9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
رمّانہ تبسم
عشق کا وائرس
پورے ملک میں کورونا کی وبا اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ ہر پیرو جواں احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہویے تھا۔سارے ملک میں ایک خوف کا عالم تھا ۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ گویا قیامت کا سماں تھا ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔عزیز و اقارب دوست اور احباب ہاتھ ملانا تو کیا ملنا ملانا تک بھول گیے تھے ۔۔۔۔۔مگر ایسے حالات میں بھی عامر اپنی محبت طاہرہ کو نہیں بھولا تھا ۔کرفیو کے باوجود وہ اس کے گھر کے روز چکر لگا کر ناکام و نامراد واپس آجاتا۔اسے نہ کرفیو کا خوف تھا نہ کورونا وائرس کا ۔۔۔۔۔اس کی بیماری کا علاج تو اپنی محبت کا دیدار تھا۔۔۔۔۔کچھ ماہ بعد کورونا کی وبا ٹل گئی مگر عامر کے عشق کے کورونا میں مذید اضافہ ہو چکا تھا۔وہ طاہرہ کے عشق میں نیم پاگل اور بیمار ہو چکا تھا اور ایک روز وہ ہمیشہ کے لیے یہ دنیا فانی چھوڑ کر رخصت ہو گیا ۔اس کے مرنے کے بعد سب لوگ یہی سمجھتے رہے کہ کورونا وائرس ہی کی وجہ سے عامر کی موت واقع ہوئی ہوگی اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے چارہ ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گیا ہے ۔۔۔۔۔مگر کو ن لوگوں کو سمجھایے کہ ’’عشق کا وائرس ‘‘جو ہے وہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
سکون
دنیا گلوبل ایج میں داخل ہو چکی ہے ،سبھی جانتے ہیںاب چاند پر تیزی سے کالونیاں تعمیر ہو رہی ہیں اور لوگ مستقل طور پر آباد ہو رہے ہیں ۔ایسے میں وہ بھلا کیوں پیچھے رہتا۔لیکن جیسے ہی اسے پتا چلا کہ چاند پر ریسٹورانٹ کھل رہے ہیں۔ اس نے اپنے فلیٹ کی بکنگ کینسل کر دی۔
کیوں کہ
چیف جسٹس کی قیادت میں تشکیل بنچ نے اتفاق رائے سے اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔۔۔ملک کے عوام پر چاروں طرف سے زور ڈالا جا رہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر ابھی جشن نہ منائیں۔۔۔۔’’کیوں کہ جیت کے بعد ہار ہے۔
نیا جہاں
نئے جہاں کی تلاش میں سائنس داں دن رات مشن میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔حکومت اس مشن پر پانی کی طرح پیسے بہار رہی تھی تاکہ زمین سے لے کر نئے جہاں تک اپنی حکومت قائم رکھ سکے۔
مگر یہ کیا ۔۔۔۔۔!‘‘
’’مشن اچانک فیل ہو گیا ۔۔۔۔۔سائنس دانوں میں مایوسی چھا گئی ۔۔۔۔۔مگر سیاست داں اب بھی پر عزم تھے۔’’مشن فیل ہو گیا کوئی بات نہیں حوصلے بلند ہونے چاہئے ۔ہم اپنی کامیابی کے لئے جنتا کا خون چوس کر پیسے پانی کی طرح پھر بہائیں گے۔۔۔۔۔نئے جہاں کی تلاش میں۔
اصول
چلچلاتی دھوپ میں دیوار کی پناہ لئے اس انتظار میں کھڑا تھا کہ شاید کوئی سواری مل جائے تبھی کسی نے قریب آکر زور سے کہا۔
’’پرنام سر جی۔۔۔۔۔!‘‘
’’پرنام ۔۔۔۔۔پرنام!‘‘ اس نے پلٹ کر دیکھا اور پسینہ پوچھتے ہوئے بولا۔
’’آج تیرا رکشہ کہاں ہے۔‘‘
’’پرائو پر رکھ دیاسر جی!‘‘
’’کیوں اتنی جلدی ؟اب میں کیسے جائوں گا ۔صبح سے دوستوں کے ساتھ پارٹی انجوائے کر رہا تھا ۔گھر جا رہا ہوں تو بیچ راستے میں اسکوٹی خراب ہو گئی ،کافی دیر سے کھڑا ہوںکوئی سواری نہیں مل رہی۔‘‘
’’چھما(معاف) کرنا سر جی!ہم اپنا رکشہ رکھ چکے ہیں ،ویسے ہمارا اصول ہے۔‘‘
اس نے رکشے والے کو حیران نظروں سے دیکھا ایک رکشے والے کا بھی اصول ہے۔
’’بھور سے لے کر تین بجے تک آپ پبلک کے لئے ،بارہ تیرہ سو کاجگار ہو گیا بہت ہے۔اس کے بعد اپنی پتنی اور بچوں کو سمئے۔‘‘’’پرنام سر جی!چلتا ہوں تین بجے کے بعد کا سمئے ہمارا پتنی بچوں کا ہوتا ہے سر۔‘‘