حفیظ نعمانی
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ چپراسی سے لے کر ڈی ایم تک یہ دیکھا جاتا ہے کہ تعلیم کتنی ہے اور کس موضوع پر کون سی ڈگری لی ہے لیکن وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وزیر بناتے وقت یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اسے انتظام کا کتنا تجربہ ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ اسی ملک میں ہریانہ کے دیوی لال جی وزیراعظم بننے جارہے تھے مگر جب یہ معلوم ہوا کہ وہ تو انگریزی کا ایک جملہ بھی نہ بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں تو انہیں اس پر آمادہ کیا گیا کہ وزیراعظم تو راجہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کو بنادیں اور خود ڈپٹی وزیراعظم بن جائیں۔ اور یہ بھی اس ملک نے دیکھا کہ وہ جب حلف لینے کھڑے ہوئے تو اپنے نام کے ساتھ ڈپٹی پرائم منسٹر کہا صدر محترم جو ان کو حلف دلا رہے تھے انہوں نے ادب سے کہا کہ ڈپٹی نہ کہئے صرف دیوی لال کہئے لیکن وہ نہیں مانے اور ڈپٹی پرائم منسٹر ہی کہہ کر حلف لیا۔ صدر محترم نے ان سے یہ بھی کہا کہ ڈپٹی پرائم منسٹر سرکاری عہدہ نہیں ہے۔
آج کے وزیراعظم نریندر مودی صاحب کو بھی وزیراعظم بناتے وقت موہن بھاگوت صاحب نے یہ نہیں دیکھا کہ انہیں انگریزی پر کتنا عبور ہے اور وزیراعظم بنا دیا اور ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کو ہم نے یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ مودی جی نے جو تقریر کی اس میں… مناسب نہیں تھا اور یہ بے ضرورت تھا۔
وزیر اعظم بننے کے بعد جب مودی جی کے اختیار میں وزیراعلیٰ اور وزیر بنانے کا موقع آیا تو انہوں نے یا تو یہ دیکھا کہ اس نے ناگپور میں کتنے دن گذارے ہیں یا کوئی ایسی خصوصیت دیکھی جسے وہ پسند کرتے ہیں۔ غرض کہ علمی قابلیت کو کوئی اہمیت نہیں دی اسی کا نتیجہ ہے کہ ہریانہ میں کھلے میدان میں مسلمانوں کو نماز پڑھتا دیکھ کر وزیراعلیٰ کو یہ خطرہ ہوگیا کہ یہ زمین پر قبضہ کرنے کی ابتدا ہے۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ نے حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے اہم اور مقبول شخص کے بارے میں سنا کہ ڈیرہ سچا سودا کے گرو رام رحیم کے ماننے والے لاکھوں بلکہ کروڑوں ہیں۔ اگر وزیراعلیٰ علمی آدمی ہوتے تو پہلے یہ معلوم کرتے کہ ڈیرہ سچا سودا کا کیا مطلب ہوا؟ یہ تو کسی جاہل کی بڑ ہے۔ ڈیرہ تو ٹھکانہ ہوا سچا وہ جو جھوٹا نہ ہو اور سودا وہ جو کوئی خریدے۔ جبکہ وہاں کچھ بھی نہیں فروخت ہوتا بلکہ ناچ گانا ہوتا ہے فلمیں بنتی ہیں اور جو اپنے کو رام رحیم کہتا ہے وہ خود سکھ ہے نہ رام کا ماننے والا ہے نہ رحیم کا۔ اور جو کہے کہ میں دونوں کا ماننا والا ہوں وہ اس لئے جھوٹا ہے کہ اندھیرا اور اُجالا، کالا اور سفید ایک نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے کسی بات پر بھی غور کئے بغیر اس کی ہر سالگرہ پر ایک کروڑ روپئے کا چیک اسے بھجواتے رہے صرف اس لئے علم بس ضرورت بھر کا تھا۔
ایسے کم علم آدمی کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس نے نماز جیسی عبادت پر پابندی لگائی۔ اگر ان کے پاس علم ہوتا اور انہوں نے پڑھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ جس زمین میں اناج پیدا نہ ہو اس زمین پر نماز پڑھی جائے تو پروردگار دوسروں سے زیادہ برکت دے گا۔ وزیر اعلیٰ جن کی مونچھ کا ہر بال سفید ہے کیا انہوں نے کبھی سنا ہے کہ کہیں اگر ضرورت پڑی اور مسلمانوں نے نماز پڑھ لی تو اس زمین پر قبضہ کرلیا؟ ہمارے بچپن میں گنی چنی ریل گاڑیاں چلتی تھیں اور بڑے اسٹیشنوں پر آدھا گھنٹہ رکتی تھیں۔ ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے کہ وہ پلیٹ فارم پر نماز پڑھ لیتے تھے۔ اور شاید ہی کوئی بڑا شہر ایسا ہو جس کے پلیٹ فارم پر مسلمانوں نے نماز نہ پڑھی ہو؟ تو کیا کبھی مسلمانوں نے کسی پلیٹ فارم پر قبضہ کیا یا درخواست دی؟
گڑگائوں مسلمانوں کا گڑھ رہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے 1957 ء کا الیکشن گڑگائوں سے لڑا تھا اور ان کے بعد چودھری طیب صاحب برابر وہاں سے پارلیمنٹ کے ممبر ہوتے رہے۔ یہ تو اس کی ترقی کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک منزل کے مکان غائب ہوگئے اور ممبئی جیسی اونچی بلڈنگیں بنتی چلی گئیں۔ جن کو بنانے کے لئے زمین سرکار نے دی لیکن جو مزدور کام کرنے آئے ان میں مسلمانوں نے نہاکر وہیں کہیں جمعہ کی نماز پڑھ لی۔ یہ بھی ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کی ناواقف ہونے کی بات ہے جو وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہفتہ میں ایک نماز جمعہ کو پڑھ لیتے ہیں۔ ہم کیسے کہیں کہ یہ جہالت ہے کیونکہ نماز تو دن میں پانچ بار پڑھی جاتی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جمعہ کی نماز کی اہمیت ہے لیکن وہ ان کے لئے ہے جو ہر دن پانچ نمازیں پڑھتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مسلمان اپنی نماز مسجدوں اور عیدگاہوں میں پڑھیں۔ کاش انہیں کوئی بتائے کہ عیدگاہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے وہ تو سال میں صرف دو نمازوں کے لئے ہیں۔ اور صرف اس لئے ہیں کہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ عید کی نماز یہاں پڑھی جائے گی ورنہ حضرت محمدؐ نے کوئی عیدگاہ نہ مکہ میں بنائی اور نہ مدینہ میں بلکہ عید کی نماز آبادی سے دور کھلے میدان میں پڑھی اور یہی ثبوت ہے کہ مسلمان کے لئے زمین کا ہر ٹکڑا پاک ہے اور اگر ضرورت پڑے تو کہیں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ملک کا دستور کچھ اور کہتا ہے اور قانون کچھ اور۔ ملک جب تقسیم ہوا تو ملک میں مسلمان تین کروڑ تھے اس کے حساب سے ہی مسجدیں تھیں اب آبادی چھ گنا بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہئے کہ وہ زمین خریدکر اپنے پیسوں سے مسجد بنوالیں۔ لیکن قانون اس کی اجازت نہیں دیتا وہ مندروں اور گرودواروں کے بنانے میں تو تعاون بھی کرتا ہے لیکن مسلمانوں کو اپنی زمین پر بھی بنانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اگر ہم اپنے گھر کو مسجد بنادیں تو اس کی اجازت بھی نہیں دیتا تو یہ کہنا کہ مسلمان مسجد میں نماز پڑھیں یا عیدگاہ میں بے خبری نہیں تو کیا ہے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے کسی پڑھے لکھے وزیر سے کہیں کہ وہ کسی مسجد کے قابل امام کو روز ایک گھنٹہ کے لئے بلائیں اور ان سے معلوم کریں کہ وہ پوری نماز کے بارے میں بتائیں کہ وہ کیا پڑھتے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ جو نماز میں اللہ اکبر سے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ تک کا مطلب سن لے گا تو خود کہے گا کہ میرے جس کھیت میں فصل نہ ہو وہاں ورنہ میرے باغ میں نماز پڑھ لیا کرو۔ لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ ڈیرہ سچا سودا اور رام رحیم کا مطلب بھی معلوم نہ کرو بس اس کی پوجا شروع کردو اور نماز میں کیا پڑھا جاتا ہے اسے معلوم نہ کرو مخالفت کرو یہ صرف ناگپور کا سبق ہے جس نے ملک کو تباہ کردیا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی جی وزیراعظم بننے سے پہلے یا ناگپور میں زہر کے انجکشن لگواتے رہے یا ناگپور والوں کے درمیان رہے یہی وجہ ہے کہ چار رمضان گذرنے کے بعد پانچویں رمضان کی مسلمانوں کو مبارکباد دی۔ اب انہیں معلوم ہوا کہ ہمارے جیسے بوڑھے ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ اگر زندہ رکھنا ہے تو ایک رمضان اور عطا فرمادے اس لئے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہر نیکی کا ثواب 70 گنا ہوجاتاہے اور اس کی ایک رات ایک ہزار مہینوں کی راتوں کی عبادت سے بھی زیادہ ثواب کی رات ہے۔ اگر مسلمانوں کو مبارکباد دینا ہے تو صرف رمضان شریف کی دی جائے۔
وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے مودی جی کی تقریروں سے سمجھا تھا کہ شاید مسلمان رمضان میں دیوالی سے زیادہ بجلی پھونک دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے زمانہ کا گذشتہ رمضان دیکھا تو جتنی بجلی شعبان میں خرچ ہوئی اتنی ہی رمضان میں ہوئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ پورے رمضان رات بھر بجلی آنا چاہئے۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ کھٹر کو کون بتائے کہ نماز کیا ہے۔ اسے پڑھنے کی اجازت دینے سے کیا ملے گا اور پابندی سے کیا نقصان ہوگا؟ نماز میں مسلمان دنیا بنانے اور چلانے والے کے سامنے سر جھکاتے ہیں اس کی تعریف کرتے ہیں اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس سے سب کے لئے رحم کی درخواست کرتے ہیں وہ رام رحیم کی طرح جوان لڑکیوں کے ساتھ ناچنے اور گانے کی فلم نہیں بناتے اور نہ عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یہ بات وزیراعلیٰ خود بھی سمجھ لیں اور ان کو بھی سمجھادیں جو اپنا برا بھلا نہیں سمجھتے۔
Mobile No. 9984247500
Also read