9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سید اسماعیل گوہر
ناندورہ (مہاراشٹر)
9970216164
کرفیو
حاجی سیٹھ مکارم شہر کے چند گنے چنے رئیسوں میں سےتھے۔ شہر میں ان کی کپڑوں کی کئی دکانیں تھیں۔ عالیشان بنگلے اور خوبصورت کاریں تھیں۔ پچھلے برس ہی انھوں نے تیسری بار حج کیا تھا۔ ہمیشہ اپنے بیوپار میں مصروف رہا کرتے تھے۔ مگر پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنے گھر پر ہی تھے۔ حکومت نے بیماری کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کر دیا تھا۔ شہر میں کرفیو جیسے حالات تھے۔ آج بھی وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے بچوں کے ساتھ کرفیو کی خبریں دیکھ رہے تھے۔ پولیس سڑکوں پر گھومنے والوں کی ڈنڈوں سے آؤ بھگت کر رہی تھی۔ پولیس نے اس لڑکے کو بھی نہیں بخشا ،جس کے ایک ہاتھ میں دودھ کی بوتل اور دوسرے ہاتھ میں بریڈ کا پیکٹ تھا۔
“دیکھو جی ابًو۔۔۔ بے چارے کو کتنی ہے دردی سے پیٹ رہی ہے پولیس۔۔ ” سیٹھ مکارم کی چھوٹی بیٹی نے رحمدلی سے کہا۔” بالکل ٹھیک کر رہی ہے پولیس۔۔۔ ایسے لوگوں کو تو گولی ماردینا چاہیے۔۔۔ کیا ضرورت ہے کرفیو میں گھر سے باہر نکلنے کی۔۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی بیماری پورے شہر میں پھیل سکتی ہے۔” سیٹھ جی نے بریانی کہ پلیٹ سے ایک بڑا سا لیگ پیس اٹھاتے ہوا کہا ۔
وجہ
انٹر نیشنل انگلش اسکول کی پرنسپل مِس ماریہ نے موبائل فون سے اپنی سہیلی مِس مالتی کا نمبر ڈائل کیا ، جو ایک انگریزی میگزین کی کالم نگار تھی۔ کچھ دیر رنگ جانے کے بعد مِس مالتی نے فون ریسیو کر لیا۔ مس ماریہ نے خیر خیریت پوچھنے کے بعد موجودہ حالات پر تبصرہ شروع کر دیا۔ ” میں تو بور ہوگئی ہوں گھر میں بیٹھے بیٹھے ” مِس ماریہ نے تاسف سے کہا۔ “تو کچھ دیر کے لیے باہر چلی جایا کرو۔۔۔۔ کرانہ اور سبزیوں خریدنے کے بہانے ” مِس مالتی نے مشورہ دیا۔ “ارے نا بابا نا۔۔۔۔۔ ایسے کرفیو اور لاک ڈاؤن میں کیا باہر نکلنا۔۔۔ میں نے تو پہلے ہی پورے تین مہینے کا راشن اور کئی دنوں کی سبزیاں و پھل اسٹور کر لیے تھے۔” مِس ماریہ نے بڑے فخر سے بتایا۔ ” لیکن لوگوں پر تو لاک ڈاؤن کا کچھ بھی اثر نہیں ہو رہا ہے ، مزے سے خریدی کر رہے ہیں اور غریب مزدور اپنے اپنے گاؤں لوٹ رہے ہیں ، کیا انھیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں ہے؟ ان کے ایسا کرنے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔؟
” وجہ ہے۔۔۔۔ ان کی مادری زبان کی اسکولیں۔۔ اگر انھوں نے کسی اچھی انگریزی میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو آج انھیں لاک ڈاؤن کا مطلب سمجھ میں آ سکتا تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام اسکولوں کو بند کرکے انگریزی میڈیم اسکولیں شروع کرے”۔ مِس ماریہ بلند آواز سے مِس مالتی کے سوال کا جواب دیا۔
مِس ماریہ کی اس بے تکی وجہ سُن کر مِس مالتی نے فوراً فون کاٹ دیا اور مس ماریہ۔۔۔ ہیلو۔۔ہیلو کرتی رہ گئی۔
کیمرہ
وزیر اعظم نے جیسے ہی 21 دنوں کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ شہر کے بازاروں اور کارخانوں پر تالا پڑ گیا۔تمام ریل گاڑیاں، بسیں اور ٹیکسیاں بھی بند کردی گئیں۔ وہ غریب مزدور جو روزی روٹی کی تلاش میں عارضی طور پر آباد ہوگئے تھے، واپس اپنے وطن لوٹنے لگے تھے۔ ایکسپریس وے جس پر بیک وقت چھ گاڑیاں آ جا سکتی ہیں، پیدل چلنے والے انسانوں کے ہجوم سے پٹا پڑا تھا۔ لوگوں بھوک اور پیاس سے زیادہ ڈر وخوف میں مبتلا تھے۔ ایسے میں ایکسپریس وے کے اطراف آباد لوگوں نے ان مجبور و بے بس لوگوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لاریوں اور ٹھیلوں میں کھانے پینے کا سامان لے کر راستے میں کھڑے ہوگئے ۔وہ لوگوں کے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان دے کر فوٹو نکالتے جاتے تھے۔ آخری سرے پر ایک بوڑھا غریب کسان بھی لوگوں کی مدد کے لیے اپنی بانس کی ٹوکری میں چند بسکٹ کے پیکٹ لے کر کھڑا ہوگیا تھا۔لیکن اس کے پکارنے کے باوجود بھی کوئی راہگیر اس سے مدد نہیں لے رہا تھا۔ شاید لوگ بوڑھے کو بھکاری سمجھ کر دور سے ہی گزر ے جارہے تھے۔ بوڑھے کسان کی مایوسی بڑھتی جارہی تھی۔ تبھی ایک نوجوان عورت ،جس کی گود میں ننھی سی بچی سوئی ہوئی تھی۔۔ جھجکتے ہوئے قریب آئی۔۔ بوڑھے نے پکارا ” آجاؤ بیٹی کچھ کھالو ” عورت نے جلدی سے بسکٹ اٹھا کر کھانے شروع کردیے۔۔ بوڑھے نے عورت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ” شاید میرے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر لوگ دور سے ہی گزرے جارہے تھے پھر تم کیوں آگئی”
“بابا مجھے زور کی بھوک لگی تھی۔۔ میں نے راستے میں دوسرے لوگوں سے اس لیے کچھ نہیں لیا کہ وہ فوٹو نکال رہے تھے۔۔ جب میں نے دیکھا کہ تمھارے پاس کوئی کیمرہ ‘ نہیں ہے تو میں سیدھی چلی آئی” عورت نے ایک بسکٹ منھ میں رکھتے ہوئے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔