افتخار عارفؔ کے ایک سلام کا تجزیہ

0
920

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی

افتخار عارفؔ جدید اردوشاعری کی وہ مستند آواز ہیںجنھوں نے روایتی شاعری سے استفادہ کیا اور جدید اردو غزل کو ایک نیا آہنگ عطا کیا بلا شبہ اردو کی جدید شاعری میں غزل اور نظم دونوں کے حوالے سے ہی ان کا لہجہ نہایت متاثر کن اور انفرادیت کا متحمل ہے۔انھوں نے جس نہج کی شاعری کی اس میں ان کے دور کی تصویر،فلسفہ اور مسائل کے ساتھ ساتھ ان کا نکھرا ہوا اسلوب نمودار ہوتا ہے ۔ان کے یہاں غم و الم کے نقوش بھی ہیں تنہائی کا کرب بھی ہے وجودیت کا فلسفہ بھی ہے لیکن ایک توازن کے ساتھ وہ فسردگی کے عالم میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتے،تنہائی کے کرب میں زمانے کو فراموش نہیں کرتے،وجودیت کا احساس دلاتے تو ہیں لیکن اس نوعیت کے ساتھ کہ ان کی ہستی سارے زمانے کا استعارہ بن کر ابھرتی ہے۔ان کی لفظیات پر غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ وہ اس حوالے سے بھی بھیڑ میں جدا نظر آتے ہیںکہ ان کے یہاں جو تشبیہات،استعارات اور علامتیں عمل انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں وہ بھی جاذبیت و انفرادیت کا لوہا منواتی ہیں یہاں تک کہ ان کی یہاں استعمال کی گئی تراکیب بھی اپنا ایک انداز اور تیور کھتی ہیں۔وہ سپاٹ شعر کہنے کے قائل نہیں۔ ان کی شاعری اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی راہ سے سرسری طور سے نہ گذرا جائے بلکہ اس کے بین السطور کی تفہیم کا ادراک حاصل کرتے ہوئے جدید شاعری کی نئی فضا سے آشنا ہوا جائے۔وہ اپنی شاعری میں کہیں دنیا دار نظر آتے ہیں تو کہیں صوفی منش شخصیت لیکن ان کی دنیا داری میں مکر و فریب کے عناصر نہیں بلکہ دنیا داری کا مقصد سماج اور معاشرے کے نشیب و فراز کا اظہار کرنا ہوتا ہے اسی طرح ان کا تصوف ریا کاری نہیں بلکہ وہ راہِ سلوک کے دل سے مطیع ہیں۔لیکن ان کی شاعری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی شاعری کا محور واقعہ کربلا اور متعلقاتِ کربلا سے روشنی اخذ کرتا ہے ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں ان کامرکز و محور کربلا ہی ہے جس سے وہ دنیا کو ظلم و تعدی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے آمادہ کرتے ہیں اور انسان شناسی،اطاعت،وفا داری،سلوک اور حق پر جان دینے کا درس دیتے ہیں۔رسولؐ اور آلِ رسولؐ سے گہری رغبت رکھتے ہیں۔ان کی مودت کو فرضِ عین جانتے ہیں اور تمام زندگی درِ اہل بیت کی غلامی میں گذارنا چاہتے ہیں کیونکہ غلامی رسولؐ اور آلِ رسولؑ دین و دنیا میں کامیابی کی دلیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کوئی مجموعہ اٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں حمد و نعت کے ساتھ ساتھ سلام و منقبت بھی ملتے ہیں اور غزل و نظم میں ایسے اشعارملتے ہیں جو ان کی عقیدت کی دلیل ہیں۔فی الوقت ان کے ایک سلام کا مختصر جائزہ لینا مقصود ہے۔

سلام
مظہرِ خوشنودیِ داور علم عباسؑ کا
ایک دن لہرائے گا گھر گھر علم عباسؑ کا
کیسا لگتا ہوں میں جب کرتا ہوں مدحِ اہلِ بیت
کیسا لگتا ہے مرے سر پر علم عباسؑ کا
ہم غلامانِ درِ مشکل کشاء مشکل کے وقت
چومتے ہیں یا علیؑ کہہ کر علم عباسؑ کا
کون جانے روزِ عاشورہ فرازِ نور سے
دیکھتے ہوں فاتحِ خیبر علم عباسؑ کا
اک پھریرا اک نشانِ خیر اک ننھی سی مشق
ہر دلِ مومن کو ازبر ہے علم عباسؑ کا
کاش سن پائوں کسی رہوار کے قدموں کی چاپ
دیکھ پائوں خواب میں اکثر علم عباسؑ کا
کون جانے آج اس جشنِ مبارک کے طفیل
سر پہ لہراتا رہے شب بھر علم عباسؑ کا

مندرجہ بالا اشعار حضرتِ عباسؑ ابنِ علیؑ کی مدح میں تصنیف کئے گئے ہیں جس میں محبت و عقیدت اور مودت کے چراغ روشن ہیں۔مطلع سے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ افتخار عارفؔ کی فکر کس معیار کی ہے اور وہ خانوادۂ رسولؐ اور آلِ رسولؑ سے کتنی عقیدت رکھتے ہیں۔
مظہرِ خوشنودیِ داور علم عباسؑ کا
ایک دن لہرائے گا گھر گھر علم عباسؑ کا
ان کا خیال ہے کہ اگرکوئی خوشنودیِ داوریعنی رضائے الٰہی کا طلبگار ہے تو اسے چاہئے کہ علمِ حضرت عباسؑ ابنِ علیؑ کی زیارت کرے اور اپنے مکان میں اس کو سجائے کیونکہ ایک دن یہ علم دنیا کے ہر گھر میں لہرائے گا۔مطلع یوںتو سادہ ہے لیکن دراصل جس طرح اس کا ظاہر سادہ وسلیس ہے اس کے باطن پر غور کیا جائے تو اس کے مختلف پہلو ظاہر ہوں گے۔مثلاً یہاں شاعر کی عقیدت کا بیان یہ ہے کہ ہم رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے وسیلۂ اہل بیت رکھتے ہیں دوسرے علمِ عباسؑ کو جہاں مظہرِ خوشنودیِ داور کا استعارہ بنایا ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جس نے علم حضرتِ عباسؑ کی زیارت کی گویا اس نے اپنے ایمان کا ثبوت دیا۔
کیسا لگتا ہوں میں جب کرتا ہوں مدحِ اہلِ بیتؑ
کیسا لگتا ہے مرے سر پر علم عباسؑ کا
اس شعر میں شاعر استفہامیہ انداز میں اپنی عقیدت کے ساتھ ساتھ اپنی عظمت کا بھی بیان کرتا ہے اس کا خیال ہے کہ جو اہل بیت ؑ سے محبت کرتے ہیں وہ مقدر والے ہوتے ہیں اور زمانے میں ممتاز ہوتے ہیںان کی شخصیت زمانے کے دیگر افراد سے منفرد ہوتی ہے۔یہ شعر اس تاریخی واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ بعدِ کربلاعلی ؑ ابن الحسینؑ یعنی امام زین العابدین ،شاہِ شہیدانِ کربلاامام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی شان میں اشعار کہنے والوں کو انعام و اکرام سے نوازتے تھے جس سے شعرائے اہل بیتؑ کی عظمت و رفعت کا اندازہ ہوتا ہے۔یہی خیال افتخار عارفؔکا بھی ہے کہ ان کو ثنائے اہل بیت کرکے دنیا وآخرت کی نعمتوں سے اہل بیت سرفراز کریں گے چنانچہ فخریہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ میں جب مدحِ اہل بیت میں کلام پڑھتا ہوں اور میرے سر پر علمِ حضرتِ عباسؑ ہوتا ہے تو میں کیسا لگتا ہوں۔
ہم غلامانِ درِ مشکل کشاء مشکل کے وقت
چومتے ہیں یا علیؑ کہہ کر علم عباسؑ کا
حضرت علیؑ کا لقب مشکل کشاء ہے کیونکہ وہ اپنے محبوں کی ہر مشکل میں امداد اور حاجت روائی کرتے ہیں ۔ان کا مظہر ان کے فرزند حضرت عباسؑ ہیں جو حضرت علیؑ کے کمالات و اوصاف کا پرتو ہیں۔انھیں باب الحوائج بھی کہا جاتا ہے۔ وہ مثلِ علیؑ مشکل کشائی کرتے ہیں۔ اس مضمون کو نہایت خوبصورت انداز میں شاعر نے اس طرح باندھا ہے کہ جو درِ مشکل کشا ء کے غلام ہوتے ہیں تو جب ان پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ حضرت علیؑ کا تصور کرکے پرچمِ عباسؑ کو چومتے ہیں اور ان کی غیب سے مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
کون جانے روزِ عاشورہ فرازِ نور سے
دیکھتے ہوں فاتحِ خیبر علم عباسؑ کا
شعر میں فرازِ نور کی ترکیب توجہ کی متقاضی ہے۔تاریخِ قدسی کی رو سے اﷲایک چھپا ہوا خزانہ تھا اس نے اپنے نور سے محمد مصطفیٰؐ یعنی اپنے حبیب کا نور خلق کیا ۔اس کے بعد اس نور کو دو حصوں میں منقسم کیا اور نور کا دوسرا ٹکڑا حضرت علیؑ کا وجود تھا۔یعنی خلقتِ رسولؐ اور آلِ رسولؑ نورِ خدا سے ہے گویا کہ رسولؐ اور آلِ رسولؑ نور ہیں اور فرازِ نور پر مزئین ہیں کیونکہ ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا۔اب شعر دیکھئے کہ فرازِ نور سے نورِ علیؑ دیکھ رہا ہے اور فخر کر رہا ہے کہ کس شان سے حضرت عباسؑ روزِ عاشورہ علم اٹھائے ہوئے دریا کی سمت جا رہے ہیں۔یہاں یہ نکتہ بھی کارفرماء ہے کہ حضرت علی ؑبھی اسلامی جنگوں میں سپہ سالاری کے عہدے پر متمکن رہے ۔انھوں نے ہر جنگ میں اسلام کو فتح یاب کیا یہاں حضرت عباسؑ ابنِ علی ؑ بھی فوجِ اسلام یعنی فوجِ حسینی کے علمدار اور سپہ سالار ہیں تو اس منظر کو فرازِ نور سے حضرت علیؑ دیکھتے ہیں اور اپنے فرزند پر ناز کرتے ہیں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ افتخار عارفؔ کا یہاں بھی استفہامیہ انداز جھلکتا ہے جو کون جانے کے پیرائے میں اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ حضرت عباسؑ کے جلا ل،جوش،شجاعت،غیظ اور وفاداری کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔
اک پھریرا اک نشانِ خیر اک ننھی سی مشق
ہر دلِ مومن کو ازبر ہے علم عباسؑ کا
حضرت عباسؑ علم لیکر دریا کی جانب رواں دواں ہیں کیونکہ انھیں سکینہؑ بنت الحسینؑ کے لئے پانی کی سبیل کرنی ہے تو وہ اپنے علم میں ایک نشان یعنی پنجہ ،ایک پھریرااور ایک ننھی سی مشکیزہ لیکر جارہے ہیں جو ان کی بھتیجی سکینہؑ نے انھیں دی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے دریا سے فوجِ یزید کے قبضے کو ہٹا کر مشکِ سکینہؑ اطمینان سے بھری اور دریا میں اتر کر بھی پانی کو منہ نہ لگایا کیونکہ خیامِ حسینی میں اطفال پیاسے تھے اور ان کی وفا اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ لب پانی سے تر کر لئے جائیں انھوں نے مشک بھر کر خیامِ حسینی کا رخ کیا لیکن شہادت ان کا مقدر تھی ظلم و استبداد کے حامیوں کو گوار ا نہ تھا کہ پانی خیامِ حسینی تک پہنچے اس لئے بھاگی ہوئی فوجوں نے حملہ کیا اور حضرت عباسؑ کے بازو منقطع کر دئیے گئے مشک پر تیر چلا کر پانی بہا دیا گیا اور حضرت عباسؑ کو شہید کر دیا گیا۔لیکن یہ شہادت محبوں کو یاد ہوگئی جب بھی وہ حضرت عباسؑ کے دریا پر جانے کا بیان سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں علمِ عباسؑ کا سارامنظر آجاتاہے۔
کاش سن پائوں کسی رہوار کے قدموں کی چاپ
دیکھ پائوں خواب میں اکثر علم عباسؑ کا
ا س شعرمیں وہ حضرتِ عباسؑ کے ساتھ ساتھ ان کے اسپِ وفادار کا بھی ذکر کرتے ہیں جو دریا پر قبضہ کرتے وقت حضرت عباسؑ کے ساتھ تھا لیکن اس نے بھی پانی نہیں پیا اس لئے وہ جانور جس کو عظمتِ اہل بیتؑ کا شعور تھا۔وہ بھی شاعر کی نگاہ میں نہایت احترام کا باعث ہے اور اس سے عقیدت رکھنا بھی ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسپِ حضرت عباسؑ کے قدموں کی چاپ سننے کی تمنا شاعر کے دل میں ہے یعنی وہ اس وسیلے سے خواب میں دیدارِحضرت عباسؑ کا خواہاں ہے۔
کون جانے آج اس جشنِ مبارک کے طفیل
سر پہ لہراتا رہے شب بھر علم عباسؑ کا
سلام کے آخری شعر میں پھر استفہامیہ اندازمیں اپنا مافی الضمیر ادا کرتے ہوئے افتخار عارفؔ سرخوشی کے عالم میں کہتے ہیں کہ مدحتِ اہل بیت یعنی ثنائے حضرتِ عباسؑ کے صدقے میںیہ بھی ممکن ہے کہ مجھے تمام رات منقبت خوانی کا موقع ملے اور تمام رات پرچمِ عباسؑ میرے سر پر لہراتا رہے جو میرے لئے انتہائی عزت و رفعت کا باعث ہے۔
غرض کہ مندرجہ بالا سلام میں افتخار عارف نے اپنی عقیدت و مودت کا والہانہ انداز میں اظہار کیاہے۔انھوں نے سلام میں جہاں عظمت اہل بیت بیان کی ہے وہیں ان کی مناسبت سے اپنی ہستی پر بھی ناز کیا ہے کیونکہ وہ شاعرِ اہل بیت ہیں۔
علی گڑھ یوپی، موبائل:9219782014
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here