تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
خیموں کا شہر، غار حرا اور طائف
مضمون نگار: سہیل انجم
عرفات میں ہم نے دیکھا کہ یوم عرفہ کے لیے خیموں کے ایستادہ کرنے کا کام چل رہا ہے۔ ابھی تو خیمے نہیں لگ رہے تھے البتہ جہاں ضرورت تھی وہاں زمین ہموار کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ دوسری تیاریاں بھی چل رہی تھیں۔ عرفات منیٰ سے کم از کم دس کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ واپسی میں بسیں وادی محسر سے گزرتی ہیں۔ اسی وادی میں کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے نکلنے والے بادشاہ ابرہہ کا لشکر تباہ ہوا تھا۔ اللہ کے رسولؐ کا حکم ہے کہ اس وادی سے جلد از جلد نکل جایا کرو۔ اس کے بعد ہی منیٰ کے خیموں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہیں بائیں جانب ایک پہاڑی پر شاہی محل بھی ہے۔ وادی منیٰ سے گزرتے ہوئے خیموں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جسے خیموں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ بڑا دلفریب منظر ہوتا ہے۔ جب فلائی اوور سے بس گزرتی ہے تو دائیں جانب خیمے اور بائیں جانب جمرات نظر آتا ہے جہاں شیطان کی تین علامتوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ گویا حجاج اور شیطان ایک دوسرے کے مدمقابل۔ کنکریاں میدان عرفات سے واپسی پر رات میں مزدلفہ میں قیام کے وقت چنی جاتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے وہاں کنکریاں ڈلوائی جاتی ہیں تاکہ حجاج کے لیے آسانی رہے۔ جمرات کے نزدیک کئی رہائشی ٹاور تعمیر کیے گئے ہیں جہاں حج کے موقع پر وی وی آئی پی حضرات کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ حج کے موقع پر منیٰ کے خیمے لاکھوں حجاج سے آباد ہو جاتے ہیں۔ صادقہ ذکی نے اپنے سفرنامہ میں اسے خیموں کا شہر کہا ہے۔ یہ شہر سال میں پانچ دنوں کے لیے آباد ہوتا ہے۔ جگہ جگہ دفاتر قائم کیے جاتے ہیں۔ ڈسپنسریاں بنائی جاتی ہیں۔ بازار لگتے ہیں۔ عام طو پر یہاں لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ اسی لیے منیٰ روانہ ہونے سے قبل حجاج کی کلائیوں پر ایک الیکٹرانک بریسلیٹ پہنایا جاتا ہے جس پر منیٰ اور عرفات کے خیموںکے پتے درج ہوتے ہیں۔
اسے ہر حاجی کو کم از کم اس وقت تک اپنی کلائی پر باندھے رہنا ہوتا ہے جب تک کہ وہ منیٰ سے واپس اپنے ہوٹل نہ پہنچ جائے۔اسی راستے پر جبل نور آتا ہے جس کی بلندی پر غار حرا واقع ہے۔ یہ پہاڑی غار ثور سے بھی کہیں زیادہ بلند ہے۔ عام طور پر زیارت والی بسیں اس کے نیچے سے گزر جاتی ہیں۔ گائڈ اشارہ کرکے بتا دیتے ہیں کہ وہ غار حرا ہے۔ گائڈ اہم مقامات کی تاریح بھی بتاتے ہوئے چلتے ہیں۔ اس سے قبل جب بھی ہم گئے تو ہماری بس اس پہاڑی کے نیچے کچھ دیر تک رکی تھی لیکن اس بار نہیں رکی۔ دو تین روز کے بعد ہمارے داماد مسیح الدین مکہ میں مقیم اپنے ایک دوست کے ہمراہ غار حرا گئے۔ انھوں نے بتایا کہ نیچے سے اوپر غار تک پہنچنے میں تقریباً دو گھنٹے لگتے ہیں۔ اگر چہ حکومت کی جانب سے پہاڑ پر سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں اس کے باوجود بعض مقامات انتہائی مخدوش ہیں۔ تاہم بہت سے لوگ جن میں معمر مردو خواتین شامل ہیں غار تک جاتے ہیں۔ ان کی ہمت کی داد دینی چاہیے۔ مسیح الدین فجر بعد نکلے تھے اور دو بجے کے بعد ہوٹل واپس آئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں اوپر تک جانے والے راستے پر بہت سی خواتین اپنی گود میں بچہ لیے ہوئے خیرات مانگتی رہتی ہیں۔ جو بے وضو افراد غار میں نفل ادا کرنا چاہتے ہیں ان کو کچھ لوگ انتہائی مہنگے داموں میں پانی کی بوتل فروخت کرتے ہیں۔ بہرحال ہم لوگ جبل نور کے قریب سے گزر گئے۔ وہاں سے ہوٹل تک پہنچنے کے راستے میں بھی کئی اہم مقامات آتے ہیں جن میں مسجدیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ گائڈ بتاتے رہتے ہیں۔ اسی راستے پر جبل ابو قبیس بھی ہے جس پر اللہ کے رسول ﷺ کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا تھا۔ گائڈ عام طور پر عطر، سرمہ یا عجوہ کھجور کی گٹھلی کا پاؤڈر اور دوسری اشیا بھی بس میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ یہ کام سفر کے اختتام پر کرتے ہیں۔ اس طرح ان کو کچھ یافت ہو جاتی ہے۔
بسیں جعرانہ نامی ایک مقام سے بھی گزرتی ہیں جہاں ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔ عمرہ کرنے کے خواہشمند افراد وہاں وضو کرتے، احرام باندھ کر عمرہ کی نیت کرتے اور دو رکعت نفل ادا کرتے ہیں۔ وہاں وضو اور بیت الخلا کا انتظام ہے لیکن رش بہت ہوتا ہے۔ بعض علما کا کہنا ہے کہ جعرانہ سے احرام باندھنا درست نہیں۔ لیکن بعض دیگر علما کا خیال ہے کہ چونکہ زائرین دور دور سے آتے ہیں اس لیے جعرانہ سے بھی عمرہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم لوگوں نے بھی وضو کے بعد احرام باندھا، عمرہ کی نیت کی اور دو رکعت نفل ادا کی اور بس میں جا کر بیٹھ گئے۔ یہ ہمارا دوسرا عمرہ تھا۔ تیسرا عمرہ طائف کی زیارت کے بعد کیا گیا۔ مسجد عائشہ سے بھی عمرہ کیا جاتا ہے۔
ہماری ٹریول ایجنسی کی طرف سے ساتھ میں جانے والے مولانا عبید اللہ مکی نے بتایا تھا کہ جب مکہ سے مدینہ کی طرف روانگی ہوگی تو راستے میں بدر کی بھی زیارت کرائی جائے گی۔ لیکن بعض وجوہ سے بس تاخیر سے آئی لہٰذا بدر کی زیارت محروم رہ گئے۔ البتہ طائف کی زیارت ہو گئی۔ ایک عرصے سے طائف دیکھنے کی خواہش دل میں مچلتی رہی ہے۔ لیکن پھر بھی اس طرح نہیں دیکھ سکے جیسے کہ دیکھنا چاہیے۔ ایسا سنا گیا تھا کہ وہاں کے بعض علاقے بہت سرد ہوتے ہیں بالکل کشمیر جیسا موسم ہوتا ہے۔ لیکن زیارت والی بسیں وہاں نہیں جاتیں۔ مکہ سے طائف تک جانے میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگتے ہیں۔ گائڈ راستے کے اہم مقامات کی جانب اشارہ کرتے جاتے ہیں۔ طائف ایک پرفضا مقام ہے۔ گوکہ ہم لوگ اصل پرفضا و صحت افزا مقام تک نہیں جا سکے پھر بھی جہاں جہاں سے گزرے خوبصورت مناظر سے آنکھیں چار ہوئیں۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد ہی خوبصورت پارک دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک پارک کے پاس سے بس یو ٹرن لیتی ہے۔ وہ سب سے خوبصورت پارک ہے۔ وہاں دھوپ تیز تو ہوتی ہے مگر اس میں وہ تمازت نہیں ہوتی جو مکہ اور مدینہ کی دھوپ میں ہوتی ہے۔
طائف میں سب سے پہلے وسیع اور خوبصورت مسجد عبد اللہ بن عباس لے جایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ طائف کی مشہور مسجدوں میں سے ایک ہے اور شہر کے قلب میں واقع ہے۔ یہاں ایک وسیع میدان بھی ہے۔ زیارت کے دوسرے مقامات کے مانند یہاں بھی چھوٹا سا بازار لگا ہوا ہے اور دکاندار آوازیں لگا رہے ہیں۔ بہت سے دکاندار پہچان لینے کے بعد کہ زائرین انڈیا کے ہیں، اردو میں آواز لگانے لگتے ہیں۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے حمام ہے۔ وہاں استنجہ اور وضو سے فراغت حاصل کی گئی۔ ظہر کا وقت تھا۔ جماعت سے نماز کی ادائیگی ہوئی۔ پھر بس عبد اللہ بن عباس گیٹ سے نکل کر آگے بڑھی۔ بتایا جاتا ہے کہ جس جگہ یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے وہیں طائف کے سفرمیں نبی کریم ؐ کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ آپ نے طائف میں دس روز قیام کیا تھا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ بھی یہیں مدفون ہیں۔ اس مسجد کے زیر اہتمام ایک کتب خانہ بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس میں نادر مخطوطات ہیں۔ ہمارے گائڈ نے شروع میں اعلان کیا تھا کہ وہ کتب خانہ بھی دکھائیں گے لیکن شاید وہ بھول گئے، یا وقت کی قلت تھی اور پھر زائرین کو بھی یاد نہیں رہا۔مسجد اور کتب خانہ کے درمیان ایک احاطے میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور بعض دیگر حضرات کی قبریں بتائی جاتی ہیں۔ کچھ دوری پر حضرت عدّاس رضی اللہ عنہ کے نام سے ایک چھوٹی سی پرانی مسجد اور انگور کا باغ ہے۔ یہاں پر اللہ کے رسولؐ نے آرام فرمایا تھا۔ حضرت عداس عتبہ بن ربیعہ کے غلام تھے۔ انھوں نے آپ کو کھانے کے لیے انگور پیش کیا تھا ۔ آپؐ نے بسم اللہ کہہ کر انگور منہ میں رکھا تو آپؐ کی یہ ادا ان کو بہت پسند آئی اور انھوں نے وہیں اسلام قبول کر لیا۔ وہاں ایک چھوٹا سا بہت پرانا مکان نظر آیا۔ گائڈ کے مطابق وہ حضرت عبداس کا مکان ہے۔ گائڈ نے وہیں ایک پہاڑی پر دو بڑے پتھروں کی طرف اشارہ کیا جو ایک دوسرے کے متوازی کھڑے تھے۔ گائڈ کے مطابق ایسا کہا جاتا ہے طائف کے اوباشوں نے وہ دونوں پتھر آپؐ پر گرانے کی کوشش کی تھی۔ جس پر آپؐ نے پتھروں سے کہا تھا کہ اگر اللہ کا حکم ہے تو آجاؤ اور نہیں ہے تو مت آؤ۔ وہاں کچھ اور قدیم مسجدیں نظر آئیں۔ بہرحال اس طرح طائف کی زیارت مکمل کرکے ہم لوگ ہوٹل واپس آگئے۔ طائف سے عمرہ کرنے والوں کے لیے میقات قرن المنازل ہے۔ یہ ایک وسیع میدان ہے اور یہاں کافی بڑی مسجد ہے۔ یہاں بھی علیحدہ علیحدہ مردانہ و زنانہ حمام ہیں۔ ہم لوگوں نے یہاں وضو کیا، احرام باندھا اور دو رکعت نفل ادا کی۔ یہ ہم لوگوں کا تیسرا عمرہ تھا۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ہمارے ساتھ نو سال کا ہمارا پوتہ فیحان انجم اور چھ سال کی پوتی اقدس فاطمہ بھی ہیں۔ ان دونوں بچوں نے بھی تینوں عمرے مکمل کیے۔ فیحان کو احرام میں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ اس معصوم کو احرام کی اہمیت کے بارے میں کیا معلوم۔ وہ ہمیشہ کہتا کہ میں احرام نہیں باندھوں گا۔ لیکن پھر ہم لوگوں کے سمجھانے پر راضی ہو جاتا۔ اس نے تلبیہ یاد کر رکھا تھا۔ ہوٹل سے نکلتے ہی بآواز بلند تلبیہ پکارنے لگتا اور حرم میں بھی بآواز بلند پکارتا۔ اس کو دیکھنے والے بہت خوش ہوتے کہ ایک اتنا چھوٹا سا بچہ کس طرح فرفرفرفر تلبیہ پڑھ رہا ہے اور دوسروں کو بھی پڑھا رہا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ طواف کرتے وقت ایک فربہ اندام افریقی عورت کو اس کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ پہلے تو وہ والہانہ انداز میں اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہی اور پھر دوڑ کر جھٹا جھٹ اس کے منہ کا بوسہ لینے لگی۔ فیحان اور اقدس دونوں کی ضد تھی کہ وہ وھیل چیئر سے سعی کریں گے۔ لیکن جب ہم لوگوں نے سمجھایا کہ اس میں مزا نہیں آئے گا۔ کیونکہ آپ لوگ سعی میں دوڑنے کے مقام پر خوب دوڑتے ہیں وھیل چیئر پر کیسے دوڑ پائیں گے۔ یہ بات ان دونوں کو اچھی لگی اور پھر انھوں نے وھیل چیئر کا تقاضہ نہیں کیا۔ بعد میں وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ سعی میں دوڑنے میں خوب مزا آیا۔ فیحان کو سعی میں دعائیں پڑھانے کا شوق تھا۔ یعنی وہ دعا شروع کرے اور دوسرے اس کو دوہرائیں۔ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر خاموش ہو جاتا اور پھر ہمارا بیٹا سلمان فیصل دعائیں پڑھتا اور دوسرے اسے دوہراتے جاتے۔ جن کو دعائیں یاد تھیں وہ خود پڑھتے۔ جب ہم سعی کرنے کے بعد حلق کرانے جاتے تو فیحان پریشان ہو جاتا۔ وہ حلق کرانے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے اسکول میں اس کے ساتھی چڑھائیں گے۔ اس نے تینوں بار قصر کروایا۔ ہم لوگ اسے چھیڑتے کہ دو ایک عمرہ اور کر لو پھر خود ہی حلق کرانے جیسا سر ہو جائے گا۔ واپس آنے کے بعد وہ پھر جانے کو کہتا ہے لیکن اس کی معصومیت دیکھیے کہ یہ بھی کہتا ہے کہ مدینہ جاؤں گا مکہ نہیں۔ پوچھنے پر کہ مکہ کیوں نہیں؟ کہتا ہے کہ وہاں احرام باندھنا ہوتا ہے۔ جب ہم لوگوں کی واپسی ہو رہی تھی تو اس نے بار بار پوچھا کہ ایئرپورٹ پر احرام تو نہیں باندھنا ہوگا۔ دراصل جاتے وقت اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر احرام باندھا گیا تھا اس لیے اس کا خیال تھا کہ پھر ایئرپورٹ پر باندھنا پڑے گا۔ بچوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ دینی امور کی طرف راغب کرنا چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر دین پر چلیں اور اچھے کردار کے مالک بنیں۔ ڈانٹنے اور جھڑکنے کے بجائے محبت سے سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا جب فیحان کو احرام کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا تو وہ ضد چھوڑ دیتا اور خاموش ہو جاتا۔
پہلی بار جانے والے زائرین یا حجاج کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان کے پاس موبائل ہو اور اس میں وہاں کا سم کارڈ ہو۔ اگر ایک سے زائد افراد ہیں تب تو موبائل اور ہاں کا سم کارڈ اور بھی ضروری ہے۔ چونکہ وہاں لاکھوں افراد کا مجمع ہوتا ہے اس لیے نئے لوگوں کے بھٹک جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ حرم میں کوئی ایک مقام طے کر لیں کہ اگر کوئی بچھڑ جائے تو فلاں مقام پر آجائے۔ کوئی گیٹ یا کوئی بورڈ۔ موبائل رہنے سے رابطہ قائم کرنا اور ایک دوسرے کے بارے میں معلوم کرنا آسان رہتا ہے۔ ہم لوگ گھر کے دس افراد تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام بڑوں کے پاس وہاں کا سم کارڈ ہو۔ لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ ایک موقع ایسا آیا جب ہمارے بچوں کو زبردست ذہنی اذیت میں گرفتار ہونا پڑا۔ ہوا یوں کہ ہماری اہلیہ، دونوں بیٹیاں، بہو اور ان کی والدہ ایک ساتھ طواف کرنے کے لیے گئیں۔ نماز مغرب کے بعد دو خواتین اپنی خواہش نہیں روک سکیں اور وہ طواف کے لیے نکل گئیں۔ دو کو واش روم کی ضرورت پڑ گئی۔ اہلیہ پوتی کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ گئیں۔ اسی درمیان عشا کا وقت ہو گیا، سارے گیٹ بند ہو گئے اور باہر والے باہر رہ گئے۔ طواف والے بھی نہیں آسکے۔ ادھر اہلیہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان کو زبردست پسینہ آنے لگا۔ پھر سینے میں تیز درد بھی اٹھنے لگا۔ حالانکہ اس سے قبل ایسی شکایت کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ہماری پوتی ان کے پاس سو گئی تھی۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا۔ ان کے دل و دماغ میں اس خیال نے گھر کر لیا کہ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے، گھر والے میرے پاس نہیں ہیں، اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو اس بچی کا کیا ہوگا، یہ کیا کرے گی، گھر والوں تک کیسے پہنچے گی۔ اس خیال نے ان کی طبیعت کو اور بگاڑ دیا جس کا اثر دو ایک روز تک رہا۔ شکر ہے کہ نماز بعد سب ان کے پاس آگئے۔ اس لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ موبائل ساتھ میں ہو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حج کمیٹی یا ٹریول ایجنسی کی جانب سے ملنے والا کارڈ اور ہوٹل کا کارڈ گلے میں ضرور ڈالے رہیں تاکہ اگر خدا نخواستہ کوئی ناگہانی پیش آجائے تو وہاں کے ملازمین آپ کو آپ کے ہوٹل تک پہنچا سکیں۔ (جاری)
موبائل: 9818195929