ڈاکٹر منظور عالم
پانچ ریاستو ں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں ۔ 27؍مار چ سے آغاز ہوگا اور 28؍اپریل تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ 2؍مئی کو سبھی ریاستوں کے نتائج آئیں گے ۔ ان ریاستوں میں آسام سب سے اہم اور سرفہرست ہے ۔ اسے 2024 کے عام انتخابات کے ٹریلر کے طور پر بھی دیکھا جارہاہے ۔ ملک جس ماحول سے دوچار ہے ۔ جس طرح پورے دیش میں افراتفری اور بے چینی ہے ۔ سبھی سماج اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے پریشان اور مشکلات کے شکار ہیں اس کی بنیاد پر یہ کہناہے بجاہوگا کہ بنگال اور دیگر ریاستوں کا نتیجہ اگلے انتخابات کا اشارہ دے گا ۔وہ ملک کے مستقبل کیلئے راہ عمل ثابت ہوگا اور یقینی طور پر 2024 کے عام انتخابات کی سمت طے کرے گا کہ اس وقت کیا ہوگا ۔ کس کی سرکار بنے گی اورملک کس نہج پر جائے گا ۔
انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی مضبوطی کی دلیل ہے ۔ جمہوریت کی مضبوطی عوام کی مضبوط اور ان کے حقوق کے محفوظ ہونے کی شناخت اور پہچان ہے ۔ جب جمہوریت کمزور ہوگی ۔ عوام کی طاقت کمزور ہوجائے گی ۔ آمریت کا غلبہ ہوجائے گا ۔ ملک میں انارکی پھیل جائے گی اور آزادی کے حصول کیلئے دی گئی سبھی قربانیاں رائیگاں ہوجائیں گی اس لئے انتخابات کے ساتھ یہ سوچنا ضروری ہے کہ آزادی کیسے برقرار رہے گی ۔ ملک کی جمہوریت کیسے مضبوط ہوگی ۔ انصاف کیسے سبھی کو ملے گا ۔ بھائی چارہ کیسے قائم رہے گا ۔ کیوں کہ ایک طاقت مسلسل ملک کو دوبارہ غلام بنانے کیلئے کوشاں ہے ۔ انہیں آئین پر بھروسہ نہیں ہے ۔وہ چند مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی دولت ، طاقت اور ساری خوبیوں کو محدود کرکے عوا م سے ان کی آزاد ی سلب کرنا چاہتے ہیں جس سے ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ملک کی آزاد ی کیلئے طویل جدوجہد کرنی پڑی تھی ۔ ہمارے اسلاف نے عظیم قربانیاں دی تھی ۔ وہ شب و روز ایک کرکے انگریز وں کے خلاف بر سر پیکار ہوئے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ بھارت کی آزادی طویل قربانی کے بعد ملی تھی ۔ مجاہدین آزادی نے طویل منصوبہ بندی کی تھی ۔ اپنی دولت ، اپنی زندگی ، اپنی فیملی سب کچھ کی قربانی انہیں دینی پڑی تھی ۔ ہزاروں لوگوں کو تختہ دار پر لٹکنا پڑا تھا ۔ جیلوں میں قید وبند کی زندگی گزارنی پڑی تھی ۔ گھروں میں رہنا محال ہوگیاتھا ۔ شب و روز بندوق کے دہانے پر ان کی زندگی گزر تی تھی ۔لیکن ان کا ایک ہی جذبہ ،خواب اور مشن تھا کہ ملک آزادہوجائے ۔ سبھی کو آزادی ، انصاف اور برابری نصیب ہوجائے ۔سبھی کو یکساں حقوق ملے ۔کسی پر کوئی ظلم اور زیادتی نہ ہو۔ آئین کی حکمرانی رہے ۔ انسانیت کی بالادستی قائم رہے ۔ امن وسلامتی کاغلبہ رہے ۔ مجاہدین اور اسلاف کا یہ خواب طویل جدوجہد کے بعد شرمندہ تعبیر ہوا ۔ بھارت کو دشمنوں سے آزادی ملی ۔ ایک جامع آئین کا نفاذ ہوا ۔ ملک کے سبھی شہریوں کو یکساں حقوق ملے اور آج ہم سب اسی بنیاد پرایک آزاد ملک کی آزاد فضا میں آزادانہ سانس لے رہے ہیں ۔ جمہوری حقوق سے فائدہ اٹھارہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے ہم کتنے فکر مند ہیں ۔ ا ن قربانیوں کے تئیں ہم کتنے سنجیدہ ہیں ۔ آئندہ ایسی قربانیاں دینے کا جذبہ ہمارے اندر موجود ہے یا نہیں ۔ اسلاف کی قربانیاں ہمیں کس حدتک یاد ہے ۔ ہم ایسی قربانیوں کا تحفظ چاہتے ہیں یا نہیں ۔ ہم ان قربانیوں کے ثمرات برقرار رکھنے کیلئے مزید قربانی دینے کا جذبہ رکھتے یا ہیں پھر بے فکر ہیں ۔ یہ سوالات ہیں جن کے جواب تلاشنا ضروری ہے ۔ فکری مندی ہونا لازمی ہے ۔قربانی دینے کا جذبہ رکھنا وقت کا تقاضاہے۔
ہمارے اسلاف نے طویل مقصد کیلئے جہدوجہد کی اور تھی جان ومال کی قربانیاں دی تھی ۔ وہ ملک میں آزادی چاہتے تھے ۔ آمریت کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ ظلم کو روکنے کیلئے فکر مندتھے ۔ غربت کا خاتمہ کرنا ان کا مشن تھا ۔ عوام کو خوشحال بنانے کیلئے انہوں نے مسلسل قربانیاں دی تھی ۔ وہ بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے تھے ۔ ملک میں تعلیم کا فروغ اور جہالت کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ محبت کو فروغ دینا اور نفرت کو مٹانا چاہتے تھے ۔ وہ سماجی ہم آہنگی اور گنگاجمنی تہذیب کو زیادہ سے زیادہ بڑھا نا چاہتے تھے اور آج بھی یہ چیزیں اسی وقت سماج میں قائم ہوسکتی ہیں جب ہمارے اندر قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ ہم تعلقات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے ۔ کسی تعلق اور مفاد کی بنیاد پر کسی کی حمایت کرنے کے بجائے ملک اور صوبہ کے مفاد کو مقدم رکھیں گے ۔
بنگال ۔ آسام اور دیگر اسمبلی انتخابات میں بھی یہی بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہیئے کہ ہمیں ملک میں آزادی کو قائم رکھنا ہے ۔ گنگاجمنی تہذیب کوفروغ دینا ہے ۔ آئین کو تبدیل ہونے سے بچاناہے ۔ غربت کا خاتمہ کرنا ہے ۔ تجارت اور تعلیم کو فروغ دیناہے ۔ بہترین تہذیب کی نمائندگی کرنی ہے اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے ۔ جمہوری اقدار کی حامل پارٹیوں کے حق میں مہم چلائیں گے ۔ ان کیلئے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے ۔ جمہوریت دشمن پارٹیوں سے گریز کریں گے ۔ ان کی غلط پالیسیوں کو سمجھنے اور عوام کو سمجھانے کی کوشش کریں گے ۔ وقتی مفاد اور معمولی فائدہ کے بجائے ملک کے مستقبل کو ترجیح دیں گے ۔ کسی کے بہکاوے اور لالچ میں آنے کے بجائے مستقبل کے مسائل اور حالات کو سامنے رکھیں گے ۔ وقت پر ملنے والے معمولی فائدہ کو حاصل کرنے کے بجائے مستقبل میں پیش آنے والے مسائل ومشکلات کو سامنے رکھ کر ووٹ کریں گے ۔ دیش اور ملک کے حق میں یہ ضروری ہے ۔ جمہوریت کی مضبوطی اور آزادی کی بقا کیلئے یہ فکر مندی اور سوچ لازمی ہے اور قربانی دینا کا جذبہ رکھنا ضروری ہوگیا ہے ۔
عوام کے ساتھ سیاسی ،ملی ،سماجی قائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قربانی دینے کا مزاج بنائیں ۔ اپنے مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے ملک اور صوبہ کے مفاد کو ترجیح دیں ۔ سمجھوتہ او ر صلح کرنے کا جذبہ پیدا کریں ۔ ملک کے وسیع تر مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو فراموش کردیں اور ان لوگوں کیلئے راہ ہموار کریں جن کی کامیابی آئین کے تحفظ اور ملک کے جمہوری اقدار میں اہم کردار ادا کرے گا دوسری طرف ان طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں جو دیش کے دشمن ہیں ۔آئین کوبدلنا چاہتے ہیں اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کیلئے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اپنے حق میں رائے ہموار کرنے کے بجائے ان کی ماحول سازگار کریں جو ملک دشمن طاقتوں کا مقابلہ کررہے ہیں تاکہ ووٹ تقسیم نہ ہو ۔ عوام کی قربانی رائیگاں نہ جائے اور ایک ایسی سرکار منتخب ہوجائے جس کے انتخابی منشور میں بھائی چارہ ، گنگاجمنی تہذیب ، ہندو مسلم اتحاد ،ترقی اور فلاح وبہبود ، غربت کا خاتمہ ، تعلیم کا فروغ ، غریبوں کی مدد سہر فہرست ہوں ۔
(مضمون نگار معروف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )
قربانی دینے کا مزاج بنانا ہوگا- You have to create a sacrificial mood
Also read