افسانچے

0
67

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد علیم اسماعیل

 

روٹی
ارے بھائی یہ اتنی بڑی دیوار کیوں بنائی جا رہی ہے؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں اسی بستی کا ر ہواسی ہوں۔’’
’’اچھا!!! دیکھو بات یہ ہے کہ بڑے صاحب کا دورہ ہونے والا ہے اور ہمارے صاحب نے حکم دیا ہے کہ جھگی جھونپڑیاں، ایک بڑی سی دیوار بنا کر چھپا دی جائے۔‘‘
’’ایسا کیوں؟ ہمارے صاحب نے تو کہا تھا کہ غریبی ختم کریں گے۔ بھائی حقیقت سے شرمانا کیسا؟ یہ تو جھوٹی شان دکھانے والی بات ہوئی نا۔ اور لگتا ہمارے صاحب کی عقل موٹی ہے۔ بڑے صاحب تو سیٹلائٹ سے سب کچھ دیکھ لیتے ہیں۔ ان سے کوئی بھی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا چلو، اب باتیں بند کرو اور چھپ جاؤ۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’دیکھو سیدھے سے اس دیوار کے پیچھے چھپ جاؤ۔ نہیں تو جیل میں ڈال دیے جاو گے۔‘‘
’’میں تیار ہوں جیل میں جانے کے لیے کم از کم وہاں دو وقت کی روٹی تو مل جائے گی۔‘‘
تیسری
’’مجھے انڈیا کے مرد بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔ اِدھر شادی کرتے ہیں اُدھر طلاق دیتے ہیں۔ دو دو شادیاں کرتے ہیں۔ ہاں بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔‘‘
آنلائن شادی ویب سائٹ پر اس نے اپنے لیے لڑکا تلاش کر لیاتھا۔
لڑکا سعودی عرب سے تھا، کیونکہ انڈیا کے لوگ تو اسے پسند ہی نہیں تھے۔
شادی کر کے وہ سعودی عرب چلی گئی۔
وہاں جاکر اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے شوہر کی تیسری بیوی ہے۔
نمازی
شوہر نے کہا، ’’تھوڑا سا کھانا بھیج دو۔‘‘
بیوی تنک کر بولی، ’’کچھ ضرورت نہیں، بھوکے مر نہیں رہے ہیں وہ۔ لوگ بہت دے رہے ہیں انھیں۔‘‘
’’تم کیسی بات کرتی ہو۔‘‘
’’زیادہ سخاوت مت دکھائو۔ چلو ہٹو، اذان ہو گئی۔‘‘
نماز تو وہ پانچوں وقت کی پڑھ رہی تھی، لیکن اس کے پڑوس میں رہ رہے یتیم بچوں سے رحم و کرم کا معاملہ بے نمازی کر رہے تھے۔
زمیندار
’’ہم شادی کب کریں گے؟‘‘
’’فکر کیوں کرتی ہو جانے من، بہت جلد۔‘‘
’’میں جلدی سے تمھاری دلہن بننا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں جان، تم ہی میرے گھر کی شہزادی بنو گی۔ میری دو سو ایکڑ زمین کی مالکن بنو گی۔‘‘
وہ شہر میں کام کرنے گیا تھا۔
وہاں یہ کہہ کر لڑکی پٹائی کہ وہ کنوارا ہے اور اپنے گاؤں کا زمیندار ہے۔
جبکہ گاؤں میں اس کے دو ادھ ننگے، میلے چکٹ بچے محلے کی نالیوں میں کھیل کود کر رہے تھے۔
نام؟
بیچ چوراہے پر دنگائیوں نے اسے گھیر لیا۔ اور پوچھنے لگے : ’’بتا کیا نام ہے تیرا؟‘‘
وہ گھبرا گیا۔ اس کے منہ سے نکلا: ’’سلما سلما!!‘‘
دنگائیوں میں سے ایک نے چلایا: ’’اچھا سلمان۔‘‘
پھر سبھی نے ایک آواز میں کہا: ’’مارو مُلّے کو۔‘‘
اور سبھی اس پر ٹوٹ پڑے۔
پستول، چاقو، تلوار، ڈنڈے، ہاکی اور لوہے کی سلاخوں سے اس کے جسم کو چھلنی کر دیا۔
تین دن بعد دنگے تھم گئے۔
چوراہے پر پڑی اس کی لاش پولیس اٹھا کر لے گئی۔
یہ منظر ٹی وی پر لائیو چل رہا تھا۔
دنگائی بھی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے، تب معلوم ہوا کہ مرنے والے کا نام ’سلمان‘ نہیں ’شرما‘ تھا۔
پتھر والے
لاکھوں انسانوں کی بھیڑ ایک محلے پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑی۔ محلے کے چند لوگوں نے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے، اپنی حفاظت کے لیے، لیکن ناکام رہے۔ ان کے گھر جلا دیے گئے، دوکانیں لوٹ لی گئیں، ماں بہنوں کی عزت تار تار کر دی گئی، بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ لاکھوں کی بھیڑ کے آگے وہ بے بس تھے، لاچار تھے، مجبور تھے۔
تین دن تک ظلم اور بربریت کا کھیل چلتا رہا، لیکن حیوانوں کو روکا نہیں گیا۔ گویا انھیں چھوٹ دی گئی ہو۔ حملہ آوروں کے ہاتھوں میں پستول، ننگی تلواریں، چاقو، سلاخیں، ڈنڈے اور بھالے تھے۔ اور محلے والوں کے ہاتھوں میں صرف پتھر تھے، ہاں پتھر، جو بے بسی کی نشانی تھے۔
پوری بستی اجڑ گئی، بعد نیوز چینلوں نے ان پتھروں کو ایسے دکھایا جیسے وہ نیوکلیائی بم ہوں۔
پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہتھیار والے ہاتھ آزاد رہے اور پتھر والے ہاتھ گرفتار کر لیے گئے۔
وحشی
اپنے مذہب کی حفاظت کے لیے وہ فسادی بن گیا۔ اور کئی انسانوں کا بڑی بے رحمی سے قتل کردیا۔ پھر دوسرے مذہب کے ایک شخص نے نہایت ہی وحشیانہ طریقے سے اسے مار ڈالا۔ دونوں بھی مذہب کے اصولوں پر چلتے نہیں تھے۔
فسادی
شہر میں برپا فسادات کے بعد چار دوست آپس میں گفتگو کر رہے تھے:
’’دوست اس بار فساد میں مسلمانوں نے ہندوؤں کو بچانے کا کام کیا۔‘‘
’’ہاں بھائی ہندوؤں نے بھی مسلمانوں کو بچانے کا کام کیا۔‘‘
’’یار پھر پولیس اور حکومت نے کیاکام کیا؟‘‘
’’دونوں کو مارنے کا ۔‘‘ چوتھے نے برجستہ جواب دیا۔
خاموشی
وہ بڑے فخر سے سینہ تان کر بار بار کہتا تھا کہ اس نے پورے شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے ہیں۔اور آج لوگ اس سے سوال کر رہے تھے۔
’’سر آپ نے شہر میں سی سی ٹی وی لگائے تھے، تو دنگوں کی ایک بھی فوٹیج جاری کیوں نہیں کی؟‘‘
’’سر آپ نے یہ قدم شہرمیں ہو رہے کرائم کو روکنے کے لیے ہی تو اٹھایا تھا، پھر فوٹیج جاری نہ کرنے کا مقصد/ مجبوری کیا ہے؟‘‘
’’سر آپ کچھ جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘
’’سر فسادات میں شہر کے ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کو ،ان کے گھروں اور دکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ کیا یہ ایک منظم سازش تھی؟‘‘
’’سر اگر فوٹیج جاری کر دی گئی تو دنگائیوں کو پکڑنے میں آسانی ہوگی۔ آخر آپ کے یہ سی سی ٹی وی کس کام کے؟‘‘
آج لوگ سوال کرتے رہے ہیں اور وہ خاموش ہے۔
ایمانداری
وہ حاکمِ وقت سے کہہ رہا تھا:
’’آپ سے زیادہ ایماندار تو کور ونا وائرس ہے صاحب۔ این۔آر۔سی، این۔پی۔آر، سی۔اے۔اے کے ذریعے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر آپ یہ طے کر رہے تھے کہ کون اس سر زمین پر رہے گا اور کون نہیں۔ لیکن اب یہی کام کورونا وائرس کر رہا ہے صاحب وہ بھی بنا بھید بھاؤ کے۔‘‘

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here