تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
سفر نامہ نگار: سہیل انجم
اللہ تعالیٰ کالاکھ لاکھ فضل و کرم اور شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر اپنے گھر یعنی کعبہ کے طواف، صفا و مروہ کی سعی، کعبہ کے صحن میں جسے مطاف کہتے ہیں نمازوں کی ادائیگی، اسی کے ساتھ شہر نبیؐکے دیدار، مسجد نبوی میں نمازوں کی ادائیگی، اپنے آخری رسول ﷺ کی قبر مبارک پر حاضری اور سلام اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے اہم اور تاریخی مقامات کی زیارت کا شرف بخشا۔ اس سرزمین مقدس کا یہ ہمارا چوتھا سفر تھا جو بغرض عمرہ ہوا۔ یہ مبارک سفر یکم مئی 2023 کو شروع ہوا اور پندرہ مئی 2023 کو اختتام کو پہنچا۔ اس سے قبل سب سے پہلے ہم نے 2006 میں حکومت سعودی عرب کی دعوت پر حج کا فریضہ ادا کیا تھا۔ وہ سفر بارہ روز کا تھا۔ دوسرا تیرہ روزہ سفر 2017 میں ہوا جب ہم نے اہلیہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے دیار مبارک میں حاضری دی تھی۔ تیسرا سفر 2018 میں دوسری بار فریضہئ حج کی ادائیگی کے لیے ہوا۔ یہ حج ہم نے حج کمیٹی آف انڈیا کے توسط سے کیا۔یہ سفر تقریباً 40 دنوں پر مشتمل تھا۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ اہلیہ اور ایک بیٹی بھی تھی۔ جبکہ مذکورہ آخری سفر میں ہم میاں بیوی کے علاوہ بیٹا، بہو، ان کے دو کم عمر بچے، بڑی بیٹی اور داماد، چھوٹی بیٹی اور ہماری بہو کی والدہ بھی ساتھ تھیں۔ یعنی یہ قافلہ کل دس افراد پر مشتمل تھا۔ اس سفر مقدس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ سے دعا ہے اور اس کی ذات سے امید بھی ہے کہ وہ ہمیں پھر اپنے گھر اور اس دیار مبارک کے دیدار کا شرف بخشے گا۔
جب ہم نے پہلی بار فریضہئ حج ادا کیا تو واپسی پر سفر نامہئ حج لکھا جو علامہ اقبال کی ایک نظم کے ایک مصرعے ”بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل“ کے ایک ٹکڑے یعنی ”پھر سوئے حرم لے چل“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اس سفر نامہ کو بڑی مقبولیت ملی تھی۔ اس کا اجرا دہلی کے حضرت نظام الدین علاقے میں واقع غالب اکیڈمی میں ہوا تھا۔ اس وقت متعدد مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سفرنامے کا نام دعائیہ ہے۔ امید ہے کہ سہیل انجم پھر سوئے حرم جائیں گے اور پھر سفرنامہ لکھیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ واقعی اللہ کو یہ نام پسند آیا اور اس نے اس کے بعد تین مرتبہ ہمیں اپنے گھر کی زیارت کی سعادت بخشی۔ اس نے مجھے تمام اسفار کی روداد لکھنے کی توفیق بھی بخشی۔ دوسرے سفر حج یعنی اُس دیار مقدس کے تیسرے سفر کی روداد ”بازدید حرم“ نام سے شائع ہوئی جس میں دوسرے سفر کی روداد بھی ضمیمے کے طور پر شامل ہے۔ اس طرح اللہ نے ہمیں یہ موقع دیا کہ ہم دونوں حج اور ایک عمرے کی تفصیلات قلمبند کریں اور اپنے لیے یادگار کے طور پر محفوظ کر لیں۔ اگر ان سفرناموں سے کسی کو ذرا بھی فائدہ پہنچا ہوگا تو اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ اس گناہگار کے نامہئ اعمال میں نیکی کے طور پر لکھا گیا ہوگا۔ اب اس چوتھے سفر کی مختصر روداد کی پہلی قسط پیش خدمت ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس تحریر کو اس عاصی کے لیے باعث ثواب اور قارئین کے لیے نافع بنائے۔
پاکستان کے معروف شاعر مظفر وارثی مرحوم کی ایک مقبول عام حمد ہے ”کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے وہی خدا ہے“۔ اس میں ایک مصرعہ اس طرح ہے ”وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب، سفر کریں سب اسی کی جانب“۔ میں نے جب بھی مکہ مکرمہ میں حاضری دی اور کعبہ کا طواف کیا تو یہ مصرع بار بار میری یادداشت کے دروازے پر دستک دیتا رہا۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ اس سفر میں بار بار مذکورہ مصرع اپنی پوری معنویت اور آب و تاب کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ جب زائر مکہ مکرمہ میں اپنے ہوٹل کے کمرے سے حرم کی جانب روانہ ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ چاروں اطراف سے لوگ قافلہ در قافلہ کعبہ کی جانب رواں دواں ہیں تو مسحور ہو جاتا ہے اور خود کو انتہائی خوش قسمت سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتا ہے اور دل و زبان سے اللہ کے احسان عظیم کا بار بار شکریہ ادا کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندے سے کہتا ہے کہ تو اگر میرا شکر ادا کرے گا تو میں تجھے اوردوں گا۔ لہٰذا جو ایک بار اس کے گھر کا طواف کر لیتا ہے اور بار بار اس کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ اسے یہ نعمت بار بار بخشتا ہے۔ کم و بیش ہر زائر کا یہ احساس ہے کہ جس نے ایک بار اس دیار کا دیدار کر لیا وہ بار بار اس کا دیدار کرنا چاہتا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے اس بندے کی خاموش دعاؤں کو سن لیتا ہے اور اسے دوبارہ سہ بارہ اپنی عنایتوں کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ جس کے دل میں کعبہ کے طواف اور دیدار کی خواہش انگڑائی نہیں لیتی اس کو یہ موقع بمشکل ملتا ہے۔ لیکن جو دل اس نیک اور مقدس خواہش کی آماجگاہ بنا رہتا ہے اسے بار بار یہ موقع نصیب ہوتا ہے۔ ہمیں جب بھی کعبہ کے طواف کا موقع ملا ہم نے اپنی دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل رکھی کہ اے کعبہ کے مالک ہمیں پھر اپنے اس گھر کے دیدار کا موقع دینا تاکہ ہم پھر یہاں آکر اس کا طواف کریں اور پھر تیرے حبیبؐ کے مسکن یعنی امن و امان والے شہر مدینہ مبورہ جا کر روضہئ رسولؐ پر سلام پیش کریں۔ مظفر وارثی کی مذکورہ حمد میں ایک مصرع یہ بھی ہے ”تلاش ا س کو نہ کر بتوں میں، وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں“۔ کعبہ کا طواف کرتے وقت یہ مصرع اور اسی کے ساتھ فتح مکہ کے وقت کا وہ عظیم الشان واقعہ بھی یاد آتا رہا جب اللہ کے رسولؐ نے کعبہ کے اندر داخل ہو کر اپنے ڈنڈے سے بتوں کو توڑا اور گرایا تھا اور صحابہ کرام نے تمام بتوں کو وہاں سے نکال نکال کر نیست و نابود کر دیا تھا۔ مشرکین مکہ نے کعبہ کو بتوں کی آماجگاہ بنا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں 360 بت نصب تھے۔ ہر قبیلے کے اور ہر کام کے لیے الگ الگ بت تھے۔ اللہ کے گھر میں بتوں کا کیا کام۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں کہ لوگ بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔
بہرحال یکم مئی کو بعد نماز فجر ہمارا یہ قافلہ دہلی کے ذاکر نگر میں واقع اپنی رہائش گاہ سے نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ دن میں سوا گیارہ بجے کی سعودی ایئر لائنز کی فلائیٹ تھی۔ ہم لوگ سعودی عرب کے مقامی وقت کے مطابق تقریباً تین بجے جدہ کے کنگ عبد العزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے۔ ایئرپورٹ جدہ شہر سے 19 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ یہ سعودی عرب کا تیسرا بڑا اور مصروف ترین ایئرپورٹ ہے۔ اتنا بڑا کہ طیارہ سے اترنے کے بعد امیگریشن کاؤنٹر اور پھر لگیج تک جانے کے لیے جہاں کافی دیر تک اور دور تک پیدل اور خودکار زینوں سے چلنا پڑتا ہے وہیں اس کے اندر چلنے والی میٹرو ٹرین سے بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح واپسی میں طیارے میں سوار ہونے کے لیے بھی کافی دیر تک پیدل چلنے اور اسکیلیٹر کے استعمال کے علاوہ میٹرو ٹرین پر سوار ہونا پڑتا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق یہ ایئرپورٹ 105 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا افتتاح اپریل 1981 میں ہوا تھا۔ عام مسافروں کے علاوہ حجاج اور معتمرین بھی اسی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے تین ٹرمنل ہیں۔ نارتھ ٹرمنل، حج ٹرمنل اور نیو ٹرمنل ون۔ حج ٹرمنل خاص طور پر حجاج کرام کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا ایک ساؤتھ ٹرمنل بھی ہے جسے 2020 میں ویکسین سنیٹر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ہماری ٹریول ایجنسی سپرب مائی ٹرپ کے رضاکارہمیں بذریعہ بس ایئرپورٹ سے مکہ مکرمہ لے گئے۔ ایجنسی کی جانب سے گروپ کی قیادت ایجنسی سے وابستہ مولانا عبید اللہ مکی کر رہے تھے جو پورے سفرمیں ہم لوگوں کے ساتھ رہے اور بوقت ضرورت مدد بھی کرتے رہے۔ نماز مغرب سے کچھ دیر قبل ہم لوگ مکہ پہنچے۔ مکہ کلاک ٹاور کے پاس شارع ابراہیم خلیل یعنی ابراہیم خلیل اسٹریٹ پر جہاں معروف کبوترچوک بھی ہے، ہوٹل ”الفجر البدیع فائیو“ میں ہم لوگوں کے کمروں کی بکنگ تھی۔ چونکہ حرم کے اطراف میں نماز سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل سڑکیں بڑی گاڑیوں کے لیے بند کر دی جاتی ہیں اور کسی نماز میں ایک گھنٹہ تو کسی میں نصف گھنٹہ قبل حرم میں داخل ہونے کے متعدد دروازوں سے داخلہ روک دیا جاتا ہے لہٰذا ہماری بس ہوٹل کے گیٹ تک نہیں جا سکی۔ سو ڈیڑھ سو قدم پہلے ہی ہم لوگوں کو اتر جانا پڑا۔ رضاکاروں نے معتمرین سے کہا کہ وہ ہوٹل میں اپنے کمروں میں پہنچیں ان کا سامان وہیں پہنچا دیا جائے گا۔ لیکن تقریباً تمام لوگ اپنا اپنا سامان لے کر ہوٹل میں پہنچے اور اپنے اپنے کمروں کی چابی لے کر ان میں منتقل ہو گئے۔ اس سولہ منزلہ ہوٹل میں دو منزلیں پارکنگ کے لیے مخصوص ہیں۔ ایک منزل نماز کے لیے، ایک منزل ریسٹورنٹ کے لیے جہاں معتمرین کے لیے کھانے کا نظم ہوتا ہے اور ایک منزل صفر یعنی زیرو کے نام سے ہے۔ اس کے بعد پہلی دوسری اور تیسری اور دیگر منزلیں شروع ہوتی ہیں۔ ہم دس لوگوں کے لیے دو کمرے زیرو منزل پر بک تھے۔ بہت سے لوگ نماز مغرب کے بعد عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو گئے۔ لیکن کچھ لوگوں نے نماز عشا کے بعد عمرے کی ادائیگی کی۔ ہم لوگ بھی تھوڑا آرام کرکے اور کھانا کھانے کے بعد طواف اور سعی کے لیے روانہ ہوئے۔
پہلے کوئی بھی شخص گراؤنڈ فلور پر طواف کے لیے جا سکتا تھا لیکن اب صرف معتمرین ہی یعنی وہ زائر جو احرام پوش ہوں گراؤنڈ فلور پر طواف کر سکتے ہیں۔ البتہ خواتین کے لیے چھوٹ ہے۔ باقی وہ زائر جو احرام پوش نہیں ہیں فرسٹ فلور، سکنڈ فلور اور چھت پر طواف کر سکتے ہیں۔ اب وہاں ایک اور منزل بنائی جا رہی ہے تاکہ حجاج اور معتمرین کی بڑھتی تعداد کے لیے گنجائش نکالی جا سکے۔ گراؤنڈ فلور پر طواف کرنے میں اگر کعبہ کے قریب رہ کر طواف کیا جائے تو پندرہ بیس منٹ میں اور اگر مطاف کے آخری یا بھیڑ کے باہر باہر طواف کیا جائے تو جیسی دوری ہو نصف سے پون گھنٹے کے درمیان ساتوں شوط مکمل ہوتے ہیں۔ چونکہ ہم سب احرام پوش تھے اس لیے ہمیں گراؤنڈ فلور پر طواف کرنے کا موقع ملا۔ تقریباً پون گھنٹے میں ساتوں شوط مکمل ہوئے۔
(جاری)