اردو کے جدید ڈرامہ کے خالق اور متنوع شخصیت کے مالک امتیاز علی تاجؔ

0
1857

[email protected] 

9807694588 موسی رضا۔۔  

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


آبیناز جان علی

(موریشس)

سید امتیاز علی تاجؔ کی پیدائش۱۳ اکتوبر سن ۱۹۰۰ میں لاہور کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ ان کی والدہ محمدی بیگم بچوں کے لئے کہانیاں اور عورتوں کے لئے مضامین لکھا کرتی تھیں۔ تاجؔ کے ابائو اجداد کا تعلق بخارا سے تھا جو مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ہندوستان آکر دیوبند ضلع سہارنپور میں بس گئے تھے۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی نے سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی سے تعلیم حاصل کی اور امام بخش صہبائی ان کے استاد تھے۔
تاجؔ کابچپن ماں کی کہانیاں اور لوریاں سنتے ہوئے گزرا۔ تاجؔ کے والد شمش العلمہ مولوی ممتاز علی عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ وہ انگریزی اور اردو زبان پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ غدر کے بعد مسلمانوں کو شدید جدوجہد کرنی پڑی جس کا احساس سرسید احمد خان کو بہت تھا۔ شمش العلمہ مولوی ممتاز علی اس زمانے میںسہارنپور سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ بھی سرسید تحریک کا حصّہ تھے۔ سرسید چاہتے تھے کہ تعلیم یافتہ مسلمان میں اپنے حقوق کی بیداری پیدا ہو۔ اس سوچ کے تحت شمش العلمہ مولوی ممتاز علی لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہیں لاہور ہائی کورٹ میں مترجم کی جگہ مل گئی۔ آپ عدالتی فیصلوں کا اردو زبان میںترجمہ کا کام کرتے تھے۔ وہاں سے ترقی کرتے ہوئے ریڈر بھی بنے۔
سرسید احمد خان سے ان کا احترام کا رشتہ تھا لیکن اس بات پر اختلاف بھی تھا کہ جب تک خاندان کی خواتین کوتعلیم سے مرصع نہیں کیا جائے گا خاندان آگے نہیں چل پائے گا ۔ لڑکے اکیلے کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ گھر سے ہی ساری تربیت اور تہذیب کا احساس گھر کی خواتین سے ہی ملتا ہے۔ شمش العلمہ مولووی ممتاز علی نے ۱۹۵۸ء؁ میں دار الاشاعت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو اشاعت کا کام کرتا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے ملازمت ترک کردی۔ مولوی ممتاز علی سہارنپور کے زمیندار تھے اور انہیں اس زمانے میں سرکار سے پانچ سو روپے ماہانہ ملتا تھا۔ آج کے زمانے میں یہ رقم پانچ لاکھ کے برابر ہے۔ محمدی بیگم اس رسالے کی مدیرہ بنیں۔ آپ سے پہلے اردو کے کسی رسالے میں کسی خاتون نے یہ عہدہ نہیں سنبھالا تھا۔
کراچی کے نیشنل میوزیم میں موجود خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان نے اس رسالے کے شائع ہونے کا شدید اختلاف کیا۔ خط میں سرسیدنے کہا کہ اس راستے پر چلنے سے رسوائی، بدنامی اور انتہائی کسمپرسی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ ممتاز علی نے رسالے کا خاکہ بنا کر سرسید کو بھیجا اور ان کی دعائیں طلب کیں۔ سرسید کے کہنے پر انہوں نے رسالے کا نام ’تہذیب ِ نسواں‘رکھا اور سر سید نے یہ بھی بتایا کہ ممتاز علی کو تہذیب فروش بھی کہا جائے گا۔ پھر بھی شمش العلمہ اپنے ارادے پر قائم رہے اور ان کا ماننا تھا کہ خواتین کی تعلیم مسلمانوں کی بہتری کے لئے، خاندان کی ترقی کے لئے اور قوم کے لئے اشد ضروری ہے۔
تہذیبِ نسواں کا مقصدخواتین میں اپنے حقوق کا شعور پیدا کرنا اوردین و دنیوی معلومات کا علم پہنچانا تھا اور یہی اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ بنی۔ محمدی بیگم جو کہانیاں اور لوریاں تاجؔ کو سنایا کرتی تھیں وہ بھی دار الاشاعت نے شائع کی تھیں۔ تاجؔ کی عمر آٹھ برس کی تھی جب تیس سال کی عمر میں ان کی والدہ محمدی بیگم کا انتقال ہوگیا۔ تاجؔ کی نویں سالگرہ کے لئے ممتاز علی نے بچوں کے لئے ہفت روزہ رسالہ ’پھول‘ کا اجراء کیا۔ ’ تہذیبِ نسواں ‘کی طرح’ پھول‘ بھی ادب کا ایک ستون بن گیا۔ دارالاشاعت کے لئے ادب کے نامی گرامی مصنف اور شاعر لکھتے رہے۔ ان میں مولانا حالی، خواجہ حسن نظامی، مولانا شبلی نعمانی، علامہ اقبال، قرۃ العین حیدر، پطرس بخاری، اکبر اللہ آبادی، ڈپٹی نظیر احمد وغیرہ تھے۔
ان عظیم ہستیوں کی جھرمٹ میں تاجؔ کی تخلیقی حس اجاگر ہوئیں۔ بچپن سے امتیاز علی تاجؔ کو شاعری کا شوق تھا اور غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ ۱۹۱۵ء؁ میں تاجؔ نے سنٹرل ماڈل اسکول لاہور سے میٹرک پاس کیا اور اسی سال افسانہ نگاری میں قدم رکھا۔ سترہ سال کی عمر میں ’شمع اور پروانہ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا۔۱۹۱۵ء؁ میں تاجؔ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ ابھی فرسٹ ئیر میں ہی تھے کہ ڈراماٹکس کلب کے سالانہ کھیل میں ایک کردار میں منتخب ہوگئے۔ اس ڈرامے کا ناام صیدِ ہوس تھا۔ یہ آغا حشر کا لکھا ہوا ڈرامہ تھا۔ امتیاز علی تاجؔ کاآغا حشر سے خاص ربط تھا۔ اس ڈرامہ میں تاجؔ نے ایک لڑکی کا کردار ادا کیا۔ ان کی ادکاری اس قدر پسند کی گئی کہ تاج کی ایکٹنگ کے چرچے ہر طرف ہونے لگے۔
ہندوستانی ڈرامہ اور مغریبی ڈراموں کا مطالعہ امتیاز علی تاجؔ کا محبوب ترین مشعلہ تھا۔ اپنے کالج کے ڈراماٹکس کلب کے لئے برناڈ شااورترنڑ جیسے ڈرامہ نویس کے ڈرامے پطریس بخاری کے ساتھ مل کر اردو میںترجمہ کیا اور شیکسپیئر کے ڈراموں کا بھی ترجمہ کیا۔ امتیاز علی تاجؔ نے آسکروائلڈ، گولڈ اسمتھ، ڈیم تریوس، مدرس تیول، کرسٹین گیلرڈ کی کہانیوں کے ترجمے بھی کئے ہیں۔
تاجؔ نہ صرف گورنمنٹ کالج ڈراماٹکس کلب کے ہر سالانہ کھیل کاحصّہ بنے رہے بلکہ دوسری طرف اپنی ادبی دلچسپی پر بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے انیس سو اٹھارہ میں برِ صغیر کا پہلا ادبی رسالہ ’کہکشاں‘ کے نام سے جاری کیا اور تقریباً ڈھائی سال کی عمر تک اسے کامیابی سے چلایا۔ابتداء میں تاجؔ نے بھی روایت کے عین مطابق کچھ ڈرامے لکھ کر کمپنیوں کے مالکان کی خدمت میں پیش کئے تاکہ انہیں اسٹیج کیا جاسکے۔ وہ ڈرامے پسند تو کئے گئے مگر انہوں نے ان میں ایسی ترمیمات کا تقاضہ کیا جو امتیاز علی تاجؔ کو پسند نہ آئیں۔ چنانچہ انہیں اسٹیج نہیں کیا جاسکا۔
۱۹۲۱ء؁ میں تاجؔ نے گورنمنٹ کالج میں بی۔اے کیا۔ بی ۔اے کے امتحان کے دوران پرچہ جلد مکمل ہونے پر فارغ وقت میں تاجؔ کے ذہن میں ایک کہانی کا خاکہ آیا جسے تاج نے جوابی پرچے کی ایک طرف نوٹ کر کے اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ کہانی تھی ڈرامہ انارکلی کی۔ یہ ڈرامہ پہلی بار ۱۹۳۰ء؁ میں شائع ہوا۔ پطرس بخاری کے مشورے پر امتیاز علی تاجؔنے ڈرامہ انارکلی کا انتساب حجاب اسمٰعیل کے نام کیا جو ۲۱ مارچ۱۹۳۴ء؁ میں حجاب امتیاز علی بن گئیں۔ امتیاز علی تاجؔ کا ڈرامہ انارکلی اردو ڈرامے کے ارتقاء میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قدیم اور جدیدروایتوں کا سنگم ہے۔ انارکلی ڈرامے کی تاریخ میں ملواں کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف قدیم ڈرامے کی روایت پارسی تھیٹریکل کمپنیوں کے زوال کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی تو دوسری طرف جدید اردو ڈرامہ تھیٹر کی نئی روایتوں کے ساتھ ایک نیا موڑ لے رہا تھا۔ انارکلی میں ہمیں دونوں روایتوں کے اثرات ملتے ہیں۔ امتیاز علی تاجؔ چونکہ قدیم و جدید ڈرامے کی روایتوں کے فکری و ہنی تقاضوں سے کما حقہ روشناس تھے اس لئے انہوں نے ان دونوں سے استفادہ کرتے ہوئے اردو کو ایک ایسا شاہکار دیا جس کو ادب کی کوئی تاریخ نظر انداز نہیں کرسکتی۔
۱۹۲۸ء؁ میں انارکلی پر مبنی خاموش فلم Love of a Moghul Prince میں تاجؔ صاحب نے شہنشاہ اکبر کا کردار ادا کیا۔ آنے والے برسوں میںانارکلی کی کہانی پر متعدد فلموںبنیں جن میں سب سے زیادہ مقبولیت کے آصف کی فلم مغلِ اعظم نے پائی۔جتنی مقبولیت انارکلی کو برِ صغیر پاک و ہند میں حاصل ہے شاید اتنی مقبولیت ہیلن آف ٹرائے کو یونان اور پورے پورپ میں حاصل نہیں ہوئی۔
امتیاز علی تاج مزاح نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ چچا چھکن کا سلسلہ مضامین آج بھی اردو کے مزاحیہ ادب میں غیرفانی کردار سمجھا جاتا ہے۔ چچا چھکن کتابی شکل میں شائع ہوا۔ قدسیہ زیدی نے چچا چھکن کے مضامین کو ڈرامائی شکل دی۔ امتیاز علی تاج ؔصحافی بھی تھے۔ اس کے علاوہ گاندھی جی کی سوانح بھی لکھی جس کا دیباچہ ہنڈت موتی لال نہرو نے لکھا تھا۔ تاجؔ نے محمد حسین آزاد، حفیظ جالندھری اور شوکت تھانوی پر بھی مضامین لکھے۔ تاجؔ کے لکھنے کا انداز سادہ ہے جس سے پڑھنے اور سننے میں لطف پیدا ہوتا ہے۔
سن ۱۹۳۰ء؁ سے ۱۹۴۷ء؁ کے درمیان سید امتیاز علی تاجؔ کی فنی اور ذاتی زندگیوں میں تبدیلیاں آئیں۔ حجاب اسمٰعیل سے شادی اور بیٹی یاسمین کی پیدائش سے انہیں اطمینان اور یکسوئی ملی جبکہ ان کی تخلیقی زندگی میں عروج ہوا۔ وہ اپنی بیٹی یاسمین کو سائیکل سے اسکول سے واپس لاتے اورراستے میںپوچھتے کہ اس کا دن کیسے گزرا اور کیا اچھی بات ہوئی اور کیا بری بات ہوئی۔ یہ چیزیں ان کے لکھنے میں کام آتیں۔
تاجؔ صاحب نے ریڈیو اور فلم جیسے نئے ذرائع اظہار میں سنگِ میل قائم کی۔ ایک طرف ریڈیو کے لئے ’سازش‘، ’گونگی جوڑو‘، ’صید و صیاد‘، ’میری جان کس نے لی؟‘،’ کمرہ نمبر ۵‘ او’ر قرطبہ کا قاضی‘ جیسے یادگار ریڈیو پلے لکھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے جب فلموں میںآوازیں آنے لگیں تاجؔ نے ان کے لئے تقریباً بیس فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھے۔ ان میں ’پگڈنڈی‘، ’پونجی‘، ’زمیندار‘، ’دھمکی‘ اور ’خاندان‘ نے کامیابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ تاجؔ نے ریڈیو کے لئے دو درجن سے زیادہ ڈرامے لکھے اور فیچرز لکھے اور پارٹ بھی ادا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل پنچالی فلم کمپنی کے لئے دو فلمیں ’دھمکی‘ اور ’شہر سے دور‘ تیار کیں جو مقبول ہوئیں۔
۱۹۴۷ء؁ میں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سید امتیاز علی تاجؔ نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ’پاکستان ہمارا ہے‘ کے نام سے یادگار پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کا مقصد مہاجرین کو ان کے لواحقین تک پہنچانا اور معاشرے میں مہاجرین کو اپنائیت کا احساس دلانا تھا۔
۱۹۵۰ء؁ کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری کی ابتداء ہوئی۔ سید امتیاز علی تاجؔ نے کئی یادگار فلمیں لکھیں جن میں ’گلنار‘، ’انتظار‘ اور’ یہودی کی لڑکی‘ بہت کامیاب ہوئے۔ ان کے دیگر ڈراموں کے نام ہیں: سوئے کہاں، آداب عرضِ ،گونگی جوڑو، تلی پھٹ گئی، خانو اور جانو، حریمِ قلب، کمرہ نمبر ۵، ورجینیا، دلھن، قسمت، روشن آرا، شاہ جہاں، بازارِ حسن، نکاح ثانی اور آخر ی رات۔ تاجؔ صاحب اپنے آس پاس کا مشاہدہ کرکے ڈرامے لکھتے۔ ان کے گھر میں کسی زمانے میں ۲۶ بلیاں تھیں۔ اس سے متاثر ہوکر انہیں نے’ بیگم صاحبہ کی بلّی‘ لکھی۔ ’ستارہ‘ ان کا آخری ڈرامہ ہے۔ اس ڈرامے میں ایک شادی شدہ مرد ایک جوان ہندو لڑکی سے عشق کرتا ہے۔ اس زمانے میں ایسی موضوعات پر قلم اٹھانا بعید از قیاس تھا۔ لیکن تاجؔ صاحب اپنے وقت سے آگے تھے۔ سن ۱۹۵۸ء؁ میں تاج صاحب کو مجلس ترقی ادب کا ڈائریکٹڑ مقرر کیا گیا۔ایسے میں تاجؔ صاحب نے قدیم تھیٹر کے کلاسیکی ڈراموں کے ترتیب اور اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ مجلس ترقی ادب جو ۱۹۵۰ء؁ سے ۱۹۵۸ء؁ کے آٹھ سالوں میں صرف دس کتابیں شائع کرسکا تھا، تاجؔ صاحب کی رہنمائی میں دس سال میںتقریباََ دو سو کتابیں شائع کی گئیں۔ قدیم اردو تھیٹر کے ڈرامے کو مرتب کرنے کی ایسی مثال پورے برِ صغیر میں نہیں ملتی۔ ساٹھ کی دہائی میں سید امتیاز علی تاجؔ کی صاحبزادی یاسمین جو اب ایک نامور کمپیڑ بن چکی تھیں ان کی شادی اسٹیج اور ویڈیو کے مشہوراداکار نعیم طاہر سے ہوگئی۔ تاجؔ صاحب اور ان کے داماد نعیم طاہر میں ایک تخلیقی دوستی رہی۔ یاسمین اور نعیم کے بیٹے فاران اور مہران تاجؔصاحب کی آنکھوں کا تارا بنے۔ غالباََ یہی وجہ تھی کہ تاجؔ نے نعیم طاہر کے ساتھ مل کر ’پھول‘ کو ایک مرتبہ شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ جس رات تاجؔصاحب نے ’ پھول‘ کا دیباچہ مکمل کیا اسی رات چند نقاب پوش حملہ آوروں نے چھت پر سوتے ہوئے تاجؔ صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا اور تاجؔ صاحب ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق وہ کرائے کے قاتل تھے۔ مجلسِ ترقی ادب میں ایک نیا محاسب مقرر ہوا۔ چونکہ وہ نیا تھا تاجؔ صاحب نے احتیاطََ بنک کو ہدایت کی کہ پچاس ہزار سے زیادہ چیک ان کی اطلاع کئے بغیر پاس نہ کیا جائے۔ ایک بار بنک کے منیجر نے فون کر کے تاجؔ صاحب کو بتایا کہ محاسب پچاس ہزار سے زیادہ چیک کیش کرانے آیا ہے۔ تاجؔ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے کسی بھی چیک پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ چنانچہ محاسب کو پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ مجلس ترقی ادب کے اراکین نے بدنامی کے خوف سے معاملے کو رفع دفع کرنا چاہا لیکن تاجؔ صاحب نے اصرار کیااگر اسے دوسرا موقع دیا جائے تو محاسب دوبارہ چوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ پولیس کی تفتیش سے معلوم پڑا کہ وہ محاسب ایک گروہ کا حصّہ ہے جو اداروں میں محاسب کو منتخب کراکے پیسوں کی چوری کراتا ہے۔۱۹ اپریل ۱۹۷۰ کو امتیاز علی تاجؔ کو محاسب کے خلاف گواہی دینی تھی، اس لئے انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔ تاجؔ صاحب زخموں سے لہو لہان ہوگئے اور سرجری کی کامیابی کے باوجود ان کا دل رک گیا۔ زخموں سے ان کا بہت خون بہہ گیا تھا۔ اس طرح امتیاز علی تاجؔ فرض کے راستے میں شہید ہوگئے۔
سید امتیاز علی تاجؔ ڈرامہ نگار بھی تھے اور محقق بھی۔ نقاد بھی تھے اور ناشر بھی۔ مزاح نگار بھی تھے اور مترجم بھی۔ حکومتِ پاکستا ن نے انہیں شعبہ ادب میں ان کی بے پناہ خدمات پر انہیں Pride of performance اور ستارئہ امتیاز سے نوازا اور پاکستان پوسٹل سروس نے ان کے نام کا یادگاری ڈاک ٹکٹ شائع کیا۔
حوالہ جات و خواشی
ویڈیوز:
Syed Imteaz Ali Taj Story of a legend. Part 1 & 2 Tahir Tv 19 April 2018
Syed Imteaz Ali Taj Rai Muhammad Irfan 15 November 2011
آوازخزانہ لطف اللہ خان 13 October 2018
Syed Imteaz Ali Taj boigraphy in Urdu/ hindi, life story of legend of Urdu Adab Urdu Island 3 January 2018
Urdu adab, darama Anarkali/ Imteaz Ali Taj by Teach yourself 30 March 2019
Gauhar-e-nayab Bazm e Urdu Dubai 19 April2019
ٓAnarkali ki kahani. Who was Anarkali in Hindi/ Urdu Asif Ali TV August 7 2017
ٓامتیاز علی تاج اور ڈرامہ انارکلی کا خلاصہ ۹ جون ۲۰۱۹ء؁
انارکلی از امتیاز علی تاج ودیا مترا ۲۱ جنوری ۲۰۱۶ء؁
مضامین:امتیاز علی تاج محمد کاظم روزنامہ دنیا ۲۲ اپریل ۲۰۰۵ء؁
محمدی بیگم اردو میں حقوق نسواں کی بنیادگزار ۷ مارچ ۲۰۱۰ء؁
محمدی بیگم اردو کی پہلی خاتون مدیرہ ڈاکٹر ثمینہ عباس ۶۱ مراچ ۲۰۱۷ء؁ریختہ
ضضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here