِ شارب کا ہی خواب ہے جو انہوں نے گذشتہ سال پروفیسر شمیم نکہت کے دو روزہ سیمینار میں دیکھا اور آج اُسے پایۂ تکمیل تک پہونچا دیا۔ ہماری خوش قسمتی صرف یہ ہی نہیں کہ ہمیںشارب صاحب جیسی اعلیٰ مرتبت بزرگ شخصیت سرپرستی کے لئے ملی بلکہ ان کے وسیلے سے پورے ہندوستان میں ان کے بہترین شاگرد بھی ملے جن کی تعریفیں جتنی شارب صاحب یا مرحومہ پروفیسر شمیم نکہت سے سنیں وہ سب کے سب ان سے کہیں زیادہ تعریف کے قابل نکلے۔ پروفیسر محمد ظفر الدین ، محمد کاظم ، امتیاز ایسے کئی نام ہیںجن پر کوئی بھی استاد فخر کر سکتا ہے۔اس میں عبدالسمیع جنھوں نے پڑھا تو شاید سب سے کم لیکن انھوں نے اپنے استاد کا ساتھ پچھلے تیس سال میں کبھی نہیں چھوڑا۔ ایک لمحہ ہمیشہ یادگار رہے گا جب سینٹرل یونیورسٹی آف حیدر آباد میںڈاکٹر عرشیہ جبیں کی دعوت پر شارب صاحب کے ساتھ حیدر آباد جانے کا موقع ملا جہاںپروفیسر مظفر علی شہ میری جیسی اعلیٰ مرتبت شخصیت سے صرف ملاقات ہی نہیں ہوئی بلکہ ان کے ساتھ ایک پی ایچ ڈی کے وائیوے میں بیٹھنے کا موقع بھی ملا جہاں بیٹھنا میرے جیسے شخص کے لئے شاید ممکن نہیں تھا۔
دس سال پہلے ایک سیمینار کے سلسلے میں پروفیسر شارب رُدولوی صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ جب نہ آج کی طرح کوئی میرے اخبار کو جانتا تھا اور نہ مجھے ۔ایسے میںایک انجان شخص سے وہ جس انداز سے ملے، اور بغیر یہ جانے کہ ہمارا اور ہمارے پروگرام کا اسٹیٹس کیا ہے، کون کون لوگ آئیں گے، بس اپنی ڈائری دیکھی اور کہا ہاں خالی ہوں، آجائوں گا اور واقعی پروگرام میںمیرے بغیر کسی ایکسٹرا ایفرٹ کے معینہ وقت پر تشریف لے آئے۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات جس دن انکے اعلیٰ ظرف ہونے کا احساس ہوگیا۔ پھر کب وہ ہم سے اتنے قریب ہوگئے پتہ ہی نہیں چلا، اب تو گھر کے جو ایک بزرگ کی شفقتیں، محبتیں ہوتی ہیں، وہ سب میں ان میں اپنے لئے دیکھتا ہوں۔ اس کا کچھ کم ظرف مذاق بھی اُڑاتے ہیں کہ وہ جہاں دیکھو وہاں پہونچ جاتے ہیں۔ میں نے بھی ان سے اس بارے میں کہا تو انہوں نے ایک جواب دے کر ہمیشہ کیلئے لاجواب کردیا، انہوں نے کہا کہ کوئی شخص جلتی دھوپ میں ،چلتی لو میں نہ جانے کتنی دور سے بڑی اُمید کے ساتھ آتا ہے اور میںصرف اس لئے اسے نااُمید کردوں کہ دنیا کیا کہے گی، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ یہی نہیں وہ شاید اُن چند شخصیتوں میں سے ہیں جو بغیر موضوع کے کبھی نہیں بولے، اگر ایک دن پہلے بھی کتاب ملی تو بھی وہ جتنا بولے کتاب پر ہی بولے، اتنا ڈیووشن اس عمر میں کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
آج پروگرام ہی نہیں زندگی کا سفر بھی ان کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے نہیں کہ وہ ڈائس کی زینت ہیں جو ان کا حق بھی ہے بلکہ اس لئے کہ ان کی موجودگی کسی اپنے سرپرست کے موجود رہنے کا احساس دلاتی ہے، ویسے بھی کسی بزرگ کی سرپرستی اس سایہ دار شجر کے مانند ہوتی ہے جس کی موجودگی میں زندگی کو جھلسا دینے والی دھوپ کا احساس بھی نہیں ہوتا، شاید اسی لئے گھر یا کاروبار کا کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا اور مشکل سے مشکل مسئلہ آیا تو گھر کے سبھی لوگوں نے کہا کہ آپ اسے شارب صاحب سے ڈسکس کیجئے وہ ضرور اس کا حل بتائیں گے اور ہوا بھی ایسے ہی مشکل سے مشکل مسئلہ انہوں نے چائے ختم ہونے سے پہلے حل کردیا۔
ایک شخص جس نے زندگی میں بہت سےنشیب و فراز دیکھے۔ اپنی ماں کو بچپن میں ہی کھونے کی وجہ سے نہ اپنی ماں کو ناز نخرے دکھا سکا اور بیٹی کو بھی کم عمری میں کھونے کی وجہ سے نہ اپنی بیٹی کے ناز نخرے اُٹھا سکا، لیکن زندگی سے ہار نہیں مانی اور طے کرلیا کہ ایک اپنی بیٹی شعاع نہیں رہی تو کیا، ہم اس کی یاد میںہزار شعاع روشن کردیں گے اور کر دکھایاشعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج قائم کرکے، جہاں ہزار سے زیادہ بچے بہت ہی معمولی فیس پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ میں نے انہیں آخری لمحے تک اپنی شریک حیات مرحومہ ڈاکٹر شمیم نکہت کا ساتھ جس طرح سے نبھاتے دیکھا اس کا آج کے دَور میں تصور بھی مشکل ہے ان کے انتقال کے بعد ایک بار پھر لگا کہ زندگی ختم ہوگئی لیکن پھر اس ضد نے طاقت دی کہ ہمیں تو اس دنیا میں پیدا ہی کیا گیا کچھ کرنے کیلئے، نفرت کو محبت میں بدلنے کیلئے، علم کی شعاع گھر گھر روشن کرنے کیلئے، اپنے سارے غم دوسروں کی خوشیوں میں بانٹنے کیلئے۔
شارب صاحب کا اپنی 5500 بیش قیمتی کتابیں خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی کوعطیہ کرنا بھی قابل تحسین عمل ہے۔ انہوں نے گھر بدلے، شہر بدلے لیکن 70 سال سے جن بیش قیمتی کتابوں کو اپنے سینے سے لگاکر رکھا جب دیکھا کہ ان کا مستقبل ہم سے بہتر یونیورسٹی میں ہے تو ایک لمحے میں 5500 اپنی کتابیں یونیورسٹی کو دے دیں کہ جس سے نئی نسل اس سے فیضیاب ہوسکے۔ پہلی بار شارب صاحب نے کتابیںعطیہ نہیں کی ہیں وہ اس سے قبل بھی اپنی بہت سی کتابیں جواہر لعل یونیورسٹی کو دے چکے ہیں اور ان کے نام سے لائبریری میں ایک حصہ جے این یو میں پہلے سے قائم ہے۔ یہ عبرت بھی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنی زندگی میں اپنی کتابوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔
’جشن شارب ‘شاگردان شارب کے ساتھ شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی کے جڑنے سے مزید با وقار ہو گیا جس کے لئے اس شعبہ کے صدر پروفیسر عباس رضا نیر کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور لکھنؤ میں شاگردان شارب کو کامیاب بنانےکے لئے جس طر ح ڈاکٹر ریشماں پروین نے دن رات ایک کردیا یہ نہ صرف پروفیسر شرب ردولوی کے تئیں ان کی محبت وعقیدت کا غماز ہے بلکہ ادب کے لئے ان کے جذبۂ سپردگی کو بھی عیاں کرتا ہے۔
ایک بار پھر تمام شاگردانِ شارب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی بے پناہ محبتوں سے نوازا اور شاگردانِ شارب کی فہرست میں ہمیں بھی شامل ہونے کا موقع فراہم کیا۔
٭٭٭
آج مجھے بھی فخرہے کہا میں بھی شاگردانِ شارب کی فہرست میں شامل ہوگیا
Also read