یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم موصول ہونے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
سیدہ فاطمہ جعفری
آج کا مشاعرہ بہت کامیاب رہا تھا۔ نوجوان شاعر ”احسن بیتاب اسمشاعرے کی جان تھا۔وہ بہت وجیہ ،خوبصورت، اور پر کشش شخصیت کا حامل تھا۔اس کا کلام سامعین کے دلوں کا ترجمان دکھے دلوں کو نئی زندگی دینے والا تھا اور ساتھ ہی اس کے کلام پڑھنے کا انداز ایسا پر اثر تھا کہ وہ اشعار سناتے ہوئے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ کر ایکنئی دنیا میں بہا لے جاتا تھا جہاں کوئی تکلیف کوئی نفرت کوئی درد کوئی حسرت باقی نہیں رہتی تھی۔ لوگ اس پر کیف و پر سکون دنیا میں کھو سے جاتے تھے۔ وہ ایک ساحر تھا جو لوگوں کو اپنے لفظوں کے سحر میں جکڑ کر اپنے عشق میں گرفتار کر لیتا تھا۔
محفل ختم ہو چکی تھی۔ شرکاء میں افرا تفری کاماحول تھا۔ تمام شعراء چائے ناشتے کی میز پر براجمان ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ان میں سے کچھ احسن کی بےپناہ شہرت و مقبولیت سے خوش تھے اور کچھ اس کی کامیابی سے حسد کا شکار دل ہی دل میں اس سے نفرت کرنے لگے تھے۔ شعراء کی میز سے کچھ دور احسن اپنے نوجوان مداحوں کے جم غفیر میں گھرا کبھی کسی حسین دوشیزہ کی خواہش پر اس کی ڈائری میں کوئی شعر نوٹ کر رہا ہوتا کبھی دوسری طرف سے پوچھے گئے کسی سوال کا ہنس ہنس کر جواب دے رہا ہوتا اور کبھی کسی مداح سے کوئی تحفہ قبول کر کے اس کا شکریہ ادا کر رہا ہوتا۔اسے ایسا کرتے تقریبا آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا۔ لڑکیوں کی طرف سے دی گئی گلاب کی ٹہنیاں اب ایک بڑے گلدستے میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ اس کے گلے میں پڑا سرخ مفلر اب مداحوں کے درمیان تھا اور وجہ نزع بنا ہوا تھا۔ وہ اپنے حلقے کی نوجوان نسل کا پسندیدہ شاعر تھا۔ لوگ اسے بہت پسند کرتے تھے اور اسے بے پناہ عزت، پیار اور محبت سے نوازتے تھے۔ وہ بہت ہنس مکھ، ملنسار اور زندہ دل واقع ہوا تھا۔ وہ جس محفل میں جاتا تھا اس محفل کی جان بن جاتا تھا۔ لوگ اسے بہت خوش قسمت سمجھتے تھے اور اس کی خوش قسمتی پر رشک کیا کرتے تھے۔
وہ گلابی ٹھنڈ کی سرد شام تھی۔ رات کے10 بج چکے تھے۔ وہ بھیڑ میں سے ہٹ کر چائے کی میز پر آیا۔ گلدستہ نما گلاب کی آزاد ٹہنیاں میز پر رکھیں اور گرم چائے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ میز پر موجود کچھ معمر اور بزرگ شعراء اسے چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے آپس میں کھسر پسر کر رہے تھے۔ غالبا وہ اس سے یا ان گلاب کی ٹہنیوں سے متعلق ہی باتیں کر رہے تھے۔ احسن پر اب اس قسم کے واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ بڑے سکون کے ساتھ ان سب کے درمیان چائے و لوازمات سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ بھیگی سی شام ، خواب آلود فضاء خوشبوؤں میں لپٹے رنگ برنگے دوپٹے اور ہر طرف گونجتے قہقہےیہ سب مل کر جنت کا سماں پیش کر رہے تھے۔ جلسہ گاہ دھیرے دھیرے خالی ہو رہا تھا۔ وہ بھی اٹھا۔ کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بائک کی چابی چیک کی اور پارکنگ کی طرف بڑھ گیا۔ اندر کے برعکس پارکنگ میں بالکل سناٹا اور اندھیرا تھا بالکل اس کی زندگی کی طرح۔
اس نے تیزی سے انجن اسٹارٹ کیا اور بائک سڑک پر ڈال دی۔ وہ جلد از جلد اپنے کمرے میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ٹھنڈ بڑھ رہی تھی۔اب اس کا مفلر بھی اس کے گلے میں نہیں تھا۔ ہوا تیزی سے اس کی ناک اور کانوں سے اندر گھس رہی تھیجس کی وجہ سے اس کی آنکھوں اور ناک سے پانی بہنے لگا تھا۔ کمر کی ہڈی میں درد کی لہر اٹھ رہی تھی۔ آج اس نے دل کھول کر بدپرہیزی کی تھی اور اب اس کے انجام سے بھی وہ بخوبی واقف تھا۔ درد شدت اختیار کر رہا تھا اور پورے بدن میں پھیلتا جا رہا تھا۔ جیسے تیسے وہ لوج تک پہنچا، کمرے کا تالا کھولا اور جوتوں سمیت بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا اور بدن درد سے ٹوٹ رہا تھا۔ اسے اپنی ماں یاد آئی جو اس کے تھوڑا سا بھی بیمار پڑنے پر انتہا تک پریشان ہو جاتی تھی اور بڑی بہن نرگس اس کی تیمارداری میں سب کچھ بھول جاتی تھی۔ وہ ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔
اس کے پاپا گورنمنٹ ٹیچر تھے اور ممی ہاؤس وائف تھیں۔ اس کے پاپا غصے کے بہت تیز تھے۔ ان کو بیٹے کی خواہش تھی لیکن نرگس آپی کی پیدائش نے انہیں بہت مشتعل کر دیا تھا۔ بیچاری نرگس آپی مجرموں کی طرح ممی کے آنچل میں پروان چڑھتی رہیں۔ ان کی پیدائش کے چار سال بعد وہ آیا تھا۔ پاپا بہت خوش تھے۔ ان کا خواب تھا کہ اسے ڈاکٹر بنائیں گے۔ لیکن جب اسے پڑھائی لکھائی کی کچھ سمجھ بوجھ ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ میڈیکل میں تو اسے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ آرٹس میں جانا چاہتا تھا۔ اس نے کئی بار پاپا سے دبے لفظوں میں بات بھی کی تھی لیکن ہمیشہ وہ اس بات پر غضبناک ہوئے تھے اور سختی سے اسے نیٹ کی تیاری کرنے پر مجبور کیا کرتے تھے۔ تین سال نیٹ کی تیاری کرنے اور ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اس نے ایک بار پھر پاپا کو سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر اس بار انہوں نے حتمی فیصلہ سنا دیا تھا کہ اب اگر اس نے نیٹ کلیئر نہیں کیا تو اسے گھر سے نکال دیں گے اور تب تک وہ اس گھر میں قدم نہیں رکھے گا جب تک وہ میڈیکل میں ایڈمیشن کے قابل نہیں ہو جاتا۔ اور وہی ہوا تھا۔ اس بار بھی ناکامی ہی اس کا مقدر بنی تھی۔ ممی اور آپی کے لاکھ رونے، منتیں کرنے کے باوجود پاپا نے اسے دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ اس کو گھر سے نکلے چار سال ہو گئے تھے۔ تب سے وہ تنہائی کی زندگی گزاررہا تھا لیکن اس نے دوبارہ کبھی گھر جانے کے بارے میںنہیں سوچا تھا۔ اس دوران اس نے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر بی۔اے کیا تھا اور اب ایم۔اے کر رہا تھا۔ ادب سے اسے پہلے ہی لگاؤ تھا۔ ادبی ماحول ملنے کی وجہ سے اس کی صلاحیت خوب نکھر گئی تھی۔ وہ ایک اچھا شاعر تو تھا ہی ساتھ ہی ایک اچھا انسان بھی تھا۔ اپنے مستقبل کو لے کر اس کے مقاصد بہت بلند اور عزائم بہت پختہ تھے لیکن زندگی اس کے ساتھ بہت بڑا مذاق کر گئیتھی۔ چند ماہ پہلے بار بار آنے والے سخت بخار شدید بدن درد کی شکایت پر ڈاکٹر نے اس کے خون کی جانچ کرائی تھی جس میں اسے لیوکیمیا کا مرض ڈائیگنوس کیا گیا تھا۔ وہ موت کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ کئی بار اس نے سوچا کہ گھر واپس چلا جائے مگر پھر پاپا کا عرصہ اور ممی و آپی کی پریشانی کا سوچ کر وہ کوئی فیصلہ نہ کر پاتا۔ اس نے اپنے مرض کے بارے میں کسی کو خبر نہیں دی تھی۔وہ اپنے چاہنے والوں کو یہ دردناک اور تلخ حقیقت کیسے بتاسکتا تھا۔ وہ تو سب کو ہنستا کھیلتا اور خوش باش ہی پسند تھا۔ لوگ اس کی خوش قسمتی اور زندہ دلی کی مثال دیا کرتے تھے۔ وہ کیسے لوگوں کا بھرم توڑ سکتا تھا۔ کیسے وہ اتنے لوگوں کا دل توڑ سکتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ اس میںاپنے پیاروں کو اپنی زندگی کی حقیقت سے روبرو کرانے اوراپنی رخصتی کی خبر سنانے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ وہ تنہا اپنی قسمت، اپنی زندگی اور اپنی ذات سے لڑ رہا تھا۔ مرض سے لڑنا تو اس نے کب کا چھوڑ دیا تھا۔ اب اس کی جتنی بھی زندگی بچی تھی وہ اسے ہنس کر ، خوش رہ کر اور لوگوں میں خوشیاں، امیدیں اور محبت بانٹ کر گزارنا چاہتا تھا۔
اپنی سوچوں میں گم احسن نے اچانک آنکھیں کھولیں۔ بخار کی شدت سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اس کا بدن تپ رہا تھا۔ پیروں کی مدد سے اس نے جوتے اتارے اور تیزی سے اپنے پڑھنے کی میز کی طرف لپکا اور میز پر رکھے رجسٹر و کاغذات کے ڈھیر کو الچنے لگا۔ وہ بےخودی کے عالم میں برق رفتاری سے کاغذات ادھر ادھر الچ کر کوئی مخصوص کاغذ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کافی دیر کی تگ و دو کے بعد اس کو اپنا مطلوبہ کاغذ مل گیا ۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔ جسم ٹھنڈ اور درد سے کانپ رہا تھا۔ وہ چارپائی کا سہارا لے کر وہیں فرش پر بیٹھ گیا۔ اس نے زیر لب اس کاغذ کی تحریر کو پڑھا۔ ہلکی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔دھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بند ہوتی گئیں اور وہ وہیں فرش پر ڈھے گیا۔ رات گہری اور پرسکوت تھی۔ اندھیرے کمرے میں چاروں طرف کاغذات بکھرے پڑے تھے اور ایک رقعہ احسن کے ہاتھوں میں دبا تھا۔ جس پر ایک تحریر تھی ۔
اکیلا ہوں مگر آباد ہوں میں
قفس میں ہی سہی آزاد ہوں میں
یہ دنیا مقتلوں سے کم کہاں ہے
سبھی کے قتل سے ناشاد ہوں میں
مرے سینے پہ کس کے نقش پا ہیں
یہ کس کی ذات سے برباد ہوں میں
زمانہ شوق سے سنتا ہے مجھ کو
زمانے سے جڑی روداد ہوں میں
قطار مرگ میں ہوں سوچتا ہوں
کہ کس سے پہلے کس کے بعد ہوں میں
(زہیب فاروقی افرنگ)