9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ذوالفقار خان زلفیؔ
ماچس
وہ سنسان سڑک پر چلتا چلا جا رہا تھا۔ایک آدمی سے موڑ پر ماچس مانگی وہ اپنی سگریٹ جلا کر دھواں اڑانا چاہتا تھا۔ ۔یکایک اسے خیال آیا کہ اس کا دوست جو سگریٹ پیتا تھا اب اس دیار فانی سے کوچ کر چکا ہے ۔
اس شخص نے پھر کہا!
کیا آپ کے پاس ماچس ہے؟
دوسرے شخص نے جواب دیا ۔۔
’’میں سگریٹ چھوڑ چکا ہوں زندگی کو برباد کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے دل و جگر کو جلانا چھوڑ دوں ‘‘۔۔۔۔اس شخص نے کہا !۔۔۔۔تم نے سگریٹ چھوڑ دی اور میں نے دنیا بس اب ایک ماچس کی تیلی سے اپنی چتاجلانا چاہتا ہوں افسوس اس مردہ جسم کو کوئی آگ کے حوالے نہیں کرتا لیکن زندہ لوگوں کو جلا کر اس معاشرے کو خوشی ملتی ہے۔
مچھر
ایک بھنبھناتا ہوا مچھر میرے کان سے ہو کر گزرا میں ٹی ۔وی میں رات 9 بجے کا پرائم ٹائم دیکھ رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ ٹیکنالوجی نے کتنی ترقی کرلی ہے ۔ایک زمانہ تھا جب ریڈیو کی بھنبھناہٹ سناکرتے تھے اور اس سے آنے والی آوازوں کے گرویدہ ہو جاتے تھے لیکن آج جب ٹیلی ویژن پر تصویروں کے ساتھ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں تو نہ جانے کیوں وحشت ہوتی ہے۔ پھر اچانک میں نے ایک درد کا احساس کیا جو مچھر کے کاٹ نے سے مجھے ملا تھا۔۔