یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم موصول ہونے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
شہزاد بخت (شبؔ ) انصاری
حسینہ کو جواد کی عدم توجہی اور بیزاری نے بہت پریشان کر رکھا تھا۔ ہمہ وقت اپنی ذات کے گرد بھنوررے کی طرح منڈلانے والے شوہر کی بے رخی اور بے اعتنائی حسینہ کو اندرہی اندر کھائے جا رہی تھی۔رفتہ رفتہ جواد کی لا پرواہیوں نے رشتوں کے درمیان خلیج میں مزیداضافہ کردیا تھا ۔حسینہ کی چھٹی حس بیدا ر ہو چکی تھی۔ آج کل جواد، بر خلاف معمول ،روزانہ باقاعدگی سے غسل کرتا ،فیشن زدہ نت نئے لباس زیب تن کرتا، عطر کی خوشبو میں بسا ہوا اور بالوں کو سنوارتا ہوا گنگناتا ہواگھر سے رخصت ہو جاتاتھا۔جواد کے اس متغیر روئیے نے حسینہ کے شک کو ہوا دی۔ حسینہ یوں محسوس کرنے لگی تھی کہ جواد معاٌ کسی سرائے کا مسافر ہو جو رات گھر میں گذار کراگلی صبح چلا جاتا ہو۔غیریت کا یہ احساس اسے شدت سے ڈسنے لگا تھا۔ مسلسل انہیں خیالات کے ہجوم نے اس کا وجود مضمحل کردیا تھا اور وہ خاموش شمع کی طرح پگھلتی جا رہی تھی۔
حسینہ اسم با مسمی تھی،متناسب سڈول جسم ،سروقد،کتاب رو،غزالی آنکھیں، کشادہ پیشانی،ستواں ناک،پتلے ہونٹ،رخسار پر دلآویز تل اور جب بے اختیار ہنستی تو گالوں میں گڑھے نمودار ہوتے تھے۔گندمی رنگ اور چال’’ موج خرام یار بھی کیاگل کتر گئی‘‘ کے مصداق اس کے انداز نقش پا کی دلفریبی دھڑکنیں بڑھانے والی تھیں۔حسینہ قدرت زنانہ حسن کے تمام زیور سے آراستہ و پیراستہ پر کشش اور جاذب نظر تھی۔اس کے بر عکس جواد نسبتأ معمولی شکل و صورت سانولی سلونی رنگت،گٹھے ہوئے جسم کا شخص تھا جو پیشے کے اعباتر سے کار میکانک تھا۔ ہروقت اس کے سر پر کام کی دھن سوار ہوتی تھی۔لہذا اس کے جسم سے ہمیشہ پٹرول، ڈیزل، تیل اور گریس کی بو پسینے کی بو کی آمیزش کے ساتھ آتی تھی، بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہی بو اب جواد کی شناخت بن چکی تھی۔حسینہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیاہ کر جواد کی زندگی میں وارد ہوئی تھی۔ اس نے بہت قلیل عرصے میں جواد کو اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرلیا تھا۔ ہرچند کہ شادی سے قبل حسینہ بڑی نفاست پسند اور آرائز و زیبائش کی دلدادہ تھی، لیکن قسمت کے فیصلے کو اس نے بسر چشم قبول کرلیا تھا۔حسینہ جواد کی ہر خدمت کے لئے ہر وقت مستعد اور رضامند رہتی تھی بلکہ پیشگی تیاری کی قائل تھی۔جواد کو شکایت یاگلے کا موقع کبھی ہاتھ نہ آتا۔کبھی کبھی وہ جواد کے سینے میں سر چھپا کر اپنی ازلی خوا ہش کا اظہار کردیتی تھی۔
’’آ پ باقاعدگی سے غسل کرکے موزوں لباس زیب تن کر کے خوشبو میں بسے ہوئے جایا کریں۔ مجھے خوشی ہوتی ہے‘ ‘
لیکن جواد اس کی باتیںہمیشہ مسکرا کر ٹال جاتاتھا۔ حسینہ بھی مسکرا کر جواد کو گیرج کے لئے روانہ کر دیتی اور خود گھریلو مصروفیات میں گم ہو جاتی تھی۔
حسینہ جب کبھی ماحول کی یکسانیت، تنہائی اور کام کی ذیادتی و تھکن سے نڈھال ہو جاتی تو جواد کے سینے میںسر چھپا لیتی تھی۔اسے جواد کے بدن اور لباس کی مخصوص بو سے از حد طمانیت اور سکون کا احساس ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ غیر محسوس طور پراسے اس مخصوص بوکا نشہ سا ہو گیا تھا۔ بارہا اسے جواد کے قرب کے ساتھ اس مخصوص بو کی شدید طلب یوں ہوتی گویا منشیات کے عادیوں کو نشہ آور اشیا درکار ہوتی ہیں۔جواد بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔اسے اپنی توقعات سے کہیں زیادہ حسین، فرمانبردار،باوفا،قناعت پسند،سلیقہ مند اور محبت کرنے والی شریک حیات میسر آئی تھی۔ وہ یوںاپنی خوش بختی پر جتنا بھی ناز کرے کم تھالہذا جواد بھی اپنی تمام توجہ حسینہ پر ہی مرکوز کرتا تھا، اس خوش کن، رومان پرور ماحول میں دو سال پر لگا کر کہاں اڑگئے دونوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا۔ وہ معمول کی سرمستیوں میں گم وقت کی لہروں پر بے وزن تنکے کی طرح بہتے جا رہے تھے۔
لہذا حسینہ یہی سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اس سے کیا خطا سرزد ہوئی کہ جواد کی توجہ کا حصار ذرا ذر سمٹنے لگا تھا۔جواد اکثریاتو مصروفیت ظاہر کرتایا پھر خیالوں میں گم رہتاتھا۔حسینہ نے بارہا اس سے اس بدلے ہوئے روئیے کے بارے میں استفسار کیا تو وہ مسکرا کر خوبصورتی سے ٹال جاتا اور اضافی کام کاعذر پیش کر دیتاتھا۔ حسینہ اسے بارہا منع کرتی کہ ’’آپ اس قدر کام نہ کیا کریںجو آپ کی صحت اور حواس کو متا ثر کردے‘‘
جواد اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ
’’ میری ساری کوشش یہی ہے کہ ہم کسی اونچی سوسائٹی میں اپنا ذاتی مکان لے لیں۔ میںتمہیں وہاں تمام آسائش حیات مہیا کر سکوںتاکہ تم ہمیشہ یونہی ہنستی مسکراتی رہو‘‘
گو حسینہ کا دل جواد کے جواز سے مطمئن نہ تھا لیکن وہ جواد پر حد درجہ اعتمادکرتی تھی۔اس کے نزدیک جواد کو مشکوک جاننا بھی بے وفائی کے مترادف تھا۔وہیں ان تمام حقائق سے قطع نظر جواد کا بدلا ہوا رویہ حسینہ کے لیے سوہان روح بنا ہوا تھا۔جواد تیار ہو کر علی الصبح گھر سے روانہ ہو جاتا۔ دوپہر اور شام کا کھانا بھی اکثر و بیشترباہر ہوٹلوں میں کھاتاتھا۔ حسینہ کی تشویش بجا تھی کہ سادگی اب دبے پاوں آرائش کا چولا بدل رہی ہے، کہیں دال میں کالا ضرور تھا۔لیکن وہ جواد سے براہ راست سوال کر کے ا پنے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور جواد کو شرمندہ کرنے میںعار محسوس کرتی تھی۔
ایک روز غزالہ جو اس کی دیرینہ سہیلی تھی اپنے شوہر رئیس کے ساتھ اس سے ملنے آئی۔ حسینہ نے بڑے تپاک سے بڑھ کر غزالہ کو گلے لگایا اور رئیس کو خوش آمدید کہہ کر ہال میں صوفوں پر بٹھا دیا۔باتوں باتوں میں رئیس نے اپنا تعارف پیش کیا
’’ بھابھی مجھے رئیس کہتے ہیں، میں بھی ایک گیراج کا مالک ہوں۔ اتفاقاٌ جواد کے سامنے ہی میرا بھی کار گیراج ہے۔‘‘
حسینہ کو رئیس کا غائبانہ تعارف جواد کے زبانی حاصل تھااور ان دونوں میںمدت سے جاری پیشہ ورانہ چشمک کا تذکرہ بھی سنتی رہی تھی۔اسلئے رئیس کو پہچاننے میں اسے دیر نا لگی۔غزالہ نے رسماٌ دریافت کیا’’ کہو حسینہ !کیسی ہو؟ سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے ناںَ؟
حسینہ نے روایتی انداز میں جواب دیا
’’الحمد اللہ حسب حال بحال‘‘تب رئیس نے بڑی شائستگی سے کہا ’’ بھابھی ہم یہی تو عرض کرنے آئے ہیں کہ بالکل خیریت نہیں ہے‘‘
حسینہ نے پر تشویش نظروں سے رئیس کے چہرے کے تاثرات ٹٹولنے کی کوشش کی رئیس پھر گویا ہوا
’’آپ تو اپنے گھر کے مضبوط قلعے میں قید رہتی ہیںمگر جواد ساحب ایک روبی نامی لڑکی سے عشق فرما رہے ہیں۔ اس کے ساتھ مختلف ہوٹلوں، پارکوں ، سنیماکے علاوہ دیگر تفریح گاہوں میں دیکھے گئے ہیں اور اس بات کا کافی چرچا ہو رہا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی حسینہ کو ایک زبردست جھٹکا لگا اور وفا کا طلسم چھن سے ٹوٹ کر بکھر گیا۔اعتماد یہ بات ماننے سے انکار کر رہا تھا لیکن حقیقت اسے منہ چڑا رہی تھی۔حسینہ تصویر حیرت بنی رئیس اور غزالہ کو ایک ٹک گھورتی رہ گئی۔دوران خون تیز ہو گیا، دل کنپٹی پر دھڑکتا ہوا محسوس ہوا ،زبان گنگ تھی، دل اور دماغ کا معرکہ جاری تھا ۔ جواد کی بے وفائی تووہ خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتی تھی۔اسے کان پڑی آوازیں بے اعتبار سی محسوس ہو رہی تھی۔بمشکل تمام مہمانوں کو رخصت کر کے وہ صٖوفے میں دھنس گئی۔
جواد قدرے تاخیر سے گنگناتا ہواگھر میں داخل ہواتو صوفے پر بیٹھی حسینہ کو ساکت پا کر یہ مصرعہ گنگنایا ’’ کیا ٹوٹا ہے اندر اندر کیوں چہرہ کمہلایا ہے؟‘‘
حسینہ بدستور ساکت بیٹھی رہی کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا، دماغ یہ سوچ کر شل ہو گیا تھاکہ آخر کیا خطا ہو گئی جس کی اتنی بھاری سزا ملی ہے۔جواد سے سوچا شاید تاخیر سے لوٹنے کے سبب عارضی خفگی ہوگی۔حسینہ نے نہ تو کھانا بنایا تھا ،نہ صفائی کی تھی، نہ ہی معمول کے دیگرکام نمٹائے تھے۔جواد نے گھر پر طائرانہ نظر ڈالی اور اپنی خفت مٹانے کے لئے وہی پرانا راگ الاپا’’ کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ کئی کئی روز سے مرمت کے لئے آئی کاریں یونہی پڑی تھیں آج جم کر کام کیا اور گاہکوں کی شکایت دور کردی‘‘
لہجے کا کھوکھلا پن عیاںتھا اور اب سمجھ میںبھی آنے لگا تھا۔حسینہ نے جواد کو پہلی مرتبہ قہر آلود نظروں سے دیکھااور بلا تامل اسے رئیس کی زبانی کہی ہوئی کہانی جوں کی توںسنا دی۔جواد غصے سے بپھر گیااور چینخا’’ رئیس جھوٹا ، مکار ، حاسد اور فریبی ہے۔‘‘
پھر حالات کی نزاکت دیکھ کر صفائی دینی شروع کردی۔’’رئیس نے کاروباری مقابلے اور میری ترقی سے حسد کی وجہ سے تمہارے کان بھر دئیے ہیںلیکن تم ہرگزاس کا اعتبار نہ کرو۔ وہ ہمارا ہنستا کھیلتا گھر بگاڑ نا چاہتا ہے ۔‘‘ لیکن حسینہ کو اب مزید اعتبار کرنا حماقت محسوس ہو رہی تھی۔حسینہ مصلحتاٌ خاموش تھی اسے اپنے اندھے اعتماد کی عمارت کے ڈھے جانے کا ازحد غم تھا۔رئیس کی زبانی حسینہ کو علم ہو چکا تھا کہ جواد، روبی کے ساتھ شاندار ریستورانوں میں طعام کرتا ہے ۔ لہذا نہ حسینہ نے کھانے کے لئے جواد سے پوچھا نہ ہی جواد نے کھانے کی فرمائش کی یا خواہش ظاہر کی تھی۔
بے اعتباری اور بے اعتنائی کے شب و روز گذرتے رہے۔ اب حسینہ کی غیرمتوازن نفسیات پر اندیشوں کے گہرے سائے منڈلانے لگے تھے وہ خاموش اور تنہائی پسند بن گئی تھی۔ ہر لمحہ عدم تحفظ، تنہائی اور فریب کا احساس اسے مزید متفکر اور حساس بنا دیتاتھا، جس کے سبب وہ کمزور اور لاغرسی ہو گئی تھی۔جواد حسب معمول صبح سویرے تیار ہو کر گیراج کے لئے روانہ ہو جاتااور رات گئے فرجی بہانوں اور مصروفیات کی تفاصیل کے ساتھ لوٹ جاتا۔ کبھی وہ حسینہ سے خوش گپیوں کا سوچ کر بھی آتا مگر حسینہ کا پژمردہ چہرہ دیکھ کر ہی اس کے حوصلے پست ہو جاتے۔ادھر صدمے خوف اور احساس تنہائی کے ساتھ ساتھ ٹھگ لئے جانے کاغم دو آتشہ ہوتا رہتا تھا۔ بھوک اور پیاس کے احساس سے بے نیاز حسینہ اب وقتاٌ فوقتاٌ فاقے بھی کرنے لگی تھی۔اس نقاہت اور کمزوی کے سبب وہ بارہا چکرا کر یا تو گر جاتی یا گھنٹوں بستر پر نیم بیہوشی کی حالت میں اپنی خطاوں کی راکھ کریدتی رہتی شاید کوئی چنگاری اس خاکستر میںنطر آجائے تو اس کے مضطرب دل کو کسی قدر قرار آجائے۔
ایک روز جواد گیراج سے گھر لوٹاتو اسے اپنے مکان کے آگے مجمع نظر آیا۔ یکلخت حیرت اور تشویش نے اسے آ گھیرا۔ یہ خیال کوندے کی طرح لپکا۔ ’’ کہیں آج حسینہ نے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس سے آگے وہ سوچ بھی نا سکااور تقریباٌ دوڑتے ہوئے دہلیز تک پہنچا تواس کی ہمسائی مسز بیگ نے اسے بتایا کہ’’ حسینہ گھر میں غش کھا کر گر پڑی تھی۔ کافی دیر تک اس نے نہ کوئی حس وحرکت کی اور نہ ہی آنکھیں کھولیں۔ ‘‘
جواد نے حسینہ کو فوراٌ ایک جدید اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں داخل کردیا۔ڈاکٹروں کے بر وقت علاج اور توجہ سے حسینہ ہوش میں آئی اوراس نے جواد کی مو جودگی کو محسوس بھی کیا۔ اب آہستہ آہستہ حسینہ رو بہ صحت ہو نے لگی تھی۔جواد کو احساس جرم نے پشیماں کر رکھا تھا۔ جواد اب سارا سارا دن حسینہ کے سرہانے بیٹھا رہتا اور تیمارداری میں مصروف رہتاتھانہ اسے گیراج کی فکر تھی نا روزگار کی پرواہ۔لیکن حسینہ نے مکمل طور پر خاموشی کی چادر اوڑھ لی تھی۔
ڈاکٹر نے جواد کی علحدگی میں طلب کر کے سمجھایا ’’ جواد! مریضہ نروس بریک ڈاون کا شکار ہے۔ وہ ذہنی طور پربیحد خوفزدہ ، سہمی ہوئی،تنہائی اور ع دم تحفظ کا شکار ہے۔ ایسے مریض ذیادہ توجہ اور نگہداشت چاہتے ہیں۔اسے کچھ عرصے کے لئے اس ماحول سے دور لے جاو۔ اسے تمہارے بھرپور ساتھ اور توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے احساس تنہائی اور عدم تحفظ کے علاوہ خوف کا مداوا فوری طور پر ضروری ہے۔‘‘
جواد کو بھی اپنی غلطیوں کا احساس ہو رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں عہد کر لیا کہ وہ اپنے معمول میں خاطر خواہ تبدیلی ضرور لائے گا تا کہ حسینہ کو وہ وقت دے سکے اور اس المیاتی کشمکش سے دوبارہ نہ الجھنا پڑے۔
جواد نے آب و ہوا اور ماحول کی تبدیلی کے لئے گوا کو منتخب کیاحسینہ کو لے کر جواد گوا پہنچ گیا جہاں اوسط قسم کے کاٹیج نما ہو ٹل میں قیام کیا۔ روازانہ وہ حسینہ کو لے کر مختلف تفریح گاہوں اور تاریکی مقامات کی سیر کو لے جاتاتھا لیکن حسینہ کے چہرے کی اداسی میں کوئی فر ق واقع نہیںہو تا۔صرف ساحل سمندر پر حسینہ بیٹھی گھنٹوںموجوں کو کنارے سے اٹکھیلیاں کرکے لوٹ جانے کی کیفیت کو بغور دیکھتی رہتی تھی۔ بے حس و حرکت ایک ٹک وہ اسی منظر کو تکتی رہتی تھی۔اس منظر کی دید سے اس کے چہے پر طمانیت کے آثار نمایاں ہوتے تھے۔جواد اور حسینہ کا ذیادہ تر وقت ساحل سمندرپر آراستہ چھتریوںتلے ہوا کا لطف لیتے ہوئے گذارتے اور خاموشی سے اپنے کا ٹیج میں لوٹ جاتے تھے۔ حسینہ کی آنکھوں کی ویرانی دیکھ کر جواد کواحساسِ جرم ہونے لگاتھا۔ انہی جذبات سے مغلوب ہوکر وہ اپنی خدمات میں مزید سرگرمی اور فعالیت کا اضافہ کردیتاتھا۔ دوہفتوں کی خاموش سیاحت کے بعد وہ اپنے گھر لَوٹ آئے۔
ایک روز جواد نے ڈاکٹر سے ملاقات کی اور حسینہ کے ساکت برتاؤ سے متعلق تبدلۂ خیال کیا۔ ڈاکٹر نے تسلّی دیتے ہوئے کہا، ’’جواد، کچھ مریض جلد یا بدیرمعمول کی زندگی کی طرف لَوٹ آتے ہیںاور کچھ کبھی نہیں۔ حسینہ کو جو نروس بریک ڈاؤن کا دورہ پڑاہے وہ خاصہ شدید اور وقت طلب ہے۔ بہر کیف تم بات چیت کے ذریعے اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرو۔ شاید کسی بات پر اُس کے دل کا غبارنکل جائے، نفسیاتی اُلجھن اور دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔‘‘
جواد نے محسوس کیاکہ سمندر کی لہروں کی آمدورفت حسینہ کو متاثر کرتی تھی۔ لہٰذااُس نے گوا سے لوٹنے کے بعد بھی روزانہ ساحل سمندرپر لے جانے کا معمول برقراررکھا۔ رفتہ رفتہ حسینہ کی دلچسپی میں اضافہ ہورہاتھا۔ پتھرائی ہوئی آنکھوں میں کبھی چمک کے آثار نظر آجاتے تھے۔ وہ نسبتاً زیادہ انہماک اور دلچسپی سے سمندر کی لہروں کو دیکھتی تھی۔ جواد اب بھی پُر اُمید تھاکہ نروس بریک ڈاؤن کے آسیبی سائے حسینہ کو رہاکردیںگے اور پھر وہ حسب معمول زندگی گزارنے لگے گی۔ ایک روز جواد کو خلافِ معمول گیراج سے لوٹنے میں تاخیر ہوگئی۔ سمندر پر جانے کی عجلت میں اُس نے لباس بھی تبدیل نہیں کیااور حسینہ کو لے کر ساحل پہنچ گیا۔ جواد نے ندامت کے احساس سے مغلوب ہوکرغیرارادی طورپر بات چیت چھیڑدی اور اس کے ساتھ ہی اُس نے اعترافِ جرم بھی کرلیا۔ وہ حسینہ کے سامنے گٹھنے ٹیک کر زاروقطار رورہاتھا ۔ ہچکیاں اور سسکیاں بھر کر کہنے لگا،
’’آخر مجھ سے کیا خطاء سرزد ہوگئی تھی ، جس نے تمھیں اس حال کو پہنچادیا۔ مَیں جانتاہوں کہ تمھاری اس حالتِ زار کا مَیں ہی خطاء وار ہوں۔ مگر تم نے اس قدر احساسِ جرم دلاکربے نیاز ہوجاناکیوں کر منظور کیا؟مَیں ذلّت کے احساس سے مَراجارہاہوں۔ مَیں اپنے گناہوں کا اژالہ کیسے کروں ؟ اپنی غلطیوں کی تلافی کیسے کروں؟ کاش تم اپنی ہنستی کھیلتی دُنیا میں لَوٹ آؤ۔‘‘
حسینہ ، خاموش اوربے حس و حرکت کھڑی رہی۔ جواد نے دوبارہ اُسے جھنجھوڑا۔ حسینہ نے ہفتوں بعد پہلی بار لب کشائی کی۔ ’’یہ روبی کون ہے؟‘‘
جوادروہانسہ ہوگیااور سسکتے ہوئے کہناشروع کیا،’’ روبینہ احتشام، میری کلاس فیلوتھی۔ بچپن میں والد صاحب کے انتقال کے بعد میری اور ماں کی کفالت کی ذمہ داری ماموں پر آن پڑی۔ مَیں ابھی اسکول میں زیرِ تعلیم ہی تھا کہ ایک ناگہانی حادثے میں ماں اور ماموں نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا اور مَیں خود اپنا بوجھ اُٹھانے کے لیے تنہا رہ گیا۔ یتیمی اور غربت کے سبب اسکول ترک کرکے ماموں کا گھر سنبھالنا پڑا۔ روبینہ ماضی کے دریچوں میں کہیں گم ہوگئی۔ ہرچند کہ اُس کی میرے تئیں ہمدردی کب پسند میں تبدیل ہوگئی مجھے احساس تک نہ ہوا۔ روبینہ کو ہمیشہ یہ تشویش رہی کہ جواد آخر کہاں چلاگیا۔‘‘
ایک روز اچانک روبینہ اپنی کار کی مرمت کے سلسلے میں میرے گیراج پر آئی۔ اُس نے مجھے میرے چہرے کے نقوش اور بالوں کی وضع قطع سے پہچان لیا۔ ازسرِ نو تعارف کے بعد اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک بینک میں مینیجر کے عہدے پر فائض ہے اور یوں ہماری اتفاقی ملاقات ر فتہ رفتہ سیرسپاٹوں ہوٹل بازی، فلم بینی اور خوش گپیوں میں تبدیل ہوگئی۔ روبی نے بارہااسرارکیا،تم مجھے اپنی بیوی سے تو ملاؤ۔ مگر مجھے خوف تھا کہ کہیں تم اس رشتے سے بدگمان نہ ہوجاؤ۔ اس لیے مَیں روبی کو ہربار ٹالتارہا۔ ‘‘
جواد لمحے بھر کو رکا۔ اُس نے حسینہ کے تاثرات کا جائزہ لیا پھر گویاہوا۔
’’تم یقین جانوہم دونوں کے درمیان نہ کبھی عشق عاشقی کے جذبات تھے اور نہ ہی اب ہیں۔ ہاں مَیں نے تمھاری وفا میں خیانت ضرورکی ہے۔ اس کاگناہگار ضرورہوں۔بخدامجھے معاف کردو۔ مَیں بھٹک گیاتھا۔ گھر کے چراغ کی فرحت بخش روشنی چھوڑکرمَیں ہوٹلوں کے مصنوعی قمقموں کی چکاچوند کردینے والی روشنی میں اپنی آنکھیں خیرہ کرنے چلاگیاتھا۔ تم جیسی باوفا، قناعت پسند، خوبصورت اور محبت کرنے والی بیوی سے بلاوجہ فرارحاصل کرتارہا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے جواد کا گلا رندھ گیا۔ حسینہ کے ساکت جسم میں حرکت پیداہوئی۔ اُس نے ہاتھ اٹھائے اورفرطِ محبت سے جواد کا سراپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ جواد خاموشی سے کھڑاہوگیا۔ حسینہ نے اپنا سرجواد کے چوڑے چکلے سینے میں چھپالیا۔ عرصے بعد وہی مخصوص بوحسینہ کی نتھوں سے ٹکرائی اور آناً فاناً اُس کی رگوں پے میں سرائیت کرتی چلی گئی۔ اُس کے صبر کا پیمانہ چھلک اُٹھا تھا۔ حسینہ کی آنکھوں سے دل کا غبار مسلسل بہنے لگا۔ اشکوں کے پاکیزہ قطرےدل کا غبار بن کر جواد کے متعفن لباس میں جذب ہوتے جارہے تھے۔
۲۳۸، ،معاملیدار گلی، نیووارڈ، مالیگاؤں ضلع ناسک مہارشٹر انڈیا