9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
وزیر اعظم نریندر مودی نے دوسری میقات کی ابتدا میں ملک سے غریبی کو دور کرنے، مسلمانوں کو تعلیم سے جوڑ کر آگے بڑھانے اور سب کا وشواس حاصل کرنے کو اپنی حکومت کا ایجنڈہ بتایا تھا۔ فراخدلی دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جو رضاکار تنظیمیں یا اشخاص غریبی دور کرنے کا کام کریں گے حکومت ان کی مدد کرے گی۔ مختلف واقعات اور اعداد و شمار سے ملک میں غریبی کی بھیانک تصویر سامنے آتی رہی ہے۔ مگر سماج کے گتھے ہونے کی وجہ سے غریبی کی شدت کو کبھی محسوس نہیں کیا گیا۔ لوگوں نے سنجیدگی سے اس پر توجہ بھی نہیں دی وہ سمجھتے رہے کہ سب چنگا سی۔ لیکن کورونا بحران نے عوام کے اس بھرم کو توڑ دیا۔ پہلی مرتبہ آدمی آدمی کا فرق سامنے آیا۔ امیری غریبی کے بیچ کی کھائی کو ملک نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور اس کا گواہ بنا۔ پورا ملک دو حصوں میں بنٹا نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف دولت مند با رسوخ ہیں اور دوسری طرف بے سہارا، غریب مزدور۔
غیر ممالک میں پھنسے ہندوستانیوں کو لاک ڈاؤن سے پہلے ہوائی جہازوں سے واپس لایا گیا۔ لاک ڈاؤن میں ہری دوار میں پھنسے 1800گجراتی زائرین کی واپسی کیلئے صوبائی حکومت نے لگزری بسوں کا انتظام کیا۔ پہلے نوراترے کو یوپی کے وزیر اعلیٰ لاہو لشکر کے ساتھ پوجا کرنے ایودھیا پہنچ گئے۔ لاک ڈاؤن میں ہی شیو راج سنگھ چوہان کی شاہی تقریب میں وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف برداری ہوئی۔ مہاراشٹر کے شولاپور میں رتھ یاترا نکالنے کیلئے ہزاروں لوگ مندر پر جمع ہو گئے۔ پولس کے روکنے پر انہوں نے پتھر بازی کر دی۔ اسی لاک ڈاؤن کے دوران کرناٹک میں سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی کے بیٹے کی سگائی اور پھر شادی ہوئی۔ سگائی میں تو وہاں کے چیف منسٹر یدیو رپا بھی شامل ہوئے تھے۔ کرناٹک کے گلبرگہ میں شوبھا یاترا نکالی گئی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اسی بیچ کوٹہ راجستھان میں پھنسے طلبہ کو یوپی اور مدھیہ پردیش نے بسیں بھیج کر واپس بلایا۔ نتیش کمار اس سے متفق نہیں تھے لیکن انہوں نے بھی بی جے پی کے ایم ایل اے کو اپنے بیٹے کو کوٹہ سے واپس لانے کی اجازت دے کر اپنی سوچ کو ظاہر کر دیا۔ اتنا ہی نہیں مدھیہ پردیش کی ہیلتھ سکریٹری نے امریکہ سے آئے اپنے بیٹے کی ٹریول ہسٹری کو چھپایا اس کی وجہ سے وہ خود اور قریب 40 بیوروکریٹ کورونا سے متاثر ہو گئے۔ امیر با رسوخ لوگوں کے کتنے ہی واقعات سامنے آ چکے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا سکھ اور تحفظ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
دوسری طرف بے سہارا، غریب اور یومیہ مزدور ہیں۔ یہ ملک کی کل آبادی کا اسی فیصد یعنی قریب 103 کروڑ ہیں۔ انہیں کامگاروں کے دم سے صنعت، زراعت، کارخانے اور کاروبار میں رونق ہے۔ لاک ڈاؤن نے ان کی زندگی کو برباد کر دیا ہے۔ ان کے پاس نہ کھانا ہے نہ پیسے اور نہ ہی رہنے کی جگہ۔ لاک ڈاؤن ہوتے ہی انہیں کورونا سے پہلے بھوک سے مرنے کا ڈر ستانے لگا۔ اسی ڈر نے سورت میں ہزاروں مزدوروں کو سڑک پر آنے اور ممبئی کے باندرہ اسٹیشن پر جمع ہونے کو مجبور کر دیا۔ جہاں انہیں پولس کے ڈنڈے کھانے پڑے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ فاقہ کشی سے تنگ آ کر اپنے گاؤں جانا چاہتے ہیں۔ ملک نے ان مزدوروں کو ہزاروں کلومیٹر کے سفر پر اپنے گاؤں جاتے اور جگہ جگہ پولس کی بربریت کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ ان کو ان کے گاؤں تک پہنچانے کیلئے ناکافی ہی سہی یوپی حکومت نے ایک ہزار بسوں کا انتظام کیا۔ اس کے علاوہ کسی دوسری ریاست کو تو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی۔ اس نقل مکانی میں چالیس سے زیادہ مزدوروں کی جان چلی گئی۔ تازہ دل دہلا دینے والا واقع بارہ سالہ جمالو کا ہے۔ جو تلنگانہ سے جھارکھنڈ اپنے گھر آنے کیلئے سو کلومیٹر کے سفر پر پیدل نکلی تھی۔ گھر سے محض 11 کلومیٹر پہلے ہی پیدل چلنے سے اس کی موت ہو گئی۔ صرف گجرات میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ اڑیہ مزدور پھنسے ہوئے ہیں۔ مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔ راجستھان حکومت نے دوسری ریاستوں سے آنے والے مہاجر مزدوروں کیلئے قدر بہتر انتظام کیا ہے۔ دہلی حکومت بھی غریب اور مزدوروں کے کھانے اور رہنے پر توجہ دے رہی ہے لیکن لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
وزارت داخلہ کے حکم لاک ڈاؤن کے دوران جو جہاں ہے وہیں رہے نے ان غریبوں کے وجود کو سنگین خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہر روز بھوک اور پیسوں کی تنگی سے تنگ آ کر ان کامگاروں کے خود کشی کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ بھدوہی ضلع کے جہانگیرآباد سے ایک چونکانے والا واقع سامنے آیا۔ ایک مزدور خاتون نے اپنے پانچ بچوں کو گنگا ندی میں پھینک دیا کیونکہ وہ اپنے بچوں کیلئے کھانے کا انتظام نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے پاس نہ کام تھا نہ پیسے، وہ دہاڑی مزدور تھی۔ گڑ گاؤں میں چھابو نام کے ایک مزدور نے اپنے آخری اثاثے موبائل فون کو بیچ کر بچوں کیلئے راشن اور پنکھے کا انتظام کیا۔ پھر خود کشی کر لی، اس کا خاندان ایک ہفتے سے بھوکا تھا۔ شاید وہ سرکار سے کسی طرح کی مدد نہ ملنے سے مایوس ہو گیا تھا۔ گرو گرام کے علاوہ گجرات سے بھی مزدوروں کے خود کشی کرنے کی خبریں آئی ہیں۔ بین الاقوامی مزدور تنظیم کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ کووڈ۔ 19 کی وجہ سے بھارت میں 40 کروڑ غیر رسمی کامگاروں کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔ موجودہ حکومت غریبی دور کرنا چاہتی تھی اب ایسا لگتا ہے کہ غریب ہی ختم ہو جائیں گے کیونکہ سرکار اس صورتحال سے نبٹنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو آنے والے دنوں میں خود کشی کی وارداتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا نے جہاں صحت کے تئیں بیدار کیا ہے وہیں سماج اور حکومت کی کتھنی کرنی پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ غریب مہاجر مزدوروں اور دولت مند با رسوخ حضرات کے ساتھ سماج اور حکومت کا رویہ یکساں نہیں ہے۔ کئی سالوں سے بنائے جا رہے فرقہ وارانہ ماحول نے حالات کو اور خراب کیا ہے۔ بیماری میں بھی مذہب تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سماجی دوری جسے حقیقت میں جسمانی دوری کہا جانا چاہئے کے اصرار نے نئے قسم کی چھواچھوت کو جنم دیا ہے۔ توہم پرستی اور کورونا سے موت کے ڈر سے انسانی وسماجی قدریں پامال ہوئی ہیں۔ ڈاکٹروں کے ساتھ بدتمیزی ہو رہی ہے، مالک مکان ان سے گھر خالی کرا رہے ہیں۔ کووڈ۔ 19 سے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے۔ اس کی میت کو گھر خاندان کے لوگ ہاتھ لگانے، شمشان لے جانے سے بچ رہے ہیں۔ کام والی بائیوں کو کام پر آنے سے منع کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت ساری رہائشی سوسائٹیوں نے پھل سبزی بیچنے والوں کے سوسائٹی میں داخلہ پر پابندی لگا دی ہے۔ انسانوں کے درمیان جو فاصلے پیدا کئے جا رہے ہیں کیا کبھی کم ہوں گے یا پھر یہ سماج کا ناسور بن جائے گا۔ اس سماجی تبدیلی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ملک میں امیر، غریب کے درمیان کھائی بڑھنے کی بڑی وجہ وسائل کی تقسیم میں نابرابری ہے۔ 1980 کی دہائی کے بعد جو معاشی ترقی ہوئی اس کا بڑا حصہ اوپر کے ایک فیصد لوگوں کو ملا۔ جبکہ محض گیارہ فیصد نچلے طبقہ کے پچاس فیصد کے حصہ میں آیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کے وسائل عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ ملک کی بڑی آبادی اب بھی معیشت کا حصہ نہیں بن پائی ہے۔ ملک کے 77 فیصد مزدور دیش کی غیر رسمی معیشت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کی آمدنی بہت کم ہے، اسی طرح خواتین کو بھی موجودہ معیشت کا بہت کم فاید? مل پاتا ہے۔ جبکہ معیشت کی نظر سے دیکھیں تو تو ان کا تعاون 19 لاکھ کروڑ روپے سالانہ کے برابر ہے۔ ان دونوں کو نظر انداز کرکے ہم اپنی معیشت کا مضبوط ڈھانچہ تیار نہیں کر سکتے۔
آکسفیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کے ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس ستر فیصد یعنی 95 کروڑ سے زیادہ آبادی کی کل دولت کی چار گنا ہے۔ دیش کے سب سے امیر نو لوگوں کے پاس ملک کے سب سے غریب پچاس فیصد لوگوں کی کل مالیت کے برابر دولت ہے۔ اس لئے غریبی اور امیری نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ امیروں کی تعداد غریبوں کے مقابلہ بہت کم ہے۔ وسائل کی تقسیم میں نابرابری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فیصد امیروں کی دولت میں ایک سال میں 46 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ سب سے غریب پچاس فیصد کی مالیت میں صرف تین فیصد۔ رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیش کے 63 لوگوں کے پاس ملک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ دولت ہے۔ اس کے مطابق ملک کے ایک فیصد امیر دو ہزار دو سو کروڑ روپے یومیہ کماتے ہیں۔ وسائل کی تقسیم کا فرق سرکاری و پرائیویٹ دونوں سیکٹر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی لئے ملک وسائل کی یکساں تقسیم نہ ہونے کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ملک کی 22 ریاستیں غریبی دور کرنے کے اپنے ہدف سے بری طرح پچھڑ گئی ہیں۔
عالمی انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامک ریسرچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا بحران کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں غریبی کی سطح کو 30 سال تک بدلنا مشکل ہو جائے گا۔ اس مشکل وقت میں معاشی ناہمواری کو دور کرنے کیلئے حکومت کو بہتر تعلیم، صحت، روزگار کی گارنٹی، انصاف اور عمدہ تکنیک تک لوگوں کی رسائی کو آسان بنانا ہوگا۔ ساتھ ہی روایتی وغیر روایتی روزگار کے ذرائع فراہم کرنے کو فوقیت و ترجیح دینی ہوگی۔ مگر اس وقت سب سے پہلے بے سہارا، غریب مزدوروں کی مشکل کو آسان کرنا ہوگا۔ ان تک راحت کا سامان پہنچانے کے علاوہ اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ دولت مند ان کام گاروں کی محنت کی وجہ سے ہی ٹھاٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ مزدور اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ حکومت انہیں حالات کی لات سے بچا کر ان کی زندگی کو بہتر بنائے۔ کیوں کہ ترقی کے پہیہ کو چلانے کیلئے کل پھر انہیں کی ضرورت ہوگی۔
٭٭٭