9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مہتاب عالم فیضانی احمد آباد گجرات
ہندوستانی فلموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی ہندوستانی غیر صوتی فلم’راجاہریش چندر‘۳۱۹۱ءمیں فلمائی گ·۔لیکن پہلی صوتی فلم ’عالم آرا‘تھی جو ۴۱/مارچ۱۳۹۱ءمیں منظر عام پر آئی۔پوری دنیا میں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ دو فلمی دنیا زیادہ مشہور ہے۔ہالی ووڈ فلموں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کا انحصار محض انگریزی زبان پر ہے(ہندوستانی فلموں کے علاوہ تمام ملکوں کی فلموں کو اس میں شامل کیا جاتا ہے) جب کہ بالی ووڈ فلمیںبنتی تو ہندی زبان کے نام پر لیکن اس کے پسِ پردہ اردو زبان کی چاشنی و شیرینی کار فرما ہوتی ہے ۔مجھے یہ بات کہنے میں ذرہ بھی تا¿مل نہیں ہے کہ ہندوستانی فلموں کو غیر معمولی شہرت و مقبولیت اورآفاقی ترقی صرف اور صرف اردو زبان کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ فلموں میں زبان و بیان،مکالموں اور نغموں کے علاوہ دیگر چیزیں بھی اہمیت کی حامل ہیں،مگر اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوسانی فلموں میں مستعمل اردو زبان و بیان ،مکالموں اور نغموں نے ہندوستانی فلموں کو وہ مقام عطا کیا ہے کہ آج بھی جب ہم ان نغموں کو سنتے ہیںتو محظوظ اور لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے ہیں،اتنا ہی نہیں بلکہ بعض مکالموں میں اتنی قوت و طاقت ہوتی ہے کہ کانوں میں پڑتے ہی پورے وجو د میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی ہے اور اگرجذباتی مکالمہ ہوتا ہے تو انسان کی آنکھیں بے ساختہ اشک بار ہو جاتی ہیں۔
ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ فلموں کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور ادب کا تعلق خواص سے ۔لیکن ایک زمانہ تھا کہ ہر خاص وعام شعروادب سے محظوظ ہوتاتھا اور یہی تفریح طبع کا واحد اور بہترین ذریعہ تھا۔لیکن جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا لوگوں کی سوچ و فکر کے دھارے بدلتے لگے، ضروریاتِ زندگی اور زندگی کزارنے کے طور وطریق کے ساتھ اس کے تقاضے بھی بدل گئے اورنتیجہ یہ ہوا کہ انسان ادب سے دورہوکر اچھی زبان والی فلموں سے ذہنی و قلبی تسکین حاصل کرنے پر آمادہ ہوگیا۔اگر بالی ووڈ کی تمام فلموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ فلموں کو غیر معمولی مقبولیت اردو زبان،اردوشاعری اردو مکالموںکی وجہ سے ملی ہے۔ پہلی ہندوستانی متکلم فلم”عالم آرا“ میں ظہیر کی کہانی ، اسکرپٹ اور اس میں پیش کردہ مکالموںاور شاعری کو ملحوظ رکھ کراور اسے صرف ایک فلم نہ سمجھتے ہوئے اس کے ادبی معاملات پر غور و خوض کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں ادب کے تمام تر لوازمات کسی نہ کسی صورت میں پائے جاتے ہیں۔
صدسالہ ہندوستانی فلموں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تودو باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اردو کے استعمال سے ہی فلمیں کامیاب ہوئیں اور اردو زبان کی چاشنی سے لبریز فلمی نغموں کو آج بھی بڑی چاہ اور دلچسپی سے سناجاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اردو زبان کے فروغ میں فلموں نے اہم کردار ادا کیاہے۔بڑے ادبا میری اس بات سے شایدغیر متفق ہوں لیکن یہ سچ ہے کہ جہاں اردو کے ذریعے فلموں کو غیر معمولی فائدہ ہوا وہیں فلموں کی بدولت اردو زبان مقبول عوام بھی ہوئی ہے۔جہاں میں یہ کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ اردو زبان و ادب سے ہندوستانی فلموں میں جو استفادہ کیا گیا ہے کبھی بھولے سے بھی اس کا اعتراف نہیں کیا گیاوہیںایک اردو کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ اگر ہندوستانی فلموں کا گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا جائے تویہ بات معلوم ہوگی کہ عوام میں اردو زبان و ادب کے مقبول ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ فلمیں ہی رہی ہیں،مگر ہمارے ناقدین ادب نے اسے فلموں سے وابستہ ادب قرار دے کرکبھی قابل توجہ نہ سمجھا۔
یہ دونوں باتیں طرفین کو قبول کرنی ہوں گی کہ اردو زبان وادب کی بدولت ہی کامیاب فلمیں بنتی اور چلتی رہی ہیں اوراردو زبان کے فروغ میں فلموں نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔یہ بات مشہور ہے کہ عموما ایسی ہی فلمیں کامیاب اور بہتر تصور کی جاتی ہیں جن کی کہانی کے ساتھ مکالمے اور نغمے بھی بہترین ہوں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلمی دنیا کے ذریعے اردو شاعری، اردو کے بہت سارے الفاظ و تراکیب،ضرب الامثال، کہاوتیں، روز مرہ اور محاورے آج عوام تک پہنچنے اورزبان زد و عام و خاص ہوئے ہیں۔صرف فلموں کے ٹائٹل پر ہی نظر دوڑائیے تو پتہ چلے گا کہ وہ اتنے معنی خیزہوتے ہیں کہ ٹائٹل میں ہی ادبیت جھلکتی ہے۔ اور اب تک کی کا میاب فلموں پر نظر ڈالی جائے تو آپ یہی پائیں گے کہ زیادہ تر کے نام اردو زبان و ادب سے ہی مستعار لیے گئے ہیں۔مثلاًدل دیا درد لیا، جس دیس میں گنکا بہتی ہے، صنم بے وفا،ہم تمہارے ہیں صنم،کہو نہ پیار ہے، ہم آپ کے دل میں رہتے ہیں، میرے ہمدم میرے دوست، ہمراز،میرے ہمسفر،دل تیرا دیوانہ،دوگز زمیںکے نیچے وغیرہ۔اس کے علاوہ بہت سی فلموں کے نام اردو کے مشہور اشعار کے مصرعوں پر رکھے جاتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم ہندوستانی فلموں میںمعیاری اردو مکالموں کی بات کریں تو اب شایدکسی قدر کم ہیں لیکن قدیم فلموں میں بہت سی ایسی فلمیں ہیں جن میں خالص اردو زبان استعمال کی گ· ہے۔مغل اعظم،پاکیزہ، امراو¿جان،رضیہ سلطان، ہیر رانجھا،میر ے حضور،تاج محل،محبوب کی مہندی، میرے محبوب، یہ عشق نہیں آساں ،باورچی، آرادھنااور تان سین وغیرہ ،اور ن· فلموں میں زند گی نہ ملے گی دوبارہ، دھوم،سرفروش، وار چھوڑ نا یار،اے دل ہے مشکل ہے،۰۲۹۱ایول ریٹرن،وزیراورک· ساری فلمیں ہیںجن کے مکالموں میں اردو زبان کی شیرینی اور حلاوت پائی جاتی ہے،لہجے میں وہ بانکپن اور اندازِ بیان میں وہ انوکھا اور نرالاپن ہوتا ہے کہ سامعین لطف اندوز اور محظوظ ہوتے ہیں۔فلم ”صاحب بی بی اور غلام“ میں مینا کماری جو زبان استعمال کرتی ہے وہ پیار ی اور میٹھی زبان آج شاذ ہے۔فلم ”سیتا اور گیتا “ میں جب ہیروئن کہتی ہے’ کیا بک رہے ہو‘ تو ہیرو کہتا ہے’بک نہیں رہا ہوں فرما رہا ہوں‘۔فلم ”تان سین “ میں جب تان سین دربار میں موسیق کار کی غلطی نکالتا ہے تو موسیق کار کہتا ہے’ ظل سبحانی یہ ہماری ہتک کر رہا ہے‘اس کے علاوہ پہلی فلم ’عالم آرا‘ میںملکہ کو سمجھانے کے لیے بہی خواہ کہتا ہے”جب لوٹ گھسوٹ اور ظلم کے نیچے دبی ہوئی رعایا اپنا سر اٹھاتی ہے تو زلزلہ آجا تا ہے ،زمین پھٹ جاتی ہے ،اونچے اونچے محل گر جاتے ہیں“ان میں سے ایک شخص کہتا ہے”ہمنے اپنی ٹوٹی ہڈیاں جوڑ جوڑ کے آپ کے محل کی دیواریں بنائی،اپنے جھونپڑوں سے آگ بجھا بجھا کر آپ کی راتوں کو دن بنایا،اپنے دھڑکتے دلوں کے خون نچوڑ نچوڑ کر آپ کے پیمانے بھرے،اپنے معصوم بچوں کے ہاتھ سے نوالہ چھین چھین کے آپ کا دستر خوان سجایا“۔ بات طویل ہو جائے گی اس لیے پرانی فلموں میں موجود راج کمار،دھرمیندر،جتیندر،شترگھن سنہا،متھن،قادر خان،امجدخان،امتابھ بچن،وغیرہ کی زبانی ادا ہونے والے اشعار کی بات نہیں کروںگابلکہ موجودہ دور کی جن فلموں میں اردو اشعار کثرت سے ہیں ان میں سے چند کے نام شمار کرواتاہوں۔ سن ۴۰۰۲ءمیں آئی اکشے کمااورامتابھ بچن کی فلم ”اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں“ میں بے شمارعشق اور حب الوطنی کے معنی خیز اشعار شامل ملتے ہیں۔سال ۶۰۰۲ءمیں عامر خان کی”فنا“فلم آئی جس میں ک· سارے اشعار تھے جس نے عوام کو اپناگرویدہ بنا لیا۔۲۱۰۲ءمیں آئی شاہد کپور کی فلم” تیری میری کہانی“ میں اشعارکی بہتات ہے۔ابھی کچھ سال پہلے عامر خان کی فلم دھوم منظر عام پر آئی تھی جس میں کچھ ایسے شعر تھے جو صرف اردو زبان ہی دے سکتا ہے۔ایک شعر دکھیے :بندے ہیں ہم اس کے ہم پر کس کا زور ،امیدوں کے سورج نکلے سارے اور،ارادے ہیں فولادی ہمتی ہر قدم،اپنے ہاتھوں قسمت لکھنے آج چلے ہیں ہم۔۔ مذکورہ جملوں میں بلندی ،چاشنی،سادگی،سلاست،روانی اور فراوانی کے ساتھ ساتھ جو دردو کسک اور امنگ و ولولہ موجود ہے اسے آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔مذکورہ حوالا جات کے علاوہ بے شمار ایسی فلمیں مل جائیں گی جو اردوزبان کی چاشنی اور اردو کی ادبیت سے معمور ہے۔
اردو شاعری اور اردو غزل کی اہمیت اور حلاوت سے صرف اردو داں طبقہ ہی واقف تھا لیکن جب ان کو ہندوستانی فلموں میں شامل کیاگیا اور اردو شاعروں نے اپنی غزلوں اور نظموں کو فلموں کا حصہ بنایا تب عوام بھی اردو شاعری کی دیوانی ہوگ·،اس لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اردو زبان اور اردو شاعری میں عوام کی رغبت اور دلچسپی مشاعروں اور کتابوں سے زیادہ ہندوستانی فلموںسے بڑھی ہے۔بعض مکالموں اور نغموں نے عوام کے ذہن و دماغ پر اس قدر چھاپ چھوڑی کہ بے خودی میں بھی لوگ گنگناتے رہتے ہیں۔
مکالموں اور نغموں کی بات آہی گ· ہے تو فلم’ہیر رانجھا‘کا ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اس فلم نے منظر عام پر آتے ہیں تہلکہ مچادیا تھا اور اس فلم کے ذریعے ’راجکمار‘کی صلاحیت کے قصیدے پڑھے جانے لگے تھے۔اس فلم کی کامیابی کے پیچھے بنیادی وجہ اس فلم کا منظوم مکالمہ تھا جسے مشہور اردو شاعر ’کیفی اعظمی‘ نے لکھاتھا۔یہ آج تک کی واحد فلم ہے جس کا مکالمہ منظوم لکھاگیا۔کیفی اعظمی کے منظوم مکالمے نے اس فلم کو شہر آفاق بنا دیا اور پھراس فلم کے خوبصورت و معنی خیز نغموں نے سونے پے سہاگہ کا کام کیا:ان کو خداملے ہے خدا کی جنہیں تلاش ،مجھکو تو بس اک جھلک مرے دلدار کی ملے۔اس پورے نغمے میں ادبی چاشنی بھی ہے ،لذت بھی ہے، ندرت بھی ہے،جدت بھی ہے اور شاعرانہ لطافت بھی۔اس قبیل کے نغموں کا ایک طویل سلسلہ ہندوستانی فلموں میں موجود ہے۔
اردوکی بہت سی غزلیں ایسی ہیں جنہیں ہندوستانی فلموں میں شامل گیا اور ان غزلوں نے بحیثیت نغموں اس قدر شہرت حاصل کی آج بھی وہ زبان زد ہیں مثلاً:
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے(تسلیم فاضلی،مہدی حسن)فلم:زینت
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے(ندافاضلی،جگجیت سنگھ)فلم:سرفروش
گلوں میں رنگ بھرے باگ نو بہار چلے (فیض احمدفیض،مہدی حسن،ارجیت سنگھ)فلم:حیدر
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا (میر تقی میر،لتا منگیشکر)فلم:بازار
ہستی اپنی حباب کی سی ہے(میرتقی میر،ہری ہرن)
پیاباج پیالہ پیا جائے نا(قلی قطب شاہ،پکھراج)
ان کے علاوہ اور بھی غزلیں اور اشعار ہیں جو ہو بہو فلموں میں بطور نغمہ پیش کیے گئے ہیں۔
اردو شاعروں میں ک·ایسے نام ہیں جنہوں نے اپنے اردو کلام سے فلمی نغموں کے معیار کو بلندکیا اور ان میں اردو زبان کے ذریعے اتنی حلاوت اور شیرینی ڈال دی کہ اردو کے مستعمل الفاظ نہ سمجھنے والابھی اس سے محظوظ ہوتا ہے۔
اردو کے جن بڑے شاعروں نے ہندوستانی فلموں میں نغمیں لکھے میرے مطالعہ کے مطابق ’کیفی اعظمی‘ ان میں سب سے اوپر ہیں۔کیفی اعظمی نے ساٹھ سے زیادہ نغمیں ایسے لکھے ہیں جن کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ان میں ایک’میں سہاگن ہوں ،کا نغمہ :
سب جواں سب حسیں،کوئی تم سا نہیں
ہوگئے جس کے ہم وہ تم ہی تم ہی
فلم :اس کی کہانی،ہنستے زخم،پھر تیری کہانی یاد آئی،حقیقت،ستیہ کام،کاغذکے پھول،، بزدل، فاصلہ وغیرہ ک· فلمیںہیں جن میںکیفی اعظمی کی کامیاب نغمہ نگاری دیکھنے کو ملتی ہے۔پاکیزہ فلم کا نغمہ:چلتے چلتے (شہریار)کے بول آج بھی اگر ہمارے کانوں میں پڑتے ہیں تو زبان گنگناتی اوردل بے ساختہ جھومنے لگتاہے۔
شکیل بدایونی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اردو دنیا میں خوب شہرت حاصل کی اور فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے بھی وہ شہرت یافتہ ہیں۔یوں تو انہوں نے بھی ک· ساری فلموں میں کامیاب نغمے لکھے لیکن ان کاسب سے زیادہ مشہور نغمہ مغل اعظم میں پیش کردہ:پیار کیا تو ڈرنا کیا؟ ہے ۔آج بھی جب عاشق معشوق کو اپنی محبت پر کسی قسم کا خوف و ڈر محسوس ہوتا ہے تو یہی نغمہ ان کے نوکے زبان ہوتا ہے۔
فلمی نغموں کے دور میں ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ لوگ اردو کے مشہور شاعر ’ساحر لدھیانوی‘کے دیوانے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ساحر کسی ہوٹل میں مقیم تھے جہاں ان کے چاہنے والوں کی ایک بھیڑ جمع ہوگ·۔اس بھیڑ سے ساحر ساحر کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ بھیڑ کی وجہ سے ہوٹل انتظامیہ پریشان تھی کہ یہ کون ہے ساحر؟مقیم حضرات میں جب ساحر کا نام دیکھا تو ان کو بلا کر درخوست کی گ· کہ اپنے چاہنے والوں کو یہاں سے جانے کو کہیے ہمیں بڑی دقت ہو رہی ہے۔پھرساحر کے کہنے پر وہ بھیڑ وہاں سے گئی۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ ساحر بھی ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ایک مقبول نغمہ نگار تھے۔ساحر کا فلم ’کبھی کبھی‘ کا مرکزی نغمہ اپنی مثا ل آپ ہے:
کبھی کبھی مرے دل میں خیا ل آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنا یا گیا ہے میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمیں پے اتارا گیا ہے میرے لیے
اسی فلم سے ساحر کا ایک اور نغمہ ہے جس نے سامعین کے دلوں کو جیت لیا ہے:
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل مری جوانی ہے
ہندوستانی فلموں میں بہترین نغمہ نگاری کرنے والے اردو شاعروں میں ایک مشہور نام ’مجروح سلطان پوری ‘ کا بھی ہے جنہوں نے اردو زبان میں قابل قدر شاعری کرنے کے ساتھ فلموں کو بہترین اور مسحورکن نغموں سے نوازہ ہے۔ان کے بہت سارے نغموں سے ایک نغمہ جو آج بھی محبت میں دھوکہ کھائے لوگوں کی زبان زد رہتاہے:
کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ؟
بھولے گا دل جس دن تمہیں ؟
یہ کچھ مشہور اردو شاعر ہیں جنہوں نے ہندوستانی فلموں میں اپنے نغموں کے ذریعے اوردو زبان کی ایسی چھاپ چھوڑی ہے کہ ان کے نشان آج بھی باقی ہیں۔ ان شاعروں کے علاوہ فلمی دنیا میں اور بھی اردو زبان میں لکھنے والے ہیں ،جن میں جانثار اختر،بہزاد لکھنوی،اختر الایمان(انہوں نے زیادہ مکالمے لکھے)‘گلزار‘جاوید اختر،سلیم خان،ارشاد کامل،منوج منتشر وغیرہ جو زیادہ تر اردو زبان میں نغمہ نگار ی کرتے ہیں اورفلموں میں اردو زبان کی دین کے معترف بھی ہیں۔
موجودہ زمانے کی فلموں میں اردو زبان کے نغمہ نگاروںمیں گلزار،جاویداختر،ارشاد کامل،منوج منتشروغیرہ ہیں جو اردو زبان کی چاشنی اپنے نغموں میں گھول کرسامعین کو محظوظ اور لطف اندوز کر رہے ہیں۔یوںتو مذکور نغمہ نگاروں کے ک· سارے نغمے مشہور اور زبان زد عوام ہیں لیکن میںمثال کے لیے یہاں ہر ایک کے صرف ایک یا دو نغموں کاذکر کروںگا۔
گلزار:سُرم· انکھیوں میںننہ منہ ایک سپنا دے جا رے(سدمہ ۔کمل حسن،شری دیوی)۔تم آگئے ہو نور آگیا ہے نہیںتو چراغوں سے لو جار ہی تھی(آندھی۔سنجیو کمار،اوم شیو کماری)۔یاراسِلی سِلی بِرہا کی آگ میں جلنا(لیکن۔ونود کھنا،ڈمپل کپاڑیا،)۔گلزار کے ان نغموں کے علاوہ اور بھی مشہور نغمے ہیں جواردو زبان کی دین ہیں۔
جاوید اختر: تیرے لیے ہم ہیں جیے ہونٹوں کو سِے،تیرے لیے ہم ہیں جیے ہر آنسوپیے(ویر زارہ۔شارخ ،پریتی،رانی مکھرجی)۔ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زند گی ،چھاو¿ں ہے کبھی کبھی ہے دھوپ زندگی(کل ہو نہ ہو۔شارخ،سیف،پریتی)۔یوںہی چلاچل راہی یوں ہی چلا چل راہی کتنی حسین ہے یہ دنیا(سودیش۔شارخ،گایتری جوشی)۔مذکورہ نغموں کے علاوہ اور ک· مشہور نغمے جاوید اختر ہے ہندوستانی سنیما کو دیے ہیں۔
ارشاد کامل:ہاں ہے کوئی تو وجہ جو جینے کامزہ یوں آنے لگا،یہ ہواو¿ں میں ہے کیا تھوڑا ساجو نشہ یوں چھانے لگا(جب وی میٹ۔شاہد،کرینا)۔آج ان سے ملنا ہے ہمیں،چل ان کے لیے کچھ لیتے چلے اور ان کو دعائیں دیتے چلے(پریم رتن دھن پایو۔سلمان،سونم)۔تو من شُدی تو من شُدی،من تو شُدم تو من شُدی(رانجھا۔ابھے،شونم،دھنش)۔ارشاد کامل اردو میں لکھنے والے ابھی کے نوجوان نغمہ نگار ہیں۔
منوج منتشر:ہم جو ہر موسم پے مرنے لگے وجہ تم ہو،ہم جو شعروشاعری کرنے لگے وجہ تم ہو(وجہ تم ہو۔زرین،شرمن جوشی)۔قدم سے قدم جو ملے تو پھر ساتھ ہم تم چلے،چلے ساتھ ہم تم جہاںوہیں پے بنے قافلے(قابل۔رتک،یمی گوتم)۔تو آتا ہے سینے میں جب جب سانسیں بھرتا ہوں،تیرے دل کی گلیوں سے میں ہر روزگزتا ہوں(دھونی۔ششانت،دشا پٹانی)۔یہ ایسے نغمہ نگار ہیں جن کے نغموں میں اردو زبان کا استعمال حددرجہ پایا جاتا ہے۔ان مذکورہ اشخاص علاوہ شبیر احمد اور بشرنواز جیسے نغمہ نگار بھی ہیں جو اپنے نغموں،مکالموں اور فلمی کہانیوں میں معیاری اردو کا استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستانی فلموں اور اردوزبان وادب کے تعلق سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اردو فکشن کو بنیادبناکر بہت سی کامیاب فلمیں بنائی گئیںجن میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ فلم ”امراو¿جان “(مظفر علی،جے ،پی دتہ) جو مزرا ہادی رسوا کے ناول پر بنائی گ· ہے۔ اس کے علاوہ بیدی کے ناولٹ ”ایک چادر میلی سی“پر فلم بنائی گ· اور اس کی کہانی کو بنیاد بناکر’مٹھی بھرچاول‘ کے نام سے پنچابی میںایک اور فلم بنائی گ·۔پریم چندکے ناول بازار حسن پر ’سیو اسدن ‘ چوگان ہستی پر ’رنگ بھومی‘ کے نام سے اور ”غبن“ پر اسی نام سے فلم بنی ہے ۔کل ملا کر آٹھ اردو ناول ایسے ہیں جن پر فلمیں بنی ہیں۔افسانو ں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر رضوان الحق نے،پریم چند، خواجہ احمد عباس،غلام عباس، منٹو، کے تقریباً کیارہ افسانے شمار کروائے ہیںجن پر کامیاب فلمیں بنی ہیں، ان سب سے زیادہ فلمیں پریم چند کے افسانوں پربنی ہے اور ہندی کے علاوہ تیلوگو میں بھی بنی ہے۔ بیدی کے افسانے’گرم کوٹ ‘ پر بھی کامیاب فلم بنی ہے جس میں بلراج سہانی اور نیروپا رائے نے کام کیا ہے۔ناول افسانہ کے علاوہ ڈراموں پرتقریباًدس فلمیں بنی ہیں۔ کاشمیری کے ڈرامے’یہودی کی لڑکی‘ کو بنیادبنا کر ’یہودی‘ فلم بنائی گ· جس میں’دلپ کمار اور مینا کماری‘ نے شاندار اداکاری کی ہے۔اور انارکلی ڈرامے کہانی کوبنیاد بناکربنائی گ· فلم’مغل اعظم‘ تو آج بھی فلمی دنیا کا شاہکار ہے۔داستانوی قصوں پر بھی کچھ فلمیں بنی ہیں جن میں حاتم طائی، قصہ¿ چہار درویش، ہیرر انجھا، لیلیٰ مجنوں،شیریں فرہادقابل ذکر ہے۔
ایکیسویں کی صدی کی دوسری دہائی اختتام پذیر ہے،میں نے پچھلے کچھ چال پانچ سالوں پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ جہاںایک طرف بہت سے فلم میکر افسانوی فلمیں بنا کر خوب شوہرت اور پیسہ کمارہے ہیں وہی کچھ فلم بنانے والے ایسے بھی ہیں جو حقیقی کہانیوں پر فلمیں بنار ہے ہیں جیسے :میری کوم،ایم۔ایس دھونی،اظہرالدین،وِرپّن،سلطان،پدماوتی،جیسکا مڈر کیس اور ابھی حال میں ہی ایک حقیقی کہانی پر منحصر فلم ’راجو ہیرانی ‘ نے رنبیر کپور کو لے کر بنائی تھی جس نے بہت شہر ت حاصل کی اس فلم کا نام ”سنجے دت“ تھا جو کہ اداکار سنجے دت کی حقیقی زندگی پر منحصر تھی۔ساتھ ہی کچھ فلم بنانے والے ایسے بھی جو براہ راست اردو ادب سے استفادہ کرکے اردو کہانیوں کو لے کر فلمیں بنارہے ہیں جیسے:منٹو،ٹوبا ٹیک سنگھ وغیر ہ جو اگلے کچھ مہینوں میں منظر عام پر آئیں گی،الغرض اردو زبان وادب سے ہندی فلمی دنیا نے اس قدر استفادہ کیا ہے کہ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔
گزشتہ سطورمیںیہ بات کہی جاچکی ہے کہ ہندوستانی فلموں کی ترقی میں اردو ادب کا کلیدی رول رہاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادیبوں اور شاعروں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے جنہوں نے اپنے قلم اور اپنی شاعری سے ہندوستانی سنیما کو بہت کچھ دیا ہے۔اور آج بھی اگر آپ ہندوستانی فلموں میں مستعمل زبان پر غور کریں گے تو آپ کو اردو زبان ہی نظر آئے گی جسے فلمی دنیا ہندی زبان کے نام استعمال کرتی ہے۔ مجھے اس بات کا حساس ہے کہ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر میرا تحریر کردہ یہ مضمون ناکافی ہوگا اس لیے آپ قارئین میں اگر کوئی چاہے تو اس موضوع پر ایک پر مغض کتاب لکھ سکتا ہے۔
اسکا لر شعبہ¿ اردو مولاناآزاد نیشنل اردو یونیور سیٹی،حیدرآباد