زیارت حرمین شریفین (پانچویں قسط)

0
938

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


کعبہ سے جدائی کا غم، مسجد نبوی کی زیارت کی خوش

سہیل انجم

مکہ مکرمہ کی زیارت کے ذکر میں نہر زبیدہ اور مسجد خیف کا ذکر رہ گیا تھا۔ روایات کے مطابق خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ بہت ہی دیندار اور صاحب علم و فضل خا تون تھیں۔ ایک دفعہ مکہ مکر مہ میں پانی کی شدید قلت ہو گئی۔ حجا ج کرام کو بہت تکلیف اٹھا نا پڑی۔ زبیدہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو ان کو بہت دکھ ہوا۔ انھوں نے اپنے انجینئروں کو جمع کر کے حکم دیا کہ کسی طرح مکہ مکرمہ کے لیے پانی کا بندوبست کر و اور پانی کے چشمے تلا ش کرو۔ چنا نچہ انھوں نے کا فی تگ و دو کے بعد ایک چشمہ طائف کے راستے میں اور دوسرا نعمان وادی میں دریافت کیا۔ لیکن ان کا پانی مکہ مکرمہ تک پہنچانا بڑا مشکل کام تھا۔ راستے میں پہاڑیا ں تھیں جن کو کھودنا انتہا ئی دشوار تھا۔ لیکن اس نیک خاتون نے حکم دیا کہ جتنا بھی پیسہ خرچ ہو مکہ مکرمہ کے لیے پانی کا بند و بست کیا جائے اور اگر کو ئی مزدور پتھر پر ایک کدال مارنے کی ایک اشرفی بھی طلب کرے تو دے دو۔ چنا نچہ تین سال کی شب و روز محنت کے بعد 33 کلو میڑ لمبی نہر تیا ر ہو گئی۔ اس کی تیاری پر ستر لاکھ دینا ر خرچ ہو ئے تھے۔ اس کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ جبکہ مسجد خیف ایک وسیع اور شاندار مسجد ہے۔ اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے۔ یہ مسجد وادی منیٰ کے آخری سرے پر اور خانۂ کعبہ کی جانب جانے والے راستے کے کنارے جمرات کے نزدیک پر واقع ہے۔ اس کے اونچے مینار اس کی خوبصورتی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

زیارت حرمین شریفین (قسط ۴)

بہرحال مکہ میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد ہم لوگوں کا قافلہ آٹھ مئی کو مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوا۔ کعبہ سے بچھڑنے کا غم فطری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبے سے بہت محبت تھی۔ جب اہل مکہ نے آپ کے لیے حالات انتہائی تنگ کر دیے تو اللہ کی جانب سے ہجرت کا حکم آگیا۔ آپ اپنے پیارے وطن کوخیرباد کہہ کرمدینہ منورہ کی جانب عازم سفر ہوئے تو مڑ مڑ کے دیکھتے رہے۔ انھوں نے مکہ کی جانب رخ کرکے فرمایا کہ اے ارض مکہ تو مجھے دنیا کی ہر زمین سے زیادہ عزیز ہے۔ میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا مگر تیری قوم نے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس وقت آپ کعبہ کی جدائی کا غم لیے مدینہ منورہ چلے گئے۔ آپ پر جو گزری تھی وہ کسی اور پر نہیں گزر سکتی۔ لیکن تھوڑا بہت احساس ہر حساس زائر اور حاجی کو ہوتا ہے جب وہ طواف وداع کرتا ہے۔ اس کو چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہتا۔ مگر جانا ہی پڑتا ہے۔ پہلے کی طرح اس بار بھی اس احساس نے ہم لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ہم بھی اپنے دل پر غموں کا پہاڑ لیے افسردگی کے عالم میں وہاں سے نکلنے پر مجبور تھے۔ اگرچہ ناشتے کے بعد نکلنے کا پروگرام تھا تاکہ میدانِ بدر کی زیارت بھی کی جائے، جیسا کہ پیکج میں شامل تھا لیکن بس نے بے بس کر دیا تھا۔ اس نے ظہر بعد کہیں جا کر اپنی صورت دکھائی۔ زائرین کو پہلے ہی اطلاع کر دی گئی تھی کہ وہ اپنا سامان نکال کر کمرے کے باہر رکھ دیں تاکہ وقت پر کارکن اسے گاڑی میں پہنچا سکیں۔ بہر حال دن میں تقریباً ساڑھے تین بجے ہم لوگوں کی بس مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئی۔

مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ یہ دونوں شہر دنیا کے ہر مسلمان کو اپنی سرزمین اور اپنا وطن محسوس ہوتے ہیں۔ جو جذباتی رشتہ ان دونوں شہروں سے دنیا کے تمام مسلمانوں کا ہے کسی دوسرے شہر سے نہیں ہو سکتا۔ لیکن اب ہمیں ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مدینہ منورہ ہمارا اپنا گھر ہے اور اس سے ہماری ایک زمانے سے شناسائی ہے۔ ایسا ہمیں سال 2017 سے محسوس ہونے لگا جب ہم اہلیہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ اس اپنائیت کی سب سے بڑی وجہ عزیزم مولانا محمد شعیب کی ذات ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ ہمارے گاؤں کے ہیں بلکہ ہمارے پھوپھا زاد بھائی محمد اسلم کے بڑے صاحبزادے اور ہمارے چھوٹے بھائی مولانا آصف ہلال انجم کے بڑے داماد ہیں۔ وہ دنیائے اسلام کی عظیم الشان یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے طالب علم ہیں۔ بلکہ اب تو ان کی پی ایچ ڈی بھی مکمل ہو گئی اور وہ دکتور بن چکے ہیں۔ مولانا محمد شعیب گزشتہ کئی برسوں سے وہاں مقیم ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ کو یہ اجازت ہے کہ وہ اگر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کوئی عارضی ملازمت بھی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ لہٰذا مولانا محمد شعیب بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور آجکل یوینورسٹی کی عظیم الشان لائبریری میں برسرِ کار ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے شادی شدہ طلبہ کو اپنی فیملی اپنے ساتھ رکھنے کی بھی نہ صرف اجازت ہے بلکہ یونیورسٹی اس کے لیے بہت سی سہولتیں بھی دیتی ہے۔ لہٰذا وہ کئی برسوں سے فیملی بھی اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں یعنی ہماری بھتیجی غزالہ بھی وہیں مقیم ہے۔ اب تو ماشاء اللہ ان کے ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں سال 2017 میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد ہم نے اہلیہ اور ایک بیٹی کے ساتھ سال 2018 میں حج کا فریضہ ادا کیا اور اب ہم نے ایک بار پھر ادائیگی عمرہ کی غرض سے سعودی عرب حاضری دی۔ ان تینوں اسفار کے موقع پران لوگوں سے مشاورت ہوتی رہی اور دونوں میاں بیوی کے خلوص، محبت، جذبۂ خدمت گزاری اور اشتیاقِ ملاقات کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی دوسرے شہر نہیں بلکہ اپنے وطن جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مولانا محمد شعیب ہمارے لیے مدینہ کا ویزا، ٹکٹ اور ہوٹل سب کچھ ہیں۔ اللہ تعالی ان دونوں کو سلامت اور خوش و خرم رکھے کہ انھوں نے خدمت گزاری میں کبھی کوئی کمی نہیں آنے دی بلکہ توقع سے زیادہ کی۔ نہ وقت کی پروا کی نہ وسائل کی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمارا کوئی دوست حج یا عمرہ کرنے گیا اور ہم نے ان کو اس کی اطلاع دی تو انھوں نے اس کی بھی اسی طرح خدمت کی جیسی کہ ہم لوگوں کی کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بار بھی مہینوں پہلے سے ہی ان لوگوں سے مشورہ ہوتا رہا۔ وہ لوگ ہمارے مدینہ پہنچنے کے لیے سراپا منتظر رہے۔ صرف مولانا شعیب ہی نہیں بلکہ محمد سعید بھی پیکر انتظار بنے رہے۔ وہ مولانا شعیب کے سگے چچا ہیں تو ہمارے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہ اس وقت مدینہ میں برسرِکار ہیں۔ ہمارے تمام افراد خانہ کے عمرہ کرنے پر ان کی خوشی کا یہ عالم رہا کہ انھوں نے بذریعہ فون مسلسل رابطہ قائم کیے رکھا۔ ادھر ہماری فلائیٹ نے ابھی جدہ ایئرپورٹ پر لینڈ کیا ہی تھا اور ہم ابھی طیارے سے باہر نکل بھی نہیں پائے تھے کہ ادھر ان کا فون آنے لگا۔ وہ مدینہ سے تقریباً بیس کلومیٹر دور مقیم ہیں۔ چونکہ وہ ملازمت کرتے ہیں اس لیے صرف جمعہ کو یعنی تعطیل کے روز ہی کہیں جا سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ جمعرات کو دوپہر سے قبل ہم لوگوں کے پاس آ گئے اور جمعہ کی رات میں تقریباً گیارہ بجے تک ہم لوگوں کے ساتھ رہے۔ حسن اتفاق وہ 2017 میں بھی مدینہ میں تھے اور اس وقت بھی انھوں نے خدمت کی تھی۔ ماشاء اللہ وہ سب بہت خدمت گزار ہیں۔ یہ وصف ان لوگوں کے مزاج میں شامل ہے۔ البتہ مدینہ کے ماحول اور وہاں کی آب و ہوا نے ان کے جذبۂ خدمت گزاری کو مزید نکھار دیا ہے۔

ہمارے مدینہ پہنچنے سے گھنٹوں پہلے مولانا شعیب ہوٹل پہنچ چکے تھے اور بار بار فون پر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم کب تک مدینہ پہنچ رہے ہیں۔ رات میں دس بجے کے آس پاس ہم لوگوں کی بس مسجد نبوی کے زیر سایہ ہوٹل کرم المدینہ کے گیٹ پر پہنچی۔ یہ ہوٹل مسجد نبوی کے جنوب مغربی کونے پر سعودی پوسٹ کی عمارت سے متصل ہے۔ ہوٹل کرم المدینہ کی جانب مسجد غمامہ ہے۔ وہ ہوٹل اور مسجد نبوی کے درمیان اور مسجد نبوی کے بیرونی گیٹ نمبر 310 کے بالکل سامنے ہے۔ وہاں کشادہ جگہ ہے جسے پودے لگا کر اور چبوترے تعمیر کرکے آرام گاہ بنا دیا گیا ہے۔ برابر میں کے ایف سی کا کاؤنٹر اور سامنے دکانیں ہیں۔ روایات کے مطابق مسجد غمامہ وہ متبرک مسجد ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سخت دھوپ میں جب مدینہ قحط سے دوچار تھا اور انسان، جانور اور درخت سب سوکھ گئے تھے، نماز استسقا پڑھائی تھی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بارش کی دعا کی تھی۔ دوران دعا بادل کا ایک ٹکڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سایہ فگن ہوگیا۔ فوری طور پر مدینہ میں بارش شروع ہوگئی اور پورا مدینہ ہرا بھرا ہوگیا۔ اس واقعہ کے وقت آپ کے نو عمر نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس واقعہ کی مناسبت سے اس مقام پر بنائی جانے والی اس مسجد کا نام مسجد غمامہ رکھا گیا۔ عربی میں غمامہ بادل کو کہتے ہیں۔ آپ نے یہاں عید کی نمازیں بھی پڑھی ہیں اور قربانی کے اونٹ اور بھیڑیں بھی نحر یعنی قربان کی ہیں۔ اسی مقام پر آپؐ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی، جو آپؐ سے بہت محبت کرتا تھا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکا تھا، موت کی خبر بھی اسی دن لوگوں کو دی جس دن اس کا انتقال ہوا تھا۔ آپ نے اسی مقام پر نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی تھی۔ یہ مسجد کافی بڑی ہے اور اس میں بھی نماز ادا کی جاتی ہے۔ ہم نے وہاں خاتون نمازیوں کی تعداد زیادہ دیکھی۔ ہوٹل کرم المدینہ کی پشت پر مسجد ترکی اور ایک میوزیم ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔

بہرحال ہوٹل پہنچتے ہی مولانا شعیب نے ہم لوگوں کا سامان پانچویں منزل پر واقع ان دو کمروں میں پہنچانے میں ہماری مدد کی جو ہم لوگوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔ ہم نے مولانا عبیداللہ مکی سے درخواست کی تھی کہ ہمیں دونوں جگہوں پر چار چار بیڈ والے دو کمرے الاٹ کرا دیجیے گا تاکہ ان کمروں میں صرف ہم لوگ ہی قیام کریں کوئی غیر اس میں نہ آسکے اور انھوں نے اس کا انتظام کر دیا تھا۔ سامان رکھنے کے بعد آٹھویں منزل پر واقع ریسٹورینٹ میں کھانا کھایا گیا اور پھر سب لوگ وضو کرکے مغرب اور عشا کی نماز ادا کرنے اور اللہ کے رسول ؐ کی قبر مبارک پر حاضری اور سلام پیش کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ ہم لوگوں کے ساتھ کی خواتین نے مکہ سے مدینہ آنے والے راستے میں ایک جگہ جہاں بس رکی تھی اور جہاں مسجد بھی تھی، مغرب کی نماز ادا کر لی تھی۔ البتہ وہاں مردانہ حمام میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے مردو ںکی نماز مغرب قضا ہو گئی تھی۔ گیارہ بجے کے بعد ہم لوگوں نے مسجد نبوی میں مغرب اور عشا کی نماز ادا کی اور روضۂ رسول ؐ پر حاضری دے کر سلام پیش کیا۔ اس وقت تک مسجد کے اندرونی گیٹ بند ہو جاتے ہیں لیکن صحن اور باب السلام چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد حرمین شریفین کے انتظامات میں کافی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ پہلے براہ راست باب السلام میں داخل ہو کر قبر مبارک پر پہنچ جاتے تھے لیکن اب سامنے سے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ گنبد خضرا کے بالمقابل صحن کی طرف سے آنا پڑتا ہے اور پھر دائیں مڑ کر باب السلام سے جو کہ مسجد نبوی کا گیٹ نمبر ایک ہے، اندر جاتے ہیں۔

پہلے قبر رسول ؐ اور زائرین کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہیں تھی کہ آپ روضے کی جالی وغیرہ نہ دیکھ سکیں۔ بلکہ اور پہلے تو لوگوں کو جالی تک جانے کی اجازت تھی اور بہت سے لوگ جالی پکڑ کر دعائیں کرتے تھے۔ لیکن اب راہداری میں موٹے کپڑے کی قد آدم دیوار سی ایستادہ کر دی گئی ہے۔ لوگ اس دیوار کے اِس طرف سے سلام پیش کرتے ہیں۔ اس وقت بھی مسجد کے صحن میں ہزاروں افراد موجود تھے۔ کوئی نماز پڑھ رہا ہے تو کوئی تلاوت کر رہا ہے یا پھر کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ چونکہ خواتین کے لیے قبرستان کی زیارت ممنوع ہے لہٰذا انھیں قبر رسول ؐ پر بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ وہ باب السلام کے سامنے کھڑی ہو کر سلام پیش کر سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ مدینہ منورہ جانے والے اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ غائبانہ طور پر ان کا سلام رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کریں۔ ہمارے والد حضرت مولانا حامد الانصاری انجم کا ایک طویل سلام ہے جس کا عنوان ہے ’’اے عازم مدینہ‘‘۔ اس کا پہلا اور آخری بند قارئین کے لیے پیش ہے:

محبوبِ کبریا سے میرا سلام کہنا
محمود ومجتبیٰ سے میرا سلام کہنا
طیبہ میں مصطفی سے میرا سلام کہنا
جب سامنے پہنچنا میرا سلام کہنا
اے عازمِ مدینہ میرا سلام کہنا
اپنا بھی غم سمو کر انجمؔ کی التجا میں
بطحا کی سر زمیں پر اور دل نشیں فضا میں
محبوبِ کبریا سے دربارِ مصطفی میں
جس وقت پر پہنچنا میرا سلام کہنا
اے عازمِ مدینہ میرا سلام کہنا

جبکہ ان کے ایک دوسرے سلام کا عنوان ہے ’’نذر عقیدت‘‘ اس کا پہلا بند ملاحظہ فرمائیں:

غریقِ قلزمِ عرفاں سلام کہتا ہے
فدائے ملت و ایماں سلام کہتا ہے
ہر ایک عاملِ قرآں سلام کہتا ہے
بصد خلوص مسلماں سلام کہتا ہے
بطرزِ نو بصد عنواں سلام کہتا ہے

ہم لوگوں نے قبر رسول ؐ کے سامنے اور خواتین نے باب السلام پر کھڑے ہو کر سلام پیش کیا۔ اس طرح ہم نے مدینہ منورہ میں اپنی پہلی رات کا آغاز کیا اور بارہ بجے کے بعد واپس اپنے ہوٹل پہنچے۔ مولانا محمد شعیب ہم لوگوں کو دوبارہ ہوٹل کے کمروں میں پہنچا کر اپنی رہائش گاہ چلے گئے۔

موبائل: 9818195929

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here